آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

ابوشامل

محفلین
ہا! یہ کتاب میری بھی فہرستِ مطالعہ میں ہے۔ مجھے تاریخ سے خاص لگاؤ ہے اور اس واسطے میں نے عجم زدہ ترک سلاطین کے متعلق کافی برقی کتابیں اور مضامین اکھٹے کر رکھے ہیں، بس پڑھنے کا موقع ہی نہیں مل پاتا۔

ویسے میں فی الوقت کرشن چندر کی 'ایک گدھے کی سرگذشت' پڑھ رہا ہوں۔
”عجم زدہ ترک سلاطین“، واہ خوب کیا اصطلاح ہے :)
خیر، گو کہ عثمانی تاریخ کے چاہنے والوں کو تاریخ ہند پڑھوانا ظلم عظیم ہے لیکن پھر بھی ہمارے خطے کی تاریخ بھی دلچسپی سے کم نہیں۔ اس لیے پڑھ رہے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس پڑھنے کے نتیجے میں اردو وکی پیڈیا کے قارئین کو کچھ اچھے مضامین مل جائیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
”عجم زدہ ترک سلاطین“، واہ خوب کیا اصطلاح ہے :)

persianate turk emperors کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ :)

خیر، گو کہ عثمانی تاریخ کے چاہنے والوں کو تاریخ ہند پڑھوانا ظلم عظیم ہے لیکن پھر بھی ہمارے خطے کی تاریخ بھی دلچسپی سے کم نہیں۔

عثمانی تاریخ کے چاہنے والوں کے لیے بھی دربارِ دہلی کی تاریخ میں بہت دلچسپ چیزیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ایک یہی بات بہت دلچسپی کی حامل ہے کہ کیسے استنبول اور دہلی میں ہزاروں میل کا فاصلہ ہوتے ہوئے بھی دونوں درباروں کی اعلی ثقافت ایک ہی طرز کی تھی۔ دونوں سلطنتوں پر اسِ طرح کا تقابلی مطالعہ کرنے کے لیے تاریخ میں کثیر مواد موجود ہے۔
 
میں آج کل اردو محفل کے چانسلر صاحب کے مراسلے اور دھاگے پڑھ رہا ہوں۔۔۔
m6EUe.png
 

حسان خان

لائبریرین
'عجم زدہ ترک سلاطین' کی اصطلاح کافی فکر انگیز ہے۔ کچھ مزید روشنی ڈالیں۔

جناب، اعراب کی فتوحات دینِ اسلام کے جزیرہ نما عرب کے اطراف و کناف میں پھیلنے کا موجب بنیں۔ ان فتوحات کے بعد عراق، شام، مصر، اور مغرب (مغربی افریقا) کی عوام نے نہ صرف اسلام قبول کیا، بلکہ کچھ مدت کے اندر ہی انہوں نے اپنی قدیم زبان و ثقافت چھوڑ کر عرب زبان و ثقافت بھی اپنا لی۔ بلادِ عجم کے اہالیان نے بھی دیگر لوگوں کی طرح نیا دین ہنسی خوشی قبول کر لیا البتہ اپنی جداگانہ ثقافتی شناخت برقرار رکھی۔ اس لیے عجم کو دوسری مسلمان قوم کہا جا سکتا ہے۔ ان اہالیانِ عجم میں افغان، بلوچ فارس اور کرد شامل تھے جنہیں اُس وقت اجتماعی طور پر عجم کہا جاتا تھا۔

پس از اسلام کے ابتدائی دو سو سال بلادِ عجم عرب خلافت کے زیر نگیں رہے اس لیے وہاں کی سرکاری اور دفتری زبان پورے عرصے عربی رہی. ہجری تقویم کی دو صدیوں بعد بخارا میں پہلی خودمختار ایرانی سنی سلطنت، سلطنتِ سامانیان کا قیام ظہور میں آیا جس نے نئی 'مسلم' فارسی کو اپنی درباری زبان مقرر کیا۔ یہ 'نئی' فارسی ساسانی عہد کی درمیانی پارسی سے بالکل مختلف تھی۔ ایک تو اس کا خط عربی تھا، دوسرے یہ مسلمانوں کی زبان تھی، تیسرے اس کا چالیس فیصد ذخیرہ الفاظ عربی تھا اور چوتھے یہ کہ یہ نئی فارسی کثیر القومی رابطے کی زبان تھی، کسی ایک مخصوص نژاد و قوم کی زبان نہیں ۔ یوں یہ نئی فارسی دینِ اسلام کی دوسری زبان بن گئی، اس میں دھڑا دھڑ اسلامی کتب اور رسائل لکھے جانے لگے اور مسلمانوں میں اسے ویسے ہی مقدس گردانا جانے لگا جیسے عربی کو گردانا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اُس وقت تک مسلمانانِ عالم میں صرف عرب اور عجم اقوام شامل تھیں، ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے طائفے نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔

اسلامی تمدن میں ایرانی رنگ عباسی عہد سے ہی شامل ہونے لگا تھا۔ کیونکہ عباسی سلاطین عموما ایرانی کنیزوں کی اولاد ہوا کرتے تھے، اس لیے مامون الرشید جیسے حکمران کاملا ایرانی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ یعنی اُس وقت کی عرب سلطنت میں بھی عجم پیوندکاری ہو چکی تھی۔

پھر وسطی ایشیا کے ترک قبائل اسلامی تاریخ کے منظرِ شہود پر نمودار ہوتے ہیں۔ اس وقت کے تمام قبائلی معاشروں کی طرح ترک بھی نیم اجڈ اور وحشی لوگ تھے جن کا تمدن سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ان کا جب اسلامی دنیا سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بتدریج اسلام اور اسلامی تمدن قبول کرنا شروع کیا اور ایک صدی کے اندر اندر ہی وسطی ایشیا کے سارے ترک قبائل مسلمان ہو گئے۔ چونکہ وہ قبائلی پس منظر سے تھے اس لیے عشترت پسند عربوں سے بہتر سپاہی ثابت ہو سکتے تھے اس لیے عباسی سلطنت کی افواج میں ترک ہی ترک بھر گئے اور فوجی بیوروکریسی پر ترک حاوی ہو گئے۔ اں کا اثر و رسوخ اتنا بڑھا کہ عباسی حکمران بھی انہیں کے آشیرباد سے تخت نشین ہونے لگے۔ جب عباسی سلطنت کمزور ہو گئی تو ترکوں کی بہلی سلطنت قائم ہوئی جسے تاریخ سلجوقی سلطنت کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ تاریخ کا کرشمہ ہے چند سالوں پہلے کے وحشی ترک اب بلادِ اسلامیہ کے متمدن سلاطین بن بیٹھے تھے۔

ترک بالعموم اور سلجوق بالخصوص عجم نہیں تھے۔ اور نہ ان کی مادری زبان فارسی تھی۔ مگر فارسی اس وقت کے تمدن اور اعلی ثقافت کی زبان تھی۔ اس لیے ترکوں نے اسلام قبول کرنے اور متمدن ہونے کے بعد فارسی زبان کو ہی بطور ادبی اور تہذیبی زبان اپنایا، اور خود مکمل طور پر ایرانی رنگ میں رنگ گئے۔ چونکہ ترکی زبان کی اس دور میں کوئی ادبی وقعت نہیں تھی، اس لیے سلجوقی سلطنت کی درباری زبان فارسی رہی۔ یہ تیموریوں، غزنویوں، عثمانیوں اور مغلوں کی بابت بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ تھے تو ترک مگر اُن کی ثقافت پوری طرح سے ایرانی تھی۔ مثال کے طور پر وہ کوئی ترک قومی تہوار نہیں مناتے تھے، مگر نوروز سرکاری طور پر بصد اہتمام منایا جاتا تھا۔ اُن کے اپنے کوئی قومی رزمنامے نہیں تھے، مگر شاہنامہ خوانی اپنے دربار میں بصد شوق کروایا کرتے تھے جو کہ خالصتا ایرانی رزمنامہ ہے۔ حتی کہ انہوں نے اپنے ترک نام بھی تج کر ایرانی نام مثلا دارا، اورنگزیب، کامران، مراد، جہانگیر اپنا لیے۔ مغل تو اس حد تک ایرانیت میں آگے بڑھے کہ وہ اکبری دور کے بعد اپنی مادری زبان چغتائی ہی بھول گئے اور فارسی میں ہی درونِ خانہ تکلم کرنے لگے۔ حالانکہ وہ بنیادی طور پر وادیِ فرغانہ کے ازبک ترک تھے۔ اِسی طرح صفوی اور قاجار خاندانوں کا بھی تذکرہ کیا جا سکتا ہے جنہوں نے آذری ہوتے ہوئے بھی فارسی زبان اختیار کی۔ اسی ترک اور عجم کے حسین ملاپ نے دنیا کو بہترین اور زیبا ترین تمدن ورثے میں دیا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر فارسی زبان البانیہ سے لے کر ڈھاکہ تک پھیلی ہے تو صرف ترک حکمرانوں کی سرپرستی میں ہی پھیلی ہے۔

ان حکمرانوں کو انگریزی میں persianate turks کہا جاتا ہے، یعنی جو تھے تو بنیادی طور پر ترک مگر وہ تہذیبی لحاظ سے عجمی تھے، اور انہیں کے لیے میں نے عجم زدہ ترک سلاطین کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ ویسے تاریخ میں عجم زدہ افغان حکمران بھی ملتے ہیں جیسے درانی وغیرہ۔

معاف کیجئے گا بھائی۔ اس موضوع پر میرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے اس لیے اتنا لمبا جواب لکھا ہے۔ :) اگر کوئی اور سوال ہو تو ضرور پوچھیے گا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میں آپ کا سوال سمجھا نہیں۔ معذرت خواہ ہوں۔ :(
دراصل ہمارے پاکستانی تعلیمی نصاب میں جو ہم نے پڑھا اس کے مطابق دنیا میں دو ہی اقوام ہیں۔ عرب اور عجم۔ یعنی تیسری کوئی قوم ہی نہیں :) اس لئے الجھن ہوئی اور آپ سے سوال کیا تاکہ تفصیلی جواب مل سکے۔ جو کچھ تفصیل پوسٹ میں تھی وہ تو پڑھ لی :)
 

حسان خان

لائبریرین
جب صرف ایرانی اور اعراب ہی مسلمان تھے تو ہر غیر عرب کو عجم کہا جاتا تھا جن میں کرد، بلوچ اور سغدی وغیرہ بھی شامل تھے۔ ویسے ان اقوام کو اجتماعی طور پر ایرانی ہی کہا جاتا ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
حسان خان صاحب، بہت سیر حاصل تاریخی معلومات فراہم کی ہیں آپ نے۔ جزاک اللہ!

تو کیا ہم 'ہندی' مسلمان ( برصغیر کے مسلمانوں کے لئےقرون اولیٰ سے مستعمل اصطلاح) بھی 'عجمی' ہی کہلاتے ہیں؟
 

حسان خان

لائبریرین
تو کیا ہم 'ہندی' مسلمان ( برصغیر کے مسلمانوں کے لئےقرون اولیٰ سے مستعمل اصطلاح) بھی 'عجمی' ہی کہلاتے ہیں؟

عجم کے دو معانی ہیں۔ اپنے عام مطلب میں یہ ہر غیر عرب کے لیے (بشمول ہندی مسلمانوں کے) استعمال ہوا ہے، مگر اپنے خاص معنی میں اس سے مراد ایرانی لی جاتی ہے۔
 
حسان خان بھائی، کیا مامون الرشید کے دور حکومت (نہ کہ دور خلافت) میں فارسی استعمال ہوتی تھی؟ یہ سوال اس لیے کہ امین کے زمانے میں اس کی حکومت بلاد عجم میں ہی تھی اور اس کے دربار کے امراء بھی عجمی ہی تھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حسان خان بھائی، کیا مامون الرشید کے دور حکومت (نہ کہ دور خلافت) میں فارسی استعمال ہوتی تھی؟ یہ سوال اس لیے کہ امین کے زمانے میں اس کی حکومت بلاد عجم میں ہی تھی اور اس کے دربار کے امراء بھی عجمی ہی تھے۔

اس کا جواب شاید مثبت ہوگا، کیونکہ ابھی چند روز قبل ہی ایک کتاب میں پڑھ رہا تھا کہ مامون الرشید نے اپنے ایرانی وزیر سے قبل از اسلام کے ایرانی بادشاہوں کی قدیم تاریخ منگوائی تھی اور وہ اسے ذوق و شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ مامون کی والدہ بھی ایرانی کنیز تھیں۔
 
اس کا جواب شاید مثبت ہوگا، کیونکہ ابھی چند روز قبل ہی ایک کتاب میں پڑھ رہا تھا کہ مامون الرشید نے اپنے ایرانی وزیر سے قبل از اسلام کے ایرانی بادشاہوں کی قدیم تاریخ منگوائی تھی اور وہ اسے ذوق و شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ مامون کی والدہ بھی ایرانی کنیز تھیں۔
جزاک اللہ حسان بھائی۔ :) :)
 
Top