اجمل نیازی۔ اک شخص جزیرہ رازوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں

اک شخص جزیرہ رازوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں
اک گھر ہے تنہا یادوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں

اک موسم ہرے پرندوں کا وہ سرد ہوا کا رزق ہوا
اک گلشن خالی پیڑوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں

اک آنکھ ہے دریا آنکھوں کا ہر منظر اس میں ڈوب گیا
اک چہرہ صحرا چہروں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں

اک خواب خزانہ نیندوں کا وہ ہم سب نے برباد کیا
اک نیند خرابہ خوابوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں

اک لمحہ لاکھ زمانوں کا وہ مسکن ہے ویرانوں کا
اک عہد بکھرتے لمحوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں

اک رستہ اس کے شہروں کا ہم اس کی دھول میں دھول ہوئے
اک شہر اس کی امیدوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں
 
Top