::: آیات کے ٹکڑے جوڑ کر اپنی مرضی کی آیت بنانے کے جھوٹے اِلزام کا جائزہ:::

((( ان شاء اللہ مضمون کے آخری حصے میں برقی نسخہ اتارنے کا ربط مہیا کر دوں گا تا کہ عربی عبارات درست طور پر پڑھی جا سکیں اور بات کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو ))) ::: آیات کے ٹکڑے جوڑ کر اپنی مرضی کی آیت بنانے کے جھوٹے اِلزام کا جائزہ:::

أٔمیر المؤمنین فی الحدیث إِمام محمد بن إِسماعیل بخاری رحمہُ اللہ و رفع درجاتہُ و لو کَرِہِ المنافقون ، پر آیات کے ٹکڑے جوڑ کر اپنی مرضی کی آیت بنانے کے جھوٹے اِلزام کا جائزہ
الحَمدُ للہ ، الذی أرسل رَسولہُ بالھُدیٰ ، و أنطقہُ بالوحی یُوحیٰ ، و أشھد لَہُ أنّہ لا ینطِقُ عن الھویٰ ، بل کلامہ وحی الذی الیہ یُوحیٰ ،و أخبرنا أنّہُ مَن کذّب و تولیٰ فلا یُطیع ُرسولہُ فسوف یُدخِلہُ النَّار التلظیٰ
تمام اور خالص تعریف اللہ ہی کا حق ہے ، جِس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا ، اور اُسے اپنی وحی کے مطابق کلام کروایا ، اور اپنے رسول کے بارے میں گواہی دہی کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق بات نہیں کرتا ، اور ہمیں خبر دی کہ جو کوئی بھی اللہ کی بات کو جُھٹلائے گا اور اُس سے رُوگردانی کرے گا پس اُس کے رسول کی اطاعت نہیں کرے گا اللہ ایسے ہر شخص کو بڑھکتی ہوئی آگ میں داخل کرے گا ۔
میرے معرز و محترم کلمہ گو مسلمان بھائیو اور بہنو ، اور دیگر قارئین کرام ،
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
مذکورہ بالا عنوان کے مطابق کچھ لکھنے سے پہلے میری گذارش یہ ہے کہ احادیث شریفہ ، اور ہم مسلمانوں کے جلیل القدر اِماموں رحمہم اللہ کی شان میں گستاخی کرنے والے بد دیانتوں کے جھوٹے الزامات کے بارے میں میری طرف سے پیش کئی گئی معلومات پر مشتمل سب ہی مضامین کا مطالعہ ضرور کیجیے ،
تا کہ آپ صاحبان کو یہ اندازہ ہو سکے کہ میں نے اِن لوگوں کے بارے میں بات کرتےہوئے اپنی عادت اور اپنے معمول سے ہٹ کر کچھ سخت کلامی والا انداز کیوں اپنایا ہے ؟
مذکورہ بالا عنوان ، ایک ایسے ہی بے ہودہ ،بددیانت ،اور اللہ کےدِین کے ، اور اللہ کے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی وسلم کے دُشمن کی طرف سےعائد کیے گئے جھوٹے الزامات پر مشتمل ہے ،
اُس جھوٹے نے اپنے مضمون کا عنوان رکھا """کوئی سی آیات کے ٹکڑے جوڑ کر اپنی مرضی کے مفہوم کی آیت بنا ئیں، جیسا کہ امام بخاری نے باب الاکراہ میں کیا"""،
اور پھر اِس عنوان کے تحت کیا کچھ جھوٹ لکھا ، آیے اللہ جلّ و علا کی توفیق سے اِس کا جائزہ لیتے ہیں ،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں حق جاننے ، پہچاننے ، ماننے اپنانے اور اسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس کے دربار میں حاضر ہونے کی ہمت عطاء فرمائے ،
حسب عادت یہ اعتراض بھی اعتراض کرنے والے کی بد دیانتی یا جہالت پر مبنی ہے ،جیسا کہ پہلے بھی اللہ کی عطاء کردہ توفیق سے اعتراض کرنے والے کی اس قسم کی بددیانتی کو واضح کر چکا ہوں ، اب ان شاء اللہ ایک دفعہ پھر اِس بد دیانتی کو بھی واضح کرتا ہوں ،
جو کچھ یہ شخص لکھتا ہے اُس کے مطابق تو یہ سجھائی دیتا ہے کہ یہ شخص باقاعدہ منصوبہ بندی کے مطابق شعوری یا لاشعوری طور پر اللہ کے دِین کی دُشمنی میں ملوث ہے ، لوگوں کو اللہ کی کتاب قران کریم کا نام لے کر اللہ کے دِین کے دوسرے مصدر ، اللہ کے خلیل محمد رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ سے دُور کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ،
امیر المؤمنین فی الحدیث اِمام محمد بن اسماعیل البخاری رحمۃُ اللہ علیہ ورفع درجاتہُ پرسراسر جھوٹے الزامات لگانا اِس کا مشغلہ ہے ، جب کہ اس کی کتابت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شخص علوم الحدیث میں ایک ادنیٰ سا طالب علم کہلانے کے قابل بھی نہیں ، اُمت کے اُن اماموں رحمہم اللہ جمعیاً کے بارے میں جھوٹ بولنا ، اور اُن کی دیانت اور صداقت پر گند اچھالنا بھی اس کا معمول ہے ، جب کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس شخص کے جھوٹے ہونے کا ثبوت تقریباً اس کی ہر تحریر میسر کر رکھا ہے ،
مذکورہ بالا عنوان کے تحت اس شخص نے امیر المؤمنین فی الحدیث اِمام محمد بن اسماعیل البخاری رحمۃُ اللہ علیہ ورفع درجاتہُ و لو کرہِ المنافقون کے بارے میں جھوٹے الزامات پر مبنی جو کچھ بھی لکھا ہے اُس کے جھوٹے ہونے کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی ہےکہ آپ صاحبان صحیح البخاری کا کوئی بھی مطبوعہ نسخہ لیجیے ، کتاب الاکراہ کھولیے اور دیکھیے کہ وہاں کیا لکھا ہے اور اس جھوٹے نے کیا جھوٹ باندھا ہے ،
اِس اعتراض کرنے والے جھوٹے شخص کے الفاظ کے مطابق کہتا ہوں کہ ، اِس شخص نے امیر المؤمنین فی الحدیث اِمام محمد بن اسماعیل البخاری رحمۃُ اللہ علیہ و رفع درجاتہُ کے ساتھ خیانت کرتے ہوئے اور اُن رحمہُ اللہ پر جھوٹا الزام لگانے کی بے ہودہ جسارت کرتے ہوئےلکھا ہے کہ :::
"""جنا ب قارئین!
آگے ترجمۃ الباب کی عبارت میں امام بخاری صاحب نے تقیہ کے ثبوت اور جواز کے لئے ایک ایسی خیانت اور بیہودہ جسارت کی ہے کہ فیصلہ کس سے کرائیں یعنی ثبوت تقیہ کے لئے قرآن کی آیت 97سورۃ نساء سے لکھتے ہیں :
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ
الْمَآٰءِکَۃ’‘ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ الی قولہٖ وَجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا ۔
محترمین !
اس آیت کے نقل کرتے وقت امام بخاری صاحب نے آدھی آیت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ آگے اتنے تک پڑھتے رہو جتنے تک جملہ
وَجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا (4:75)
محترم قارئین!
یہ جملہ آگے ختم قرآن تک نہیں ہے ۔ دیکھئے کہ امام بخاری پڑھنے والوں کو کتنا دھوکہ دے رہاہے۔ یہ جملہ تو پیچھے اسی سورۃ کی آیت نمبر75کا حصہ ہے جب کہ یہ آیت 97نمبر ہے تو پھر کیا اسے امام بخاری کی حواس باختگی کہا جائے گا، یا قرآن سے لا علمی اور جہالت پن کہا جائے گا ،یا تراویح پڑھانے والوں حافظوں کی طرح متشابہات میں بہک جانا کہا جائے گا،یا پڑھنے والوں کو بیوقوف بنانے کی فنکاری کہاجا ئے گا۔
"""
محترم قارئین ، میں یہاں صحیح البخاری شریف میں سے کتاب الاکراہ کے پہلے باب کے عنوان کو جُوں کا تُوں نقل کر رہا ہوں ۔۔۔"""باب وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى ( إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ،،،،، وَقَالَ ( إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ) وَهْىَ تَقِيَّةٌ ،،،،، وَقَالَ ( إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلاَئِكَةُ ظَالِمِى أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِى الأَرْضِ ) إِلَى قَوْلِهِ ( عَفُوًّا غَفُورًا ) ،،،،، وَقَالَ ( وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا ) ،،،،،فَعَذَرَ اللَّهُ الْمُسْتَضْعَفِينَ الَّذِينَ لاَ يَمْتَنِعُونَ مِنْ تَرْكِ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ ، وَالْمُكْرَهُ لاَ يَكُونُ إِلاَّ مُسْتَضْعَفًا غَيْرَ مُمْتَنِعٍ مِنْ فِعْلِ مَا أُمِرَ بِهِ .
وَقَالَ الْحَسَنُ التَّقِيَّةُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ،،،،،،، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِيمَنْ يُكْرِهُهُ اللُّصُوصُ فَيُطَلِّقُ لَيْسَ بِشَىْءٍ ، وَبِهِ قَالَ ابْنُ عُمَرَ وَابْنُ الزُّبَيْرِ وَالشَّعْبِىُّ وَالْحَسَنُ . وَقَالَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - « الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ »"""
کتاب کے اس حصے کے دو ، ا سکینیڈ امیجز بھی ساتھ لگا رہا ہوں ، یہ نیچے دکھائی دینے والا پہلا امیج اُس عربی نسخے کا ہے جو شام /دمشق سے سن 1997 عیسوئی کا چَھپا ہوا ہے :::
aa7h9e.jpg

اور یہ دوسرا امیج اُس عربی نسخے کا ہے جو پاکستان / کراچی سے سن 1961 عیسوئی کا چَھپا ہوا ہے ،
depe9f.jpg

محترم قارئین ، آپ صاحبان یہ دونوں امیجز بغور دیکھیے ، تا کہ اِس جھوٹے کی بد دیانتی کی مزید وضاحت میسر ہو، کہ اصل کتاب میں امیر المؤمنین فی الحدیث اِمام محمد بن اسماعیل البخاری رحمۃُ اللہ علیہ ورفع درجاتہُ نے کیا لکھا ہے ، اور"""حواس باختہ"""اور""" قران کریم سے جاھل لا عِلم ، متشابہات ہی کیا محکمات میں بھی بھٹک جانے والے"""اور""" پڑھنے والوں کو بیوقوف بنانے کی بے ہودہ لیکن ناکام اداکاری""" کرنے والےاِس دھوکہ باز بوھیونے اصل عبارت """( إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلاَئِكَةُ ظَالِمِى أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِى الأَرْضِ ) إِلَى قَوْلِهِ ( عَفُوًّا غَفُورًا )
وَقَالَ ( وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا ) """میں سے سرخ کردہ حصہ حذف کر کے اپنی عبارت بنا ڈالی اور جو مذموم کام خود کیا یعنی اپنی طرف سے قران کریم کی آیت بنا ڈالی ، اُس کام کا الزام امیر المؤمنین فی الحدیث اِمام محمد بن اسماعیل البخاری رحمۃُ اللہ علیہ ورفع درجاتہُ پر لگا کر چور ڈالے شور کے مصداق سچا بننے کی ادکاری کر ڈالی ، لیکن میرے اللہ نے اِس کی ادکاری کا بھانڈا پھوڑ دِیا ہے و لہُ الحمد والمنۃ ۔
اِس جھوٹے نے حذف شدہ عبارت یوں لکھ دی کہ """اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَآٰءِکَۃ’‘ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ الی قولہٖ وَجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا ۔ """،
کاپی پیسٹ کے چکر میں """المَلائِكَةُ""" میں سے """لام """اور """ واجعَل """میں سے """ الف """ بھی حذف کر گیا ،اور خود کو قران کا عَالِم دکھانے کی جھوٹی کوشش کرتا ہے ، اپنی نفسانی خواہشات اور قران دُشمن مسلک کی تائید کرنے کے لیے خیانت کرتے ہوئےجو عبارت بنائی ، اُس حذف شدہ عبارت کو بنیاد بنا کر اِس جھوٹے شخص نےکس قدر بد دیانتی کے ساتھ ہم مسلمانوں کے ایک سچے متقی صالح زاہد عابد محدث اِمام رحمہُ اللہ و رفع درجاتہُ پر جھوٹے الزام لگائے اور بد کلامی، بد تہذیبی اور بد تمیزی کے مظاہرے کیے !!!، جو اِس کی لکھی ہوئی اور اوپر نقل کئی ہوئی عبارات میں بھی ہیں ، اور مزید بھی کئی عبارات میں ہیں،
اُسی کے انداز میں کہتا ہوں کہ کیا اس بد دیانت جاھل کو صحیح بخاری کی مکمل عبارت دکھائی نہیں دی ؟
یا اس نے جان بوجھ کر یہ خیانت کی ہے ؟
یا اس نے اپنے طور پر کوئی صحیح بخاری لکھ رکھی ہے؟
یا اِس نے کسی حذف شدہ نسخے سے کچھ دیکھ کر مزید نسخے دیکھے پڑھے بغیر اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کی ایک اور مذموم کوشش کر ڈالی !!!؟؟؟
اسی لیے میں نے کہا تھا ، اور پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ شخص یا تو جاھل مطلق ہے ، یا پھر بد دیانت ،
اس کی لکھی ہوئی جھوٹی خرافات پر مبنی تحاریر سے دوسری بات زیادہ عیاں ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
مضمون جاری ہے ، تمام محترم اور معزز قارئین سے گذارش ہے کہ مضمون کی تکمیل تک اپنے مراسلات روکے رکھیں ، اور جو کوئی خود کو محترم اور معزز لوگوں کی صفوف سے باہر سمجھتا ہے وہ اپنا گند اپنے تک ہی سمیٹے رکھے،
مزید گذارش یہ ہے کہ مضمون کی تکمیل کے بعد بھی صرف موضوع سے متعلق مراسلات کیے جائیں ، اور کاپی پیسٹ پر مشتمل مراسلات کرنے سے باز رہا جائے ،میں ایسے تمام مراسلات حذف کروانے کا حق انتظامیہ کے ہاں محفوظ کرتا ہوں ۔
 
::: آیات کے ٹکڑے جوڑ کر اپنی مرضی کی آیت بنانے کے جھوٹے اِلزام کا جائزہ::: دوسرا حصہ :::

گذشتہ سے پیوستہ ::: دوسرا حصہ :::
::: آیات کے ٹکڑے جوڑ کر اپنی مرضی کی آیت بنانے کے جھوٹے اِلزام کا جائزہ::: دوسرا حصہ :::

اس کے بعد آتے ہیں نے امیر المؤمنین فی الحدیث اِمام محمد بن اسماعیل البخاری رحمۃُ اللہ علیہ پر اور ان کی صحیح بخاری پر اعتراض کرنے والے اِس جھوٹے ، خائن کی طرف سے ایک دفعہ پھر اللہ کے کلام کی معنوی تحریف کرنے کی طرف ، اِس بد دیانت جھوٹے نے نے امیر المؤمنین فی الحدیث اِمام محمد بن اسماعیل البخاری رحمۃُ اللہ علیہ پر تو جھوٹ تھونپے ، سو تھونپے ، اللہ کے دِین اور اللہ کے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دُشمنی میں یہ شخص اللہ جلّ و علا پر بھی جھوٹ لگا گیا ہے ، لکھتا ہے :::
""" اس لئے مناسب اور ضروری سمجھتا ہوں کہ میں یہاں پوری آیت نقل کرکے اس کا مفہوم عرض کروں پھر فیصلہ قارئین خود کریں کہ کیا قرآن حکیم جھوٹ بولنے کی اجازت دیتا ہے؟ جس طرح امام بخاری اور اس کے ہمنواؤں نے مشہور کیا ہے ۔پوری آیت ملا حظہ ہو: لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ (3:28)یعنی مومنوں کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی رکھیں ۔اگر کوئی ایسا کرے گا تو پھروہ مکافات کے لئے تیار ہوجائے ۔ایسے لوگوں کے لئے اللہ کا ذمہ ختم ہو جا تا ہے۔اگر تم کفار سے ڈرتے ہو اور تمہیں ان کی طرف سے بڑا کوئی خطرہ ہے جان اور مال کے ضائع ہو جانے تکتو بھی یادرکھوکہوَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُۗیعنی اللہ تمہیں اپنے قوانین کی خلاف ورزی سے ڈراتا ہے ۔وہ اس لئے بھی کہوَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُیعنی مآل کار ، بالآخرانجام تو یہ ہے کہ پھر پھرا کر اللہ کی طرف لوٹنا ہے تو پھر خوف کی حالت میں بھی سچ بولنا ہو گا۔ اور اللہ کے قوانین کی خلاف ورزی کی اجازت کسی بھی حالت میں نہیں ملے گی۔میں نے عرض کیاہے کہ اس سے پہلی آیت (16:106) پر بھی امام بخاری صاحب نے صرف نقل پر اکتفا کیا اور تبصرہ نہیں کیا ۔ اس لئے کہ اس آیت میں صاف صاف ہے ۔إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ مجبور اور اکراہ کئے ہوئے لوگوں کا اپنا کوئی عمل و ارادہ غیر شرعی چیز کے لئے ثابت نہیں ہے ۔اس لئے ان سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔ """
اِس شخص کی قران فہمی میں جہالت اور لا علمی کا اندازہ اس کی لکھی ہوئی بہت سی باتوں سے ہوتا ہے ، مذکورہ بالا اقتباس میں بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شخص قران کریم کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا کلام ، اللہ تبارک وتعالیٰ کی صِفت نہیں سمجھتا ، بلکہ قران کریم کو کوئی ایسی مخلوق سمجھتا ہےجو کسی کو کسی کام کی اجازت دینے یا نہ دینے کی استطاعت رکھتی ہو ، ایسے انداز میں اللہ کے کلام قران پاک کا ذِکر کسی صحیح عقیدے اور منھج والے عَالِم کی طرف سے ہو تو کچھ اندیشہ نال نہیں ہوتی،لیکن جب اِس جیسے متعصب جاھل کی طرف سے ہو تو یقیناً بہت سے اندیشے ابھارنے والی ہوتی ہے، بہر حال یہ اس وقت میرا موضوع نہیں ، صرف اِس جھوٹے خائن کی جہالت کے ایک اور پہلو کی طرف محترم قارئین کی توجہ کروانا چاہتا تھا،
اِس شخص کی لکھی ہوئی اِس منقولہ بالا عبارت میں اِس شخص نے اپنی باطل سوچ کو درست دکھانے کی کوشش میں اللہ کے کلام (((((إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً)))))کی معنوی تحریف کرتے ہوئے ترجمہ یوں کیا کہ""" اگر تم کفار سے ڈرتے ہو اور تمہیں ان کی طرف سے بڑا کوئی خطرہ ہے جان اور مال کے ضائع ہو جانے تک تو بھی یادرکھوکہ """
سب سے پہلے تو یہ دیکھیے کہ اپنے من گھڑت مفہوم کو اللہ کا کلام دکھانے کے لیے """تو بھی یادرکھوکہ """ کا اضافہ کیا ، جبکہ اِس آیت کریمہ میں کسی بھی لفظ یا الفاظ کا یہ معنی تو کیا مفہوم بھی نہیں نکلتا ،
اور پھر دوسری تحریف بھی یہ کہ لفظ """ اِلّا """ کی موجوگی میں ، وہ ترجمہ کسی بھی طور نہیں ہو سکتا جو اِس شخص نے اِس منقولہ بالا سرخ کردہ عبارت میں لکھا ہے ،
کیونکہ """اِلّا """ حرف """ استثناء"""ہے ، یعنی ، کسی کام ، کسی چیز ، کسی شخصیت کو کسی حکم ، کسی کیفیت سے مستثنی ٰ قرار دینے والا ،
جیسا کہ """ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ"""
اِس کا لفظی ترجمہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کیا جا سکتا کہ ::: """نہیں معبود سوائے اللہ کے""" ، یا دوسرے الفاظ میں """ نہیں معبود مگر اللہ (ہے)"""،
اور مفہوم اِس کے علاوہ اور کچھ نہیں بنتا کہ """نہیں(کوئی حقیقی سچا )معبود سوائے اللہ کے ،"""یا دوسرے الفاظ میں """ نہیں(کوئی حقیقی سچا )معبود مگر(صِرف تنہا )اللہ (ہی ہے) """،
اللہ سُبحانہ ُ وتعالیٰ کے کلام پاک میں سے اِس معنی اور مفہوم کی چند مثالیں بھی سمجھتے چلتے ہیں :::
(((((يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ:::(یہ منافق اپنے طور )اللہ کو اور ایمان لانے والوں کو دھوکہ دیتے ہیں ، اور (در حقیقت)یہ دھوکہ نہیں دیتے سوائے اپنے آپ کو، اور اس کا شعور نہیں رکھتے)))))سُورت البقرہ(2)/آیت9،
(((((وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ::: اور اُن میں سے نا پڑھ سکنے والے (بھی)ہیں جو کتاب (کے بارے میں)نہیں جانتےسوائے گمانوں کے ، اور وہ لوگ کچھ نہیں ہیں سوائے گمان بازی کرنے والوں کے))))) سُورت البقرہ(2)/آیت78،
(((((إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّاالنَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ :::بے شک وہ لوگ جو کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب میں سے چُھپاتے ہیں اور اُسے بیچ کر معمولی سی کمائی کرتے ہیں ، وہ لوگ کچھ اُن کے پیٹوں میں کچھ نہیں کھاتے سوائے آگ کے، اور نہ تو اللہ قیامت والے دِن اُن سے بات کرے گا اور نہ ہی انہیں صاف کرے گا ، اور اُن لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے)))))سُورت البقرہ(2)/آیت174،
(((((لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمً:::لوگوں کی سرگوشیوں کی اکثریت میں خیر نہیں ہوتی سوائے اُس کے جو (سرگوشی میں )صدقہ کرنے کا حُکم دے یا نیکی کا حُکم دے ، یا لوگوں کے مابین اصلاح کا حُکم دے ، اور جو کوئی(یہ کام)اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے کرے گا تو ہم اُسے بہت زیادہ ثواب دیں گے)))))سُورت النِساء(4)/آیت114،
[[[ یہ مذکورہ بالا آیت مبارکہ بھی، احادیث شریفہ پر اپنی بد عقلی کی وجہ اعتراض کرنے والوں کی طرف سے حدیث شریف (((اِنما الاعمال بالنیات ))) پر کیے گئے اعتراضات کو باطل قرار دینے والی ہے ، اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطاء کردہہ توفیق سے اُن اعتراضات کا تفصیلی جائزہ دو الگ مضامین میں پیش کر چکا ہوں ، درج ذیل لنکس پر اُن کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے:
صحیح بخاری کی پہلی (انما الاعمال بالنیات) حدیث پر اعتراضات کا جائزہ : الحمد للہ یہ حدیث شریف قران حکیم کے عین مطابق ہے
http://bit.ly/OYqXSH http://bit.ly/SQ8M0z /// http://bit.ly/VZNW1o
ہجرت سے ممانعت والی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ ، اور انما الاعمال (صحیح بخاری کی پہلی ) والی حدیث پر اعتراضات کا مزید جائزہ
http://bit.ly/SUMTZH /// http://bit.ly/TlL2NX /// http://bit.ly/QVRTB2 ]]]
قارئین کرام ،قران کریم کی کسی بھی آیت شریفہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی کسی بھی حدیث مبارکہ میں اِس لفظ """ اِلّا """ کو اِس کے عام معروف معنی ٰ و مفہوم یعنی """ استثنا ء""" سے ہٹ کر کسی بھی اور معنیٰ یا مفہوم والا سمجھنے یا ماننے کے لیے ،یا کسی بھی اور حرف یا لفظ کو اُس کے عام معروف معنی اور مفہوم سے ہٹ کر کسی بھی اور مفہوم والا سمجھنے یا ماننے کے لیے ،اللہ کے کلام پاک یا اللہ کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کلام پاک سے اُس الگ اور منفرد مفہوم کی کوئی دلیل ملنا لازم ہے ، اوریہاں اِس آیت مبارکہ میں استعمال فرمودہ لفظ """ اِلّا """کے کسی الگ ، منفرد اور انوکھے معنی یا مفہوم کی کوئی دلیل میسر نہیں ،
اگر لفظ """ اِلّا """ کا معنی اور مفہوم وہ لیا جائے جو اِس جھوٹے خائن نے بنائے ہیں تو پھر ان مذکورہ بالا آیات کریمہ کے معنی کیا ہوں گے ؟؟؟
اور پھر اِس دبدیانت نے اسی آیت مبارکہ کے اگلے حصے کا ترجمہ بھی اسی طرح معنوی تحریف کرتے ہوئے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کے ایک فعل مبارک کا انکار کرتے ہوئے ، اللہ جلّ جلالہ ُ پر جھوٹ لگاتے ہوئے، باطل تاویل کرتے ہوئے یوں کیا کہ:::
"""وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗیعنی اللہ تمہیں اپنے قوانین کی خلاف ورزی سے ڈراتا ہے ۔ """،
جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِس آیت کریمہ میں ، اِس مذکورہ بالا کلام پاک میں اپنی ذات پاک سے ڈرایا ہے ،اپنی ذات شریف کا خوف دِلایا ہے ، اپنی ذات لا شریک کےغصے اور ناراضگی کی تنبیہ فرمائی ہے ، نہ کہ اپنے قوانین کی خلاف ورزی سے ڈاریا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قوانین اللہ تبارک و تعالیٰ کا نفس یعنی اُس کی ذات پاک نہیں ہیں ،اور کیونکہ اللہ کا غصہ اور ناراضگی صِرف اُس کے کسی قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہی واقع ہونے والا نہیں ، بلکہ اُس کی کسی بھی نافرنی کی وجہ سے واقع ہونے والا ہے ، لیکن اِس بد دیانت بوہیونے اللہ کے کلام کی آڑ لیتے ہوئے ، اپنی رسول دُشمنی نبھاتے ہوئے اللہ کی ذات پاک کو اللہ کے قانون بنا ڈالا ، کہ کسی طور اس کے جھوٹ سچ سے دکھائی دینے لگیں ،خواہ اُس کے لیے اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی ذات پاک کا ہی انکار ہو جائے ،
اسے کہتے ہیں اپنی حواس باختگی میں ، اپنی جہالت اور لا علمی کی رَو میں بہتے ہوئے حقیقت کے خلاف اداکاری کرنا ،
قارئین کرام ، مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ((((وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ)))))اِیمان والوں کے عقیدے کی درستگی ، مضبوطی اور اِس یا دہانی کے لیے فرمایا ہے کہ کافروں کے ساتھ تعلقات بناتے اور نبھاتے ہوئے یہ یاد رکھا جائے کہ اللہ ہم سے زیادہ ہمارے دِلوں کے حال جانتا ہے اور اُس کی گرفت سے بچا نہیں جا سکتا ، پس اگر ہم کفار سے بچاؤ کی ضرورت کے علاوہ اُن سے دوستی والا رویہ رکھیں گے تو اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے ،لوگوں کو یا اپنے نفوس کو تو دھوکہ دے لیں گے کہ ہم کافروں سے دوستیاں اُن کافروں کے شر سے بچنے کے لیے دِکھاوے کی کر رہے ہیں ، لیکن اللہ سے دِلوں کے حال نہیں چُھپائے جا سکتے ، لہذا اپنے اِس کام کو صِرف اُسی سبب کی بنا پر کرو جس کی بنا پر یہ کام کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے ، اگر کسی اور سبب کی بنا پر کافروں سے دوستیوں والا رویہ دکھاؤ تو (((((وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ)))))،
اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرمان (((((وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ))))) کا یہ مذکورہ بالا فہم میری ذاتی سوچ نہیں ، بلکہ اسی آیت کریمہ سے اگلی آیت شریفہ کے مطابق ہے ، چلتے چلتے دونوں ہی آیات مبارکہ پڑھتے چلتے ہیں ،
(((((لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُoقُلْ إِنْ تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ:::اِیمان والے(دوسرے) اِیمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بنائیں ، اور جس نے ایسا کیا تو وہ اللہ کی طرف سے کسی (خیر و بخشش والا معاملے)میں نہیں ، ایسا صرف (ظاہری طور پر )اس وقت کر سکتے ہو جب تم لوگ اِن کافروں سے کسی طور بچنا چاہتے ہو اور اللہ تُم لوگوں کو اپنی ذات مبارک کے بارے میں خبر دار کرتا ہے اور اللہ کی طرف(تم سب نے)پلٹنا ہےo(اے محمد )فرما دیجیے کہ جو کچھ تُم لوگوں کے سینوں میں ہے اُسے تُم لوگ چُھپاؤ یا ظاہر کرو ، اللہ اُس(سب کچھ)کا عِلم رکھتا ہے ، اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ اُس کا بھی عِلم رکھتا ہے ، اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے)))))سُورت آل عمران(3)/آیات28۔29،
اِن شاء اللہ تعالیٰ، آپ پر اِس بوھیو نامی دھوکہ باز کی جھوٹ ، اور خیانت پر مبنی اداکاری کا ایک اور انداز بھی واضح ہو چکا ہو گا ،
[[[ کافروں کے ساتھ تعلقات کی حدود کے بارے میں ایک مضمون اور کچھ بات چیت آپ آگے ذِکر کردہ لنک میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں ::: http://bit.ly/12CFczO ]]]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
مضمون جاری ہے ۔۔۔
 
Top