آہنی دروازہ - آخری حصہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ نمبر 262/1


"تب پھر تم سراغرساں کیسے ہو !"

"میں جاسوسی ناولوں کا سراغرساں نہیں ہوں، سردار صاحب، جسے ہمیشہ ایسے موافق حالات پیش آتے ہیں! جس کی مدد زمین و آسمان کرتے ہیں، جسے ہمیشہ ایسے ہی اتفاقات پیش آتے ہیں، جو اسے صحیح مجرم تک پہنچا دیں"

سردار داراب کچھ نہ بولا۔۔ عمران نے تھوڑی دیر بعد کہا "اب دوسری ہی صورت ہوسکتی ہے میرے خیال سے مجھے ایک ڈرامہ اسٹیج کرنا پڑے گا مگر وہ بھی آپ ہی کے اس خیال کی موافقت میں کہ بچھوؤں کا تعلق آپ کے وصیت نامے سے ہوسکتا ہے۔ آپ اسی خیال پر جمے ہوئے ہیں، لیکن شائد اس کی وجہ بتانے پر تیار نہیں"

"کیا ڈرامہ اسٹیج کرو گے"

"اپنے مشیرِ قانونی کو یہاں طلب کیجیے اور دوبارہ اس کا پروپیگنڈا کرائیے کہ آپ وصیت نامہ مرتب کرنے والے ہیں"

"اس سے کیا ہوگا"

"اب میں کسی بھی سوال کا جواب دینے کیلیے تیار نہیں" عمران نے کہا "آپ اگر ایسا کر سکتے ہیں تو کیجیئے ورنہ میں آج ہی یہاں سے روانہ ہو جاؤں گا"

سردار داراب تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا، پھر بولا۔۔ "اچھی بات ہے۔۔۔۔میں اسے آج ہی فون کرکے بلواؤں گا۔۔۔۔وہ سردار گڈھ ہی میں رہتا ہے، اور کچھ؟"

"نہیں فی الحال اتنا ہی۔"


(13)

شاہدہ کو شاید عمران کی اس تجویز کا علم ہوگیا تھا۔۔۔۔وہ اسکے پیچھے پڑگئی، وہ چاہتی تھی عمران اسے اپنے اس پروگرام کے مقصد سے آگاہ کردے۔ شائد سردار داراب ہی نے اسے اس کے متعلق بتایا تھا، ورنہ یہ گفتگو صرف انہیں دونوں کے درمیان ہوئی تھی، کوئی تیسرا وہاں موجود نہیں تھا۔

شاہدہ شاید اس کے معاملات میں بہت زیادہ دخیل تھی، پھر عمران نے بھی آہستہ آہستہ یہ بات مشہور کرنی شروع کردی کہ سردار داراب نے وصیت نامہ مرتب کرنے کیلیے اپنے قانونی مشیر کو کیسل میں طلب کیا ہے، اس سے اسکا مقصد یہ تھا کہ وہ داراب کے عزیزوں پر اس خبر کا ردِ عمل دیکھ سکے ۔۔ لیکن وہ سب ہی اس اس خبر کے سنتے ہی بے چین نظر آنے لگے تھے۔


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ نمبر 263/2


لیکن عقیل اور شاہدہ پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا تھا۔ عقیل تو خیر خارج از بحث تھا لیکن شاہدہ کے متعلق عمران کوئی صحیح رائے قائم نہ کر سکا، بعض اوقات تو وہ خود اسے بڑی پراسرار معلوم ہونے لگتی تھی۔

بہرحال عمران نے پوری اسکیم مرتب کرلی تھی، جس دن سردار داراب کا قانونی مشیر کیسل پہنچا تھا، اسی دن عمران کی تجویز کے مطابق سردار داراب نے اپنے سارے اعزہ کو رات کے کھانے پر بلایا۔ حتٰی کہ مفلوج بھائی سجاد کو بھی نہیں چھوڑا ۔۔۔۔ دو نوکر اسے اٹھا کر وہاں لائے تھے ۔۔۔ اس موقع پر اس نے عقیل کو محروم نہیں کیا۔ وہ بھی کھانے کی میز پر موجود تھا۔ عمران نے محسوس کیا کہ اسکے اور شاہدہ کے تعلقات بہت اچھے ہیں اور ان دونوں کے درمیان خلوص بھی پایا جاتا ہے۔ سب ایک دوسرے سے گھل مل کر گفتگو کررہے تھے ۔۔۔۔ مگر ڈاکٹر نجیب خود کو بہت زیادہ لئے دئیے نظر آرہا تھا، ویسے بھی وہ عام طور پر سنجیدہ نظر آیا کرتا تھا مگر اس وقت اسکی سنجیدگی اور زیادہ گہری ہوگئی تھی ۔۔۔ جس وقت سے آیا تھا سردار داراب سے بہت ہی معمولی قسم کی سی گفتگو ہوئی تھی اور پھر وہ خاموش ہی ہوگیا تھا، داراب کے دوسرے اعزہ بھی مشکل ہی سے اس سے مخاطب ہوتے تھے۔۔۔ بہرحال بادی النظر میں یہی رائے قائم کی جاسکتی تھی کہ وہ اعزہ میں مقبول نہیں ہے۔

کھانے کے بعد میز صاف کردی گئی ۔۔۔ اور ایک ملازم ہر ایک کے سامنے ایک ایک شراب کا پگ رکھ رہا تھا۔ عمران کو اس پر بڑی حیرت ہوئی ۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب شراب کا دور چلے گا ۔۔۔ ابھی تک تو اسے اسکا علم نہیں ہوسکا تھا کہ اس عمارت میں شراب بھی رائج ہوگی ۔۔۔ اس نے سردار داراب کی طرف دیکھا ۔۔۔ لیکن اسکے چہرے پر سنجیدگی کے آثار تھے۔ عمران ہی نہیں بلکہ غالباً سبھی اس پر متحیر تھے، حتٰی کے ڈاکٹر نجیب کے سپاٹ چہرے میں بھی عمران کو تبدیلیاں نظر آنے لگیں تھی۔۔۔ اور اسکے چہرے سے سنجیدگی کا غلاف اتر گیا تھا، کھانے کی میز پر شاہدہ کے ساتھ اسکی سہیلی بلقیس بھی تھی۔۔۔اور وہ بہت شدت سے بور نظر آرہی تھی۔۔۔عمران اسکے برابر ہی موجود تھا۔

"پرواہ مت کرو۔۔۔۔" عمران آہستہ سے بولا، "مگر زیادہ نہ پینا"

"میں لعنت بھیجتی ہوں" بلقیس بڑبڑائی، "مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہاں یہ بھی ہوگا۔۔۔میرے خدا یہ شاہدہ بھی پیتی ہے"

"ارے ۔۔۔۔ یہ تو چرس بھی پی سکتی ہے" عمران بولا "پتہ نہیں کیوں تم اس سے ملتی ہو"

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ نمبر 264/3


"اگر میرے سامنے رکھے ہوئے پگ میں شراب انڈیلی گئی تو میں اسے بوڑھے کے منہ پر کھینچ ماروں گی"

"تم کبھی ایسا نہیں کرسکتیں۔۔۔۔ڈرپوک ہو"

"دیکھ لینا۔۔۔۔"

"کیا دیکھ لوں گا"

"کچھ نہیں۔۔۔دماغ نہ چاٹو" بلقیس نے ہاتھ جھٹک کر کہا

"کیا بات ہے" سردار داراب نے عمران سے پوچھا۔

"کچھ نہیں۔۔۔یہ کہتی ہیں کہ اگر۔۔۔میرے سامنے رکھے ہوئے پگ میں شراب ڈالی گئی تو ۔۔۔۔۔"

"بیکار بکواس۔۔۔۔" بلقیس اسے کھانے کو دوڑی.

"اوہ تم شراب نہیں پیتیں۔۔۔۔" سردار داراب نے پوچھا

"نہیں" بلقیس نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا۔

"آہا تب تم جا کر آرام کرو، مجھے قطعی ناگوار نہیں گزرے گا" سردار داراب بولا۔

بلقیس جانے کیلیے اٹھی، شاہدہ بھی اٹھ گئی۔

"بیٹھو" ۔۔۔۔۔ سردار داراب شاہدہ سے بولا۔ "تم پیتی ہو ۔۔۔۔۔۔ بیٹھ جاؤ"

دفعتاً عقیل کھڑا ہوکر بولا۔ "اگر آپ نے اسے شراب پینے پر مجبور کیا تو میں یہیں اسی جگہ خود کشی کرلوں گا"

"بیٹھو گدھے۔۔۔"

"کیا آپ۔"

"نہیں میں بھی شراب نہیں پیتا"

"بیٹھ جاؤ"

بلقیس کمرے سے جا چکی تھی، شاہدہ اور عقیل کھڑے تھے، سجاد کے پیروں میں جان ہی نہیں تھی۔۔۔لیکن اس کے چہرے پر ہوائیاں ضرور اڑ رہی تھیں۔

یہ سب عمران کی اسکیم میں شامل نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے داراب کے قانونی مشیر کی طرف دیکھا، وہ بھی کھانے کی میز پر موجود تھا اور اس واقعے میں خاصی دلچسپی لے رہا تھا، دفعتاً ایک ملازم ہاتھوں میں ایک بڑی چائے دانی اٹھائے ہوئے کمرے میں داخل ہوا اور ایک طرف سے سارے پگوں میں بغیر دودھ کی سبز چائے انڈیلنی شروع کی۔

.
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ نمبر 265/4


سردار داراب کی سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا تھا، شاہدہ اور عقیل خفیف ہوکر بیٹھ گئے۔

چائے کے بعد سردار داراب نے اپنے اعزہ کو مخاطب کرکے کہا کہ وہ اب کافی بوڑھا ہوچکا ہے، پتہ نہیں کب مرجائے۔ لہذا اب وہ اپنی وصیت مرتب کرلینا چاہتا ہے۔ اور وہ کسی بھی حقدار کو مایوس نہیں کرے گا، اس پر لوگوں نے عقیل کی طرف دیکھا اور عقیل ہاتھ اٹھا کر بولا،

"آپ نے مجھے کیوں بلایا تھا۔۔ہا۔۔۔بابا۔۔۔"

"کیا تم بھی میرے ہی جسم کا ایک حصہ نہیں ہو" سردار داراب نے مغموم آواز میں کہا۔

"جی ہاں۔۔۔۔۔بد گوشت۔۔۔۔۔"

"بکواس مت کرو عقیل، ورنہ تھپڑ ماردوں گا۔۔۔۔گدھے کہیں کے۔۔۔۔" سردار داراب نے کہا اور پھر اپنی تقریر شروع کردی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ وصیت کی تفصیل اسکے مرنے سے پہلے کسی کو نہیں معلوم ہوسکے گی، وصیت نامہ قانونی مشیر کے پاس محفوظ رہے گا اور اس وصیت نامے کی تکمیل آئندہ شام تک ہوجائے گی۔ تقریر ختم کرکے وہ بیٹھ گیا۔ سب خاموش تھے۔ عقیل کے علاوہ اور کسی کے چہرے سے نہیں ظاہر ہورہا تھا کہ اسے اس تقریر سے ذرہ برابر بھی دلچسپی رہی ہو۔ اسکا چہرہ سرخ ہورہا تھا اور وہ بار بار اپنا نچلا ہونٹ چبا رہا تھا، آخر وہ بڑبڑانے لگا۔

"نہیں۔۔۔میں اسے نہیں برداشت کرسکتا۔ آخر حقداروں کے مجمع میں مجھے کیوں گھسیٹا گیا۔ بابا یہ میری توہین ہے۔ اب میں کیسل میں نہیں رہوں گا، کہیں اور جا مروں گا۔۔۔۔جناب۔۔۔۔"

سردار داراب ہاتھ کے اشارہ سے نشست برخواست کرکے اٹھ گیا۔



(14)

رات گہری تاریک تھی، آسمان میں بادلوں کے پرے کے پرے تیرتے پھر رہے تھے۔ ایک لحظہ کیلیے تاروں کی چھاؤں نظر آتی اور پھر کھلے ہوئے آسمان کو بادل ڈھانپ لیتے۔ بلقیس اور شاہدہ عمارت کی چھت پر چل رہی تھیں۔۔۔۔

"آخر تم کیا کرتی پھر رہی ہو۔" بلقیس نے کہا۔

"میں پریشان ہوں بلقیس، معلوم نہیں یہ پاگل آدمی کیا کرنا چاہتا ہے۔ آج ڈرامہ اسی نے ترتیب دیا تھا لیکن مقصد نہ بابا کو بتایا نہ مجھے۔"

"اوہ تو کیا یہ سب کچھ انہیں بچھوؤں کے سلسلے میں ہو رہا ہے۔"

.
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ نمبر 266/5

"میں اب یہ بھی نہیں کہہ سکتی۔ خدا جانے کیا معاملہ ہے۔"

"یہ شراب والا واقعہ خوب رہا۔ میرا خیال ہے تمھارے بابا مجھے وہاں سے اٹھانا چاہتے تھے۔"

"ہر گز نہیں۔ ان کے مذاق اسی قسم کے ہوتے ہیں۔"

"تو پھر کہیں وہ بچھو والا معاملہ بھی مذاق ہی نہ رہا ہو۔ تمھیں خوفزدہ کرکے ہنسانا چاہتے رہے ہوں۔"

"خدا جانے۔۔۔۔"

"پھر اب تم کیا کرتی پھر رہی ہو۔"

"بابا کے کمرے میں جھانکیں گے" شاہدہ نے کہا۔ "وہ عمران انکے کمرے میں گیا تھا، پھر میں نے اسے باہر آتے نہیں دیکھا اور کچھ دیر بعد کمرے میں نیلی روشنی نظر آنے لگی تھی۔ اسکا مطلب یہ تھا کہ بابا سونے جارہے ہیں۔ لہذا عمران کو ایسی صورت میں باہر آجانا چاہئیے۔ مگر تقریباً آدھے گھنٹے تک انتظار کرتی رہی، وہ باہر نہیں آیا۔"

"پھر جھانکنے سے کیا فائدہ۔"

"میں دیکھوں گی کہ اندر کیا ہورہا ہے۔ میں آج بہت پریشان ہوں، آج کی دعوت ہر لحاظ سے غیر معمولی تھی۔"

ایک جگہ شاہدہ رک گئی، وہاں ایک روشندان کے شیشوں سے نیلی روشنی نظر آرہی تھی۔ دوسرے ہی لمحہ وہ روشندان پر جھکی اور پھر اسطرح اچھل کر پیچھے آپڑی جیسے بجلی کا دھچکا لگا ہو۔ بلقیس اسے اٹھانے کیلیے جھپٹی۔

"بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔" شاہدہ بھرائی ہوئی آواز میں بڑبڑائی۔۔۔۔۔۔۔"بابا کو بچاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" پھر وہ حلق پھاڑ پھاڑ کر چیخنے لگی۔ "بابا کو بچاؤ۔۔۔بابا کو بچاؤ"

بلقیس بری طرح کانپ رہی تھی۔ سناٹے میں شاہدہ کی چیخیں بازگشت پیدا کرتی رہیں پھر وہ بے پوش ہوکر گر پڑی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے پورے کیسل میں کہیں آدمیوں کا نام و نشان تک نہ ہو۔ اب پھر وہی بیکراں سناٹا تھا اور جھینگروں کی جھائیں جھائیں۔ بلقیس بڑی تیزی سے روشندان کی طرف بڑھی اور دوسرے ہی لمحے میں اسکے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ سردار داراب کے کمرے میں سات آدمی نظر آرہے تھے۔ چھ کے چہروں پر سیاہ نقابیں تھیں اور ساتواں عمران اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے کھڑا تھا اور ایک نقاب پوش کا ریوالور اسکی طرف اٹھا ہوا تھا۔ پانچ آدمی سردار داراب کے ہاتھ پیر باندھ رہے تھے۔

دفعتاً عمران نے دروازے کی طرف چھلانگ لگائی اور نقاب پوش نے پے در پے دو تین فائر


.
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ نمبر 267/6


جھونک دیے۔ بلقیس نے عمران کو بندروں کی طرح اچھلتے کودتے دیکھا اور پھر وہ ایک لمبی کراہ کے ساتھ فرش پر گرگیا۔ بلقیس کی گھگی بندھ گئی۔ وہ صرف دیکھ سکتی تھی۔ نہ بول سکتی تھی اور نہ اپنی جگہ سے حرکت کر سکتی تھی۔ نقاب پوش اتنے مطمئن نظر آرہے تھے جیسے اب انہیں کسی کی دخل اندازی کا خدشہ ہی باقی نہ رہا ہو۔ جب وہ سردار داراب کو باندھ چکے تو فائر کرنے والے نقاب پوش نے عمران کی لاش کی طرف اشارہ کیا۔ ایک آدمی شاید اسے سیدھا کرنے کیلے بڑھا۔ وہ اس پر جھکا ہی تھا کہ بلقیس نے اسے اچھل کر فائر کرنے والے پر گرتے دیکھا۔ دونوں فرش پر ایک ساتھ ڈھیر ہوگئے اور عمران دونوں پر سوار تھا۔ پھر شائد وہ فائر کرنے والے ہی کا ریوالور تھا جسے عمران مٹھی میں دبائے ہوئے اٹھ کر پیچھے ہٹ گیا تھا۔ "کھڑے ہو جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے ہاتھ اٹھاؤ۔" اس نے انہیں مخاطب کرکے کہا۔ انکے ہاتھ اوپر اٹھ گئے۔ بلقیس کے ہونٹ آہستہ آہستہ پھیل رہے تھے۔ پتہ نہیں وہ مسکرا رہی تھی یا یہ وقتی اعصابی اختلال کا نتیجہ تھا۔

"سردار داراب کو کھول دو۔ ورنہ تم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا" عمران نے انہیں للکارا۔ ادھر بلقیس بےساختہ اچھل پڑی۔ شاہدہ حواس درست ہونے پر پھر روشندان کے طرف جھپٹی تھی۔ نہ جانے کیوں ان دونوں کے حلق گویا بند سے ہوگئے تھے۔ شاہدہ پھر روشندان پر جھک پڑی۔

ادھر ایک آدمی ہمت کرکے عمران پر جھپٹا ہی تھا کہ ریوالور کی سرخ زبان نکل پڑی اور وہ اپنی ران دبائے ہوئے ڈھیر ہوگیا۔

"سردار کو کھولو۔ ورنہ کوئی نہ بچ سکے گا۔ میری جیب میں بھی ایک ریوالور موجود ہے۔ اسکی چار گولیاں ختم ہوچکی ہیں لیکن یہ۔۔" اسنے جیب سے دوسرا ریوالور نکالتے ہوئے کہا۔ "یہ تم سب کیلیے کافی ہوگا۔ میرا نشانہ کم خطا کرتا ہے"

مگر شاید یہ ان لوگوں کی زندگی اور موت کا سوال تھا۔ ذرا ہی سی دیر میں سردار داراب کا دشمن بے نقاب ہوجاتا۔

"ہمیں۔۔۔عمران کی مدد کرنی چاہئیے۔" شاہدہ نے بدقت تمام آہستہ سے کہا۔ پھر وہ بلقیس کو دھکیلتی ہوئی زینوں کی طرف جانے لگی۔ ان میں سے کسی کو بھی نہ معلوم ہوسکا کہ وہ کسطرح نیچے پہنچ کر سردار داراب کے کمرے تک پہنچیں۔ انہیں اسکا بھی ہوش نہیں تھا کہ وہ عمارت کی ویرانی پر دھیان دیتیں۔ حالانکہ وہ جانتی تھیں کہ اس عمارت میں کئی نوکر سوتے تھے۔ خصوصاً داراب کے خاص نوکر کا کمرہ اسی کے کمرے کے برابر تھا۔ مگر اتنی ہڑبونگ کے باوجود کسی کی آنکھ نہیں کھلی تھی۔ سردار کی خوابگاہ کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ نمبر 268/7


مگر اتنی دیر میں بساط بدل چکی تھی۔ وہ سب عمران پر ٹوٹ پڑے تھے اور عمران چیخ رہا تھا۔

"تمھارے فرشتے بھی مجھ سے ریوالور نہیں چھین سکتے۔"

پھر ایک فائر ہوا، کمرے میں ایک چیخ گونجی اور حملہ آوروں میں سے ایک دور جاگرا۔ دوسرا فائر ہوا، دوسرا اچھلا اور دیوار سے ٹکرا کر فرش پر آرہا۔ اب صرف تین رہ گئے تھے۔ دونوں لڑکیاں بے تحاشہ چیخ رہی تھیں۔ دفعتاً ایک نقاب پوش انہیں دھکا دیتا ہوا باہر بھاگا۔ لڑکیاں راہداری کی دوسری دیوار سے جا ٹکرائیں لیکن عمران دو آدمیوں کو چھوڑ کر بھاگنے والے پر جھپٹا۔ راہداری تاریک ہوتی تو شاید وہ نکل ہی گیا تھا۔ راہداری کے بلب ان لڑکیوں میں سے کسی نے روشن کیے تھے۔ عمران بقیہ دو آدمیوں کی راہ روک کر کھڑا ہوگیا۔ اسکا ریوالور انکی طرف اٹھا ہوا تھا۔ وہ دونوں رک گئے۔

"تمہارا بھی یہی انجام ہوسکتا ہے۔" عمران غرایا۔ "بہتری اسی میں ہے کہ زمین پر اوندھے لیٹ جاؤ۔" ان دونوں نے چپ چاپ تعمیل کی۔

"اور تم دونوں کیا دیکھ رہی ہو۔" عمران نے لڑکیوں کو للکارا۔ "سردار کی خبر لو۔ جلدی کرو ورنہ ہوسکتا ہے کہ انکا دم گھٹ جائے۔"

"پیچھے دیکھو" دفعتاً شاہدہ ہذیانی انداز میں چیخی۔ عمران چونک کر مڑا۔ زخمی نقاب پوش ایک چھرا پکڑے ہوئے اسکی طرف رینگ رہا تھا۔ شاید اسکی ٹانگ میں گولی لگی تھی اور وہ کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔ اسکے ذہن میں ایک ہی خیال تھا کہ وہ کسی طرح عمران کو ختم کردے۔ اچانک عمران نے اچھل کر اسکے سر پر ٹھوکر لگائی اور وہ ایک لمبی کراہ کے ساتھ چت ہوگیا۔ لڑکیاں بھاگ کر اندر چلی گئی تھیں۔ وہاں تین آدمی فرش پر بیہوش پڑے تھے اور کمرے میں ہر طرف خون کی لکیریں پھیل رہی تھیں۔ انہوں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے سردار داراب کے چہرے پر سے کپڑا ہٹایا۔ داراب کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور وہ پلکیں بھی جھپکا رہا تھا۔ لیکن منہ سے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا کیوں کہ اس کے منہ میں حلق تک کپڑا ٹھونس دیا گیا تھا۔ انہوں نے اسکے منہ سے کپڑا نکالا اور اسکے ہاتھ پیر کھولنے لگیں۔ سردار داراب خاموش پڑا رہا۔ اسنے لڑکیوں کو اشارہ کیا کہ وہ اسے اٹھائیں۔ انکی مدد سے وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ چند لمحے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپائے بیٹھا رہا، پھر سر اٹھا کر بولا۔ "کیا یہ لوگ مر گئے ہیں۔"

"پتہ نہیں۔" شاہدہ اسے اٹھاتی ہوئی بولی۔ "اس کمرے سے چلئے۔۔۔۔۔۔"

"عمران کہاں ہے۔۔۔۔"

"راہداری میں۔"


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ نمبر 269/8


"چلو۔۔۔۔۔" سردار داراب کھڑا ہوگیا۔ اسی وقت عمران بھی کمرے میں داخل ہوا۔

"تم نے انہیں مار ڈالا۔" سردار داراب نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔

"نہیں تو پھر کیا انکی پوجا کرتا۔ تین راہداری میں بھی ہیں۔" عمران نے لاپروائی سے جواب دیا۔

"کیا انہیں بھی مار ڈالا۔" سردار داراب لڑکھڑا کر دیوار سے جا لگا۔

"کیوں خوامخواہ مجھے بور کررہے ہیں۔ ان میں سے مجھے کوئی بھی اتنا حیادار نہیں معلوم ہوتا کہ ٹانگوں پر گولی لگنے سے مر جائے۔"

"اوہ۔۔۔۔۔۔" سردار داراب نے ایک طویل سانس لی۔ عمران نے کمرے میں پڑے ہوئے تینوں آدمیوں کے چہروں سے نقابیں ہٹائیں۔ لیکن سردار داراب نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔ "ان میں سے کسی کو بھی نہیں پہچانتا۔"

پھر وہ راہداری میں آئے۔ دو آدمی برابر سے اوندھے پڑے ہوئے تھے۔ عمران نے انہیں بھی ٹھوکریں مار مار کر بیہوش کیا تھا۔ سردار داراب نے ان دونوں کو بھی پہچاننے سے انکار کردیا۔ اب صرف وہ آدمی بچا تھا جس نے عمران کو چھرا مارنے کی کوشش کی تھی۔ جیسے ہی عمران نے اسکے چہرے سے نقاب ہٹائی نہ صرف داراب بلکہ لڑکیاں بھی بدحواس ہوگئیں۔ انکے سامنے ڈاکٹر نجیب چت پڑا ہوا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے سردار داراب کو سکتہ ہوگیا ہو۔ وہ کچھ دیر بعد ہکلایا۔

"اس معام۔۔۔۔۔لے۔۔۔۔۔۔کک۔۔۔۔۔کو دبا ہی دینا بہتر ہوگا۔"

"یہ ناممکن ہے۔ قطعی ناممکن۔۔۔۔۔آپ اگر اس معاملے میں دخل دیں گے تو میں آپکو بھی نہیں چھوڑوں گا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں مجھے۔ میں ایک ذمہ دار آفیسر ہوں۔"

"پرائیوٹ سراغرساں۔"

"یہ محض بکواس ہے۔ ہمارے ملک میں پرائیوٹ سراغرسانی کیلیے لائسنس نہیں دیے جاتے۔" عمران نے کہا۔ تھوڑی دیر بعد عمران نے سارے زخمیوں کو سردار داراب کی خوابگاہ میں بند کردیا۔ پھر عمارت میں نوکروں کو تلاش کرتے ہوئے یہ حقیقت کھلی کہ سارے نوکر پہلے ہی بے بس کردئیے گئے تھے۔ عمران اور لڑکیوں کے کمروں کی بھی تلاشی لی گئی تھی۔ لیکن عمران اس وقت سردار داراب کی مسہری کے نیچے آرام کر رہا تھا اور لڑکیاں چھت پر بھٹکتی پھر رہی تھیں۔ سردار داراب کا خاص نوکر اپنے کمرے میں بیہوش پایا گیا۔ شاید اسے کلوروفارم دیا گیا تھا۔ دوسرے نوکروں کو بھی کافی دیر کے بعد ہوش آسکا۔ پھر ذرا ہی سی دیر میں سارا کیسل اس


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ نمبر 270/9


عمارت میں امنڈ پڑا۔۔۔۔۔۔بستی کے پولیس اسٹیشن کو فون کیا گیا۔ دوسری طرف عمران سردار داراب اور اسکے تین مینجروں سمیت ڈاکٹر نجیب کی رہائشگاہ پر پہنچا اور عمارت کا ایک ایک گوشہ دیکھتا پھرا۔ لیکن سردار داراب کو الجھن ہو رہی تھی۔ کیونکہ اس بھاگ دوڑ کا مقصد اسکی سمجھ میں نہیں آسکا تھا۔ اسنے عمران سے اسکے متعلق پوچھا۔

"بچھوؤں کا مقصد تلاش کررہا ہوں کیونکہ ابھی تک بچھوؤں کا مقصد میری سمجھ میں نہیں آسکا اگر نجیب یہ چاہتا تھا کہ آپ وصیت نامہ مرتب نہ کرسکیں تو پہلے بھی بچھوؤں والی حرکت کرنے کی بجائے آپ کو مار ہی ڈالتا۔ لیکن محض وصیت نامہ مرتب کرنے سے پہلے مر بھی جاتے تو اس سے کیا فرق پڑتا۔ قانونی طور پر آپ کے دوسرے ورثا ہر حال میں آپ کی املاک میں سے حصہ پاتے۔ لہذا وصیت نامہ والا چکر فضول ہے۔"

"پھر تم نے یہ ڈرامہ کیوں کیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ تمھیں اسی کی توقع تھی جو اس وقت ظہور پذیر ہوا ہے۔"

"آپ کا خیال درست ہے۔ اس وقت وہی کچھ پیش آیا ہے جو میں نے سوچا تھا۔ لیکن اب مجھے اصل کی تلاش ہے یہ تو محض ایک واقعہ تھا۔"

عمران خاموش ہوکر کچھ سوچنے لگا۔ پھر سردار داراب سے پوچھا۔ "ہاں وہ آہنی دروازہ کب سے ہلایا جارہا ہے یعنی کہ اس عمارت میں آسیبی خلل کب سے ہوا ہے۔"

"یہی کوئی ماہ ڈیڑھ ماہ پہلے کی بات ہے۔" سردار داراب نے جواب دیا۔

"گڈ۔۔۔۔۔۔۔" عمران سر ہلا کر بولا۔ "میں ذرا اس عمارت کو بھی دیکھ لوں۔ اگر وہاں بھی مجھے مقصد نہ معلوم ہوسکا تو یہی سمجھوں گا کہ بچھوؤں کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔"

سردار داراب کچھ نہ بولا۔ وہ اس وقت عمران کے اشاروں پر ناچ رہا تھا۔ اس نے آہنی دروازہ کے قفل کی کنجی منگوائی۔ تھوڑی ہی دیر بعد آہنی دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئے۔ انہیں ایک کمرے میں مدہم سے روشنی دکھائی دی۔ عمران کے علاوہ اور سب جہاں بھی تھے، وہیں رک گئے۔ لیکن عمران کمرے کی طرف بڑھتا رہا۔ دروازے پر رک کر اسنے انہیں آنے کا اشارہ کیا۔ سردار داراب آہستہ آہستہ آگے بڑھا لیکن وہ تینوں وہیں رہے۔

عمران سردار داراب کا ہاتھ پکڑے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔ سامنے ہی ایک پلنگ پر کوئی سو رہا تھا اور اسکا جسم کمبل سے ڈھکا ہوا تھا جیسے ہی عمران پلنگ کی طرف بڑھا سردار داراب نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔ اسنے محسوس کیا کہ سردار بری طرح کانپ رہا ہے۔ عمران نے اس سے ہاتھ چھڑا کر سونے والے کا کمبل کھینچ لیا اور دوسرے ہی لمحہ میں سردار داراب کے حلق سے

.
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ نمبر 271/10


ایک ہلکی سی چیخ نکلی۔ کیونکہ پلنگ سے اچھل کر اٹھنے والا بھی سردار داراب ہی تھا۔

"بھبھوت۔" سردار داراب عمران سے لپٹ گیا۔

"خبردار" عمران نے اپنے ریوالور کا رخ پلنگ سے اٹھنے والے کی طرف کرتے ہوئے کہا۔ "اپنی جگہ سے جنبش نہ کرنا۔ ورنہ گولی مار دوں گا۔" پھر وہ سردار داراب سے بولا۔ "بچھوؤں کا مقصد ظاہر ہوگیا۔ سردار داراب کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے سامنے آئینہ نہیں ہے۔"

سامنے کھڑے ہوئے آدمی اور سردار داراب میں سر مو فرق نہیں تھا۔ سردار داراب بدستور کانپتا رہا، مگر دوسری طرف اسکا ہم شکل بھی بری طرح کانپ رہا تھا۔

"ڈاکٹر نجیب صرف اتنے دن آپکو وصیت نامہ مرتب کرنے سے روکنا چاہتا تھا جب تک کہ اسکا تجربہ مکمل نہ ہوجائے۔ آج اگر وہ کامیاب ہو جاتا تو آپ مرجانے کے باوجود بھی زندہ رہتے یعنی آپکی جگہ پلاسٹک سرجری کا یہ شاہکار لے لیتا اور آپکی دولت پر صرف ڈاکٹر نجیب کا ہاتھ ہوتا۔ پھر کسی وصیت نامے کی ضرورت ہی باقی نہ رہ جاتی اور وہ اسکے بعد آہستہ آہستہ آپکے دوسرے وارثوں کو بھی اپنی راہ سے ہٹا دیتا۔ اس عمارت کو اسی لئے آسیب زدہ بنایا گیا تھا کہ کوئی ادھر کا رخ بھی نہ کرسکے اور ڈاکٹر نجیب یہاں اطمینان سے اپنا یہ شاہکار مکمل کرتا رہے۔ اب میں مطمئن ہوں سردار صاحب۔"

"بچھوؤں کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ وصیت نامہ نہ مرتب کرسکیں۔ اس وقت تک جب تک کہ آپ کی جگہ لینے والا بن کر تیار نہ ہوجائے۔"

پھر عمران نے سردار داراب کے ہم شکل پر مکے برسانے شروع کردیے اور اسنے ذرا ہی سی دیر میں اعتراف کرلیا کہ وہ سردار گڈھ کا ایک غنڈہ تھا اور ڈاکٹر نجیب نے اس پر پلاسٹک سرجری کا عمل کرکے اسے سردار داراب بنا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ بقیہ پانچ آدمیوں کے متعلق بھی اسنے بتایا کہ وہ اسکے پٹھے تھے۔ صبح ہوتے ہوتے وہ سب پولیس کے حوالے کردیئے گئے۔

سردار داراب اسطرح خاموش ہوگیا تھا جیسے اسکی قوتِ گویائی ہی سلب ہوگئی ہو۔

دوسری شام جب عمران داراب کیسل سے رخصت ہورہا تھا۔ سردار داراب نے بڑے نوٹوں کی ایک موٹی سی گڈی عمران کے سامنے رکھ دی۔

"میں مجبور ہوں سردار صاحب۔" عمران نے کہا۔ "مجھے افسوس ہے سر سلطان نے مجھے اسکی ہدایت نہیں کی تھی۔"

"میں دے رہا ہوں تمھیں اپنا بچہ سمجھ کر۔" سردار داراب نے گلوگیر آواز میں کہا۔ "میں تو چاہتا ہوں کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہو۔ کچھ دن تو ٹھہرو۔"


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ نمبر 272/11


"مجھے افسوس ہے جناب میرے پاس ابھی کئی ایسے کیس ہیں جنہیں نپٹانا ضروری ہے۔" عمران کا جواب تھا۔

پھر جب اسکی کار کیسل کے پھاٹک پر پہنچی تو شاہدہ اور بلقیس نے راستہ روک لیا۔ شاید وہ وہاں اسکا انتظار کرہی تھیں۔

شاہدہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اسنے کہا۔ "عمران صاحب میں نے بڑی گستاخیاں کی ہیں، معافی چاہتی ہوں۔۔۔۔"

"ارے جاؤ۔" عمران ہاتھ ہلا کر بولا۔ "میں وہ آدمی ہی نہیں ہوں جس سے کوئی معافی مانگے۔ میری سگی بہن مجھے گالیاں دیتی ہے اور میرے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہٹو سامنے سے ورنہ گاڑی چڑھا دوں گا۔"

"اللہ کے نام پر۔" بلقیس نے بسور کر کہا اور چیونگم کے تین چار پیکٹ نکال کر عمران کو دیئے۔

"شکریہ۔۔۔۔۔یہ کام کیا ہے۔۔۔۔۔خدا جیتا رکھے۔" عمران نے پیکٹ لیکر اپنی گود میں ڈالتے ہوئے کہا۔

"پھر کبھی آئیے گا۔۔۔۔" شاہدہ نے مغموم لہجے میں پوچھا۔

"اب تم پلاسٹک سرجری کی ٹریننگ لو، امریکہ جا کر۔ واپسی پر مجھے موجود پاؤ گی۔۔۔۔۔۔۔اچھا، ٹاٹا۔" اسکی کار آگے بڑھ گئی۔


(تمام شد)


۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top