آ کو پریشر ایک کرشماتی علاج ۔ نہ دوا کھانے کی ضرورت نہ بد اثرات کا خطرہ

گوہر

محفلین
تحریر و تحقیق: محمد الطاف گوہر
mrgohar@yahoo.com
بیماری ایک ایسی کیفیت کا نا م ہے جو کہ قدرت کے قوانین صحت کو توڑنے کا نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے، جسکے باعث انسانی اعضاء اپنا متناسب اور معتدل عمل تبدیل کر کے سست روی یا عجلت کا شکار ہو جاتے ہیں اور انسان اپنے آپ کو ایک نئی اور تکلیف دہ حالت میں محسوس کرتا ہے ۔روحانیت اور ہومیوپیتھی پیتھی کی رو سے بیماری پہلے انسان کی روح میں پیدا ہوتی ہے اور پھر اسکے جسم پے نمودار ہوتی ہے لہذا اسکی روح کا علاج کیا جاتا ہے اور جسم خود بخود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے ۔میرے کچھ پرانے کالم اگر ملاحظہ کریں تو بیماری اور جدید علاج پہ بہت تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور مائنڈ سائنس اور خود تنویمی کے حوالے سے چند ایک تجرباتی علاج بھی بیان کئے گئے ہیں ۔علاوہ ازیں اسماالحسٰنی کی رو سے مراقبہ سلامتی کا طریقہ کا بھی وضع کیا گیا ہے ۔البتہ سانس کے تبدیلی کے عمل یعنی متبادل طرز تنفس کے معجزاتی عمل کو اگلے کسی کالم میں بیان کروں گا۔ طریقہ علاج چاہے کوئی بھی ہو الہامی ذرائع کے بیان کردہ حل سے بہتر اور کوئی نہیں جبکہ اسکے مطابق بیماری انسانی بد اعمال کا شاخسانہ ہے اور اس کا اولین اور آخری حل اللہ کے حضور انتہائی عاجزی اور انکساری سے دعا ہے ، کیونکہ تمام طریقہ کار جو شفایابی کی طرف لیجاتے ہیں انکا کام صرف ایک کو شش ہے اور اپنے اپنے درجہ پہ رہتے ہوئے انسان کو حالت تکلیف سے نجات دلانا ہے جو کہ اکثر اوقات وقتی نوعیت کی ہوتی ہے جبکہ دائمی حل اور شفا یابی کا عمل ایک علیحدہ اہمیت رکھتا ہے اور اسکا دارومدار رحمت خداوندی پر ہے۔
بیماری کے دوران انسان کو امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور ایک ہی طریقہ علاج پہ تکیہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ جو بھی طریقہ احسن ہو اور نقصانات کا خطرہ کم ہو اسکو اختیار کرنا چاہیے جبکہ ہر عمل اپنے طریقہ کار پہ وضع ہے اور شفایابی کیطرف لیجاتا ہے ۔ ہر مسلمان کا ایمان ہونا چاہیے کہ شفا صرف اللہ کی طرف سے حاصل ہوتی ہے ۔ جبکہ قرآن کریم میں واضع طور پر بیان کیا گیا ہے کہ
” اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو اللہ ہی مجھے شفا دیتا ہے ” الشعرا ء ۸۰
انسانی ارتقاء کا سفر بہت عمدگی سے جاری ہے ؛ تکالیف اور بیماریوں سے نبٹنے کیلئے نت نئے طریقہ علاج تلاش کیے گیے ہیں جبکہ جدید دور کی جدید بیماریاں ہیں اور جدید طریقہ علاج بھی موجود ہیں مگر آ کو پریشر ایک قدیم چین کا طریقہ علاج جو انتہائی کرشماتی نتائج کا حامل ہے اس طریقہء علاج میں ادویہ کا کوئی عمل دخل نہیں۔دنیا میں جتنے بھی رائج طریقء علاج ہیں ان سب میں تقریباً ادویہ کا استعمال پیش پیش ہے ؛ اگر شفایابی بغیر ادویہ کے حاصل ہو جائے اور کسی قسم کے بد اثرات کا بھی خدشہ نہ ہو ؛ ایسے طریقہ علاج کو آپ آ کو پریشر کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ ایک چین کا قدیم طریقہ علاج ہے۔ اسکی اہمیت اور افادیت کو سمجھنا آج اس لئے ضروری ہے کہ مختلف ادویہ کے استعمال بد اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور اگر دوا کھائے بغیر کسی تکلیف سے چھٹکارہ حاصل ہو جائے تو غنیمت جانیے ۔ دوسرا ایک حدیث مبارکہ ﷺ میں بھی وضاحت موجود ہے کہ
” علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے”
علم کا حصول اور اسکی اہمیت کا اندازہ تو آپکو حدیث مبارکہ ﷺ سے ہو چکا ہو گا ۔ جبکہ اللہ نے ہمیں عقل جیسے اِنعام سے نوازا گیا ہے کہ جو علم کی روشنی میں دیکھتی ہے اور علم وہ نور ہے جو ہمارا رابطہ ہماری خودی (میں، Self) سے کروا دیتا ہے ۔
چین کا قدیم طریق علاج صرف اور صرف انسانی جسم میں توانائی کے عمل کو متوازن رکھنے سے متعلق ہے ؛ ایک نظریہ کے مطابق انسانی جسم میں بائیو انرجی؛ توانائی احاطہ کئی ہوئے ایک دائمی بہاو میں ہے جبکہ اس توانائی کو زندگی کی طاقت کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔اس توانائی کا بہاو جن راہوں سے ہو تا ہے انکو نصف النہار meridians کہا جاتا ہے اور انکی تعداد ۱۴ بتائی جاتی ہے ۔ اگر اس توانائی کا بہاو ان نصف النہار کے ذریعے سے انسانی جسم سے اندر اور باہر برابر میں یعنی معتدل رہے تو انسان صحت مندی کی حالت میں رہتا ہے ؛ بصورت دیگر اگر اس بہاو میں کسی وجہ سے رکاوٹ آجائے تو اس سے متعلق عضو کا عمل متاثر ہو تا ہے اور انسان بیماری کی حالت میں چلا جاتا ہے۔ لہذا انسانی جسم میں توانائی کے بہاو میں اعتدال رکھنے اور اسکی راہ میں حائل رکاوٹ کو ختم کرنے کیلئے کچھ جگہیں مخصوص کی گئیں ہیں جو کہ تقریباً چار سو سے پانچ سو کے قریب ہیں جن کو کسی خاص عضو سے متعلق تصور کیا جاتا ہے ۔ ان مقامات پر دو علیحدہ طریق سے اثر انداز ہو جاتا ہے ۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ کچھ سوئیاں ان مقامات پر انسانی جسم کی اوپر والی جلد میں داخل کر دی جاتی ہیں جو کہ توانائی کے بہاو کا تسلسل دوبارہ معتدل کر دیتی ہے اور اس طریقہ کار کو آ کو پنکچر کہتے ہیں اور اگر ان مقامات پر ہاتھ کی مدد سے دباؤ ڈالا جائے اور وہی مقاصد حاصل کئے جائیں تو اسے آ کو پریشر کہتے ہیں۔ آ کو پریشر میں ہاتھوں کی انگلیوں سے مدد لی جاتی ہے جن سے جسم پر ان اہم مقامات کو دبایا جاتا ہے جو کسی بھی بیماری سے متعلق عضو سے وابستہ ہوں جبکہ اسکے باعث جسمانی پٹھوں میں تناو اور بھی ختم ہوتا ہے اور دوران خون میں بھی روانی بھی آ جاتی ہے توانائی کا بہاو بھی معتدل ہو جاتا ہے۔ آ کو پریشر میں دونوں ہاتھوں اور پاوں کے پوائنٹس کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ مگر پھر بھی یاد رکھیں اس آ کو پریشر کے کسی عمل کو کسی بھی سٹینڈرڈ طریقہ علاج کا مکمل متبادل تصور نہ کر لیں اور اگر کوئی بھی تکلیف برقرار رہے تو ڈاکٹر سے رجوع ضرور کریں ۔
آ کو پریشر کے اس طریقہ کار کو سمجھنا انتہائی آسان ہے؛ سب سے پہلے تکلیف سے متعلق پوائنٹ کو معلوم کریں پھر اس عمل کر سر انجام دینے کیلئے آپ اپنے ہاتھ کی شہادت والی انگلی کی نوک ؛ یا اس کو خم ڈال کر اسکی ٹو سے کسی بھی پوائنٹ کو دبا سکتے ہیں ۔آپ اپنی انگلی سے کسی بھی مطلوبہ مقام یا پوائنٹ کو 15 سے 30 سیکنڈ دبائے رکھیں جس کے نتیجے میں توانائی کا بہاو معتدل ہو جائے گا اور تکلیف سے بھی چھٹکارا حاصل ہو جائے گا۔ آپ کو یہ جان کر انتہائی خوشی ہو گی کہ آپ کو اس عمل کیلئے سارے جسم کی مقامات جاننے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف دونوں ہاتھوں کے پوائنٹس ہی کافی ہیں جن کو دوسرے ہاتھ کی انگلی یا انگوٹھے سے دبا کر بہترین اور فوری نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ یہ طریقہ میرا آزمودہ بھی ہے اور انتہائی آسان بھی ۔ اس طریقہ کار سے اکثر ایمرجنسی معاملات سے بخوبی نبٹا جا سکتا ہے جبکہ کئی بار پرانے امراض سے بھی چھٹکارا دیکھنے میں آیا ہے ۔
اسلام کے ایک اہم رکن نماز میں ؛ قیام ؛ رکوع؛ سجدہ اور قعدہ میں اگر ایک طرف ہم اس کائنات کی دوسری مخلوقات کے طریق عبادت کو بھی شامل رکھتے ہیں ؛ تو دوسری طرف قیام کی حالت میں 11 سے 15 پوائنٹس پر دباؤ پڑتا ہے ؛ پھر رکوع میں اور سجدے میں ہتھیلی ؛ پیشانی ؛ پاوں کی انگلیوں اور گھٹنے پر یعنی جسم پر کسی نہ کسی طور دباؤ پڑتا ہے اور قعدہ) میں پاوں کی انگلیوں پر مکمل وزن پڑتا ہے جو کہ ایک قدرتی طور آ کو پریشر کا اہتمام بھی ہوتا ہے ۔

دونوں ہاتھوں سے متعلق پوائنٹس کی تفصیلات کی تصاویر اور مختلف بیماروں سے متعلق پوائنٹس کی لسٹ کیلئے یہاں کلک کریں، آپکو مکمل معلومات سے آگاہی بھی رہے گی اور گاہے بگاہے ان بیماریوں سے متعلق پوائنٹس اپ ڈیٹ بھی ہوتے رہیں گے
 

گوہر

محفلین
شکریہ ، دونوں طریقہ علاج میں بنیادی فرق کی وضاحت کر دی گئی ہے ۔ البتہ علا ج کی فلاسفی کی بنیاد ایک ہے جسکا تذکرہ بھی موجود ہے ، لگتا ہے آپ نے اس مضمون کو سرسری طور پڑھا ہے
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت عمدہ معلومات ہے، میری وائیف اس طریقہ سے اپنے سر درد کا علاج خود ہی کر لیتی ہے 100 فیصد ، میں بھی کبھی کبھی آزما لیتا ہون اور بہت فائدہ ہوتا ہے، سنا ہیکہ اس طریقہ سے شگر اور بلڈ پریشر کو بھی نہ صرف کنٹرول کیا جاسکتا ہے بلکہ علاج بھی ممکن ہے۔
 
Top