اثر کرتا نہیں شکوہ شکایت بھی پرانی ہے (اصلاح چاہے)

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
میرے پہلی غزل کی ابھی تک اصلاح نہیں‌کی گی پھر بھی میں دوسرے غزل بھی ارسال کر رہا ہوں امید ہے اس پر نظر ثانی ہو گی شکریہ خرم شہزاد خرم


اثر کرتا نہیں شکوہ شکایت بھی پرانی ہے
مجھے احساس ہے اس کی یہ عادت بھی پرانی ہے

کوئی رستہ نہیں اس بن جو مجھ کو زندگی دے دے
بہت ہی دور ہے منزل مسافت بھی پرانی ہے

اسے دیکھے بنا آنکھیں برستی ہیں نہ ہنستی ہیں
جدائی بھی نہیں کٹتی اذیت بھی پرانی ہے

یہ تنہا چاند راتوں میں تمہاری یاد کا آنا
یہی تیر محبت ہے محبت بھی پرانی ہے

تری یادیں تری باتیں تری ہر چیز سے جاناں
مجھے بے حد عقیدت ہے عقیدت بھی پرانی ہے

تمہی آنکھوں میں ہو میرے تمہیں دل میں بسایا ہے
تمہی کو چاہتے ہیں اور چاہت بھی پرانی ہے

ترے بن سانس کانٹے اور دھرکن درد کی دستک
گزرتی ہی نہیں خرم قیامت بھی پرانی ہے

خرم شہزد خرم
 
بہت اعلیٰ خرم بھائی! آپ تو بہت اچھی شاعری کرتے ہیں۔۔۔۔! مجھے تو پہلی غزل کی طرح اس غزل میں بھی کوئی اصلاح کا مقام نظر نہیں آیا۔ بہت خوب!
 

نوید صادق

محفلین
خرم بھائی!!
کئ دن سے سوچ رہا تھا کہ اس غزل پر بات کروں لیکن مصروفیات کا عالم ہے کہ سانس لینا بھی غنیمت ہے۔ بس وہ حضرتِ غالب فرما گئے ہیں نا کہ

غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں

مزے کی بات بتاؤں، جن دنوں میں نے ڈگری کے بعد پہلی نوکری کی ، یہ شعر وقت بے وقت میری زبان پہ آ جاتا تھا۔ اور خصوصا" "" وہ دن گئے" ، "وہ دن گئے" کرتا رہتا تھا۔

خیر بات دور نکلتی جا رہی ہے

آپ کے ہاں روانی کا عنصر بہت نمایاں ہے، انشاءاللہ العزیز بہت جلد آپ کی لگن ، محنت اور جذبہ رنگ لے آئے گا۔

چلتے ہیں آپ کی غزل کی طرف

اثر کرتا نہیں شکوہ شکایت بھی پرانی ہے
مجھے احساس ہے اس کی یہ عادت بھی پرانی ہے

خرم! یہاں شکوہ اثر نہیں کرتا، اور شکایت بھی پرانی ہے مجھے کل بہت برا لگ رہا تھا، لیکن آج جب لکھنے بیٹھا ہوں تو گوارا بلکہ اچھا محسوس ہو رہا ہے۔ بس شکوہ کے بعد ایک کوما ضروری ہے،

دوسرا مصرعہ میں "محسوس " کی جگہ معلوم کرنا ہو گا۔ کہ جس وثوق سے کہا گیا ہے اس میں احساس کی جگہ علم ہی بنتا ہے۔

کوئی رستہ نہیں اس بن جو مجھ کو زندگی دے دے
بہت ہی دور ہے منزل مسافت بھی پرانی ہے

رستے کا حاصل---منزل اور منزل کا دوسرا نام زندگی، ٹھیک ہے، لیکن بھائی یہاں اس بن نکال کر کچھ اور ٹرائی کریں۔ لگے رہیں، مصرعہ بار بار بنائیں، بنے گئے مصرعوں کو پڑھ پڑھ کر جائزہ لیں، آپ کا دل خود فیصلہ دے گا کہ حتمی مصرعہ کونسا ہونا چاہئے۔

مسافت بھی پرانی ہے، اچھا لگا۔

بقول سراج الدین ظفر

اسی فہرست میں کچھ نام ابھی باقی ہیں

اسے دیکھے بنا آنکھیں برستی ہیں نہ ہنستی ہیں
جدائی بھی نہیں کٹتی اذیت بھی پرانی ہے

بات تو ٹھیک ہی لگ رہی ہے، لیکن دونوں مصرعے ایک ہی بات کہی جا رہے ہیں۔
" بنا" کا استعمال یہاں جچ نہیں رہا۔

یہ تنہا چاند راتوں میں تمہاری یاد کا آنا
یہی تیر محبت ہے محبت بھی پرانی ہے

دیکھیں، جب سب معلوم ہے، سب کھول کر بیان کر دیا ہے، تو شعر بے مزا ، کرکرا ہو جاتا ہے۔

اگر یوں ہو کہ

یہ تنہا چاند راتوں میں کسی کی یاد کا آنا

ویسے ایک بات ہے کہ اگر کسی کی یاد کا آنا ہی نکال دیا جائے، یعنی بات تھوڑی دبا کر، چھپا کر کی جائے تو اور معنی خیز ہو سکتا ہے،
جیسے ۔۔۔۔۔۔ درد کا اٹھنا، نیند کا اڑنا وغیرہ،

یا پھر

یہ تنہا چاند راتوں میں کسی سے دھیان میں باتیں
خیر دیکھ لیں۔۔۔

ارے ہاں، یہ دوسرا مصرعہ کیا ہے، یہی تیرِ محبت ہے ،محبت بھی پرانی ہے، نہ بھیا، بات بن نہیں پائی۔
کچھ اور کہیں،
جیسے

وہی دردِ محبت ہے، وہی عادت پرانی ہے

اب ذرا دیکھئے کیا بنا!

یہ تنہا چاند راتوں میں کسی سے دھیان میں باتیں
وہی دردِ محبت ہے، وہی عادت پرانی ہے

ویسے یہاں درد نکال کر

وہی پہلی محبت ہے، وہی عادت پرانی ہے

باقی آپ سمجھدار ہیں۔
اور باقی غزل ادھار میں رکھ لیتے ہیں۔ اگلی پوسٹ تک۔
 

نوید صادق

محفلین
تری یادیں تری باتیں تری ہر چیز سے جاناں
مجھے بے حد عقیدت ہے عقیدت بھی پرانی ہے

بھائی!
ایک تو یہ کہ تھوڑا سا کوموں کا استعمال کر لیا کریں۔
تری یادیں، تری باتیں ۔۔۔ یہاں تک ٹھیک ہے لیکن " تری ہر چیز" ضم کا پہلو نکل رہا ہے۔ اور " جاناں" سرے سے نکال ڈالیں۔ جاناں پر جتنی داد لی جا سکتی تھی وہ احمد فراز لے چکے، اب اس لفظ میں کیا بچا ہے۔

مجھے بے حد عقیدت ہے، عقیدت بھی پرانی ہے

ایک تو جاناں اور پھر عقیدت۔۔۔ تھوڑی گڑ بڑ ہے۔ اور ہر مصرعہء ثانی میں ایک سی ساخت رکھنا، شاید مشاعرے میں تو کامیاب کرا دے لیکن قاری کو لطف نہیں آتا۔ اور یہ تکرار کا رواج جیسے ۔۔۔۔ محبت ہے، محبت بھی پرانی ہے، ۔۔۔۔عقیدت ہے، عقیدت بھی پرانی ہے وغیرہ وغیرہ اب اتنا موثر ہتھیار نہیں رہا۔ الفاظ کا استعمال نئے ڈھنگ سے رنگ لاتا ہے، جب اساتذہ نے اس رنگ کو فروغ دیا تو اس وقت یہ نیا تھا لیکن اب نہیں۔
 

نوید صادق

محفلین
تمہی آنکھوں میں ہو میرے تمہیں دل میں بسایا ہے
تمہی کو چاہتے ہیں اور چاہت بھی پرانی ہے

"تمہی آنکھوں میں ہو میرے" کچھ ایسا کارگر نہیں۔ سادہ لفظوں میں کہنا چاہئے کہ پھڑکا نہیں رہا۔ مزید کہوں تو مصرعہ ڈھیلا پڑتا نظر آتا ہے۔اور وہ بھی آغاز میں ہی۔

تمہیں آنکھوں میں رکھا ہے، تمہیں دل میں بسایا ہے

(یوں بھی ہو سکتا ہے اور ووں ۔۔۔۔ آپ خود ٹرائی کریں)
پہلے مصرعہ میں " میرے " اور دوسرے مصرعے میں " چاہتے ہیں" اگر پہلے میں "میرے" رکھنا ہے تو دوسرے میں "چاہتا ہوں" آنا چاہئے۔
ذرا محنت کریں اور توجہ دیں۔ اپنے کہے ہوئے اشعار کو بار بار پڑھیں۔ غور کریں۔
 

نوید صادق

محفلین
ترے بن سانس کانٹے اور دھرکن درد کی دستک
گزرتی ہی نہیں خرم قیامت بھی پرانی ہے

پہلا مصرعہ دوبارہ کہیں۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ہممممممممم ہمممممممممممم یہ ہوئی نا بات نوید بھائی پہلے تو مجھے اس بات کی خوشی ہے کے آپ جیسے اچھے مخلص اور پیارے انسان سے میری فون پر بات ہو چکی ہے میں بہت خوش ہوں
میں آفس میں غزل پر آپ کی رائے پڑھ کر خوش ہو رہا ہوں اور میرے ساتھی مجھ پر ہنس رہے ہیں کے میں اکیلے اکیلے مسکرا رہا ہوں خیر پہلے کی طرح اب بھی آپ نے بہت اچھی رائے دی مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ میں بہتر سے بہتر کی طرف جا رہا ہوں بہت شکریہ میں کوشش کرتا ہوں بہت شکریہ
 

جاسمن

لائبریرین
اسے دیکھے بنا آنکھیں برستی ہیں نہ ہنستی ہیں
جدائی بھی نہیں کٹتی اذیت بھی پرانی ہے
بہت خوب
 
Top