احتجا جی مشا عرہ

0524282001327111840.jpg
خبر تو عام سی ہے ، شاید بہت ہی عام سی لیکن مسئلہ اس چیز کا ہے جو اس خبر کی اصل روح ہے۔ گزشتہ روز میکسیکو میں دل کے ایک مریض کے لئے لے جایا جانے والا دل سڑک پر گر گیا۔ اب یوں تو گرنے کو بہت سی چیزیں آئے روز گرتی رہتی ہیں۔ویسے بھی یہ کوئی پاکستان میں مہنگائی تو ہے نہیں جو ایک بار چڑھ جائے تو پھر گرنا بھول جاتی ہے۔ خیربات ہو رہی تھی ایک عدد دل کی جو میکسیکو کی کسی سڑک پر گرگیا۔ تفصیل اس خبر کی کچھ یوں بیان کی گئی ہے کہ میکسیکو میں دم توڑتے مریض کیلئے دھڑکنیں لے جانیوالا دل، پیرامیڈیکل اسٹاف نے راستے میں ہی گرا دیا، تاہم مریض کی خوش قسمتی کہیے کہ دل محفوظ رہا۔ میکسیکو سٹی میں زیرعلاج مریض کے آپریشن کے لئے عطیہ کیا گیا دل ساڑھے چار سو کلومیٹر دور تھا۔ ایمبولینس سے یہ دل نجی جیٹ اور پھر ہیلی کاپٹر میں منتقل ہوا۔ دارالحکومت میں اسپتال کے سامنے ٹریفک رکوا کر ہیلی کاپٹر سے دل نکالا گیا۔ اسے جلد باز ی کہئے یا بے احتیاطی، پیرا میڈیکل سٹاف کے ہاتھوں دل کا کولر الٹ گیا۔لیکن دل مضبوط نکلا اور اس حادثے میں بچ گیا۔آخر کار مریض کو دل لگا دیا گیا جو اب تیزی سے صحت یاب ہو رہا ہے۔سب سے پہلے تو ہمیں اس دل کے حوالے سے مصمم یقین ہے کہ یہ کسی پاکستانی کا ہی تھا اس لئے کہ زندگی میں اتنے صدمے اس دل نے سہے ہوں گے کہ انسانی جسم سے باہر نکلنے کے بعد بھی مضبوط ہی تھا اور پھر سڑک پر گرنے کے باوجود محفوظ بھی رہا،

اس میں تمام تر خوبیاں ایک پاکستانی دل کی موجود ہیں۔یہ خبر وطن عزیز سے متعلق ہوتی اور پیرامیڈیکل حضرات سے یہ ”حرکت“ یہاں سرزد ہوئی ہوتی تو یقینا اس پر شاید ہی کسی کو حیرت ہوتی لیکن خبر ہے میکسیکو کی....لہٰذا اس پر لوگوں کو حیرت بھی ہوئی، افسوس بھی اور خوشی بھی۔ حیرت اس لئے کہ وہاں بھی اس ”قسم“ کی حرکات متوقع ہیں؟افسوس اس پر کہ بے چارے مرنے والے کے دل کو مرنے کے بعد بھی”تکلیف“سے نجات نہ ملی اور خوشی اس بات پر کہ ہم تو سمجھے تھے کہ اتنی بے احتیاطی صرف ہماری قوم کا ہی خاصہ ہے لیکن یہ خاصیت تو ترقی یافتہ ملکوں میں بھی پائی جاتی ہے۔اب کچھ بات ہوجائے ”احتجاجی مشاعرہ“ کی۔ احتجاجی مظاہرہ تو آپ نے سنا، دیکھا اور پڑھا ہوگا لیکن ”احتجاجی مشاعرہ“ نئی صدی کی سب سے نئی نویلی ایجاد ہے۔شاعر لوگوں کے لئے انسانی جسم میں یوں تو تمام اعضاءہی شاعری میں گھسیٹ لانے کے لائق ہوتے ہیں لیکن جس چیز پر ان کی سب سے زیادہ نظرکرم ہوتی ہے وہ بلاشک و شبہ ”دل“ ہی ہے۔چنانچہ میکسیکو کی سڑک پر اس ”حادثے“ پر جہاں دنیا بھر میں حیرت اور افسوس کا اظہار کیا گیا وہاں قدیم شاعر حضرات نے ”احتجاجی مشاعرہ“ برپا کیا۔ بابائے شاعری مرزا غالب نے ہنگامی طور پر یہ احتجاجی مظاہرہ طلب کیا جس میں کئی نئے پرانے شعراء نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ احتجاجی مشاعرے کا ایجنڈا بیان کرتے ہوئے مرزا جی نے فرمایا ۔ مرزا غالب: میکسیکو کی ایک سڑک پر ہمارے قابل احترام اور شاعری میں سب سے زیراستعمال رہنے والے ”دل محترم“ کے ساتھ یہ نازیبا سلوک کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ آج ہم احتجاجی طور پر اپنے شعروں میں ترمیم کرنے جمع ہوئے ہیں۔میں اپنے مشہور و معروف شعر میں تبدیلی لانے جا رہا ہوں امید ہے تمام ساتھی اس میں میری پرزور حمایت کریں گے۔

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں”گرائے “کیوں

اثر لکھنوی: مرزا جی!یہ آپ نے بہت ہی اچھا اقدام کیا ہے جو اس”سنگین سانحے“پر احتجاجی مشاعرہ طلب کیا ہے،میں بھی اپنے ایک شعر میں تبدیلی کرنے کی جسارت کروں گا۔قبل ازیں اس شعر میں ، میں نے کسی کی نظر پھرنے کے بعد دل کو خون ہوتے دیکھنے کی بات کی تھی لیکن اب ملاحظہ فرمائیے کہ تبدیلی کے بعد یہ کیا شکل اختیار کرتا ہے۔

پھرتے ہوئے کسی کی نظر دیکھتے رہے دل خون ہو رہا تھا مگر دیکھتے رہے

پھرتے ہوئے کسی کی نظر دیکھتے رہے دل گرگیا سڑک پہ مگر دیکھتے رہے

مرزا غالب:واہ واہ!اثر بھائی!کیا کہنے آپ کے۔دل خوش کردیا ہے،آپ نے میرا ایک شعر”دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے، آخر اس درد کی دوا کیا ہے“ ضرور ملاحظہ کیا ہوگامیرے خیال سے اس غزل میں ایک اور شعر کا بھی اضافہ ناگزیر ہے کہ”گر کے سڑکوں پہ اے دل ناداں۔یہ بتا مجھے کو، ڈھونڈتا کیا ہے“۔

ذوق:یقینا ان اشعار میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے جودل سے متعلق ہیں،کیوں کہ سڑک پر دل گرا کر ہمارا دل بھی خون خون کردیا گیا ہے۔میں بھی اپنے ایک شعر میں تبدیلی کی اجازت چاہوں گا۔ بہتر تو یہی ہے کہ نہ دنیا سے دل لگا پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

بہتر تو یہی ہے کہ نہ سڑکوں پہ دل گرا پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

سیماب اکبر آبادی:لیکن مرزا جی!میرے خیال سے تو دل کے سڑک پر گرنے سے شاعری کو بھی ایک نئی جہت ملی ہے آپ اسی سے اندازہ کرلیں کہ آج اتنے بڑے بڑے شعراءاپنے روایتی شعروں میں تبدیلی لانے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔میں بھی اپنے ایک شعر میں تبدیلی کرنے جا رہا ہوں ذرا ملاحظہ فرمائیں۔

اب کیا کہوں میں تیرے ملنے سے کیا ملا عرفان غم ہوا مجھے دل کا پتا ملا

اب کیا کہوں سڑک پہ گرنے سے کیا ملا عرفان غم ہوا مجھے دل بھی پڑا ملا

میرتقی میر:میرے لئے بھی اپنی ایک نہایت ہی عوامی غزل میں ایک شعرکا اضافہ کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔اگرمیرے زمانے میں یہ عالمی سانحہ رونما ہوا ہوتا تو یقینااسی وقت میں اسے اپنی غزل کا حصہ بنا دیتا لیکن بہرحال اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ شعرملاحظہ کیجئے گا۔

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

تم نے دل کو جہاں گرایا تھا یہ دھواں اب وہاں سے اٹھتا ہے

مرزاغالب:مجھے خوشی ہے کہ یارلوگوں نے اس احتجاجی مشاعرے کے انعقاد کو سراہا ہے،ویسے بھی جن لوگوں نے یہ عالمی سانحہ برپا کیا ہے ان کے ہاتھوں میں اپنا نہیں کسی اور کا دل تھا اسی صورتحال پر میں اپنے ایک اور شعر میں ترمیم کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ ملاحظہ کیجئے۔

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنج فغاں کیوں ہو نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنج فغاں کیوں ہو پرایا دل ہو ہاتھوں میں تو پھر ہاتھوں میں جاں کیوں ہو

فانی بدایونی:مرزاجی!بات یہ ہے کہ اس میں قصور میکسیکو کے ان پیرامیڈیکس کا بھی نہیں ہے،لگتا ہے وہ بھی بے چارے پاکستان کے پیرامیڈیکس کی طرح سروس سٹرکچر اور دیگرمراعات سے محرومی کے باعث کسی اور ہی خیالوں میں گم تھے۔میرے اس شعر میں تبدیلی کے بعد آپ ان کے موقف کو سمجھ سکتے ہیں۔

دل سے خیال یار کو ٹالے ہوئے تو ہیں ہم جان دے کے دل کو سنبھالے ہوئے تو ہیں

دل سے خیال روزگار ٹالے ہوئے تو ہیں ہم کولر میںپرائے دل کو سنبھالے ہوئے تو ہیں

مرزاغالب:بالکل درست فرمایا آپ نے فانی بھائی!لیکن مجھے تو افسوس ٹی وی چینل والوں پر ہے،یہ بھی تو ہربات کا بتنگڑ ہی بنالیتے ہیں۔اگر نیوز چینلوں پر یہ خبر اتنی زیادہ نہ دکھائی جاتی تو شاید عام لوگ اس عالمی سانحے سے باخبر ہی نہ ہوتے اور ہمیں بھی یہ احتجاجی مشاعرہ برپا کرنے کی ضرورت نہ رہتی۔ویسے بھی باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ پیرامیڈیکل اسٹاف میں سے کسی کو سڑک پر ایک نوٹ گرا نظر آیا تھا جسے اٹھانے کے چکر میں وہ ”دل“گرا بیٹھا۔اپنا نہیں کسی اور کا۔میرے ایک اور شعر میں تبدیلی کے بعد ہونے والی صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے۔

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا کریدتے ہو اب راکھ، جستجو کیا ہے

گرا ہے نوٹ جہاں دل بھی گر گیا ہوگا دکھاتے ٹی وی پہ کیوں ہو، ،جستجو کیا ہے

داغ دہلوی:بجا فرمایا مرزاجی آپ نے۔یہ تو شکر ہے کہ گرنے کے بعد ان پیرامیڈیکل والوں کو پتا تو چل گیا کہ دل گرگیا ہے،سوچنے کی بات ہے اگر یہ دل گر جاتا اور انہیں پتا ہی نہ چلتا تو اسے اٹھاتا کون؟اور اٹھانے کے بعد اس کا ہوتا کیا؟میں ایک شعر میں تبدیلی کے ذریعے اس خوفناک صورتحال کو بیان کرنے کی اجازت چاہوں گا،ملاحظہ فرمائیے۔

دل کو کیا ہوگیا ، خدا جانے کیوں ہے ایسا اداس، کیا جانے

دل کہاں گر گیا خدا جانے اب اٹھائے گا کون کیا جانے

مرزا غالب:واہ!داغ بھیا!کیا صورتحال بیان کی ہے،یقینا اگر یہ دل کسی اور کے ہاتھ لگ جاتا تو پتا نہیں اس کا کیا ہوتا۔درحقیقت باوثوق ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ میکسیکو کی جس سڑک پر یہ دل گرنے کا واقعہ پیش آیا اس پر زیبراکراسنگ بھی موجود نہیں تھی۔ذرامیرے اس شعر کو تبدیلی کے بعد سمجھنے کی کوشش کیجئے گا۔عرض کرتا ہوں۔

کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے کہاں تھی یہ زیبراکراسنگ میرا دل نہ ایسے گرتا جو سڑک کے پار ہوتا

جوش ملیح آبادی:مرزاجی!ہمیں تو درحقیقت اعتراض اس بات پر بھی ہے کہ بھلا سڑک جیسی غیرادبی اور غیررومانوی جگہ ہی ملی تھی اس دل کے گرانے کو۔یعنی کہ دل تو ہم سب نے بھی سینکڑوں بارگرائے ہی ہیں،لیکن کسی کی زلف سیاہ پر،کسی کی چشم ناز پر،کسی کے گلابی رخسار پریاکسی کے گلاب سے ہونٹوں پر۔لیکن یہ میکسیکو کے پیرامیڈیکل والے تو بہت ہی بدذوق و بے ادب نکلے۔میں نے اپنے اس شعر میں تبدیلی کے ساتھ اس دردناک صورتحال کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا

اس کا رونا نہیں کیوں تم نے گرایا دل کو اس کا غم ہے کہ گرانے کو سڑک ہی پائی؟

نریش کمار شاد:جوش بھائی!آپ خاصے جوش سے کام لے رہے ہیں،جب دل کا گرانا ہی مقصود ہو تو سڑک ہو یا فٹ پاتھ۔کیا فرق پڑتا ہے۔ اس شعر کو تبدیلی کے بعد دیکھئے گا ذرا۔

کسی کے ہجر و ستم کا تو اک بہانہ تھا ہمارے دل کو بہرحال ٹوٹ جانا تھا

کسی کے ہجر و ستم کا تو اک بہانہ تھا ہمارے دل کو بہرحال گر ہی جانا تھا

مجروح سلطانپوری:ارے حضور! ہم تو کہتے ہیں کہ کچھ شعر ایسے ہیں جنہیں تبدیل کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔آپ میرے اس شعر کو ملاحظہ کیجئے،بنا کسی تبدیلی کے بھی یہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں کتنااثر رکھتا ہے۔

رہتے تھے کبھی جن کے دل میں ہم جان سے بھی پیاروں کی طرح ”بیٹھے“ ہیں انہی کے کوچے میں ہم آج گنہگاروں کی طرح

داغ دہلوی:بجافرمایا آپ نے مجروح بھائی!یقینا آپ کے اس شعر نے ہمیں بھی خاصا مجروح کرچھوڑا ہے۔دراصل ان پیرامیڈیکل والوں کے تو کسی کام کا تھا نہیں یہ دل۔جس مریض کے لئے لے جایا جا رہا تھا وہ بے چارہ اس کے انتظار میں تھااور یہ پیرامیڈیکل والے نامعقول حضرات دل کے ساتھ فٹ بال کھیلنے میں مصروف تھے ۔

دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا

دل گرا کے کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں الٹی شکائتیں ہوئیں احسان تو گیا

پروین شاکر:تاخیر سے آنے پر معذرت چاہتی ہوں۔لگتا ہے احتجاجی مشاعرہ اپنے اختتامی مراحل میں ہے۔بہرحال مجھ تک بھی یہ خبرپہنچی تو مجھ سے رہا نہیں گیا۔لہٰذا اپنے ایک شعر کو تبدیلی کے ساتھ اس محفل میں لے آئی ہوں۔ ملاحظہ فرمائیے۔

کوئی آہٹ کوئی آواز کوئی چھاپ نہیں دل کی گلیاں بڑی سنسنان ہیں آئے کوئی

کوئی آہٹ کوئی آواز کوئی چھاپ نہیں دل پڑا ہے سرراہ اٹھائے کوئی

اس شعر کے بعدمرزاغالب سمیت تمام شعراءنے ڈھیروں ڈھیر آنسو بہاتے ہوئے احتجاجی مشاعرے کو الوداع کہا اور اپنی اپنی جائے آخرت کو لوٹ گئے۔سنا ہے کہ جن جن شعراءسے یہ احتجاجی مشاعرہ کسی وجہ سے رہ گیا وہ بھی اب اگلے”احتجاجی مشاعرے“ کے انتظار میں ہیں۔دیکھئے!کب منعقد ہوتا ہے۔
ربط
http://blogs.dunyanews.tv/?p=2683
 

شمشاد

لائبریرین
واہ واہ کیا مزہ آیا ہے مشاعرے کا

پہلے شعر میں دوسرے مصرعے کو اگر یوں کر لیا جائے :

گریں گے ہم ہزار بار "کوئی" ہمیں گرائے کیوں

اگر یہ احتجاجی مشاعروں کی رسم چل نکلی تو بہت اچھا اچھا کلام سُننے کو ملا کرے گا۔
 
Top