ابے مرغی کے بچے !

نوید صادق

محفلین
دس ستمبر کو براعظم جنوبی امریکہ کے غریب ترین ملک بولیویا کے صدر ایوو مورالیس نے امریکی سفیر فلپ گولڈ برگ کو یہ کہتے ہوئے ملک سے نکال دیا کہ وہ حزبِ اختلاف کو حکومت کے خلاف اکسا رہے ہیں۔امریکہ نے جوابیِ کارروائی کرتے ہوئے بولیویائی سفیر کو واشنگٹن چھوڑنے کا حکم دے دیا۔

گیارہ ستمبر کو وینزویلا کے صدر ہیوگو شاویز نے اپنے ہزاروں حامیوں کے سامنے یہ کہتے ہوئے کہ ’جہنم میں جاؤ غلیظ یانکیو ہم خودار لوگ ہیں‘ امریکی سفیر پیٹرک ڈوڈی کو وینزویلا سے نکل جانے اور واشنگٹن سے اپنا سفیر واپس بلانے کا حکم جاری کردیا۔شاویز نے کہا کہ جب نئی امریکی انتظامیہ آئے گی تو ہم بھی اپنا سفیر واپس بھیج دیں گے۔واضح رہے کہ امریکہ وینزویلا کا سب سے بڑا تجارتی ساجھیدار ہے اور وینزویلا سے سالانہ چالیس بلین ڈالر کا تیل خریدتا ہے۔
بارہ ستمبر کو وسطی امریکہ کے ملک ہنڈوراس کے صدر مینوئیل زی لایا نے بولیویا اور وینزویلا سے اظہارِ یکجہتی دکھاتے ہوئے نئے امریکی سفیر سے اسنادِ سفارت وصول کرنے سے انکار کردیا۔

بولیویا، وینزویلا اور ہنڈوراس اس خطے میں ہیں جسے امریکہ ہمیشہ سے اپنے حلقہ اثر سمجھتا ہے۔تینوں میں سے کوئی بھی ایٹمی طاقت نہیں ہے اور تینوں امریکہ کی ایک ہفتے کی فوجی مار بھی نہیں سہہ سکتے۔ تینوں ممالک نہ تو امریکہ کے قریب ترین اتحادی ہیں۔نہ ہی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے ہراول امریکی دستے میں شامل ہیں۔
یہ القابات تو امریکہ نے سولہ ہزار کلومیٹر دور پاکستان کے لیے مختص کررکھے ہیں جس پر تین ستمبر کے بعد سے ہر دوسرے روز زمینی یا فضائی حملے ہورہے ہیں۔اور یہ حملے بھی صدر بش کے اس دوماہ پرانے خفیہ اجازت نامے کے تحت ہورہے ہیں جس کی بھنک صدر بش سے ملاقات کرنے والے وزیرِ اعظم گیلانی کو بھی لگنے نہیں دی گئی۔

یہ حملے اس وفادار ملک پر ہورہے ہیں جس نے بقول امریکہ القاعدہ کے سب سے زیادہ لوگ پکڑ کر اس کےحوالے کیے ہیں۔جس کے سینکڑوں فوجی طالبان اور القاعدہ کے تعاقب میں مارے جاچکے ہیں اور جتنے امریکی شہری گیارہ ستمبر دوہزار ایک کو نیویارک میں مرے تھے ان سے کہیں زیادہ پاکستانی شہری خودکش بمباروں کا شکار بن چکے ہیں۔

اس پس منظر میں پاکستانی فوج اور حکومت کیا کسی داخلی، خارجی اور عسکری حکمتِ عملی پر بیک زبان متفق ہیں۔یہ سوال ہر کوئی پوچھ رہا ہے۔

بری فوج کے سربراہ جنرل کیانی کہتے ہیں کہ ہم کسی بھی حملے کا ٹھوس جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔وزیرِ اعظم گیلانی کہتے ہیں ہم امریکہ اور برطانیہ کو پاکستان کی خوش نیتی پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔صدر آصف زرداری لندن جا کر بش کے ہمنوا وزیرِاعظم گورڈن براؤن سے تو مل رہے ہیں۔لیکن ان کا برسلز کے ناٹو ہیڈکوارٹرز جانے کا کوئی پروگرام نہیں جس نے یکطرفہ امریکی کاروائیوں سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔

سب سے نفیس بیان وزیرِ دفاع چوہدری احمد مختار کی طرف سے آیا ہے۔بقول انکے پاکستان اپنے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ دفاع تلوار سے ہی کیا جائے۔اگر عدم تشدد کے پیمبر گاندھی جی حیات ہوتے تو احمد مختار کا منہ چوم لیتے۔

ایک مرتبہ بھرے بازار میں ایک زوال گزیدہ نواب صاحب کو ان کے ایک قرض خواہ نے گریبان سے پکڑ لیا اور بے نقط سنانا شروع کردیا۔نواب صاحب نے کہا کہ دیکھئے صاحب آپ ہمیں ننگی ننگی گالیاں نہ دیں ورنہ ہم بھی آپ کو ایسی گالی دیں گے کہ آپ کی نسلیں یاد رکھیں گی۔قرض خواہ غنڈے نے کہا نواب کے بچے ہمت ہے تو گالی دے !

نواب صاحب اپنی آنکھوں میں خون اتارتے ہوئے چیخے ابے مرغی کے بچے ہمارا گریبان چھوڑ!

(وسعت اللہ خان)
بی بی سی اردو ڈاٹ کام،اسلام آباد
 
Top