سید زبیر
محفلین
اثرِ آہِ دلِ زار کی افوائیں ہیں
یعنی مُجھ پر کرمِ یار کی افوائیں ہیں
شرْم، اے نالۂ دِل! خانۂ اغیار میں بھی
جوشِ افغانِ عزابار کی افوائیں ہیں
کب کیا دل پہ مرے، پندونصیحت نے اثر؟
ناصحِ بیہودہ گفتار کی افوائیں ہیں
جنسِ دل کے وہ خریدار ہوئے تھے کس دن؟
یہ یونہی کوچہ وبازار کی افوائیں ہیں
قیس وفرہاد کا منہ؟ مجھ سے مقابل ہونگے؟
مَردُمِ وادی وکُہسار کی افوائیں ہیں
یہ بھی کچھ بات ہے، میں اور کروں غیر سے بات؟
تم نہ مانو، کہ یہ اغیار کی افوائیں ہیں
کس توقع پہ جئیں شیفتہ، مایوسِ کرم؟
غیر پر بھی ستمِ یار کی افوائیں ہیں
نواب محمد مصطفیٰ خان شیفتہ