راحیل فاروق
محفلین
یہ ایک اشتہار ہے۔ لیکن چونکہ عام اشتہاروں سے بہت زیادہ طویل ہے اس لیے شروع میں یہ بتا دینا مناسب معلوم ہوا ورنہ شاید آپ پہچاننے نہ پاتے۔
میں اشتہار دینے والا ایک روزنامہ اخبار کا ایڈیٹر ہوں۔ چند دن سے ہمارا ایک چھوٹا سا اشتہار اس مضمون کا اخباروں میں یہ نکل رہا ہے کہ ہمیں مترجم اور سب ایڈیٹر کی ضرورت ہے۔ یہ غالباً آپ کی نظر سے بھی گزرا ہوگا۔ اس کے جواب میں کئی ایک امیدوار ہمارے پاس پہنچے اور بعض کو تنخواہ وغیرہ چکانے کے بعد ملازم بھی رکھ لیا گیا لیکن ان میں سے کوئی بھی ہفتے دو ہفتے سے زیادہ ٹھہرنے نہ پایا۔ آتے کے ساتھ ہی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ اشتہار کا مطلب وہ کچھ اور سمجھے تھے، ہمارا مطلب کچھ اور تھا۔ مختصر سے اشتہار میں سب باتیں وضاحت کے ساتھ بیان کرنا مشکل تھا۔ جب رفتہ رفتہ ہمارا اصل مفہوم ان پر واضح ہوا یا ان کی غلط توقعات ہم پر روشن ہوئیں تو تعلقات کشیدہ ہوئے۔ تلخ کلامی اور بعض اوقات دست درازی تک نوبت پہنچی۔ اس کے بعد یا تو وہ خود ہی ناشائستہ باتیں ہمارے منہ پر کہہ کر چائے والے کا بل ادا کیے بغیر چل دیے یا ہم نے ان کو دھکے مار کر باہر نکال دیا اور وہ باہر کھڑے نعرے لگایا کیے۔ جس پر ہماری اہلیہ نے ہم کو احتیاطاً دوسرے دن دفتر جانے سے روک دیا اور اخبار بغیر لیڈر ہی کے شائع کرنا پڑا۔
چونکہ اس قسم کی غلط فہمیوں کا سلسلہ ابھی تک بند نہیں ہوا اس لئے ضروری معلوم ہوا کہ ہم اپنے مختصر اور مجمل اشتہار کے مفہوم کو وضاحت کے ساتھ بیان کریں کہ ہمیں کس قسم کے آدمی کی تلاش ہے۔ اس کے بعد جس کا دل چاہے ہماری طرف رجوع کرے جس کا دل نہ چاہے وہ بے شک کوئی پریس الاٹ کرا کے ہمارے مقابلے میں اپنا اخبار نکال لے۔
امیدوار کے لئے سب سے بڑھ کر ضروری یہ ہے کہ وہ کام چور نہ ہو۔ ایک نوجوان کو ہم نے شروع میں ترجمے کا کام دیا۔ چار دن کے بعد اس سے ایک نوٹ لکھنے کو کہا تو بپھر کر بولے کہ میں مترجم ہوں سب ایڈیٹر نہیں ہوں۔ ایک دوسرے صاحب کو ترجمے کے لئے کہا تو بولے میں سب ایڈیٹر ہوں، مترجم نہیں ہوں۔ ہم سمجھ گئے کہ یہ ناتجربے کار لوگ مترجم اور سب ایڈیٹر کو الگ الگ دو آدمی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے اخبار میں یہ قاعدہ نہیں۔ ہم سے بحثنے لگے کہ آپ نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔ دوسرے صاحب کہنے لگے کہ آپ کے اشتہار میں عطف کا استعمال غلط ہے۔ ایک تیسرے صاحب نے ہمارے ایمان اور ہمارے صرف ونحو دونوں کی آڑ لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو ملازم ہوں گے انہیں تو وقتاً فوقتاً ساتھ کی دکان سے پان بھی لانے پڑیں گے اور اگر انہیں بحث ہی کرنے کی عادت ہے تو ہم ابھی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک سب ایڈیٹر کے معنے یہ ہیں: ایڈیٹر کا اسم مخفف۔ اخبار میں ایک عہدہ دار کا نام جو ایڈیٹر کو پان وغیرہ لا کر دیتا ہے۔
یہ بھی واضح ہے کہ ہمارا اخبار زنانہ اخبار نہیں لہٰذا کوئی خاتون ملازمت کی کوشش نہ فرمائیں۔ پہلے خیال تھا کہ اشتہار میں اس بات کو صاف کر دیا جائے اور لکھ دیا جائے کہ مترجم اور سب ایڈیٹر کی ضرورت ہے جو مرد ہو۔ لیکن پھر خیال آیا کہ لوگ مرد کے معنے شاید جوانمرد سمجھیں اور اہل قلم کی بجائے طرح طرح کے پہلوان، نیشنل گارڈ والے اور مجاہد پٹھان ہمارے دفتر کا رخ کریں۔ پھر یہ بھی خیال آیا کہ آخر عورتیں کیوں آئیں گی؟ مردوں کی ایسی بھی کیا قلت ہے۔ لیکن ایک دن ایک خاتون آہی گئیں۔ پرزے پر نام لکھ کر بھیجا۔
ہمیں معلوم ہوتا کہ عورت ہے تو بلاتے ہی کیوں؟ لیکن آج کل کم بخت نام سے تو پتہ ہی نہیں چلتا۔ فاطمہ زبیدہ، عائشہ کچھ ایسا نام ہوتا تو میں غسل خانے کے راستے باہر نکل جاتا لیکن وہاں تو نازجھانجھردی یا عندلیب گلستانی یا کچھ ایسا فینسی نام تھا۔ آج کل لوگ نام بھی تو عجیب عجیب رکھ لیتے ہیں۔ غلام رسول، احمد دین، مولا داد ایسے لوگ تو ناپید ہی ہوگئے ہیں۔ جسے دیکھئے نظامی گنجوی اور سعدی شیرازی بنا پھرتا ہے۔ اب تو اس پر بھی شبہ ہونے لگا کہ حرارت غریزی،نزلہ کھانسی، ثعلب مصری ادیبوں ہی کے نام نہ ہوں، عورت مرد کی تمیز تو کوئی کیا کرے گا۔
بہرحال ہم نے اندر بلایا تو دیکھا کہ عورت ہے۔ دیکھا کے یہ معنی ہیں کہ ان کا برقعہ دیکھا اور حسنِ ظن سے کام لے کر اندازہ لگایا کہ اس کے اندر عورت ہے۔ ہم نے بصد ادب واحترام کہا کہ ہم خواتین کو ملازم نہیں رکھتے۔ انہوں نے وجہ پوچھی۔ ہم نے کہا، "پیچیدگیاں!" کہنے لگیں، "آگے بولیے۔" ہم نے کہا، "پید اہوتی ہیں۔" بھڑک کر بولیں کہ آپ بھی تو عورت کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے۔ کیونکہ اس امر کا ہماری سوانح عمری میں کہیں ذکر نہیں اس لیے ہم تائید تردید کچھ نہ کر سکے۔ میری ولادت کو انہوں نے اپنا تکیہ کلام بنا لیا۔ بہتیرا سمجھایا کہ جو ہونا تھا وہ ہوگیا اور بہرحال میری ولادت کو آپ کی ملازمت سے کیا تعلق؟ اور یہ تو آپ مجھ سے کہہ رہی ہیں اگر ہمارے پروپرائٹر سے کہیں تو وہ آپ کی اور میری ہم دونوں کی ولادت کے متعلق وہ وہ نظریے بیان کریں گے کہ آپ ہکا بکا رہ جائیں گی۔ خدا خدا کرکے پیچھا چھوٹا۔
ہمارے اخبار میں پروپرائٹر کا احترام سب سے مقدم ہے۔ وہ شہر کے ایک معزز ڈپو ہولڈر ہیں۔ اخبار انہوں نے محض خدمتِ خلق اور رفاہ عام کے لئے جاری کیا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ پبلک ان کی شخصیت اور مشاغل سے ہر وقت باخبر رہے۔ چنانچہ ان کے پوتے کا ختنہ، ان کے ماموں کا انتقال، ان کے صاحبزادے کی میٹریکولیشن میں حیرت انگیز کامیابی (حیرت انگیز اس معنوں میں کہ پہلے ہی ریلے میں پاس ہوگئے)،ایسے واقعات سے پبلک کو مطلع کرنا ہر سب ایڈیٹر کا فرض ہوگا۔ نیز ہر اس پریس کانفرنس میں جہاں خوردونوش کا انتظام بھی ہو ہمارے پروپرائٹر مع اپنے دو چھوٹے بچوں کے جن میں سے لڑکے کی عمر سال اور لڑکی کی پانچ سال ہے شریک ہوں گے اور بچے فوٹو میں بھی شامل ہوں گے اور اس پر کسی سب ایڈیٹر کو زیر لب فقرے کسنے کی اجازت نہ ہوگی۔ بچے بہت ہی ہونہار ہیں اور حالات میں غیر معمولی دلچسپی لیتے ہیں۔ کشمیر کے متعلق پریس کانفرنس ہوئی تو چھوٹی بچی ہندوستانیوں کی ریشہ دوانیوں کا حال سن کر اتنے زور سے روئی کہ خود سردار ابراہیم اسے گود میں لیے لیے پھرے تو کہیں اس کی طبیعت سنبھلی۔
ہمارے اخبار کا نام ”آسمان“ ہے۔ پیشانی پر یہ مصرعہ مندرج ہے کہ آسماں بادل کا پہلے خرقہ دیرینہ ہے۔ اس فقرے کو ہٹا کر کوئی سب ایڈیٹر کوشش نہ فرمائیں کیونکہ یہ خود ہمارے پروپرائٹر صاحب کا انتخاب ہے۔ ہم نے شروع شروع میں ان سے پوچھا بھی تھا کہ صاحب اس مصرعے کا اخبار سے کیا تعلق ہے۔ کہنے لگے اخبار کا نام آسمان ہے اور اس مصرع میں بھی آسمان آتا ہے۔ ہم نے کہا بجا لیکن خاص اس مصرعے میں کیا خوبی ہے؟ کہنے لگے علامہ اقبال کا مصرعہ ہے۔ اور علامہ اقبال سے بڑھ کر شاعر اور کون ہے؟ اس پر ہم چپ ہوگئے۔ پیشانی پر اردو کا سب سے کثیر الاشاعت اخبار لکھا ہے جو میرا تجویز کیا ہوا ہے۔ اسے بھی بدلنے کی کوشش نہ کی جائے۔ کیونکہ عمر بھر کی عادت ہے ہم نے جہاں جہاں ایڈیٹری کی اپنے اخبار کی پیشانی پر یہ ضرور لکھا۔
بعض امیدوار ایسے بھی آتے ہیں کہ ساتھ ہی ہمیں سے سوالات پوچھنے لگتے ہیں۔ ایک سوال بار بار دہراتے ہیں کہ آپ کے اخبار کی پالیسی کیا ہے؟ کوئی پوچھے کہ آپ کی ذات کیا ہے؟ ہماری پالیسی میں چند باتیں تو مستقل طور پر شامل ہیں۔ مثلاً ہم عربوں کے حامی ہیں اور امریکہ سے ہرگز نہیں ڈرتے۔ چنانچہ ایک دن تو ہم نے پریزیڈنٹ ٹرومین کے نام اپنے اخبار میں ایک کھلی چٹھی بھی شائع کر دی۔ لیکن عام طور پر ہم پالیسی میں جمود کے قائل نہیں۔ اسی لیے سب ایڈیٹر کو مسلسل ہم سے ہدایات لینی پڑیں گی۔ ہفتہ رواں میں ہماری پالیسی یہ ہے کہ پنڈی گھیب کے ہیڈ ماسٹرکو موسم سرما سے پہلے پہل یا ترقی دلوائی جائے یا ان کا تبادلہ لاہور کرایا جائے (ان کے لڑکے کی شادی ہمارے پروپرائٹر کی لڑکی سے طے پا چکی ہے اور خیال ہے کہ موسم سرما میں شادی کر دی جائے)۔
انشا کے متعلق ہمارا خاص طرز عمل ہے اور ہر سب ایڈیٹر اور مترجم کو اس کی مشق بہم پہنچانی پڑے گی۔ مثلاً پاکستان بنا نہیں، معرض وجود میں آیا ہے، ہوائی جہاز اڑتا نہیں، محو پرواز ہوتا ہے۔ مترجموں کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا پڑے گا۔ ایک مترجم نے لکھا کہ کل مال روڈ پر دو موٹروں کی ٹکر ہوئی اور تین آدمی مر گئے۔ حالانکہ انہیں کہنا چاہیے تھا کہ دو موٹروں کے تصادم کا حادثہ رونما ہوا جس کے نتیجے کے طور پر چند اشخاص جن کی تعداد تین بتائی جاتی ہے، مہلک طور پر مجروح ہوئے۔
لاہور کارپوریشن نے اعلان کیا کہ فلاں تاریخ سے ہر پالتو کتے کے گلے میں پیتل کی ایک ٹکیہ لٹکانی ضروری ہے جس پر کمیٹی کا نمبر لکھا ہوگا۔ ایک مترجم نے یہ ترجمہ یوں کیا کہ ہر کتے کے گلے میں بلّا ہونا چاہیے۔ حالانکہ کارپوریشن کا مطلب ہر گز یہ نہ تھا کہ ایک جانور کے گلے میں ایک دوسرا جانور لٹکا دیا جائے۔
سینما کے فری پاس سب ایڈیٹر کے مشاہرے میں شامل نہیں۔ یہ پاس ایڈیٹر کے نام آتے ہیں اور وہی ان کو استعمال کرنے کا مجاز ہے۔ فی الحال یہ پروپرائٹر اور ان کے اہل خانہ کے کام آتے ہیں لیکن عنقریب اس بارے میں سینما والوں سے ایک نیا سمجھوتہ ہونے والا ہے۔ اگر کوئی سب ایڈیٹر اپنی تحریر کے زور سے کسی سینما والے سے پاس حاصل کرے تو وہ اس کا اپنا حق ہے لیکن اس بارے میں ایڈیٹر کے ساتھ کوئی مفاہمت کر لی جائے تو بہتر ہوگا۔ علی ہذا جو اشیا ریویو کے لئے آتی ہیں، مثلاً بالوں کا تیل، عطریات، صابن، ہاضم دوائیاں وغیرہ وغیرہ ان کے بارے میں ایڈیٹر سے تصفیہ کر لینا ہر سب ایڈیٹر کا اخلاقی فرض ہوگا۔
ممکن ہے ان شرائط کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد کوئی شحض بھی ہمارے ہاں ملازمت کرنے کو تیار نہ ہو۔ اس کا امکان ضرور موجود ہے لیکن ہمارے لئے یہ چنداں پریشانی کا باعث نہ ہوگا۔ ہمارے پروپرائٹر آگے ہی دو تین مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اسٹاف بہت بڑھ رہا ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے ہماری ترقی بھی روک دی ہے۔ عجب نہیں کہ جب ہم دفتر میں اکیلے رہ جائیں تو وہ ہمیں ترقی دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ وہ اصولاً سٹاف بڑھانے کے خلاف ہیں۔ دانشمندانہ انداز میں کہتے ہیں کہ سٹاف زیادہ ہو تو بات باہر نکل جاتی ہے۔ یہ معلوم کبھی نہیں ہوا کہ کیا بات؟ کون سی بات؟ اپنے ڈپو پر بھی وہ اکیلے ہی کام کرتے ہیں اور اس کی وجہ بھی یہی بتاتے ہیں کہ ورنہ بات باہر نکل جاتی ہے۔
میں اشتہار دینے والا ایک روزنامہ اخبار کا ایڈیٹر ہوں۔ چند دن سے ہمارا ایک چھوٹا سا اشتہار اس مضمون کا اخباروں میں یہ نکل رہا ہے کہ ہمیں مترجم اور سب ایڈیٹر کی ضرورت ہے۔ یہ غالباً آپ کی نظر سے بھی گزرا ہوگا۔ اس کے جواب میں کئی ایک امیدوار ہمارے پاس پہنچے اور بعض کو تنخواہ وغیرہ چکانے کے بعد ملازم بھی رکھ لیا گیا لیکن ان میں سے کوئی بھی ہفتے دو ہفتے سے زیادہ ٹھہرنے نہ پایا۔ آتے کے ساتھ ہی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ اشتہار کا مطلب وہ کچھ اور سمجھے تھے، ہمارا مطلب کچھ اور تھا۔ مختصر سے اشتہار میں سب باتیں وضاحت کے ساتھ بیان کرنا مشکل تھا۔ جب رفتہ رفتہ ہمارا اصل مفہوم ان پر واضح ہوا یا ان کی غلط توقعات ہم پر روشن ہوئیں تو تعلقات کشیدہ ہوئے۔ تلخ کلامی اور بعض اوقات دست درازی تک نوبت پہنچی۔ اس کے بعد یا تو وہ خود ہی ناشائستہ باتیں ہمارے منہ پر کہہ کر چائے والے کا بل ادا کیے بغیر چل دیے یا ہم نے ان کو دھکے مار کر باہر نکال دیا اور وہ باہر کھڑے نعرے لگایا کیے۔ جس پر ہماری اہلیہ نے ہم کو احتیاطاً دوسرے دن دفتر جانے سے روک دیا اور اخبار بغیر لیڈر ہی کے شائع کرنا پڑا۔
چونکہ اس قسم کی غلط فہمیوں کا سلسلہ ابھی تک بند نہیں ہوا اس لئے ضروری معلوم ہوا کہ ہم اپنے مختصر اور مجمل اشتہار کے مفہوم کو وضاحت کے ساتھ بیان کریں کہ ہمیں کس قسم کے آدمی کی تلاش ہے۔ اس کے بعد جس کا دل چاہے ہماری طرف رجوع کرے جس کا دل نہ چاہے وہ بے شک کوئی پریس الاٹ کرا کے ہمارے مقابلے میں اپنا اخبار نکال لے۔
امیدوار کے لئے سب سے بڑھ کر ضروری یہ ہے کہ وہ کام چور نہ ہو۔ ایک نوجوان کو ہم نے شروع میں ترجمے کا کام دیا۔ چار دن کے بعد اس سے ایک نوٹ لکھنے کو کہا تو بپھر کر بولے کہ میں مترجم ہوں سب ایڈیٹر نہیں ہوں۔ ایک دوسرے صاحب کو ترجمے کے لئے کہا تو بولے میں سب ایڈیٹر ہوں، مترجم نہیں ہوں۔ ہم سمجھ گئے کہ یہ ناتجربے کار لوگ مترجم اور سب ایڈیٹر کو الگ الگ دو آدمی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے اخبار میں یہ قاعدہ نہیں۔ ہم سے بحثنے لگے کہ آپ نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔ دوسرے صاحب کہنے لگے کہ آپ کے اشتہار میں عطف کا استعمال غلط ہے۔ ایک تیسرے صاحب نے ہمارے ایمان اور ہمارے صرف ونحو دونوں کی آڑ لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو ملازم ہوں گے انہیں تو وقتاً فوقتاً ساتھ کی دکان سے پان بھی لانے پڑیں گے اور اگر انہیں بحث ہی کرنے کی عادت ہے تو ہم ابھی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک سب ایڈیٹر کے معنے یہ ہیں: ایڈیٹر کا اسم مخفف۔ اخبار میں ایک عہدہ دار کا نام جو ایڈیٹر کو پان وغیرہ لا کر دیتا ہے۔
یہ بھی واضح ہے کہ ہمارا اخبار زنانہ اخبار نہیں لہٰذا کوئی خاتون ملازمت کی کوشش نہ فرمائیں۔ پہلے خیال تھا کہ اشتہار میں اس بات کو صاف کر دیا جائے اور لکھ دیا جائے کہ مترجم اور سب ایڈیٹر کی ضرورت ہے جو مرد ہو۔ لیکن پھر خیال آیا کہ لوگ مرد کے معنے شاید جوانمرد سمجھیں اور اہل قلم کی بجائے طرح طرح کے پہلوان، نیشنل گارڈ والے اور مجاہد پٹھان ہمارے دفتر کا رخ کریں۔ پھر یہ بھی خیال آیا کہ آخر عورتیں کیوں آئیں گی؟ مردوں کی ایسی بھی کیا قلت ہے۔ لیکن ایک دن ایک خاتون آہی گئیں۔ پرزے پر نام لکھ کر بھیجا۔
ہمیں معلوم ہوتا کہ عورت ہے تو بلاتے ہی کیوں؟ لیکن آج کل کم بخت نام سے تو پتہ ہی نہیں چلتا۔ فاطمہ زبیدہ، عائشہ کچھ ایسا نام ہوتا تو میں غسل خانے کے راستے باہر نکل جاتا لیکن وہاں تو نازجھانجھردی یا عندلیب گلستانی یا کچھ ایسا فینسی نام تھا۔ آج کل لوگ نام بھی تو عجیب عجیب رکھ لیتے ہیں۔ غلام رسول، احمد دین، مولا داد ایسے لوگ تو ناپید ہی ہوگئے ہیں۔ جسے دیکھئے نظامی گنجوی اور سعدی شیرازی بنا پھرتا ہے۔ اب تو اس پر بھی شبہ ہونے لگا کہ حرارت غریزی،نزلہ کھانسی، ثعلب مصری ادیبوں ہی کے نام نہ ہوں، عورت مرد کی تمیز تو کوئی کیا کرے گا۔
بہرحال ہم نے اندر بلایا تو دیکھا کہ عورت ہے۔ دیکھا کے یہ معنی ہیں کہ ان کا برقعہ دیکھا اور حسنِ ظن سے کام لے کر اندازہ لگایا کہ اس کے اندر عورت ہے۔ ہم نے بصد ادب واحترام کہا کہ ہم خواتین کو ملازم نہیں رکھتے۔ انہوں نے وجہ پوچھی۔ ہم نے کہا، "پیچیدگیاں!" کہنے لگیں، "آگے بولیے۔" ہم نے کہا، "پید اہوتی ہیں۔" بھڑک کر بولیں کہ آپ بھی تو عورت کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے۔ کیونکہ اس امر کا ہماری سوانح عمری میں کہیں ذکر نہیں اس لیے ہم تائید تردید کچھ نہ کر سکے۔ میری ولادت کو انہوں نے اپنا تکیہ کلام بنا لیا۔ بہتیرا سمجھایا کہ جو ہونا تھا وہ ہوگیا اور بہرحال میری ولادت کو آپ کی ملازمت سے کیا تعلق؟ اور یہ تو آپ مجھ سے کہہ رہی ہیں اگر ہمارے پروپرائٹر سے کہیں تو وہ آپ کی اور میری ہم دونوں کی ولادت کے متعلق وہ وہ نظریے بیان کریں گے کہ آپ ہکا بکا رہ جائیں گی۔ خدا خدا کرکے پیچھا چھوٹا۔
ہمارے اخبار میں پروپرائٹر کا احترام سب سے مقدم ہے۔ وہ شہر کے ایک معزز ڈپو ہولڈر ہیں۔ اخبار انہوں نے محض خدمتِ خلق اور رفاہ عام کے لئے جاری کیا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ پبلک ان کی شخصیت اور مشاغل سے ہر وقت باخبر رہے۔ چنانچہ ان کے پوتے کا ختنہ، ان کے ماموں کا انتقال، ان کے صاحبزادے کی میٹریکولیشن میں حیرت انگیز کامیابی (حیرت انگیز اس معنوں میں کہ پہلے ہی ریلے میں پاس ہوگئے)،ایسے واقعات سے پبلک کو مطلع کرنا ہر سب ایڈیٹر کا فرض ہوگا۔ نیز ہر اس پریس کانفرنس میں جہاں خوردونوش کا انتظام بھی ہو ہمارے پروپرائٹر مع اپنے دو چھوٹے بچوں کے جن میں سے لڑکے کی عمر سال اور لڑکی کی پانچ سال ہے شریک ہوں گے اور بچے فوٹو میں بھی شامل ہوں گے اور اس پر کسی سب ایڈیٹر کو زیر لب فقرے کسنے کی اجازت نہ ہوگی۔ بچے بہت ہی ہونہار ہیں اور حالات میں غیر معمولی دلچسپی لیتے ہیں۔ کشمیر کے متعلق پریس کانفرنس ہوئی تو چھوٹی بچی ہندوستانیوں کی ریشہ دوانیوں کا حال سن کر اتنے زور سے روئی کہ خود سردار ابراہیم اسے گود میں لیے لیے پھرے تو کہیں اس کی طبیعت سنبھلی۔
ہمارے اخبار کا نام ”آسمان“ ہے۔ پیشانی پر یہ مصرعہ مندرج ہے کہ آسماں بادل کا پہلے خرقہ دیرینہ ہے۔ اس فقرے کو ہٹا کر کوئی سب ایڈیٹر کوشش نہ فرمائیں کیونکہ یہ خود ہمارے پروپرائٹر صاحب کا انتخاب ہے۔ ہم نے شروع شروع میں ان سے پوچھا بھی تھا کہ صاحب اس مصرعے کا اخبار سے کیا تعلق ہے۔ کہنے لگے اخبار کا نام آسمان ہے اور اس مصرع میں بھی آسمان آتا ہے۔ ہم نے کہا بجا لیکن خاص اس مصرعے میں کیا خوبی ہے؟ کہنے لگے علامہ اقبال کا مصرعہ ہے۔ اور علامہ اقبال سے بڑھ کر شاعر اور کون ہے؟ اس پر ہم چپ ہوگئے۔ پیشانی پر اردو کا سب سے کثیر الاشاعت اخبار لکھا ہے جو میرا تجویز کیا ہوا ہے۔ اسے بھی بدلنے کی کوشش نہ کی جائے۔ کیونکہ عمر بھر کی عادت ہے ہم نے جہاں جہاں ایڈیٹری کی اپنے اخبار کی پیشانی پر یہ ضرور لکھا۔
بعض امیدوار ایسے بھی آتے ہیں کہ ساتھ ہی ہمیں سے سوالات پوچھنے لگتے ہیں۔ ایک سوال بار بار دہراتے ہیں کہ آپ کے اخبار کی پالیسی کیا ہے؟ کوئی پوچھے کہ آپ کی ذات کیا ہے؟ ہماری پالیسی میں چند باتیں تو مستقل طور پر شامل ہیں۔ مثلاً ہم عربوں کے حامی ہیں اور امریکہ سے ہرگز نہیں ڈرتے۔ چنانچہ ایک دن تو ہم نے پریزیڈنٹ ٹرومین کے نام اپنے اخبار میں ایک کھلی چٹھی بھی شائع کر دی۔ لیکن عام طور پر ہم پالیسی میں جمود کے قائل نہیں۔ اسی لیے سب ایڈیٹر کو مسلسل ہم سے ہدایات لینی پڑیں گی۔ ہفتہ رواں میں ہماری پالیسی یہ ہے کہ پنڈی گھیب کے ہیڈ ماسٹرکو موسم سرما سے پہلے پہل یا ترقی دلوائی جائے یا ان کا تبادلہ لاہور کرایا جائے (ان کے لڑکے کی شادی ہمارے پروپرائٹر کی لڑکی سے طے پا چکی ہے اور خیال ہے کہ موسم سرما میں شادی کر دی جائے)۔
انشا کے متعلق ہمارا خاص طرز عمل ہے اور ہر سب ایڈیٹر اور مترجم کو اس کی مشق بہم پہنچانی پڑے گی۔ مثلاً پاکستان بنا نہیں، معرض وجود میں آیا ہے، ہوائی جہاز اڑتا نہیں، محو پرواز ہوتا ہے۔ مترجموں کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا پڑے گا۔ ایک مترجم نے لکھا کہ کل مال روڈ پر دو موٹروں کی ٹکر ہوئی اور تین آدمی مر گئے۔ حالانکہ انہیں کہنا چاہیے تھا کہ دو موٹروں کے تصادم کا حادثہ رونما ہوا جس کے نتیجے کے طور پر چند اشخاص جن کی تعداد تین بتائی جاتی ہے، مہلک طور پر مجروح ہوئے۔
لاہور کارپوریشن نے اعلان کیا کہ فلاں تاریخ سے ہر پالتو کتے کے گلے میں پیتل کی ایک ٹکیہ لٹکانی ضروری ہے جس پر کمیٹی کا نمبر لکھا ہوگا۔ ایک مترجم نے یہ ترجمہ یوں کیا کہ ہر کتے کے گلے میں بلّا ہونا چاہیے۔ حالانکہ کارپوریشن کا مطلب ہر گز یہ نہ تھا کہ ایک جانور کے گلے میں ایک دوسرا جانور لٹکا دیا جائے۔
سینما کے فری پاس سب ایڈیٹر کے مشاہرے میں شامل نہیں۔ یہ پاس ایڈیٹر کے نام آتے ہیں اور وہی ان کو استعمال کرنے کا مجاز ہے۔ فی الحال یہ پروپرائٹر اور ان کے اہل خانہ کے کام آتے ہیں لیکن عنقریب اس بارے میں سینما والوں سے ایک نیا سمجھوتہ ہونے والا ہے۔ اگر کوئی سب ایڈیٹر اپنی تحریر کے زور سے کسی سینما والے سے پاس حاصل کرے تو وہ اس کا اپنا حق ہے لیکن اس بارے میں ایڈیٹر کے ساتھ کوئی مفاہمت کر لی جائے تو بہتر ہوگا۔ علی ہذا جو اشیا ریویو کے لئے آتی ہیں، مثلاً بالوں کا تیل، عطریات، صابن، ہاضم دوائیاں وغیرہ وغیرہ ان کے بارے میں ایڈیٹر سے تصفیہ کر لینا ہر سب ایڈیٹر کا اخلاقی فرض ہوگا۔
ممکن ہے ان شرائط کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد کوئی شحض بھی ہمارے ہاں ملازمت کرنے کو تیار نہ ہو۔ اس کا امکان ضرور موجود ہے لیکن ہمارے لئے یہ چنداں پریشانی کا باعث نہ ہوگا۔ ہمارے پروپرائٹر آگے ہی دو تین مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اسٹاف بہت بڑھ رہا ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے ہماری ترقی بھی روک دی ہے۔ عجب نہیں کہ جب ہم دفتر میں اکیلے رہ جائیں تو وہ ہمیں ترقی دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ وہ اصولاً سٹاف بڑھانے کے خلاف ہیں۔ دانشمندانہ انداز میں کہتے ہیں کہ سٹاف زیادہ ہو تو بات باہر نکل جاتی ہے۔ یہ معلوم کبھی نہیں ہوا کہ کیا بات؟ کون سی بات؟ اپنے ڈپو پر بھی وہ اکیلے ہی کام کرتے ہیں اور اس کی وجہ بھی یہی بتاتے ہیں کہ ورنہ بات باہر نکل جاتی ہے۔
آخری تدوین: