آپ کی سب سے زیادہ پسندیدہ سورۃ مبارکہ اور وجوہات

سورۃ اچھی لگنا کا مطلب ہے قرآن پر اپنی رائے کا اظہار ۔ ۔ ۔ ۔
لیکن کسی سورۃ کا ورد کرنا کسی بھی وجہ سے ہوسکتا ہے، یا کوئی وظیفہ ہو، یا کوئی اور وجہ ہوسکتی ہے، ایسی سورت آپ کی رائے نہیں بلکہ آپ کی ضرورت یا کوئی اور وجہ ممکن ہوسکتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ موضوع اب سمجھ آ چکا ہے۔ اگر کوئی رائے دینا چاہیں تو ضرور دیں۔ اس پر اب مزید بحث کی ضرورت نہیں۔
 

ضیاء حیدری

محفلین
عن أَبي سعيدٍ رافعِ بنِ المُعلَّى رَضيَ اللَّه عَنْهُ قَالَ: قَالَ لي رسولُ اللَّه صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم: "أَلا أُعَلِّمُكَ أَعْظَم سُورةٍ في الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ تخْرُج مِنَ المَسْجِدَ؟ فأَخَذَ بيدِي، فَلَمَّا أَردْنَا أَنْ نَخْرُج قُلْتُ: يَا رسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ قُلْتَ لأُعَلِّمنَّكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ في الْقُرْآنِ؟ قَالَ: {الحَمْدُ للَّهِ رَبِّ العَالمِينَ} [ الفاتحة: 1] هِي السَّبْعُ المَثَاني، وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذي أُوتِيتُهُ"
رواه البخاري
ابو سعید مولی رافع بن المعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا کہ کیا میں مسجد سے نکلنے سے پہلے تمہیں قرآن کی سب سے عظیم سورت کے بارے میں نہ بتاؤں؟
پھر جب ہم نکلنے لگے تو میں نے کہا اللہ کے رسول آپ نے فرمایا تھا کہ میں تمہیں قرآن کی سب سے عظیم سورت سے آگاہ کروں گا آپ نے فرمایا وہ الحمد للہ رب العالمین سورۃ الفاتحہ ہے.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کے بہت سے فضائل بیان فرمائے ہیں۔ مثلاًصحیح بخاری ج 2 ص 642” کتاب التعبیر“میں ہے:ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : میں مسجد میں تھا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نےمجھے ارشاد فرمایا
أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنْ الْمَسْجِدِ۔
)صحیح بخاری رقم الحدیث:4703(
مسجد میں سے نکلنے سے پہلے پہلے میں تجھے وہ سورۃ سکھاؤں گا جو قرآ ن کی سورتوں میں عظیم ترین سورۃ ہے۔ جب میں مسجد میں تھا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَیہ سورۃ فاتحہ سب سورتوں میں عظیم ترین سورۃ ہےاور قرآن میں اس کا نام رکھا ہے
وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ۔
)سورۃ الحجر:87
 

ربیع م

محفلین
اس تھریڈ میں ہونے والی" بزعم خود شاہ سے زیادہ وفادار " قسم کی بحث کے لیے یہ حدیث شریف دال اور حرفِ آخر ہے، جزاک اللہ۔

فقط ایک بات کہ حدیث شریف کے آخری جملے کا ترجمہ یا تو آپ نے چھوڑ دیا یا انہوں نے جہاں سے کاپی کیا ہے۔ "سبع مثانی" پر بھی چونکہ اکثر فقہہی بحث چل نکلتی ہے شاید اسی لیے۔ :)
میں نے کوشش کی کہ موضوع سے متعلقہ حصہ کا ہی ترجمہ لکھوں ورنہ کوئی بات کھینچ کر کہیں اور ہی نہ لے جائے.
 

فاخر رضا

محفلین
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کے بہت سے فضائل بیان فرمائے ہیں۔ مثلاًصحیح بخاری ج 2 ص 642” کتاب التعبیر“میں ہے:ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : میں مسجد میں تھا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نےمجھے ارشاد فرمایا
أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنْ الْمَسْجِدِ۔
)صحیح بخاری رقم الحدیث:4703(
مسجد میں سے نکلنے سے پہلے پہلے میں تجھے وہ سورۃ سکھاؤں گا جو قرآ ن کی سورتوں میں عظیم ترین سورۃ ہے۔ جب میں مسجد میں تھا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَیہ سورۃ فاتحہ سب سورتوں میں عظیم ترین سورۃ ہےاور قرآن میں اس کا نام رکھا ہے
وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ۔
)سورۃ الحجر:87
یقیناً آپ کو یہ سورہ پسند ہوگی تبھی اس کی توصیف بیان فرمائی، جزاک اللہ
 

عینی مروت

محفلین
کلام پاک کا ہر ہر لفظ انسان کو ایمان کی تازگی عطا کرتا ہے خاص کر جب غوروفکرسے پڑھاجائے اور سچ تو یہ ہے کہ خواہ کوئی بھی جز یا سورة کی تلاوت کی جائے دل کو بہت سکون ملتا ہے
البتہ وہ سورتیں جو زیادہ سے زیادہ ورد زبان ہوں
یا جنہیں پڑھتے ہوئے بہت الگ قسم کی کیفیت ہوتی ہے۔۔ ان میں چند ایک کاذکرکروں گی

سورة الفاتحہ:
اس مبارک سورہ کے بہت سے فضائل جو کہ اوپر بیان ہوچکے ان کے علاوہ ایک بڑی خاصیت دعا کے ساتھ ساتھ شفا بھی ہے دم کرنے کے لیے اکثر اس کی تلاوت ہوتی رہتی ہے

سورة الم سجدة :
جمعہ کی فجر نماز میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کےمعمول کی وجہ سے۔۔(حوالہ صحیح بخاری)

اس سورة مبارکہ سے کچھ روح پرور لمحات بھی وابستہ ہیں جب حرم شریف میں پہلی بار امام الحرم جناب عبداللہ عواد الجھنی کی آواز میں جمعہ کی فجر میں اس سورہ۔مبارکہ اور سورة الدھر/سورة الانسان کی تلاوت سنی تھی۔
پہلے بھی کسی لڑی میں ذکر کیا تھا کہ امام محترم اس سورة کی اکثر تلاوت کرتے ہیں مگر اس دن جس خاص کیفیت میں تلاوت کی تھی۔ خود ان کی باقی دنوں کی تلاوت میں وہی سوز و گداز بہت کم محسوس ہوتا ہے۔

سورة یس:
کلام اللہ کا دل ہے دل سے قریب محسوس ہوتا ہے
مجھے یہ سورة مبارکہ بہت مانوس سى لگتی ہے

سورة الفتح:
صلح حدیبیہ کے واقعات اور بیعت رضوان کی یادتازہ ہوجاتی ہے۔۔۔ اس بابرکت سورہ کا ان کٹھن حالات میں فتوحات کی پیش گوئی ثابت ہونا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ۔۔۔
اے عمر (رضی اللہ عنہ) آج رات مجھ پر ایسی سورة نازل ہوئی ہے جو مجھے ان سب چیزوں سے زیادہ پسند ہے جن پر سورج نکلتا ہے
فتح مبین کی عطا۔۔۔۔۔۔بیعت کرنے والے ان مومنین پر اللہ کی رضا کا بیان ۔۔۔۔خاص کر آخری آیت مبارکہ بہت اثر انگیز لگتی ہے

سورة الرحمن:
سورة مبارکہ کا آہنگ ،الفاظ کا اتارچڑھاو ، اور
فبای آلاء ربکما تکذبان

کی تکرار انسان کو جھنجھوڑ کررکھ دیتی ہے
اسےخوش الحانی سے اور ترجمہ کو سمجھ سمجھ کر پڑھتے وقت بہت سکون ملتا ہے


سورة الملک:
عذاب قبر اور اس تاریک گڑھے کی تنگی و تاریکی سے امان محسوس ہوتی ہے شیخ عبدالرحمن العوسی کی آواز میں سننا بہت اچھا لگتا ہے

سورة الاخلاص:
اس مختصر سی سورة مبارکہ کی فضیلت اور اس پاک و برتر ہستی کے تعارف پر مبنی موضوع کو اس کماال اختصار سے بیاں کرنے کی وجہ سے۔۔۔
اس کے علاوہ ان حضرت کا واقعہ جن کی سورة الاخلاص سے محبت اور ہرنماز میں تلاوت کا سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ
اس سے کہہ دو کہ اللہ پاک بھی اس سے محبت رکھتا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
دوران تلاوت جب سورہ یوسف آتی ہے تو بہت خوشی ہوتی ہے۔۔۔
دل تھام کے بیٹھو اب اللہ کہانی سنانے جارہے ہیں۔۔۔
دنیا کی کسی بھی کہانی میں کیا کچھ ہوسکتا ہے۔۔۔
عمدہ پلاٹ، مضبوط کہانی، اچھی کردار نگاری، بہترین منظر نگاری، تھرل، ایڈونچر، سسپنس، ٹریجڈی، رومانس، ہیرو، ولن، کلائمیکس اور ہیپی اینڈنگ وغیرہ۔۔۔
یہ سب سورہ یوسف میں ہے اور کیا خوب ہے۔۔۔
ان جزئیات پر مبنی انسان کہانی لکھتا ہے، قصہ تراشتا ہے۔۔۔
زیادہ تر تخیلاتی ہوتا ہے، کم مبنی بر حقیقت ہوتا ہے۔۔۔
ان افسانوں میں زبان کی چاشنی اور جذبات کی لذت کا خیال رکھا جاتا ہے۔۔۔
تفریح کا پہلو غالب ہوتا ہے۔۔۔
اور ذہن سازی و کردار سازی کا پہلو مغلوب ۔۔۔
یہ کہانی اللہ تعالیٰ سناتے ہیں ۔۔۔
ایک تو یہ کہ خود سناتے ہیں دوسرے یہ کہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ سارے قصے کہانیوں سے بہتر ہے۔۔۔
دنیا کی بہترین کہانی خدا کی زبانی۔۔۔
لطف بالائے لطف۔۔۔
سارے کا سارا حقیقت پر مبنی۔۔۔
اس پر مستزاد کہ مجال ہے زبان و بیان کی چاشنی اور فصاحت و بلاغت میں ذرا کہیں جھول آجائے۔۔۔
عام کہانیوں کے برعکس جذباتیت پر نصیحت غالب ۔۔۔
دنیا کی کہانی میں رومانس کا عروج ہوتا ہے مرد، عورت اور تنہائی۔۔۔
پھر اس ماحول کو نمک مرچ لگا کر جذبات ابھارے جاتے ہیں۔۔۔
اخلاق و پاکیزگی کا کچرا کیا جاتا ہے۔۔۔
اور یہ کہانی اللہ سناتے ہیں۔۔۔
جب عورت، مرد اور تنہائی اکٹھی ہوگئی۔۔۔
لیکن کیا مجال کہ جذبات ذرا بھی ادھر ادھر بھٹکیں، ناپاک ہوں۔۔۔
وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ۔۔۔
جب گھر کی تنہائی میں اس عورت نے یوسف کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تو سارے دروازے بند کرکے کہنے لگی، اب آ بھی جاؤ۔ یوسف نے فوراً کہا خدا کی پناہ ، یہ کار بد کرنے والے برباد لوگ ہیں۔۔۔
خدا نے برائی کو برائی کہا۔۔۔
برائی کی رنگ آمیزی کرکے گوبر پر سونے کا ورق نہیں چڑھایا۔۔۔
سورہ یوسف کی ایک ایک آیت، ایک ایک واقعہ، ہر واقعے کی ہر ہر جزئیات خود اپنے اندرایک کہانی کا بحر بیکراں رکھتی ہیں۔۔۔
پڑھتے جائیے، سر دھنتے جائیے!!!
 
آخری تدوین:

م حمزہ

محفلین
دوران تلاوت جب سورہ یوسف آتی ہے تو بہت خوشی ہوتی ہے۔۔۔
دل تھام کے بیٹھو اب اللہ کہانی سنانے جارہے ہیں۔۔۔
دنیا کی کسی بھی کہانی میں کیا کچھ ہوسکتا ہے۔۔۔
عمدہ پلاٹ، مضبوط کہانی، اچھی کردار نگاری، بہترین منظر نگاری، تھرل، ایڈونچر، سسپنس، ٹریجڈی، رومانس، ہیرو، ولن، کلائمیکس اور ہیپی اینڈنگ وغیرہ۔۔۔
یہ سب سورہ یوسف میں ہے اور کیا خوب ہے۔۔۔
ان جزئیات پر مبنی انسان کہانی لکھتا ہے، قصہ تراشتا ہے۔۔۔
زیادہ تر تخیلاتی ہوتا ہے، کم مبنی بر حقیقت ہوتا ہے۔۔۔
ان افسانوں میں زبان کی چاشنی اور جذبات کی لذت کا خیال رکھا جاتا ہے۔۔۔
تفریح کا پہلو غالب ہوتا ہے۔۔۔
اور ذہن سازی و کردار سازی کا پہلو مغلوب ۔۔۔
یہ کہانی اللہ تعالیٰ سناتے ہیں ۔۔۔
ایک تو یہ کہ خود سناتے ہیں دوسرے یہ کہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ سارے قصے کہانیوں سے بہتر ہے۔۔۔
دنیا کی بہترین کہانی خدا کی زبانی۔۔۔
لطف بالائے لطف۔۔۔
سارے کا سارا حقیقت پر مبنی۔۔۔
اس پر مستزاد کہ مجال ہے زبان و بیان کی چاشنی اور فصاحت و بلاغت میں ذرا کہیں جھول آجائے۔۔۔
عام کہانیوں کے برعکس جذباتیت پر نصیحت غالب ۔۔۔
دنیا کی کہانی میں رومانس کا عروج ہوتا ہے مرد، عورت اور تنہائی۔۔۔
پھر اس ماحول پر تیل چھڑک چھڑک کر جذبات ابھارے جاتے ہیں۔۔۔
اخلاق و پاکیزگی کا کچرا کیا جاتا ہے۔۔۔
اور یہ کہانی اللہ سناتے ہیں۔۔۔
جب عورت، مرد اور تنہائی اکٹھی ہوگئی۔۔۔
لیکن کیا مجال کہ جذبات ذرا بھی ادھر ادھر بھٹکیں، ناپاک ہوں۔۔۔
وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ۔۔۔
جب گھر کی تنہائی میں اس عورت نے یوسف کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تو سارے دروازے بند کرکے کہنے لگی، اب آ بھی جاؤ۔ یوسف نے فوراً کہا خدا کی پناہ ، یہ کار بد کرنے والے برباد لوگ ہیں۔۔۔
خدا نے برائی کو برائی کہا۔۔۔
برائی کی رنگ آمیزی کرکے گوبر پر سونے کا ورق نہیں چڑھایا۔۔۔
سورہ یوسف کی ایک ایک آیت، ایک ایک واقعہ، ہر واقعے کی ہر ہر جزئیات خود اپنے اندرایک کہانی کا بحر بیکراں رکھتی ہیں۔۔۔
پڑھتے جائیے، سر دھنتے جائیے!!!
سید عمران بھائی! آپ نے بہت زبردست نقشہ کھینچا ہے سورۃ یوسف کا۔
آسان لیکن پُر اثر الفاظ میں کتنی نصیحتوں کا نچوڑ رکھا ہمارے سامنے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاےَ خیر دے۔
یہ قصہ سنانے میں کتنے مقاصد تھے اللہ کے سامنے۔۔۔ اخلاقی قدروں کی حفاظت۔ خیالات کی طہارت۔ اللہ واحد کی عبودیت و ربوبیت۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے تسلی کا سامان اور اہم پیشین گوئیاں۔
یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا رویہ۔ یہی سب تو ہوتا تھا پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔۔ کہ اپنے ہی بھائی جان کے دشمن تھے۔ جس طرح یوسف علیہ السلام کو بھائیوں نے نکالا، آپ کو بھی نکالا جاےَ گا۔ ان کو ایک دیارِ غیر میں بیچا گیا۔ وہ کمزور تھے۔ کوئی رشتہ ، کوئی یاری نہ تھی۔ سب پراےَ تھے ۔ پھر کیسے اس قوم کے فرمانروا بن گئے۔عزت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ اور وہ بھی دور آیا کہ وہی بھائی جو ان کو موت کے کنویں میں پھینک آئے تھے، ان کے سامنے دستِ سوال پھیلائے ہیں۔معافی کے طلب گار ہیں۔ پھرسب کا ان کے سامنے سجدہ ریزہونا۔
کیا یہی سب نہیں ہوا تھا مدینہ میں آگے چل کر؟؟؟
واقعی یہ سورۃ مبارکہ مستقبل کی آئینہ دار تھی۔
کتنی عظیم باتیں بیان کی گئی اس عظیم سورہ میں۔ اللہ ہم سب کو پڑھنے،سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 
دوران تلاوت جب سورہ یوسف آتی ہے تو بہت خوشی ہوتی ہے۔۔۔
دل تھام کے بیٹھو اب اللہ کہانی سنانے جارہے ہیں۔۔۔
دنیا کی کسی بھی کہانی میں کیا کچھ ہوسکتا ہے۔۔۔
عمدہ پلاٹ، مضبوط کہانی، اچھی کردار نگاری، بہترین منظر نگاری، تھرل، ایڈونچر، سسپنس، ٹریجڈی، رومانس، ہیرو، ولن، کلائمیکس اور ہیپی اینڈنگ وغیرہ۔۔۔
یہ سب سورہ یوسف میں ہے اور کیا خوب ہے۔۔۔
ان جزئیات پر مبنی انسان کہانی لکھتا ہے، قصہ تراشتا ہے۔۔۔
زیادہ تر تخیلاتی ہوتا ہے، کم مبنی بر حقیقت ہوتا ہے۔۔۔
ان افسانوں میں زبان کی چاشنی اور جذبات کی لذت کا خیال رکھا جاتا ہے۔۔۔
تفریح کا پہلو غالب ہوتا ہے۔۔۔
اور ذہن سازی و کردار سازی کا پہلو مغلوب ۔۔۔
یہ کہانی اللہ تعالیٰ سناتے ہیں ۔۔۔
ایک تو یہ کہ خود سناتے ہیں دوسرے یہ کہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ سارے قصے کہانیوں سے بہتر ہے۔۔۔
دنیا کی بہترین کہانی خدا کی زبانی۔۔۔
لطف بالائے لطف۔۔۔
سارے کا سارا حقیقت پر مبنی۔۔۔
اس پر مستزاد کہ مجال ہے زبان و بیان کی چاشنی اور فصاحت و بلاغت میں ذرا کہیں جھول آجائے۔۔۔
عام کہانیوں کے برعکس جذباتیت پر نصیحت غالب ۔۔۔
دنیا کی کہانی میں رومانس کا عروج ہوتا ہے مرد، عورت اور تنہائی۔۔۔
پھر اس ماحول پر تیل چھڑک چھڑک کر جذبات ابھارے جاتے ہیں۔۔۔
اخلاق و پاکیزگی کا کچرا کیا جاتا ہے۔۔۔
اور یہ کہانی اللہ سناتے ہیں۔۔۔
جب عورت، مرد اور تنہائی اکٹھی ہوگئی۔۔۔
لیکن کیا مجال کہ جذبات ذرا بھی ادھر ادھر بھٹکیں، ناپاک ہوں۔۔۔
وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ۔۔۔
جب گھر کی تنہائی میں اس عورت نے یوسف کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تو سارے دروازے بند کرکے کہنے لگی، اب آ بھی جاؤ۔ یوسف نے فوراً کہا خدا کی پناہ ، یہ کار بد کرنے والے برباد لوگ ہیں۔۔۔
خدا نے برائی کو برائی کہا۔۔۔
برائی کی رنگ آمیزی کرکے گوبر پر سونے کا ورق نہیں چڑھایا۔۔۔
سورہ یوسف کی ایک ایک آیت، ایک ایک واقعہ، ہر واقعے کی ہر ہر جزئیات خود اپنے اندرایک کہانی کا بحر بیکراں رکھتی ہیں۔۔۔
پڑھتے جائیے، سر دھنتے جائیے!!!
جزاک اللہ۔
میری آپ سے گزارش ہے کہ اسی انداز سے قرآن کریم کی تمام سورتوں کا تعارف پیش کیجیے۔ :)
 

سید عمران

محفلین
اسلام سے قبل دو مشہور تہذیبیں تھیں۔۔۔
ایک بادشاہت اور غلامی پر مبنی جو سلطنت روما سے چین و ہند تک پھیلی ہوئی تھی۔۔۔
جہاں انسان بادشاہت کے ظلم تلے دب کر خوشامد اور چاپلوسی کا پیکر بنا ہوا تھا۔۔۔
بادشاہوں کے آگے ہاتھ جوڑنا اور ان کے پیروں پر سجدہ کرنا اس کی فطرت میں رچ بس گیا تھا۔۔۔
دوسری طرف عرب کا وحشیانہ، بے باک اور بے تکلف معاشرہ تھا۔۔۔
جہاں ادب آداب نام کی کوئی شے نہیں تھی۔۔۔
چھوٹے بڑے سب ایک ہی لاٹھی سے ہانکے جاتے تھے۔۔۔
بڑوں کا نام لے کر بے تکلفانہ انداز میں ان سے گفتگو کرنا معمول کی بات تھی۔۔۔
ان دو انتہا ؤں کے درمیان اسلام اعتدال پسندی کا نظام لایا۔۔۔
معاشرت کی اُن چھوٹی چھوٹی باتوں کو سدھارا جو بڑے بڑے فتنوں کا سبب بنتی ہیں۔۔۔
بڑوں کا ادب سکھایا۔۔۔
عرب دیہاتیوں کی ایک جماعت رسول اللہ کے حجرے کے باہر آئی ۔۔۔
اور زور زور سے آوازیں لگانے لگی۔۔۔
اُخرج یا محمد۔۔۔
محمد باہر آجاؤ۔۔۔
تب دفعۃً ان کی پکڑ ہوگئی۔۔۔
خبردار! ہمارے نبی کے آگے کبھی اپنی آوازیں بلند نہ کرنا، اور نہ ان کے ساتھ ایسی بے تکلفی سے بات کرنا جیسے آپس میں کرتے ہو۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو اِس بے ادبی کے سبب اُس کے تمام نیک اعمال ضائع ہوجائیں گے!!!

معاشرے میں ایک دوسرے کی پرائیویسی سکھائی۔۔۔
لا تجسسوا۔۔۔
کسی کی ٹوہ نہ لینا۔۔۔
بھائی بھاوج کمرے میں بات کررہے ہیں ۔۔۔
نند صاحبہ آئیں، کھڑکی یا دروازے کے پاس کھڑے ہوکر کن سوئیاں لیں۔۔۔
سنا کچھ، سمجھا کچھ، پھر نمک مرچ لگا کر ساس سے پھونک دیا۔۔۔
اب دونوں نے ان باتوں کو پکا پکا کر لاوا بنالیا۔۔۔
ادھر بہو سے کوئی لغزش سرزد ہوئی ادھر دونوں کا لاوا پھٹ پڑا۔۔۔
پھر وہ فتنے برپا ہوئے کہ دنیا دیکھا کیے۔۔۔
یہی نند کن سوئیاں لیتے وقت لا تجسسوا کے خدائی حکم پر لرز جاتی ۔۔۔
دروازے پر رکے بغیر آگے بڑھ جاتی تو کتنے فساد برپا ہونے سے رہ جاتے۔۔۔
زندگی کتنی خوشگوار ہوتی!!!

آپس کے بھائی چارے کے لیے کہا۔۔۔
لا یغتب۔۔۔
پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو۔۔۔
ایک کولیگ نے دوسرے کولیگ کی معمولی غلطی باس کے سامنے اتنی اُچھالی، اتنی اُچھالی کہ اس کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑگئے۔۔۔
کسی کی دل لگی ہوگئی، کسی کے دل کے ٹکڑے معصوم بچے بھوک پیاس سے رُل گئے۔۔۔
کیا ہوتا جو غیبت کرکے اپنے بھائی کا گوشت نوچ نوچ کے نہ کھایا ہوتا۔۔۔
ایک گھرانہ بھوکا پیاساہونے سے بچ جاتا!!!

اپنے بندوں کی عزت نفس کا مان رکھا۔۔۔
سب میں اعلان کرادیا۔۔۔
کوئی کسی کا مذاق نہ اڑائے ۔۔۔
کسی کو نہیں معلوم کہ کون ہماری نظر میں مقبول ہے اور کون مردود۔۔۔
ہوسکتا ہے وہی مقبول ہوجس کا تم نے تمسخر بنادیا۔۔۔
ایک کلاس فیلو لنگڑاتا ہوا کلاس میں داخل ہوا ۔۔۔
سارے اسے دیکھ کر مذاق سے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔۔۔
ادھر اس کا دل کٹ کر ہزار لوتھڑوں میں تقسیم ہوگیا، بوٹی بوٹی نُچ گئی۔۔۔
رسولِ خدا نے فرمایا۔۔۔
اے کعبہ تو بہت محترم ہے۔۔۔
لیکن ایک چیز تجھ سے زیادہ محترم ہے۔۔۔
وہ ہے مسلمان کی عزت!!!

سورہ حجرات میں وہ چھوٹی چھوٹی باتیں سکھائی گئی ہیں جو ہر وقت انسان کو درپیش آتی رہتی ہیں۔۔۔
مگر انسان عمل ان پر کرتا ہے جن کی ممانعت کی گئی ہے!!!
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
سورہ یسین
سورہ مدثر
سورہ مزمل
سورہ طٰہ
سورہ الشمس
سورہ الضحیٰٰ
سورہ والیل


مجھے یہ تمام سورتیں پسند ہیں. ان سب میں حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صفات بتائیں گئیں ..بیشتر مکی صورتیں ہیں ... ان میں ہم جیسوں کے لیے تعلیمات ہیں جنوں نے عمل کی ابتدا کرنی ہوتی ہے تو وہ اچھی ہیں اسلامی تعلیم کو سمجھنے کے لیے .... سورہ یسین سور مزمل سورہ مدثر سے دلی لگاؤ ہے اور ان کی قرات بھی کرتی رہتی ہوِ
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نور اور ہدایت سے پر اس ابدی ہدایت نامہ میں تمام کی تمام سورتیں محبوب ہیں کہ وہ محبوب و معشوق حقیقی ہمارے مہربان خالق اللہ جل جلالہ کی طرف سے اس محبوب و معشوق کے بھی محبوب نبی سیدنا و مولانا محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر نازل ہوئیں - ہر سورۃ کریمہ میں مالک و خالق نے کرم ہی کرم فرمایا ہے - دعا ہے کہ ہم جھوٹے سچے قرآن سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کے دلوں کو بدل دے اور انہیں اس خلوص سے بھر دے جو قرآن کی ہر ہر کیفیت ، امر ، نہی کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کی وہ سعی کرے جو مالک و خالق حقیقی کو مقبول ہو ہمارے دلوں سے ہر برائی، گمراہی ، تکبر کو محو فرما دے ہمارے دلوں کو اپنی سچی محبت سے بہرہ مند فرما دے -
وہ محبت جو اسے مطلوب و محبوب و مقبول ہے ۔ آمین ثم آمین
 
جی یہ بہتر ہے آپکی دلی کیفیت سنتے اور پڑهتے ہوئے دیکهتے ہوئے کن تزلزل کا شکار ہو اس لحاظ سے دیکهو قرآن پر رائے اور نہ کوئی ایسی کتاب کوئی بنا سکتا ہے
 
Top