عدم احوال زندگی کو لباس بہار دے

احوالِ زندگی کو لباسِ بہار دے
ساقی مُعاملات کا چہرہ نِکھار دے

توہینِ زندگی ہے کِنارے کی جستجو
منجھدھار میں سفینۂ ہستی اُتار دے

پھر دیکھ اُس کا رنگ نِکھرتا ہے کِس طرح
دوشیزۂ خِزاں کو خطابِ بہار دے

عمرِ طوِیل دے کے نہ مُجھ کو خراب کر
دو چار جُھومتے ہُوئے لیل و نہار دے

اِک وعدہ اور کر، کہ طبِیعت پھڑک اُٹھے
اِک تیر اور میرے کلیجے میں مار دے

دُنیا نے بے شُمار عَدَم کو دئے ہیں رنج
اے دوست! چیز تو بھی، کوئی یادگار دے.

عبدالحمید عدم
 
Top