نوید اکرم
محفلین
اتنی پریوں میں وہ ہی جاناں ہے
درد کا میرے وہ ہی درماں ہے
جو ہے روشن خیال و خوش صورت
میری ہو جائے میرا ارماں ہے
ساتھ اس کا ہو تو کٹھن یہ سفر
سہل ہے کتنا! کتنا آساں ہے!
میں اسے بے پناہ چاہتا ہوں
اور وہ ہے کہ مجھ سے نالاں ہے
ناز ہے یاں کسی کو رتبے پر
کوئی دولت پہ اپنی نازاں ہے
ہے کروڑوں میں بھی کوئی نا خوش
اور ہزاروں میں کوئی شاداں ہے
وہ پیا گھر کو جائے تو کیسے!
ہر کوئی مال و زر کا خواہاں ہے
ڈال دیتا ہے سب مقدّر پر
آدمِ وقت کتنا ناداں ہے!
درد کا میرے وہ ہی درماں ہے
جو ہے روشن خیال و خوش صورت
میری ہو جائے میرا ارماں ہے
ساتھ اس کا ہو تو کٹھن یہ سفر
سہل ہے کتنا! کتنا آساں ہے!
میں اسے بے پناہ چاہتا ہوں
اور وہ ہے کہ مجھ سے نالاں ہے
ناز ہے یاں کسی کو رتبے پر
کوئی دولت پہ اپنی نازاں ہے
ہے کروڑوں میں بھی کوئی نا خوش
اور ہزاروں میں کوئی شاداں ہے
وہ پیا گھر کو جائے تو کیسے!
ہر کوئی مال و زر کا خواہاں ہے
ڈال دیتا ہے سب مقدّر پر
آدمِ وقت کتنا ناداں ہے!