آگ یہ کیسی لگی ہے سینۂ دلگیر میں - ثاقب لکھنوی

آگ یہ کیسی لگی ہے سینۂ دلگیر میں
چھالے آجاتے ہیں نظر آئینہ تقدیر میں

ظالم ومظلوم ان کے زورِ بازو پر نثار
چھوڑتے ہیں دل پہ چٹکی لے کے پائے تیر میں

نامہ لکھتے وقت کیا جانے قلم کیوں کر چلا
اضطراب دل نظر آنے لگا تحریر میں

نالے کرتا جا کہ زورِ ناتوانی ہے بہت
جھک چلا ہے چرخ گرجائے گا دو اک تیر میں

پیش عاقل بولتا ہے عالمِ نقش و نگار
کہہ گئی سب کچھ خموشی پردۂ تصویر میں

ثاقب لکھنوی
 
Top