اختصاریہ

نوید ناظم

محفلین
جب تک انسان اندر سے لطیف نہ ہو جائے اِس کے لئے کائنات میں کہیں بھی کسی بھی شئے میں کوئی لطف موجود نہیں ہے...وہ رنگ جو ہم باہر دیکھتے ہیں وہ سارے رنگ' ہمارے رنگ ہیں...منظر حسین ہوتا ہے' اپنی نظر کے حسن سے ...ایک انسان کہتا ہے میں نے باغ میں پھول دیکھے جس کے ساتھ کانٹے ہی کانٹے تھے...دوسرا کہتا ہے میں نے باغ میں کانٹے دیکھے جس کے ساتھ پھول ہی پھول تھے...اپنی لطافتوں اور کثافتوں کو ہم باہر مجسم دیکھتے ہیں. انسان کا باطن نکھر جائے تو ہر شئے نکھری نکھری نظر آتی ہے اور خدانخواستہ بگڑ جائے تو ہر شئے بکھری بکھری نظر آتی ہے...اگر اندر بیزاری ہو تو انسان دوسروں سے' اپنے آپ سے اور ہر شئے سے بیزار ہو جاتا ہے اور جب باطن آباد ہو جائے تو ظاہر بھی شاد ہو جاتا ہے...بہار اور خزائیں صرف باہر کے موسم نہیں ہیں بلکہ یہ ہمارے اندر کے موسم بھی ہیں اور انسان ان موسموں کے اندر سے گزرتا رہتا ہے...اگر یہ سننا چاہے تو اسے اپنے اندر گرتے ہوئے پتّوں کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دے سکتی ہے اور دیکھنا چاہے تو باطن میں کھِلتے ہوئے پھول بھی دکھائی دے سکتے ہیں...جب ادراک کی آنکھ کھل جائے تو یہ راز کھُلتا ہے کہ وہ انسان جو کائنات میں جلوے تلاش کر رہا ہے' اس کے اندر جلووں کی کائنات موجود ہے.....جو اپنے متلاشی کے انتظار میں ہے!
 
جب تک انسان اندر سے لطیف نہ ہو جائے اِس کے لئے کائنات میں کہیں بھی کسی بھی شئے میں کوئی لطف موجود نہیں ہے...وہ رنگ جو ہم باہر دیکھتے ہیں وہ سارے رنگ' ہمارے رنگ ہیں...منظر حسین ہوتا ہے' اپنی نظر کے حسن سے ...ایک انسان کہتا ہے میں نے باغ میں پھول دیکھے جس کے ساتھ کانٹے ہی کانٹے تھے...دوسرا کہتا ہے میں نے باغ میں کانٹے دیکھے جس کے ساتھ پھول ہی پھول تھے...اپنی لطافتوں اور کثافتوں کو ہم باہر مجسم دیکھتے ہیں. انسان کا باطن نکھر جائے تو ہر شئے نکھری نکھری نظر آتی ہے اور خدانخواستہ بگڑ جائے تو ہر شئے بکھری بکھری نظر آتی ہے...اگر اندر بیزاری ہو تو انسان دوسروں سے' اپنے آپ سے اور ہر شئے سے بیزار ہو جاتا ہے اور جب باطن آباد ہو جائے تو ظاہر بھی شاد ہو جاتا ہے...بہار اور خزائیں صرف باہر کے موسم نہیں ہیں بلکہ یہ ہمارے اندر کے موسم بھی ہیں اور انسان ان موسموں کے اندر سے گزرتا رہتا ہے...اگر یہ سننا چاہے تو اسے اپنے اندر گرتے ہوئے پتّوں کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دے سکتی ہے اور دیکھنا چاہے تو باطن میں کھِلتے ہوئے پھول بھی دکھائی دے سکتے ہیں...جب ادراک کی آنکھ کھل جائے تو یہ راز کھُلتا ہے کہ وہ انسان جو کائنات میں جلوے تلاش کر رہا ہے' اس کے اندر جلووں کی کائنات موجود ہے.....جو اپنے متلاشی کے انتظار میں ہے!
خوبصورت تحریر۔ نثر میں شاعری کرتے ہیں نوید ناظم
 
Top