احساسِ کمتری۔۔۔ از۔۔ عبدالرؤوف

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
گرمیوں کا ایک دن تھا، سورج سر سے ڈھل چکا تھا۔ اور وہ گلی کے نکڑ پر ایک بجلی کے کھمبے سے اپنی سائیکل ٹیک لگائے پچھلے دو گھنٹے سے کھڑا تھا۔ گلی میں واقع ایک دفتر پر مسلسل آنکھیں ٹکائی ہوئیں تھیں۔ سڑک پر گاڑیاں رکشے رواں دواں تھے جس گلی کی نکڑ پر وہ موجود تھا اس گلی میں بھی لوگ آ جا رہے تھے۔ لوگ آتے اور اس کے پاس سے گزر جاتے مگر وہ تھا کہ ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، جیسے اس کی روح کو وہیں قید کر لیا گیا ہو۔ پسینہ بہہ بہہ کر اس کے کپڑوں میں جذب ہوتا جا رہا تھا۔ اس میں ہمت ہی نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ اس دفتر میں جا کر اپنا تعارف پیش کرے اور بتائے کہ مجھے چاچا چراغ دین نے بھیجا ہے۔ کل رات ہی چاچا ان کے گھر آیا تو اس کی اماں نے منتیں کرتے ہوئے کہا کہ بھیا میرے بیٹے کو کسی کام پر لگا دو، سارا سارا دن آوارہ پھرتا رہتا ہے اور ہر ایک سے اکھڑا اکھڑا رہتا ہے، اگر یہ کام کرے گا تو چار پیسے بھی گھر آتے رہیں گے اور شاید اس کا مزاج بھی کچھ بدل جائے۔ وہ احساسِ کمتری کا شکار ایک سترہ اٹھارہ سال کا نوجوان تھا، جسے تعلیم کے مواقع میسر نہ ہوئے، اس کا رنگ سانولا اور کپڑے ایسے بوسیدہ جن کا رنگ بھی انتہائی پھیکا پڑ چکا تھا۔ جب سے اس کے والد نے دوسری شادی کی گویا ان کی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کندھوں سے یکسر اتار پھینکا تھا۔ چونکہ ایک ہی گھر میں سب چچا رہتے تھے تو کھانے پینے کا تو کسی طور کام چل جاتا لیکن کپڑوں کا مسئلہ درپیش رہتا، خاندان میں کبھی کسی چاچا زاد یا ماموں زاد کے کپڑے پرانے ہو جاتے تو اسے پہننے کو دے دیئے جاتے۔ اس کی کسی خوبی کو کبھی نہ سراہا جاتا لیکن ہر خامی کو خوب اچھالا جاتا، بچپن سے ہی اس کے ساتھ امتیازی سلوک برتا گیا، بات بے بات اس کے رنگ پر پھبتیاں کسّی جاتیں، کبھی خاندان کے کسی بچے نے شرارت کی تو اسی کا حوالہ دے کر کہا جاتا کہ یہ بھی اسی کی طرح بگڑتا جا رہا ہے۔ اس کی کردار سازی تو کیا ہوتی، اس کے بچپن کو اس بری طرح سے مجروح کیا گیا کہ جب بھی کسی خوش شکل، تعلیم یافتہ جو اردو روانی سے بولتا ہو جس کی گفتگو میں انگریزی کے لفظ نگینے کی طرح جڑتے جاتے ہوں یا کسی مالدار سے سامنا ہوتا تو اس کی محرومیاں اچانک بڑے بڑے اژدھوں کی صورت میں نمودار ہو جاتیں۔ جو اسے اس قدر خوفزدہ کرتیں کہ اس کے پسینے چھوٹ جایا کرتے۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا تھا، جیسے ہی وہ سڑک سے گلی کی طرف مڑا تو اس نے ایک پینٹ شرٹ میں ملبوس شخص کو اس دفتر میں جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا تو اسی وقت سے وہ وہیں باہر گلی کی نکڑ پر موجود رہا، حتی کہ سورج تیزی سے غروب ہونے لگا اندھیرا بڑھتا چلا جا رہا تھا کہ اچانک وہی پینٹ شرٹ والا آدمی نمودار ہوا۔ لیکن اس مرتبہ ایک اور شخص بھی اس کے ساتھ تھا جس نے دفتر کو تالا لگایا پھر وہ دونوں گلی کی دوسری جانب چل دیئے۔ اس نے بھی اپنی سائیکل لی، اور اپنی روح پر ایک اور ناکامی کا بوجھ لادے واپس اپنے گھر کی طرف چل دیا
 
آخری تدوین:
گرمیوں کا ایک دن تھا، سورج سر سے ڈھل چکا تھا۔ اور وہ گلی کی نکڑ پر ایک بجلی کے کھمبے سے اپنا سائیکل ٹیک لگائے پچھلے دو گھنٹے سے کھڑا تھا۔ گلی میں واقع ایک ہربل ادویات کے دفتر پر مسلسل آنکھیں ٹکائی ہوئیں تھیں۔ سڑک پر گاڑیاں رکشے رواں دواں تھے جس گلی کی نکڑ پر وہ موجود تھا اس گلی میں بھی لوگ آ جا رہے تھے۔ لوگ آتے اور اس کے پاس سے گزر جاتے مگر وہ تھا کہ ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، جیسے اس کی روح کو وہیں قید کر لیا گیا ہو۔ پسینہ بہہ بہہ کر اس کے کپڑوں میں جذب ہوتا جا رہا تھا۔ اس میں ہمت ہی نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ اس دفتر میں جا کر اپنا تعارف پیش کرے اور بتائے کہ مجھے چاچا چراغ دین نے بھیجا ہے۔ کل رات ہی چاچا ان کے گھر آیا تو اس کی اماں نے منتیں کرتے ہوئے کہا کہ بھیا میرے بیٹے کو کسی کام پر لگا دو، سارا سارا دن آوارہ پھرتا رہتا ہے اور ہر ایک سے اکھڑا اکھڑا رہتا ہے، اگر یہ کام کرے گا تو چار پیسے بھی گھر آتے رہیں گے اور شاید اس کا مزاج بھی کچھ بدل جائے۔ وہ احساسِ کمتری کا شکار ایک سترہ اٹھارہ سال کا نوجوان تھا، جسے تعلیم کے مواقع میسر نہ ہوئے، اس کا رنگ سانولا اور کپڑے ایسے بوسیدہ جن کا رنگ بھی انتہائی پھیکا پڑ چکا تھا۔ جب سے اس کے والد نے دوسری شادی کی گویا ان کی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کندھوں سے یکسر اتار پھینکا تھا۔ چونکہ ایک ہی گھر میں سب چچا رہتے تھے تو کھانے پینے کا تو کسی طور کام چل جاتا لیکن کپڑوں کا مسئلہ درپیش رہتا، خاندان میں کبھی کسی چاچا زاد یا ماموں زاد کے کپڑے پرانے ہو جاتے تو اسے پہننے کو دے دیئے جاتے۔ اس کی کسی خوبی کو کبھی نہ سراہا جاتا لیکن ہر خامی کو خوب اچھالا جاتا، بچپن سے ہی اس کے ساتھ امتیازی سلوک برتا گیا، بات بے بات اس کے رنگ پر پھبتیاں کسّی جاتیں، کبھی خاندان کے کسی بچے نے شرارت کی تو اسی کا حوالہ دے کر کہا جاتا کہ یہ بھی اسی کی طرح بگڑتا جا رہا ہے۔ اس کی کردار سازی تو کیا ہوتی، اس کے بچپن کو اس بری طرح سے مجروح کیا گیا کہ جب بھی کسی خوش شکل، تعلیم یافتہ جو اردو روانی سے بولتا ہو جس کی گفتگو میں انگریزی کے لفظ نگینے کی طرح جڑتے جاتے ہوں یا کسی مالدار سے سامنا ہوتا تو اس کی محرومیاں اچانک بڑے بڑے اژدھوں کی صورت میں نمودار ہو جاتیں۔ جو اسے اس قدر خوفزدہ کرتیں کہ اس کے پسینے چھوٹ جایا کرتے۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا تھا، جیسے ہی وہ سڑک سے گلی کی طرف مڑا تو اس نے ایک پینٹ شرٹ میں ملبوس شخص کو اس دفتر میں جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا تو اسی وقت سے وہ وہیں باہر گلی کی نکڑ پر موجود رہا، حتی کہ سورج تیزی سے غروب ہونے لگا اندھیرا بڑھتا چلا جا رہا تھا کہ اچانک وہی پینٹ شرٹ والا آدمی نمودار ہوا۔ لیکن اس مرتبہ ایک اور شخص بھی اس کے ساتھ تھا جس نے دفتر کو تالا لگایا پھر وہ دونوں گلی کی دوسری جانب چل دیئے۔ اس نے بھی اپنا سائیکل لیا، بجھے دل اور آزاد روح کے ساتھ اپنے گھر کی طرف چل دیا
میں اردو تحریر کے اصولوں سے تو واقف نہیں ،نہ ہی میری اردو بہت اچھی ہےمگر پھر بھی کچھ کہوں گی ضرور۔ روؤف بھائی،تحریر تو بہت اچھی ہے مگر آخری جملے پر میری بھی رائے وسیم بھائی کے ساتھ ملتی ہے۔ مجھے بھی یہاں تضاد ہی
نظر آتا ہے۔ احساس کمتری کا شکار انسان اپنی روح میں بھی گھٹن ہی محسوس کرتا ہے،وہ اپنی ہی ذات کے حصار میں قید ہوتا ہے،نکلنا تو چاہتا ہے مگر ہمت ہی نہیں کر پاتا۔
ہماری زندگی کے کردار،کسی ڈرامے یا کہانی کے جو کردار ہوتے ہیں ہر ایک کی علیحدہ نفسیات ہوتی ہے،کسی کی شخصیت کو سمجھنے کیلیئے اسکی نفسیات جاننی پڑتی ہے۔
اس اقتباس میں جو کردار ہے اسکی خامیاں ہی نمایاں ہیں،کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔
احساس کمتری سے نکلنے کیلیئے ذات میں موجود خوبی کو نمایاں کرنا پڑتا ہے،لوگوں کو دکھانا پڑتا ہے کہ اس میں ایسا کچھ تو ہے کہ وہ دوسروں کے برابر بیٹھ سکے۔
ان پڑھ ، سانولی رنگت، باپ کی عدم توجہی کا شکار،دوسروں کی اترن پر گزربسر،اور سب سے بڑھکر ،دوسروں کی پھبتیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی توہمدرد ہو جو اس کیفیت سے نکلنے میں مدد کرے۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں تو سب اندھے کنوئیں میں دھکیلنے والے ہیں،ایسی کیفیت تو لازمی طور پر بنتی ہے۔
ایسے حالات میں ایک کیفیت کام آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ بغاوت،غصہ۔۔۔۔۔ اگر مثبت ہو تو۔
بغاوت کر دینا کہ "نہیں پہنتا میں کسی کے اترے ہوئے کپڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں کھاؤں گا کسی کی دی ہوئی روٹی"۔
کسی کی بات پرغصہ آجائے کہ "اب تو یہ کرکے ہی دکھاؤں گا چاہے کچھ بھی ہو جائے"۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ایک طرف احساس کمتری بھی ہے۔ نکما اور آوارہ بھی ہے اور دوسری جانب آزاد روح۔۔۔
محمد عبدالرؤوف
کیا یہ کُھلا تضاد نہیں؟
اور اپنی روح پر ایک اور ناکامی کا بوجھ لادے واپس اپنے گھر کی طرف چل دیا
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
میں اردو تحریر کے اصولوں سے تو واقف نہیں ،نہ ہی میری اردو بہت اچھی ہےمگر پھر بھی کچھ کہوں گی ضرور۔ روؤف بھائی،تحریر تو بہت اچھی ہے مگر آخری جملے پر میری بھی رائے وسیم بھائی کے ساتھ ملتی ہے۔ مجھے بھی یہاں تضاد ہی
نظر آتا ہے۔ احساس کمتری کا شکار انسان اپنی روح میں بھی گھٹن ہی محسوس کرتا ہے،وہ اپنی ہی ذات کے حصار میں قید ہوتا ہے،نکلنا تو چاہتا ہے مگر ہمت ہی نہیں کر پاتا۔
ہماری زندگی کے کردار،کسی ڈرامے یا کہانی کے جو کردار ہوتے ہیں ہر ایک کی علیحدہ نفسیات ہوتی ہے،کسی کی شخصیت کو سمجھنے کیلیئے اسکی نفسیات جاننی پڑتی ہے۔
اس اقتباس میں جو کردار ہے اسکی خامیاں ہی نمایاں ہیں،کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔
احساس کمتری سے نکلنے کیلیئے ذات میں موجود خوبی کو نمایاں کرنا پڑتا ہے،لوگوں کو دکھانا پڑتا ہے کہ اس میں ایسا کچھ تو ہے کہ وہ دوسروں کے برابر بیٹھ سکے۔
ان پڑھ ، سانولی رنگت، باپ کی عدم توجہی کا شکار،دوسروں کی اترن پر گزربسر،اور سب سے بڑھکر ،دوسروں کی پھبتیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی توہمدرد ہو جو اس کیفیت سے نکلنے میں مدد کرے۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں تو سب اندھے کنوئیں میں دھکیلنے والے ہیں،ایسی کیفیت تو لازمی طور پر بنتی ہے۔
ایسے حالات میں ایک کیفیت کام آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ بغاوت،غصہ۔۔۔۔۔ اگر مثبت ہو تو۔
بغاوت کر دینا کہ "نہیں پہنتا میں کسی کے اترے ہوئے کپڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں کھاؤں گا کسی کی دی ہوئی روٹی"۔
کسی کی بات پرغصہ آجائے کہ "اب تو یہ کرکے ہی دکھاؤں گا چاہے کچھ بھی ہو جائے"۔
آپ کی تحریریں اچھی ہوتی ہیں ہمیشہ پڑھ کر لطف آتا ہے۔ آپ کے اور وسیم بھائی کے اٹھائے گئے نکتے یقیناً قابلِ توجہ ہیں
میں ابھی کوشش کر رہا ہوں کہ کسی مضمون کو درست ڈھنگ سے پیش کر سکوں، بس آپ دوستوں کی رہنمائی حاصل رہی تو قلم آہستہ آہستہ چلنا شروع ہو جائے گا، توجہ کے لیے بہت شکریہ
 

سید رافع

محفلین
اس کہانی کے دوسرے حصے کا انتظار رہے گا جس میں رحمان کے زیر اثر بندوں کی مثبت مدد سے یہ بچہ اپنی اچھائی کو ابھارنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ دنیا میں نیک کام برے کاموں کی نسبت زیادہ ہو رہے ہیں۔ لوگ جرم و جھوٹ سے زیادہ سچ اور صلاح کے شیدائی ہیں۔ بس اس بات کو کہانی میں آنا چاہیے تاکہ کہانی ادھوری نہ لگے اور مثبت اثر کی برتری دکھانے والی بنے۔
 

سید رافع

محفلین
میں اردو تحریر کے اصولوں سے تو واقف نہیں ،نہ ہی میری اردو بہت اچھی ہےمگر پھر بھی کچھ کہوں گی ضرور۔ روؤف بھائی،تحریر تو بہت اچھی ہے مگر آخری جملے پر میری بھی رائے وسیم بھائی کے ساتھ ملتی ہے۔ مجھے بھی یہاں تضاد ہی
نظر آتا ہے۔ احساس کمتری کا شکار انسان اپنی روح میں بھی گھٹن ہی محسوس کرتا ہے،وہ اپنی ہی ذات کے حصار میں قید ہوتا ہے،نکلنا تو چاہتا ہے مگر ہمت ہی نہیں کر پاتا۔
ہماری زندگی کے کردار،کسی ڈرامے یا کہانی کے جو کردار ہوتے ہیں ہر ایک کی علیحدہ نفسیات ہوتی ہے،کسی کی شخصیت کو سمجھنے کیلیئے اسکی نفسیات جاننی پڑتی ہے۔
اس اقتباس میں جو کردار ہے اسکی خامیاں ہی نمایاں ہیں،کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔
احساس کمتری سے نکلنے کیلیئے ذات میں موجود خوبی کو نمایاں کرنا پڑتا ہے،لوگوں کو دکھانا پڑتا ہے کہ اس میں ایسا کچھ تو ہے کہ وہ دوسروں کے برابر بیٹھ سکے۔
ان پڑھ ، سانولی رنگت، باپ کی عدم توجہی کا شکار،دوسروں کی اترن پر گزربسر،اور سب سے بڑھکر ،دوسروں کی پھبتیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی توہمدرد ہو جو اس کیفیت سے نکلنے میں مدد کرے۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں تو سب اندھے کنوئیں میں دھکیلنے والے ہیں،ایسی کیفیت تو لازمی طور پر بنتی ہے۔
ایسے حالات میں ایک کیفیت کام آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ بغاوت،غصہ۔۔۔۔۔ اگر مثبت ہو تو۔
بغاوت کر دینا کہ "نہیں پہنتا میں کسی کے اترے ہوئے کپڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں کھاؤں گا کسی کی دی ہوئی روٹی"۔
کسی کی بات پرغصہ آجائے کہ "اب تو یہ کرکے ہی دکھاؤں گا چاہے کچھ بھی ہو جائے"۔

کیا خوب تجزیہ کیا ہے۔ زبردست!
 

وسیم

محفلین
اس کہانی کے دوسرے حصے کا انتظار رہے گا جس میں رحمان کے زیر اثر بندوں کی مثبت مدد سے یہ بچہ اپنی اچھائی کو ابھارنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ دنیا میں نیک کام برے کاموں کی نسبت زیادہ ہو رہے ہیں۔ لوگ جرم و جھوٹ سے زیادہ سچ اور صلاح کے شیدائی ہیں۔ بس اس بات کو کہانی میں آنا چاہیے تاکہ کہانی ادھوری نہ لگے اور مثبت اثر کی برتری دکھانے والی بنے۔

آپ کسی مصنف کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ کہانی کا کہاں اور کیا اختتام کرے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر انجام میں مثبت اثر کی برتری ہی دکھائی جائے یا اسے ابھارا جائے۔ میرا خیال ہے کہ افسانہ اتنا بھی ٹھیک ہی ہے۔ ویسے یہ تو محمد عبدالرؤوف کی مرضی ہے اگر وہ آپ کے لیے افسانہ بڑھانا چاہیں۔
 

وسیم

محفلین
آپ کی تحریریں اچھی ہوتی ہیں ہمیشہ پڑھ کر لطف آتا ہے۔ آپ کے اور وسیم بھائی کے اٹھائے گئے نکتے یقیناً قابلِ توجہ ہیں
میں ابھی کوشش کر رہا ہوں کہ کسی مضمون کو درست ڈھنگ سے پیش کر سکوں، بس آپ دوستوں کی رہنمائی حاصل رہی تو قلم آہستہ آہستہ چلنا شروع ہو جائے گا، توجہ کے لیے بہت شکریہ
:notworthy:
 

سید عمران

محفلین
جھلستی گرمیوں کی شام تھی، وہ دو گھنٹوں سے گلی کی نکڑ پر کھمبے سے ٹیک لگائے کھڑا تھا. ایک طرف اس کی سائیکل تھی جس پر وہ بیٹھ کے آیا تھا. گرمی کی شدت سے پسینہ بہہ کر اس کے کپڑے تر کررہا تھا. سڑک پر ٹریفک رواں دواں تھی. آتے جاتے رایگیر چند ثانیے رک کر اسے دیکھتے اور آگے بڑھ جاتے. وہ سب سے بے پروا اپنی جگہ جما کھڑا تھا.
اس کی نگاہیں سامنے ہربل ادویات کے دفتر پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ پچھلے دو گھنٹوں سے اپنی ہمت جمع کررہا تھا کہ دفتر میں جا کر اپنا تعارف پیش کرے اور بتائے کہ اسے چاچا چراغ دین نے بھیجا ہے۔

کل رات جب چاچا ان کے گھر آئے تو اماں نے منتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھیا میرے بیٹے کو کسی کام پر لگا دو. سارا دن آوارہ پھرتا رہتا ہے. بے روزگاری نے مزاج الگ چڑچڑا کردیا. کسی کام دھندے سے لگے گا تو چار پیسے بھی آئیں گے اور مزاج بھی درست ہوگا۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
جھلستی گرمیوں کی شام تھی، وہ دو گھنٹوں سے گلی کی نکڑ پر کھمبے سے ٹیک لگائے کھڑا تھا. ایک طرف اس کی سائیکل تھی جس پر وہ بیتھ کے آیا تھا. گرمی کی شدت سے پسینہ بہہ کر اس کے کپڑے تر کررہا تھا. اس کی نگاہیں سامنے ہربل ادویات کے دفتر پر جمی ہوئی تھیں۔ سڑک پر ٹریفک رواں دواں تھی. آتے جاتے رایگیر چند ثانیے رک کر اسے دیکھتے اور آگے بڑھ جاتے. وہ سب سے بے پروا اپنی جگہ جما کھڑا تھا.
وہ پچھلے دو گھنٹوں سے اپنی ہمت جمع کررہا تھا کہ دفتر میں جا کر اپنا تعارف پیش کرے اور بتائے کہ اسے چاچا چراغ دین نے بھیجا ہے۔

کل رات جب چاچا ان کے گھر آئے تو اماں نے منتیں کرتے ہوئے کہا کہ بھیا میرے بیٹے کو کسی کام پر لگا دو. سارا دن آوارہ پھرتا رہتا ہے. بے روزگاری نے مزاج الگ چڑچڑا کردیا. کسی کام دھندے سے لگے گا تو چار پیسے بھی آئیں گے اور مزاج بھی بدرست ہوگا۔
اسے دیکھیں. تھوڑی صحیح کی یے لیکن انداز قدرے بہتر ہوگیا ہے. گرچہ مزید بہتری کی گنجائش ہے تاہم سردست یہی سہی.
 

سید رافع

محفلین
آپ کسی مصنف کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ کہانی کا کہاں اور کیا اختتام کرے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر انجام میں مثبت اثر کی برتری ہی دکھائی جائے یا اسے ابھارا جائے۔ میرا خیال ہے کہ افسانہ اتنا بھی ٹھیک ہی ہے۔ ویسے یہ تو محمد عبدالرؤوف کی مرضی ہے اگر وہ آپ کے لیے افسانہ بڑھانا چاہیں۔

بصورت دیگر افسانہ نامکمل رہے گا یا مکمل تصویر کے شعور کے بغیر ہو گا یا شعور دیے بغیر اختتام پزیر ہو گا۔ سب سے اچھا قصہ سورہ یوسف ہے کہ تمام حسد اور شر کے باوجود اختتام انصاف اور سچ کی سر بلندی کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ انصاف کی برتری رہے۔ جیسا کہ قیامت ہے۔ ادھورا افسانہ لکھنے والے کے ادھورے شعور کا عکاس ہے۔ بہرحال ادھورا لکھا جائے اس پر کوئی زور نہیں یا مجبور نہیں کیا جا سکتا البتہ کہا اسکو ادھورا ہی جائے گا۔ افسانہ نگار کی مرضی ہے کہ مکمل کرے اور قارئین کو ایک مثبت حالت میں چھوڑے۔ اسی میں ترقی ہے اور برکت ہے۔
 
میں نے بچپن میں یہ احساسات برداشت کیے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ غربت بھی نہ تھی،تعلیم بھی جاری تھی،کلاس میں پوزیشن بھی آتی تھی، مگر پھر بھی نہ جانے کیوں کبھی کسی سے بات کرنے کا حوصلہ ہی نہ تھا۔ کبھی کچھ شئیر نہ کرنا،خود میں ہی بات کو سوچتے رہنا۔۔۔۔
اگر گھر سے فیس نہیں ملی تو ٹیچر کو بتانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ نہیں ملی آج۔۔۔۔۔۔۔حالانکہ میں کم گو نہیں تھی،الٹا سیدھا ہانکتی رہتی تھی۔۔۔۔۔ گانا یا نعت وغیرہ بھی لگی رہتی تھی۔
تیسری کلاس میں ٹیچر نے بزم ادب میں تقریر کرنے کو دی۔۔۔۔۔۔۔میں سٹیج پر جاکر رونے لگی،کچھ بولا ہی نہیں گیا۔
دوبارہ بزم ادب ہوا تو ٹیچر نے نعت پڑھنے کو کہا،میں نے کانپتی ہوئی آواز میں پڑھ دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت کلیپنگ ہوئی،جن میں سب سے زیادہ میری آپی نے کی۔
آپی نے بتایا کہ دیکھو کچھ بھی نہیں ہوا،گھبرایا نہ کرو۔
پھر سلسلہ آہستہ آہستہ چل نکلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نے نویں کلاس میں تقریر میں ضلع بھر میں دوسری پوزیشن لے لی۔۔۔۔۔۔
مضمون نگاری میں"وجودزن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ" میں دسویں میں پہلا نمبر لیا۔۔۔۔۔۔۔
دیہاتی علاقہ تھا۔۔۔ سب سہیلیاں اور ہم جماعت دسویں کے بعد یا تو گھر بیٹھ گئیں یا پی ٹی سی کرنے کے بعد ٹیچر لگ گئیں۔۔۔۔میں کالج میں آگئی۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصل آباد کافی بڑا شہر ہے۔۔۔۔۔ اکیلے آناجانا پڑتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حالات مثبت رہے اور مجھ میں خوداعتمادی آتی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خزاں کو بہار کیا،تھا تو مشکل،مگر میں جیت گیا
وہ اک موسمِ کرب تھا،جو کب کا بیت گیا۔۔۔۔۔۔
 
بصورت دیگر افسانہ نامکمل رہے گا یا مکمل تصویر کے شعور کے بغیر ہو گا یا شعور دیے بغیر اختتام پزیر ہو گا۔ سب سے اچھا قصہ سورہ یوسف ہے کہ تمام حسد اور شر کے باوجود اختتام انصاف اور سچ کی سر بلندی کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ انصاف کی برتری رہے۔ جیسا کہ قیامت ہے۔ ادھورا افسانہ لکھنے والے کے ادھورے شعور کا عکاس ہے۔ بہرحال ادھورا لکھا جائے اس پر کوئی زور نہیں یا مجبور نہیں کیا جا سکتا البتہ کہا اسکو ادھورا ہی جائے گا۔ افسانہ نگار کی مرضی ہے کہ مکمل کرے اور قارئین کو ایک مثبت حالت میں چھوڑے۔ اسی میں ترقی ہے اور برکت ہے۔
روؤف بھائی کی تحریر کالم کی ایک شکل لگ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کالم حسن مجھے اس میں لگتا ہے کہ میں آخر میں سوچتی روں کہ پھر کیا ہوا۔
 

سید رافع

محفلین
میں نے بچپن میں یہ احساسات برداشت کیے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ غربت بھی نہ تھی،تعلیم بھی جاری تھی،کلاس میں پوزیشن بھی آتی تھی، مگر پھر بھی نہ جانے کیوں کبھی کسی سے بات کرنے کا حوصلہ ہی نہ تھا۔ کبھی کچھ شئیر نہ کرنا،خود میں ہی بات کو سوچتے رہنا۔۔۔۔
اگر گھر سے فیس نہیں ملی تو تیچر کو بتانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ نہیں ملی آج۔۔۔۔۔۔۔حالانکہ میں کم گو نہیں تھی،الٹا سیدھا ہانکتی رہتی تھی۔۔۔۔۔ گانا یا نعت وغیرہ بھی لگی رہتی تھی۔
تیسری کلاس میں ٹیچر نے بزم ادب میں تقریر کرنے کو دی۔۔۔۔۔۔۔میں سٹیج پر جاکر رونے لگی،کچھ بولا ہی نہیں گیا۔
دوبارہ بزم ادب ہوا تو ٹیچر نے نعت پڑھنے کو کہا،میں نے کانپتی ہوئی آواز میں پڑھ دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت کلیپنگ ہوئی،جن میں سب سے زیادہ میری آپی نے کی۔
آپی نے بتایا کہ دیکھو کچھ بھی نہیں ہوا،گھبرایا نہ کرو۔
پھر سلسلہ آہستہ آہستہ چل نکلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نے نویں کلاس میں تقریر میں ضلع بھر میں دوسری پوزیشن لے لی۔۔۔۔۔۔
مضمون نگاری میں"وجودزن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ" میں دسویں میں پہلا نمبر لیا۔۔۔۔۔۔۔
دیہاتی علاقہ تھا۔۔۔ سب سہیلیاں اور ہم جماعت دسویں کے بعد یا تو گھر بیٹھ گئیں یا پی ٹی سی کرنے کے بعد ٹیچر لگ گئیں۔۔۔۔میں کالج میں آگئی۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصل آباد کافی بڑا شہر ہے۔۔۔۔۔ اکیلے آناجانا پڑتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حالات مثبت رہے اور مجھ میں خوداعتمادی آتی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خزاں کو بہار کیا،تھا تو مشکل،مگر میں جیت گیا
وہ اک موسمِ کرب تھا،جو کب کا بیت گیا۔۔۔۔۔۔

آپ کس علاقے سے ہیں؟
 
Top