ابن انشاء ،ایک تعارف

نیلم

محفلین
ابن انشاء:
-----------
( آج (11 جنوری) ابن انشاء کی برسی ہے، یہ پوسٹ اسی مناسبت سے کی گئی ہے۔ )

ایک تعارف:

اصلی نام شیر محمد خان ،اور تخلص انشاء۔ آپ 15 جون 1927 کوجالندھر کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ 1946ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور 1953ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ 1962ء میں نشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ٹوکیو بک ڈوپلمنٹ پروگریم کے وائس چیرمین اور ایشین کو پبلی کیشن پروگریم ٹوکیو کی مرکزی مجلس ادارت کے رکن تھے۔ روزنامہ جنگ کراچی ، اور روزنامہ امروز لاہورکے ہفت روزہ ایڈیشنوں اور ہفت روزہ اخبار جہاں میں ہلکےفکاہیہ کالم لکھتے تھے۔

ابنِ انشاءشاعر بھی ہیں‘ ادیب بھی۔ انہوں نے غزلیں‘ نظمیں اور گیت لکھے۔ شاعری میں ان کا ایک مخصوص انداز ہے۔ وہ کبھی کبیرداس کا لہجہ اختیار کرتے ہیں اور انسان دوستی کا پرچار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایک انسان کو دوسرے انسان سے محبت کا سبق دیتے ہیں۔ کہیں اپنے اشعار میں زندگی کی اداسیوں ‘ محرومیوں اور دکھوں کا میرتقی میر کی طرح اظہار کرتے ہیں اور کہیں نظیر اکبر آبادی کی طرح علاقائی اور عوامی انداز اختیار کرتی ہیں اور بڑی سادگی‘ روانی اور عوامی زبان میں عوام کے احساس کو اردو ادب کا جامہ پہناتے ہیں۔

نثر کے میدان میں انہوں نے طنز نگاری کا انداز اختیار کیا۔ طنز میں مزاح کی آمیزش نے ان کی تحریروں کو زیادہ پر اثر بنایا دیا۔ عوام سے قریب ہونے کے لئے انہوں نے اخبارات میں کالم نویسی کا آغاز کیا‘ سفرنامے لکھے‘ اس طرح اپنے مشاہدات اور تجربات کو طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کرکے شہرت حاصل کی۔ اردو ادب کی ان مختلف اصناف میں ابنِ انشاءنے بڑا نام کمایا۔ طبیعت کی جولانی اور شگفتگی‘ مزاج کی حس لطافت و ظرافت اور طنز کی تراش و خراش‘ غرضیکہ سب ہی کچھ ان کی تحریروں سے نمایاں ہے۔
ابن انشاء سرطان جیسے موذی مرض کا شکار ہو کر بغرض علاج لندن گئے اور گیارہ جنوری 1978کو وہیں وفات پائی ۔ وفات کے بعد انہیں کراچی میں دفن کیا گیا۔ابن انشاء اس وقت ہمارے ساتھ موجود نہیں مگر ان کی یادیں چاہنے والوں کو دلوں میں زندہ ہیں ۔

تصانیف:
--------
شعری کلام:

چاند نگر ( پہلا مجموعہ
اس بستی کے اک کوچے میں دوسرا مجموعہ
چینی نظمیں

نثری تصانیف:

اردو کی آخری کتاب
خمار گندم
چلتے ہو تو چین کو چلئے
آوارہ گرد کی ڈائری
دنیا گول ہے
ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں

نمونہ کلام:
-------------
(ابن انشاء کی غزل جس کے لکھنے کے ایک ماہ بعد وہ فانی دنیا سے رخصت ہوگئے۔)

انشإ جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا
اس دل کے دریدہ دامن میں دیکھو تو سہی،سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے،اس جھولی کا پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا، زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانہ کیا
اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں اور چھو نہ سکیں
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں، وہ دولت کیا خزانہ کیا
انشإ جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جو کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا

----------

ابھی تو محبوب کا تصور بھی پتلیوں سے مٹا نہیں تھا
گراز بستر کی سلوٹیں ہی میں آسماتی ہے نیند رانی
ابھی ہو اول گزرنے پایا نہیں ستاروں کے کارواں کا
ابھی میں اپنے سے کہہ رہا تھا شب گزشتہ کی اک کہانی
ابھی مرے دوست کے مکاں کے ہرے دریچوں کی چلمنوں سے
سحر کی دھندلی صباحتوں کا غبار چھن چھن کے آ رہا ہے
ابھی روانہ ہوئے ہیں منڈی سے قافلے اونٹ گاڑ یوں کے
فضا میں شور ان گھنٹیوں کا عجب جادو جگا رہا ہے
 

شیزان

لائبریرین
آج کے دن کی مناسبت سے انشاء جی کی
ایک نظم آپ سب کی نذر
جنوری کی سرد راتیں ہیں طویل
دل بہلنے کی نہیں کوئی سبیل
جنوری کی سرد راتیں ہیں طویل
ڈالتا ہوں اپنے ماضی پر نِگاہ
گاہےگاہے کھینچتا ہوں سرد آہ
کِس طرح اب دل کو رہ پر لاؤں میں
کِس بہانے سے اِسے بہلاؤں میں
مجھ کو تم سے عشق تھا،مدت ہوئی
اُن دنوں تم کو بھی الفت مجھ سے تھی
کم نگاہی، اقتضائے سال و سن
کیا ہوئی تھی بات جانے ایک دن
تم غلط سمجھے، ہوا میں بدگماں
بات چھوٹی تھی مگر پہنچی کہاں
جلد ہی میں تو پشیماں ہوگیا
تم کو بھی احساس کچھ ایسا ہوا
نشئہ پندار میں لیکن تھے مست
تھی گراں دونوں پہ تسلیم ِ شکست
آج تک دیتے رہے دل کو فریب
اب نہیں ممکن ذرا تاب ِ شکیب
آؤ میرے دیدہء تر میں رہو
آؤ اِس اجڑے ہوئے گھر میں رہو
حوصلے سے میں پہل کرتا تو ہوں
دل میں اتنا سوچ کر ڈرتا بھی ہوں
تم نہ ٹھکرا دو میری دعوت کہیں
میں یہ سمجھوں گا اگر کہہ دو، نہیں
گردش ِایام کو لوٹا لیا
میں نے جو کچھ کھودیا تھا، پا لیا
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت شکریہ نیلم ۔۔۔۔!

ابنِ انشاء کی کیا بات ہے۔

اتنی مسکراتی تحریریں اور ایسے دل کو چھو جانے والے اشعار۔۔۔۔!

جتنا سراہا جائے کم ہے۔
 
Top