شیرازخان
محفلین
- احساسِ کمتری
عجب خوف دل میں ہے ہم نے دبایا
کہ درجہ حرارت ہے چہرے پہ آیا
عضاء زندگی کے خلا چاٹتے ہیں
یہ ناخن سے لمہے عمر کاٹتے ہیں
جو خلقہءلب کے دیے سب بجھائے
ہیں اپنی ہی ہستی کے فرقے بنائے
یہ اپنی کمی ہی کدورت ہے خود سے
ہو پوری بھی کیسے ضرورت ہے خود سے
وہ منزل کو پا کر پلٹ کر بھی آئے
گِرہ سے گِرے ہیں تو کوئی اُٹھائے
یہ شب پیٹتی ہے یہ دن ڈانٹتے ہیں
یوں دن رات اپنا وقت پھینکتے ہیں
خوشی کے خیالوں میں غم بھر لیا ہے
اُچھل کے ہی اُونچا یہ قد کر لیا ہے
نظر کے پرندے بھی گمراہ ہیں سب
مری جاں کے لالے بھی ہمراہ ہیں سب
قیامت سے بڑھ کر قیامت ہوئی ہے
یہ مغرور کیسے ملامت ہوئی ہے
ہے للکار اپنی تو کیوں لڑ رہا ہے
کٹا سَر ہے پھر کیوں یہ سَر چڑھ رہا ہے
بنا بھیڑ کے ہی یہ ٹھوکر لگی ہے
مگر بھیڑ میں اک جو بھگدڑ مچی ہے
ہے احساسِ بہتر بھی احساسِ ابتر
اُڑے اس نسل کے کئی اب کبوتر
الف عین