قدرت اللہ شہاب احسانِ عظیم۔۔۔۔۔۔شہاب نامہ سے ایک اقتباس

سیفی

محفلین
روزنامہ جنگ
3/27/2007


احسان عظیم

سنگلاخ پہاڑیوں اور خاردار جنگل میں گھرا ہوا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جس میں مسلمانوں کے بیس پچیس گھر آباد تھے۔ ان کی معاشرت، ہندوانہ اثرات میں اس درجہ ڈوبی ہوئی تھی کہ رومیش علی، صدفر پانڈے، محمود مہنتی، کلثوم دیوی اور پر بھادئی جیسے نام رکھنے کا رواج عام تھا۔ گاؤں میں ایک نہایت مختصر کچی مسجد تھی جس کے دروازے پر اکثر تالا پڑا رہتا تھا جمعرات کی شام کو دروازے کے باہر ایک مٹی کا دیا جلایا جاتا تھا۔ کچھ لوگ نہا دھوکر آتے تھے اور مسجد کے تالے کو عقیدت سے چوم کر ہفتہ بھر کیلئے اپنے دینی فرائض سے سبکدوش ہوجاتے تھے۔
ہر دوسرے تیسرے مہینے ایک مولوی صاحب اس گاؤں میں آکر ایک دو روز کے لئے مسجد کو آباد کر جاتے تھے۔ اس دوران میں اگر کوئی شخص وفات پا گیا ہوتا، تو مولوی صاحب اس کی قبر پر جاکر فاتحہ پڑھتے تھے۔ نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دیتے تھے۔ کوئی شادی طے ہوگئی ہوتی تو نکاح پڑھوا دیتے تھے۔ بیماروں کو تعویذ لکھ دیتے تھے اور اپنے اگلے دورے تک جانور ذبح کرنے کے لئے چند چھریوں پر تکبیر پڑھ جاتے تھے۔ اس طرح مولوی صاحب کی برکت سے گاؤں والوں کا دین اسلام کے ساتھ ایک کچا سا رشتہ بڑے مضبوط دھاگے کے ساتھ بندھا رہتا تھا۔
برہام پور گنجم کے اس گاؤں کو دیکھ کر زندگی میں پہلی بار میرے دل میں مسجد کے ملّا کی عظمت کا کچھ احساس پیدا ہوا۔ ایک زمانے میں ملّاا اور مولوی کے القاب علم و فضل کی علامت ہوا کرتے تھے لیکن سرکار انگلشیہ کی عملداری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا، اسی رفتار سے ملّا اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا۔ رفتہ رفتہ نوبت بایں جارسید کہ یہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کی ترکش کے تیر بن گئے۔ داڑھیوں والے ٹھوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملّا کا لقب ملنے لگا۔ کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنز و تشنیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا۔ مسجدوں کے پیش اماموں پر جمعراتی ، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے قل اعوذئے ملّاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں۔ لُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں خس کی ٹٹیاں لگاکر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، دور ہو یا نزدیک، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا تھا اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سرچھپا کر بیٹھ رہا تھا۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی، نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ برہام پور گنجم کے گاؤں کی طرح جہاں دین کی چنگاری بھی گل ہوچکی تھی، ملّا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔ یہ ملّا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار رہے اور جب سیاسی میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آبادی کے اعداد و شمار کی جنگ ہوئی تو ان سب کا اندارج مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا۔ برصغیرکے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔
کتاب: …شہاب نامہ
تحریر: …قدرت اللہ شہاب

ماخذ
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک تو وہ ملاء ہیں جو کہ حقیقتاً علماء تھے۔ دوسرے وہ جو حقیقتاً علماء تو نہیں تھے، لیکن ان کی ذات سے یا ان کے افعال سے امت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تھا۔ وہ بھی فائدہ مند تھے۔ تیسرے درجے کے وہ لوگ جو امت کے لئے فتنہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ میں ملاء کو بہت عزت کا لفظ سمجھتا ہوں۔ تیسری قسم کے لوگوں کو میں نے ملاء اس ضمن میں‌کہا ہے کہ ملاء برے نہیں‌ ہوئے، برے لوگ ملاء بن بیٹھے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
وہ بے لوث لوگ تھے۔

ان لوگوں کو آپ کس کھاتے میں ڈالیں گے جو نوجوانوں کی برین واشنگ کر کے انہیں خودکش حملوں پر معمور کر رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم بڑا ثواب کما رہے ہیں اور اسلام کی بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ اور مارے کون جا رہے ہیں؟ بے گناہ مسلمان، بے گناہ لوگ۔

اسلام تو بڑا نرم بڑا پیارا بڑا ہی سیدھا سادہ مذہب ہے۔ آج کے ملاؤں نے اپنی اپنی دکان چمکانے کے لے اس کو فرقوں میں بانٹ دیا ہے۔ ایک فرقہ دوسرے فرقے کو اتنا ڈراؤنا ثابت کر دیتا ہے کہ یہ خود ڈر کی صورت بن گئے ہیں۔ یہ اکثر عذاب کی ہی باتیں کر کر کے ڈراتے رہتے ہیں۔ انہوں نے انعامات کی بات کم ہی کی ہے۔ جھٹ سے دوسرے فرقے والے پر کفر کا فتوٰی صادر کر دیتے ہیں۔ میرے خیال میں اسلام کو جتنا نقصان ان خود ساختہ ملاؤں نے پہنچایا ہے وہ ایک ان پڑھ عام مسلمان نے بھی نہیں پہنچایا ہو گا۔

ایک ملا کہتا ہے یہ کرو، دوسرا کہتا ہے ایسے نہیں ایسا کرو، پہلے والا اپنی بات کے حق میں دلائل دیتا ہے دوسرے والا اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے کتابوں کے ڈھیر لگا دیتا ہے۔ سادہ لوح انسان جائے تو کہاں جائے؟

اللہ ایک، قرآن ایک اللہ کا آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک لیکن ان ملاؤں نے سنی، وہابی، دیو بندی، بریلوی، حنبلی، حنفی اور نجانے کتنے فرقوں میں اسلام کو بانٹ دیا ہے۔ اب جو جس کے پیچھے وہ صرف اسی کو صحیح سمجھے گا۔ اس کو اتنی فرصت ہی نہیں کہ وہ صحیح اور غلط ڈھونڈے کہ خود تو یہ چندے کی روٹیاں کھا لیتے ہیں، ان کو روزی روٹی کی فکر نہیں، عام آدمی تو پہلے اپنے بال بچوں کی روزی کی فکر کرئے گا پھر ہی صحیح اور غلط کی تلاش میں نکلے گا۔

بھائی جی اللہ تو جان بوجھ کر ایک چیونٹی کو بھی مارنے کا حساب لے لے گا، انسان کو تو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے۔ خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ یہ کس قانون و اصول کے تحت انسانوں کو مارنے کی تعلیم دے رہے ہیں۔

پاکستان کی زیادہ آبادی دیہاتوں میں آباد ہے، زیادہ آبادی ناخواندہ ہے۔ دیہاتوں میں لوگ اللہ رسول کو اتنا نہیں مانتے جتنا گاؤں کے مولوی کو مانتے ہیں۔ اس نے جو کہہ دیا وہی حرفِ آخر ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی کے لیے اتنا ہی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ویسے عجیب بات یہ ہے کہ کچھ لوگ علما کی تحقیر کرتے ہیں اور خود اسلام سے بے بہرہ ہوتے ہیں ، کیا یہ طرزِ عمل انہیں زیب دیتا ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
وہ علماء جو صحیح معنوں میں عالم ہیں اور جنہوں نے اسلام کی بے لوث خدمت کی ہے اور کر رہے ہیں ان کو انسان کیا دے سکتا ہے۔ ان کا بہترین بدلہ تو اللہ کے ہاں ہی ہے۔ ہم تو ان کے حق میں دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ ان کو مزید ہمت عطا فرمائے۔
 
Top