آپ سے خواتین کی شہرت ہضم نہیں ہوتی.

نور وجدان

لائبریرین
۔
"آپ سے خواتین کی شہرت ہضم نہیں ہوتی"
"آپ عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کے بارے تعصب کا شکار ہیں"
اور وغیرہ وغیرہ۔
۔
رات کے اس پہر کوئی خاص کام تھا نہیں اور نیند کو راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا تو سوچا کہ ایک ذرا تفصیل سے لکھ دوں کہ ان مصنفین سے بالخصوص اور اس قبیل سے بالعموم مجھے مسئلہ کیا ہے۔
۔
دوستو!
بات یہ ہے
آٹھویں جماعت میں بھی ان کے دو ناول پڑھ کر بات واضح ہو گئی تھی کہ غیر معیاری تحریر کسے کہتے ہیں۔۔
۔
اور مسئلہ سارا معیار کا ہے۔
۔
ایک بار ایک دوست کے ہاں جانا ہوا، موبائل بند تھا وقت گزاری کے لیے الماری سے کتاب اٹھا لی، پتہ چلا عمیرہ احمد کی ہے۔ اپنے تعصبات پس پشت ڈالے اور دیباچے میں جا گھسے۔ آپ نے لکھا تھا کہ لوگ مجھے محض تعصب کی بناء پر ادبی حلقوں میں مقام نہیں دیتے، اور محض فیشن کے طورپر تنقیص کرتے ھیں۔ تاہم مجھے عوام الناس پسند کرتی ہے اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں چاہیے۔
۔۔۔۔
مجھے لگا کہ انہیں ایک موقع کھلے دل سے دینا چاہیے۔ سو میں نے کتاب پڑھنا شروع کی اور چوتھے صفحے پر قے ضبط کر کے کتاب واپس رکھ دی اور دل میں سوچا کہ ٹھیک کرتے ہیں آپ کے ساتھ۔۔۔
۔
ماجرا کیا ہے ؟؟
۔
ماجرا یہ ہے کہ اچھا ناول جن بنیادی جزئیات سے تکمیل پاتا ہے، وہ ان کے ہاں خال خال ملتی ہیں۔ کردار نگاری ایک پورا فن ہے، زبان و بیان کی خوبصورتی ایک پورا آرٹ ہے۔ کرداروں کے مکالموں میں رنگ بھرنے اور انہیں عامیانہ گفتگو سے ممتاز کرنے میں محنت لگتی ہے۔
۔
اورادھر۔۔۔
خدا بخشے۔۔۔۔۔ کرداروں کے کوئی تین چار سانچے ہیں، سب کے سب ایک عجیب سی یکسانیت لیے نظر آتے ہیں۔ ایک ہیرو ہے جس کا حلیہ میرے بتانے سے پہلے آپ کے ذہن میں بن چکا ہوگا۔ ایک ہیروئن ہے جس کا سانچہ آپ بارہا دیکھ چکے ہیں، دو چار اسی طرح سائیڈ کرداروں کے سانچے ہیں۔ لعنت پھر گئی کردار نگاری پر۔۔۔
جمالیات سے عاری جملے، پورے ناول میں کوئی ایک تُک کا جملہ نہیں جس پہ دل سے واہ نکلے
گھسی پٹی تراکیب،
ایک جیسے موضوعات،
مذہب کا منورنجن،
سی ایس ایس کا تڑکا،
ایک ہی طرح کے مکالمے
اور ادبی چاشنی سے کوسوں دور لکھی گئی تحریر۔۔۔
یار کوشش کے باوجود بھی حلق سے نیچے نہیں اترتیں۔
یوں بھی اردو ادب میں ناول ابھی خاصا پیچھے ہے، تاہم قراۃ العین حیدر سے لے کر مرزا اطہر تک ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ناول میں خوب جان لگائی ہے اور خوبصورت ناول تخلیق کیے ہیں ۔ تاہم انہیں بھی (صغیر ملال جیسے کچھ لوگوں کے علاوہ) عالمی ادب میں لکھے جانے والے ناولز کے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا۔
۔
مگر آنجناب کہاں سمجھتے ہیں؟؟
اٹھا لاتے ہیں پھر سے پیر کامل ، مصحف ، جنت کے پتے اور اس قییل کے دیگر ناول کہ بھئی تعصب کی عینک اتار کر دیکھو تو مزہ آئیگا۔ یار نہیں آتا مزا، کبھی وقت نکال کے کرائم اینڈ پنشمنٹ پڑھ کر آنکھیں بند کر کے سوچیں کہ یار لوگ کیا لکھتے رہے ہیں اور ہم کس پِٹی ہوئی سوڈو فلاسفی پہ مشتمل تیسرے درجے کا لٹریچر پڑھ رہے ہیں۔
خود کو بہتر تحریروں کی طرف لے کر آئیں۔
نہیں لانا چاہتے تو اپنی پسند کے ساتھ خوش رہیں مگر خدارا یہ پھکاوٹ ہم پر زبردستی مسلط مت کجیے ۔
شکریہ!
صہیب صدیقی
 

جاسمن

لائبریرین
۔
"آپ سے خواتین کی شہرت ہضم نہیں ہوتی"
"آپ عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کے بارے تعصب کا شکار ہیں"
اور وغیرہ وغیرہ۔
۔
رات کے اس پہر کوئی خاص کام تھا نہیں اور نیند کو راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا تو سوچا کہ ایک ذرا تفصیل سے لکھ دوں کہ ان مصنفین سے بالخصوص اور اس قبیل سے بالعموم مجھے مسئلہ کیا ہے۔
۔
دوستو!
بات یہ ہے
آٹھویں جماعت میں بھی ان کے دو ناول پڑھ کر بات واضح ہو گئی تھی کہ غیر معیاری تحریر کسے کہتے ہیں۔۔
۔
اور مسئلہ سارا معیار کا ہے۔
۔
ایک بار ایک دوست کے ہاں جانا ہوا، موبائل بند تھا وقت گزاری کے لیے الماری سے کتاب اٹھا لی، پتہ چلا عمیرہ احمد کی ہے۔ اپنے تعصبات پس پشت ڈالے اور دیباچے میں جا گھسے۔ آپ نے لکھا تھا کہ لوگ مجھے محض تعصب کی بناء پر ادبی حلقوں میں مقام نہیں دیتے، اور محض فیشن کے طورپر تنقیص کرتے ھیں۔ تاہم مجھے عوام الناس پسند کرتی ہے اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں چاہیے۔
۔۔۔۔
مجھے لگا کہ انہیں ایک موقع کھلے دل سے دینا چاہیے۔ سو میں نے کتاب پڑھنا شروع کی اور چوتھے صفحے پر قے ضبط کر کے کتاب واپس رکھ دی اور دل میں سوچا کہ ٹھیک کرتے ہیں آپ کے ساتھ۔۔۔
۔
ماجرا کیا ہے ؟؟
۔
ماجرا یہ ہے کہ اچھا ناول جن بنیادی جزئیات سے تکمیل پاتا ہے، وہ ان کے ہاں خال خال ملتی ہیں۔ کردار نگاری ایک پورا فن ہے، زبان و بیان کی خوبصورتی ایک پورا آرٹ ہے۔ کرداروں کے مکالموں میں رنگ بھرنے اور انہیں عامیانہ گفتگو سے ممتاز کرنے میں محنت لگتی ہے۔
۔
اورادھر۔۔۔
خدا بخشے۔۔۔۔۔ کرداروں کے کوئی تین چار سانچے ہیں، سب کے سب ایک عجیب سی یکسانیت لیے نظر آتے ہیں۔ ایک ہیرو ہے جس کا حلیہ میرے بتانے سے پہلے آپ کے ذہن میں بن چکا ہوگا۔ ایک ہیروئن ہے جس کا سانچہ آپ بارہا دیکھ چکے ہیں، دو چار اسی طرح سائیڈ کرداروں کے سانچے ہیں۔ لعنت پھر گئی کردار نگاری پر۔۔۔
جمالیات سے عاری جملے، پورے ناول میں کوئی ایک تُک کا جملہ نہیں جس پہ دل سے واہ نکلے
گھسی پٹی تراکیب،
ایک جیسے موضوعات،
مذہب کا منورنجن،
سی ایس ایس کا تڑکا،
ایک ہی طرح کے مکالمے
اور ادبی چاشنی سے کوسوں دور لکھی گئی تحریر۔۔۔
یار کوشش کے باوجود بھی حلق سے نیچے نہیں اترتیں۔
یوں بھی اردو ادب میں ناول ابھی خاصا پیچھے ہے، تاہم قراۃ العین حیدر سے لے کر مرزا اطہر تک ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ناول میں خوب جان لگائی ہے اور خوبصورت ناول تخلیق کیے ہیں ۔ تاہم انہیں بھی (صغیر ملال جیسے کچھ لوگوں کے علاوہ) عالمی ادب میں لکھے جانے والے ناولز کے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا۔
۔
مگر آنجناب کہاں سمجھتے ہیں؟؟
اٹھا لاتے ہیں پھر سے پیر کامل ، مصحف ، جنت کے پتے اور اس قییل کے دیگر ناول کہ بھئی تعصب کی عینک اتار کر دیکھو تو مزہ آئیگا۔ یار نہیں آتا مزا، کبھی وقت نکال کے کرائم اینڈ پنشمنٹ پڑھ کر آنکھیں بند کر کے سوچیں کہ یار لوگ کیا لکھتے رہے ہیں اور ہم کس پِٹی ہوئی سوڈو فلاسفی پہ مشتمل تیسرے درجے کا لٹریچر پڑھ رہے ہیں۔
خود کو بہتر تحریروں کی طرف لے کر آئیں۔
نہیں لانا چاہتے تو اپنی پسند کے ساتھ خوش رہیں مگر خدارا یہ پھکاوٹ ہم پر زبردستی مسلط مت کجیے ۔
شکریہ!
صہیب صدیقی
نور!
میں نے بھی یہ اور اسی طرح کی مزید تنقید پڑھی ہے اِن خواتین ناول نگاروں پہ۔ بہرحال اپنی اپنی رائے ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
پاپولر ادب کے بارے میں اسی قسم کی تنقید عام پڑھنے سننے کو ملتی ہے۔ تاہم، تبصرہ نگاری کا یہ انداز دل کو نہیں بھایا۔
 

سین خے

محفلین
دورانِ تعلیم عمیرہ احمد کے بہت ناول پڑھے ہیں۔ پھر جب بانو قدسیہ، احمد ندیم قاسمی اور دیگر معروف ناول اور افسانہ نگاروں کی تحاریر پڑھیں تو عمیرہ احمد کا لکھا پڑھنا چھوڑ دیا۔

ویسے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ جو جاسوسی ڈائجسٹ آتے ہیں اور ان میں جو مرد حضرات لکھتے ہیں، ان کے بارے میں کبھی تنقید اتنی عام پڑھنے میں نہیں آتی ہے۔صرف عمیرہ اور نمرہ ہی کیوں؟ تنقید سب پر ہونی چاہئے۔
 

جاسمن

لائبریرین
نمرہ کے جاسوسی قسم کے ناول بھی اچھے لگتے ہیں۔ نمل تو میں نے محمد کو لے کے دیا۔ وہ دو مرتبہ پڑھ چکا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ اس سب سے پہلے تو سوچ یہ لیجیے کہ ادب کیا ہے؟ ادب زندگی ہے. ایک ادیب تفکر کرتا ہے تو دوسراسوچ یا تجربات کا انعکاس. میری نظر میں پہلے والا مقدم ہے کیونکہ معاشرہ اسکی ہی سوچ کے تعامل سے بنتا ہے. نثم کی مثال لیجیے. آج کل دھنیں پہلے بنالی جاتی ہیں ان کے "لے " پر نثم زیادہ بہتر ٹھہرتی ہے بانسبت نظم کے. اس لیے نثم پاپولر فکشن میں آگئی ہے. اسی لحاظ سے پاپولر رائٹر عام عوام میں مقبول ہیں جن کو چیدہ چیدہ ادبی تراکیب و استعاروں کے بجائے سادہ تراکیب پسند ہیں یہ سادہ تراکیب گوکہ ادبی نہ سہی مگر یہ معاشرتی انعکاس ہے جس کو ایک خاتون لکھاری کی سوچ سے پرکھا جا سکتا ہے.
 
Top