اب عاشقی میں رب کو گواہ کر چکے ہیں ہم

اب عاشقی میں رب کو گواہ کر چکے ہیں ہم

یعنی کہ تجھ کو ٖحرف دعا کر چکے ہیں ہم

شعلوں سے اب تو عہد وفا کر چکے ہیں ہم

اب عشق کو ہی اپنی دواکر چکے ہیں ہم

یعنی تمہاری قید سے باہر نہیں ہے کچھ

یعنی انا کو خود سے جدا کرچکے ہیں ہم

یعنی تمہارے بعد ہے دنیا میں کچھ نہیں

تیری بقا میں اپنی بقا کر چکے ہیں ہم

طاقت نہیں کہ تیری جدائی اٹھائیں ہم

ہمت نہیں پہ تیرا کہا کر چکے ہیں ہم

یعنی ہمارے پاس تو اب کیا ہے کچھ نہیں
 

الف عین

لائبریرین
گواہ کوگوا‘ بنا دینا درست نہیں۔ یہ قافیہ غلط ہے۔ آخری مصرع مجرد ہے شاید کاپی پیسٹ نہیں ہو سکا۔
 
Top