آہ ! وزارت خارجہ کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

حیدرآبادی

محفلین
ہمارے محلہ کے پاشا بھائی فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔
وہ کیا فرماتے ہیں کہ ذرا دکنی الفاظ ہیں اور ذرا قابل اعتراض ہیں ۔۔۔ لہذا فصیح اردو میں یوں پڑھ لیں کہ ۔۔۔
"یار ! یہ پاکستان والوں کو کیا ہوا ، ایک خوبصورت ، نازک اندام مگر ناتجربہ کار خاتون کو اتنے بڑے اور اہم عہدے پر فائز کر دیا۔"

موصوف کا اشارہ حنا ربانی کھر کی طرف تھا جو کہ مملکت خداداد پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی آجکل سربراہی کر رہی ہیں۔
پاشا بھائی تو خیر نچلے طبقے کے عوام سے تعلق رکھتے ہیں، انکے خیال کی تو اہمیت ہی کیا۔ مگر حیرت یہ ہے کہ روزنامہ "سیاست" جیسے معروف اخبار میں برسوں سے سیاسی تجزیاتی کالم تحریر کرنے والے رشید الدین صاحب بھی کچھ ایسی ہی بات لکھ گئے۔
ملاحظہ فرمائیں۔ لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔
ویسے بھی بعض ممالک میں ایک عجیب روایت چل پڑی ہے۔ دنیا سے بہتر تعلقات اور ملک کے مفادات کے تحفظ کیلئے وزارت خارجہ کا قلمدان خواتین کو دیا جا رہا ہے۔ امریکہ میں کونڈا لیزا رائیس کے بعد ہلاری کلنٹن اہم عہدے پر فائز کی گئیں اور انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا بھی ہے۔
امریکہ کی نقل کرتے ہوئے پاکستان نے 34 سالہ حنا ربانی کھر کو ملک کا وزیر خارجہ مقرر کیا۔ پاکستان نے سوچا ہوگا کہ اس کی خارجہ پالیسی جب امریکہ کی منظورہ ہے تو پھر کیوں نہ ہلاری کی ساتھی کے طور پر ایک خاتون کو وزیر خارجہ مقرر کیا جائے؟ ویسے بھی پاکستان کو خارجہ پالیسی میں زیادہ تر امریکہ پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ وزارت خارجہ کیلئے عام طور پر تجربہ کار افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے جو سفارتی امور سے واقف ہوں اور بہتر انداز میں دنیا کے سامنے اپنے ملک کی ترجمانی کر سکیں۔
پاکستان نے آخر کس تجربے کی بنیاد پر ایک نوجوان خاتون کو اس قدر اہم ذمہ داری سونپ دی؟ یہ امریکہ کی نقل ہے یا پھر زرداری کلچر؟
بحوالہ : روزنامہ سیاست ، اتوار 24 جولائی

لگتا ہے ہمارے دوست اور سیاسی تجزیہ نگار رشید الدین بھائی کسی کی تیر نظر کے گھائل ہو گئے ہیں۔
حضور ! آئی۔اے۔ایس میں منتخب ہو کر جو افراد ملک کے پالیسی ساز اداروں میں پہنچتے ہیں وہ "نوجوان" ہی تو ہوتے ہیں۔ نوجوانی کو "ناتجربہ کاری" باور نہیں کرانا چاہئے۔
ہند کے معروف صحافی نکھل چکرورتی نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ ۔۔۔
اندرا گاندھی بین الاقوامی امور کی سیاست میں کم عمری میں ہی داخل ہو چکی تھیں۔
علاوہ ازیں نہرو کے وزارت عظمیٰ کے دوران تین مورتی ہاؤس میں اندرا گاندھی ہی سرکاری میزبان کی حیثیت سے ریاستی حکمرانوں کا خیال رکھا کرتی تھیں۔

اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مرحومہ بےنظیر بھٹو بھی کم عمری میں ہی بین الاقوامی سیاست میں اپنی پہچان بنانے لگ گئی تھیں۔

کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں خواتین کے پس پشت ایک مضبوط سیاسی خاندان اور سیاسی نظریات کا سہارا تھا۔ لیکن غور کیجئے کہ ایک خامی یہ بھی تھی کہ اس وقت نہ آج جیسی جدید تکنالوجی دستیاب تھی اور نہ ذرائع ابلاغ کی آسانی اور لامحدود سہولیات۔
اور آج اگر انٹرنیٹ اور موبائل کے جدید ترین ابلاغی دور میں ایک 20 سالہ نوجوان بھی بین الاقوامی امور سے واقف ہونے کیساتھ ساتھ ویب سائٹس ، بلاگز اور سوشل نیٹ ورکنگ سائیٹس کے ذریعے سیاسی سماجی معاشی تکنیکی تبصرہ و تجزیہ کرنے کے قابل ہو سکتا ہے تو 34 سالہ خاتون کیوں کر وزارت خارجہ کی ذمہ داری نبھانے کے قابل نہیں ہو سکتی ؟

کہنے کی ساری بات یہ ہے کہ دراصل ہمارے دوست رشیدالدین بھائی نے روشن خیال مسلمانوں کے ڈر سے اصل بات وہ نہیں کہی جو درحقیقت کہنا چاہتے تھے۔ اس کی طرف اشارہ البتہ ضرور کیا ہے ، جیسا کہ ایک جملہ یوں لکھا :
اسلامی اور مملکتِ خداداد کا دعویٰ کرنے والے اس ملک کے حال پر دنیا ہنس رہی ہے۔

سیدھی سی بات یہ ہے کہ عورت کی سربراہی کا اسلام قائل نہیں ہے۔ متواتر مستند روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ (مفہوم) : وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پائے گی جس نے اپنے معاملات عورت کے سپرد کر دیے ہوں (بخاری)۔

مگر چونکہ رشید الدین بھائی صاحب کو اور خود "سیاست" اخبار کو صحافت کے گدلے سمندر میں رہنا بسنا ہے جو ذرا روشن خیال دنیا ہے اور گلوبل ولیج مزاج کی صحافت کا مطالعہ بھی ذرا وسیع الذہن اور روشن خیال افراد فرمایا کرتے ہیں جو اسلام کو دورِ حاضر کے مطابق mould کرنے کے حامی ہیں ۔۔۔۔ لہذا کیا برا ہے اگر "خاتون کی سربراہی" کو نشانہ بنانے کے لئے "اسلامی روایات" کا سہارا لینے کے بجائے "نوجوانی یا ناتجربہ کاری" جیسی اصطلاحات نتھ کی لونگ کی طرح ناک میں ٹانک دی جائیں !!

ویسے یہاں یہ کہنے کو یارا نہیں کہ ہمارے مفکرِ ملت یعنی کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی روشن خیالی سے متاثر اور اس کے حامی تھے مگر جب بات اسلامی مزاج اور روایات کی آ جائے تو وہ کسی قسم کا سمجھوتا کرنے کے قائل بھی نہیں تھے۔
یقین نہ ہو تو افکارِ اقبال سے یہ بند ملاحظہ فرماتے جائیں ۔۔۔۔۔

نے پردہ نہ تعلیم نئی ہو کہ پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندۂ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارے ملک میں ہر محکمے کے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ تو بھلائی کی توقع کم ہی رکھیں۔ یہ ملک تو بس اللہ توکل ہی چلتا جا رہا ہے۔
 
Top