اتنی بے کار رات لگتی ہے

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
مجھ کو میری ہی ذات لگتی ہے
بے تکلف سی رات لگتی ہے

وہ جو ہر اک کی آنکھ کا ہے تارہ
اس مین کوئی تو بات لگتی ہے

یہ مرے گھر میں شور ہے کیسا
یہ غموں کی برات لگتی ہے

حادثوں میں بھی ڈر نہیں لگتا
اک دعا ماں کی ساتھ لگتی ہے

روشنی اس کی گھر میں ہے خرم
میرے حصے میں رات لگتی ہے

سر جی اس کی سرجری فرما دین شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
تم میں بہتری آ رہی ہے خرم۔ مبارک ہو:
اب سرجری۔۔۔۔

مجھ کو میری ہی ذات لگتی ہے
بے تکلف سی رات لگتی ہے

اس کا مطلب واضح نہیں ہوا۔ ذرا واضح کہو۔

وہ جو ہر اک کی آنکھ کا ہے تارہ
اس مین کوئی تو بات لگتی ہے
پہلا مصرع وزن سے خارج ہے۔ ’جو‘ زائد ہے۔ وہ ہے ہر اک کی آنکھ کا تارا
یا کیوں کہ ’ہے ہر‘ میں ’ہ‘ کی تکرار بھلی نہیں لگتی تو یوں کہہ سکتے ہیں
وہ ہر اک کی ہے آنکھ کا تارا

یہ مرے گھر میں شور ہے کیسا
یہ غموں کی برات لگتی ہے
’یہ‘ کی تکرار سے بچنے کی ترکیب سوچو۔۔ ’میرے گھر میں ہے شور سا کیسا‘ کیسا لگے گا؟
یا پہلا مصرع یوں ہی رکھو تو دوسرے مصرعے کو یوں کہیں تو۔۔
یہ مرے گھر میں شور ہے کیسا
کچھ دکھوں کی برات لگتی ہے
(ابھی خیال آیا کہ برات کے ہندی لفظ کے ساتھ ’دکھوں‘ زیادہ بہتر ہے۔)

حادثوں میں بھی ڈر نہیں لگتا
اک دعا ماں کی ساتھ لگتی ہے
’ساتھ‘ کو ’سات‘ ہی لکھ دو، درست مانا جاتا ہے اسے بھی۔

روشنی اس کی گھر میں ہے خرم
میرے حصے میں رات لگتی ہے
اس کا مطلب بھی واضح نہیں ہوتا۔ اگر پہلا مصرع درست مانا جائے تو۔۔
ہاں
’روشنی اس کے گھر میں ہے خرم‘
ہو تو مطلب درست ہوتا ہے کہ اس کے گھر میں روشنی ہے اور شاعر کے حصے میں اندھیرا یا رات کا راج ہے۔۔
لیکن زیادہ نازک خیالی اسی مصرعے میں ہے کہ
روشنی اس کی گھر میں ہے خرم
اس صورت میں دوسرا مصرع بدل دو۔ مثلآ
جا چکی جیسے رات، لگتی ہے
دوسرے اساتذہ اور سخنوران کا کیا خیال ہے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اتنی بے کار رات لگتی ہے
مجھ کو میری ہی ذات لگتی ہے

وہ ہر اک کی ہے آنکھ کا تارا
اس میں کوئی تو بات لگتی ہے

یہ مرے گھر میں شور ہے کیسا
کچھ دکھوں کی برات لگتی ہے

حادثوں میں بھی ڈر نہیں لگتا
اک دعا ماں کی سات لگتی ہے

روشنی اس کے گھر میں ہے خرم
میرے حصے میں رات لگتی ہے
 
Top