ابر و باراں ہی نہ تھے بحر کی یورش میں شریکدکھ تو یہ ہے کہ ہے ملاح بھی سازش میں شریک تا ہمیں ترکِ تعلق کا بہت رنج نہ ہوآؤ تم کو بھی کریں ہم اِسی کوشش میں شریک اک تو وہ جسم طلسمات کا گھر لگتا ہےاس پہ ہے نیتِ خیاط بھی پوشش میں شریک ساری خلقت چلی آتی ہے اُسے دیکھنے کوکیا کرے دل بھی کہ دنیا ہے سفارش میں شریک اتنا شرمندہ نہ کر اپنے گنہگاروں کواے خدا تُو بھی رہا ہے مری خواہش میں شریک لفظ کو پھول بنانا تو کرشمہ ہے فرازؔہو نہ ہو کوئی تو ہے تیری نگارش میں شریک (احمد فراز)(اے عشق جنوں پیشہ، ص170)