اب دلی دور نہیں

ابو یاسر

محفلین
سنڈے کو ہمارے خالہ جن کی بائی پاس سرجری ہوئی ہے ان کی عیادت کو جانا تھا اس کے لیے معذرت کے ساتھ آگے کنٹی نیو کرتا ہوں ۔۔

نعرے بازی کا شور !

ارے نہیں نہیں یہ چوہوں کا شور تھا جو اب پیٹ میں کود رہے تھے :) پروفیسرس اور دیگر اساتذہ سے ملنے کے بعد اب دوپہر کے 3 بج رہے تھے اور بھوک لگ رہی تھی خفیہ طور پر سعود بھائی نے کسی صاحب کو فون کیا اور راستے میں ملنے کا طے کیا، ابھی جامعہ سے نکل ہی رہے تھے کہ ایک باریش حضرت ملے سلام کلام کے بعد یہ صاحب جس انداز سے جامعہ کی معلومات دی اس سے یہی لگا کہ یہ جناب ایڈمن میں سے ہیں۔ انہیں کے ذریعے یہ بھی پتہ چلا کہ اب جامعہ کو مائنارٹی کوٹہ دے دیا گیا ہے اور دوسرے ایس ٹی اور او بی سی جیسے ریزرویشن کےبندشوں سے آزاد کر دیا گیا ہے۔

خیر، اب واپسی میں ان کے گھر کے قریب ایک صاحب ملے جن کا نام ضیاء الحق تھا اب ہماری ٹرپل سواری سعود بھائی کے گھر کی طرف چلی جارہی تھی۔

تیسرے منزل پر فلیٹ کا دروازہ کھلا اور ایک مانوس سی اور لبھاونی خوشبو سے دل دماغ خوش ہوگیا ایسا لگا کہ کچھ زیادہ ہی خاص پکا ہے میں نے ضیاء الحق بھائی سے کہا کہ لگتا ہے آج کوئی زبردست چیز بنی ہے۔

ہاتھ منہ دھوکر کھانے کے میز پر بیٹھے تو دیکھا کہ بریانی پکی ہوئی ہے اور ذائقہ تو واقعی ایکس کلوسیو، شاید بریانی پکانے کے لیے دلی والوں کے پاس کوئی خاص طریقہ ہے جبھی تو اتنا مشہور ہے۔

کھانے کے ساتھ پورا پورا انصاف کرنے کے باوجود بھی سعود بھائی کا اسرار تھا کہ اور لو، مگر ناچاہتے ہوئے روایتی طور پر انکار کیا :) اور کھانے کا پروگرام ختم ہوا۔

باقی دن کا پروگرام اردو بازار جو کہ جامع مسجد کے پاس ہے وہاں سے کتابیں خریدنا تھا گو کہ بھائی نے پہلے ہی بتایا تھا مگر میں سمجھا کہ پروگرامنگ یا کمپیوٹنگ کی کوئی کتاب لینا ہے مگر بھائی نے اردو کی کم یاب اور نایاب کتابیں خریدنا تھی جو کہ بعد میں اردو محفل میں شامل ہوں گی۔

ان شاء اللہ
 
Top