آپ بیتی - ایک کہانی - قسط 1

سید رافع

محفلین
پہلا سین (پارٹ) - سو لفظوں کی کہانی
بچہ پیدا ہوا، باپ تھا۔ باپ پیدا ہوا، باپ نہ تھا۔ بچے کو پتہ تھا کہ باپ جیسا بننا ہے۔ باپ کو پتہ نہیں تھا کس جیسا بننا تھا۔ باپ بننا چاہتا تھا۔ لوگ بناتے جا رہے تھے، باپ جو نہ تھا۔ سین چینج ہوا۔ بچہ پیدا ہوا۔ ماں تھی۔ ماں پیدا ہوی، باپ تھا۔ بچے کو پتہ تھا کہ باپ جیسا بننا ہے۔ باپ کو پتہ نہیں تھا کس جیسا بننا ہے ، بچے کی ماں جیسا بن گیا۔ پیدائش مکمل ہوئی۔پہلا سین، سین پارٹ اختتام کو پہنچا۔
- میاں ظہوری


بیوہ کا یتیم - سو لفظوں کی کہانی
کیا بیوہ کھلواڑ ہوتی اور یتیم کھیل ہوتا ہے؟ہاں۔
لیکن بیوہ کمزور اور یتیم معصوم ہوتا ہے۔ تو۔
کیا بیوہ کا مال کحلواڑ ہوتی اوریتیم کی زمین کحیل ہوتا ہے؟ ہاں۔
لیکن بیوہ ضرورت مند اور یتیم بے آسرا ہوتا ہے۔ تو۔
کیا بیوہ گحر کی کمتر اور یتیم غیر حساس ہوتا ہے؟ ہاں۔
لیکن بیوہ معصوم عورت اور یتیم خوبصورت بچہ ہوتا ہے۔ تو۔
سین چینج ہوا۔ بیوہ کا یتیم دس سال کا ہو جاتا ہے۔
- میاں ظہوری


کمزوریتیم کندھا - سو لفظوں کی کہانی
کھانا مضبوط اور احساس کندھا بناتا ہے۔ دس سال من پسند کھانا نہ ملے تو جسم کمزور ہوتا ہے۔ دس سال محبت نہ ملے تو کندھا کمزور ہو جاتا ہے۔ کھانے کا سامان دکان سے ملتا ہے۔ کندھا بنانے کا سامان دل سے ملتا ہے۔ تبھی کھانے کی بھوک ختم ہو جاتی ہے۔ کندھے کی بھوک باقی رہ جاتی ہے۔کھانا جسم بناتا رہتا ہے، کندھا کمزور ہی رہتا ہے۔
سین چینج ہوتا ہے۔دس سال کا یتیم اپنا باقی ماندہ کندھا لے کر بیوہ کی بیٹیوں سمیت الگ ہوتا ہے۔
- میاں ظہوری

خون - سو لفظوں کی کہانی
خون سفر کرتے ہیں۔ نیک خون آسمانوں کی طرف، بد خون زمینوں کی طرف۔
خون ظاہر ہوتے ہیں۔ نیک خون شرافت کی شکل میں، بدخون ذلالت کی شکل میں۔
خون توجہ کرتے ہیں۔ نیک خون علم کی طرف، بد خون ظلم کی طرف۔
یتیم کا خون سعود کرتے کرتے بنت نبی تک جا پہنچا۔جہاں سے تمام راستے آسمانوں کے ہیں۔
یتیم روح کی نہیں جسم کی پرورش میں مصروف تھا۔ بیوہ اور اسکی بیٹیاں بھی تو تھیں۔
یتیم کا کلام حق کے لیے تھا۔ لیکن جسم کی عمر دس سال تھی اسے کلام کی کیا معرفت۔جماعت ششم میں جو تھا۔
سین چینج ہوتا ہے۔یتیم تو بہت ذہین ہے۔زمین ہے۔ ہاں۔تو زہر دو۔
- میاں ظہوری

زہر - سو لفظوں کی کہانی
زن، زر، زمین زہر لاتے ہیں۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
سولہ سال میں بچہ لڑکا بن جاتا ہے۔بانک پن اور جولانی دکھاتا ہے۔ آنکھیں بھی۔
اپنا ہو تو دعایں دیتے ہیں، اپنا نہ ہو اور زمین بھی اپنی نہ ہو تو زہر دیتے ہیں۔
زہر منہ میں جانے سے پہلے دلوں میں آتا ہے، پھر ہاتھوں میں۔
لڑکا تو مرجھا سا گیا۔دو سال ہوگے ہیں، کندھا کمزور تھا لیکن سخت جان تھا۔
جان بچ گی، کندھا اورکمزور ہو گیا۔
اب کے سے جسم بھی کمزور ہو گیاتھا۔
سین چینج ہوا۔ بٹوارے زدہ ملک میں آمد۔
- میاں ظہوری

فرار - سو لفظوں کی کہانی
بچے کے باپ کا یتیم۔بلکہ اسکا دادا بھی یتیم۔
سو ایک خوش گوار بنت نبی کے خون میں نہ جانے کون کون رشتے دار بن بیٹھا۔
کسی کی محبتیں مقیم رکھتیں ہیں۔کسی کی نفرت ہجرت کراتی ہے۔
جبکہ لاتعلقی کندھا کمزور کرتی ہے اور فرار کی کشمکش لاتی ہے۔
ٹرین اسٹیشن پر کھڑا لڑکا گھر لوٹتا ہے۔
نہ اسے معلوم کہ کہاں جانا تھا، نہ گھر والوں کو علم کہ یہ کہیں جانے والا تھا۔
یہ ہوتا رہتا۔ہر واپسی بوجھ کو مذید بوجھل کر دیتی۔
کچھ رشتے دار عورتیں آنسو بہاتِیں۔ لیکن عورتیں تو کمزور غم کی شریک ہوتی ہیں۔وہ مرد تو نہیں ہوتیں!
لڑکے کی بہنوں کی شادیاں جیسے تیسے ہوتیں ہیں۔
یہاں تک کہ بٹوارے والے مسلم ملک سے لڑکے کو ایک محسن مرد رشتے دار چٹھی آتی ہے۔
لڑکا ماں کو لے کر پہنچتا ہے۔ گھر کرتا ہے۔ وہ رشتے دار دعا بھی کرتے اور پیار بھی۔ کندھا مضبوط ہوا۔
سین چینج ہوتا ہے۔ رشتے دار اللہ کو پیارے۔
- میاں ظہوری

پہلی خوشی - سو لفظوں کی کہانی
ستر کی دھای۔
آہ۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔یہ ایک سیل رواں کی طرح آگے کی طرف بہتا ہے۔
کب بچہ، مرد اور مرد سے شادی شدہ بن جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔
آخر یتیم کی زندگی میں بھی خوشی کا دن آنے والا تھا۔
لیکن اگر کو ی سوٹ پہنے تو اک زمانے کو اچھا لگتا ہے۔سوٹ بہرحال چھپا جاتا ہے۔
بہنوئ سوٹ بوٹ والے لیکن بنت نبی کے خون والی احتیاطیں ہر ایک کے بس کی نہیں۔
ایک بات چلتی ہے اور یتیم کی شادی ہو جاتی ہے۔
کیا خوشی کا دن ہے۔
محبت بلکہ عشق کا آغاز۔ وہ کندھا جو کبھی نہ ملا تھا ہر وقت میسر۔جو بات ان کہی تھی سب کہہ دی۔
دن خوشبو۔ رات مسکراہٹ بن گی۔یوں بھی ہو سکتی تھی زندگی معلوم نہ تھا۔
کتنی حسین تحی ستر کی دھای۔
سین چینج ہوتا ہے۔ خون معاش کے آڑے آتا ہے۔
- میاں ظہوری

حرام - سو لفظوں کی کہانی
حلال، زندگی بدل دیتا ہے۔
حرام،زندگی تبدیل کر دیتا ہے۔
حلال استعمال میں ہو تو حرام کا لقمہ قریب آنے سے تیور تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ نوکری کے مکر کا تحمل بھی ناممکنات میں سے تھا۔یہاں ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی نوکری کی آفر محض رشوت کے خوف سے چھوڑی جا رہی ہے۔وہاں رشتہ دار، دوست مشتبہ مال سے بنگلے بنا رہے ہیں۔جب بچپن کٹھن ہو تو کانٹے قسمت معلوم ہوتے ہیں اور صبر زندگی گذارنے کا واحد ذریعہ۔ٹیوشن کی آمدن میں پلا بڑھا ذہن اذیت اٹھاتے اٹھاتے سن سا ہو جاتا ہے۔ لمحے گزرتے ہیں لیکن پتہ ہی نہیں چلتا کیوں اور کب۔
معاش کی تگ و دو میں یتیم کا خون آڑے آ رہا ہے۔بچے تین۔ ہم راز و ہم سفر نے بھی شادی سے پہلے کیا کیا خواب دیکحے اور کیا ہوا۔ حقیقت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
سو غریب کرے سو کیا نہ کرے۔ بہنوی کے ساتھ کاروبار جو کڑوی گولی بنا۔جو محبت کی چند محفلیں تھیں وہ بھی لٹتی دکھای دے رہیں تھیں۔ بہن بھای ہی تو آخری کندھے تھے، وہ بھی جدا ہو رہے تھے۔
سین چینج ہوا۔ جدای۔
- میاں ظہوری

جدای - سو لفظوں کی کہانی
اک ننھی کونپل جب درخت کی جھنڈ میں اپنا رخ نکالتی ہے تو وہ مسکرا رہی ہوتی ہے۔
درخت کا ہر پتہ اسکو سایہ دے رہا ہوتا ہے۔ وہ سورج میں اٹھلاتی ہے اور بارش کے قطروں کو چوم چوم کر جوان ہوتی ہے۔
لیکن درخت چلا گیا۔ کونپل زمین پر آ گری تھی کچھ ننھی کونپلوں کے ساتھ۔ انہوں نے ڈرتے ڈرتے مٹی کو چیر کر جوان ہونا شروع کر دیا۔ اب کونپلوں کی جدای کا لمحہ آن پہنچا تھا کہ کچھ کانٹے پیدا ہو گے تھے۔ وہ سال ہا سال ساتھ گزارے تھے ، اب دوری میں بدلنے والے تھے۔زندگی طلوع ہو رہی تھی لیکن سیاہی کے ساتھ۔
یتیم اپنی رفیق حیات، والدہ اور تین بچوں تنہا سا ہو گیا تھا۔اب ہم راز کو بھی اپنے خواب چکنا چور ہوتے دکھای دے رہے تھے۔ستر کے اوئل کی جنوری کی وہ خوبصورت سرد شام اب محض یک طرفہ عشق میں تبدیل ہو رہی تھی۔
سین چینج ہوا۔ بچے۔
- میاں ظہوری

بچے - سو لفظوں کی کہانی
ہر عورت بچے کی خواہش نہیں رکھتی لیکن ہو جایں تو پیار کرتی ہے۔پھر جس مرد کو خود محبت کی خواہش تھی اب اس پر ایک نیا قصہ آن پڑا تھا کہ اسے محبت باٹنی تھی۔
زندگی عجیب تماشہ ہے۔ جس مضمون کی تیاری نہ ہو اسکا بھی امتحان سامنے آ جاتا ہے۔جس کونپل کو خود سایہ نہ ملا ہو بھلا وہ درخت کیونکر ایک حد سےزاید تپش روک جا سکے گا۔ وہ تو خود ساے کی تلاش میں تھا اور اس کھڑی دھوپ میں تین ننھی کونپلوں کا سابان بننا تھا۔ یہ عجیب منظر رہا۔بنت نبی کا خون، کندھے کی تلاش، حلال کی دوڑ دھوپ، جدای، یک طرفہ عشق اور اب یہ جوان ہوتے پھول۔
سین چینج ہوا۔آسمان نیا منظر دیکھنے جا رہا تھاگھبراہٹ۔
- میاں ظہوری

گبھراہٹ - سو لفظوں کی کہانی
بعض اوقات انتہای ذہین مرد کی عام خاتون سے شادی ہو جاتی ہے۔ کچھ بچے ماں پر پڑ جاتے ہیں کچھ باپ پر۔ یوں قدرت زندگی تقسیم کرتی جاتی ہے۔وہ مرد جو جلسے، مناظرے اور لکھتا لکھاتا ہو وہ جہاں چاہے مجلس لگا لے اور جسے چاہے دوست بنا لے۔ جبکہ عام خاتون جہاں تک ممکن ہو معاش میں ساتھ دیتی ہے، معاشرت میں ساتھ دیتی ہے۔ لیکن دہایوں کی حق تلفی کی تلافی کس انسان کے بس میں ہے۔
اب وہ مرحلہ آن پہنچا تھا جب نوے کی دھای آ چکی تھی۔ ساری امیدیں بچوں سے وابستہ ہو چکی تھیں۔ کندھا بنیں تو بچے، محبت اور خوشگوار باتیں ملیں تو بچیں اور معاش کی کثرت ہو تاکہ وہ ادھورے خواب پورے ہوں جن کو کبھی کا دل میں ڈوبتے دیکھا جا چکا تھا۔
قدرت اپنے چکر کو کہیں دوہرانے تو نہیں جا رہی تھی؟ نہیں لیکن امیدوں کا وہ سمندر ان الڑھ بچوں کو بوجھ تلے دباے دے رہا تھا۔ جس کی حد و حدود، جس کے قواید و ضوابط کا بھی انکو علم نہ تھا۔ وہ فکروں میں گھلنے لگے۔سیر سپاٹے بے معنی معلوم ہونے لگے۔ دل اس مخلص مرد و خاتون پر نچھاور تھا،
سین چینج ہوا فکریں جوان ہویں قبل اسکے لڑکا جوان ہوتا۔
- میاں ظہوری

جوانی - سو لفظوں کی کہانی
یتیم کا ایک لڑکا اسکی امیدوں کا مرکز تھا اور اسکی رفیق حیات کا نور نظر۔
محبت میں بعض اوقات امید کی ملاوٹ ہو تو دل چاہتا ہے جلدی سے وہ سب امیدیں اور مایوسیوں کے اندھیروں کو دور کر دیں کہ جو مسکراہٹوں کو بوڑھا کر رہے ہیں۔ لیکن محض امیدیں ادھورے خواب ہوتے ہیں اگر ان میں ماحول کی نرمی نہ ہو، اگر ان میں غم میں کثیر ملاوٹ ہو، جس کے اظہار میں شدت ہو، جس سے پیچھے ہٹنا ناقابل تلافی جرم ہو، جس میں کوی مثال نہ ہو، جس میں اظہار کی آزادی نہ ہو الا کہ دھورایا جاے، جس میں طاقت کی جانچ نہ کی گی ہو، جس میں تجزیہ اور تفصیل نہ ہو، اور سب سے بڑھ کر سوچنے کے ہر موقعے کو زور دار آوازیں دبا رہی ہوں۔
ایسے میں بادل بھی آتے ہیں، گھٹا بھی چھاتی ہے، امیدیں بھی بنتیں ہیں لیکن بادل بارش کی رحمت سے خالی ہوچکا ہوتا ہے۔
سین چینج ہوا کمپیوٹر اور قرآن آ رہا ہے۔
- میاں ظہوری

کمپیوٹر اور قرآن - سو لفظوں کی کہانی
لڑکا جوان ہو رہا تھا۔ خوامخوہ جنس دیگر اچھی لگتیں۔ لیکن کوی لطیف پیراے کا علم ہی نہیں تھا۔ ہر لطف بلند شور میں دبا ہوا تھا۔ ہر سوچ کے اظہار پر انجانے خوف کے پہرے تھے۔
یوں تو زندگی نہ بنای ہو گی بنانے والے نے!
بہرحال جب سب رابطے کٹ جایں یا کسی انجانے خوف سے ان کو مسترد کر دیا جاے تو قدرت کمپیوٹر بھیجتی ہے۔جا لالے دن رات کحیل اس سے۔ جب اصول کا ماحول میں غلبہ ہو تو اللہ نے لکھانے والوں سے تفسیر فہم القرآن لکھوا دی او رلڑکے کی نانی کے ایک جاننے والی کے پاس بھیج دی۔ بنت نبی کے بیٹوں پر نہ جانے کیوں اصول پسندی اور قرآن فہمی کا جذبہ بلا کسی کے کہے ہوتا ہے۔
سین چینج ہوا قرآن غلط سمجھنا شروع۔
- میاں ظہوری

جوانی - سو لفظوں کی کہانی
علما اپنے اپنے حصے کے لڑکوں کو اغوا کر رہے تھے۔ یتیم اغوا ہوا لیکن علمی اغوا کا علم بہت دیر میں ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ بعض لوگ محبت میں پروی ہر تسبح اپنے قلم کی نوک اور بزور طاقت کاٹ رہے تھے۔ انکا ارادہ تھا کہ غلام بنانے کا سب سے آسان طریقہ کم از کم نبی کے برابر عمل کرنے کی تبلیغ کرنا تھا۔ طریقہ واردات بے حد آسان اور مصروف مردوں اور سادہ لوح عورتوں کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ کھانے کھلانے کے محبت بھرے انداز کو تہہ تیغ کیا جا رہا تھا۔ انکو وہ لڑکے درکار تھے جو ہاتھ میں ہتھیار اٹھا کر لوگوں کی جان کے درپے ہوں اور ملکوں ملکوں گھومیں۔ ماں باپ کے واحد سہاروں کو دو ممالک کے سرکردہ دوسروں کے اشاروں پر چھین رہے تھے۔ کیسا ہولناک منظر تھا۔
یتیم کا نور نظر بھی ایک ایسی ہی تفسیر کے جال میں پھسنا شروع ہو چکا تھا۔ غیر لطیف مذید کثافت میں بلا جانے پھنس رہا تھا۔ لیکن جب تفریح کے تمام مواقعے اس گھر سے ایسے ناآشنا تھے جیسے قبرستان کا مردہ کسی خوشی کے موقعے سے تو تمام تر توانای اسی سمت ہی بہنی تھی۔تفسیر پڑھنا قابل تعریف ٹہرا اور کمپیوٹر کا استعمال جاننا قابل فخر۔
وہ فخر جو پنپنے والا نہ تھا۔
سین چینج ہوا یورنیورسٹی۔
- میاں ظہوری

یورنیورسٹی - سو لفظوں کی کہانی
یورنیوسٹی میں داخلے کی خبر دیدنی تھی۔سب بے حد مسرور تھے۔
ایسی ہی زبردست دھوم تھی یتیم باپ کے گھر جب اسکا لڑکا میٹرک میں امتیازی نمبروں سے پاس ہوا۔شیرنی کی اسقدر کثرت ہوی کہ سمجھ نہ آتا کہ اب کس کو بھیجیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ باپ کے قابل فخر تذکروں نے پورے خاندان میں ایک خوشی کی کوند بھر دی ہو۔ تمتماتے چہرے مسرت سے لڑکے کو دیکھتے۔ اور واقعی کی اعتبار سے نتیجہ بے حد شاندار تھا۔
لیکن۔ لیکن وہ لڑکا قطعی بے بہرہ رہا کتاب سے باہر کے کسی امتحان سے۔ اسے علم نہیں تھا کہ وہ باپ کے ساے میں پل رہا ہے۔ لڑکا کمپیوٹر کے سحر میں تھا لیکن پڑھای کسی اور سمت کی۔ وہ چار سال۔
سین چینج ہوا چار سال۔
- میاں ظہوری

دو دوست - سو لفظوں کی کہانی
یورنیوسٹی آہ کیا خشک جگہ تھی۔ ایک پھول۔ دو محبتیں اور چالیس مضامین۔
بس کچھ دوست بنا لیے۔ ان میں سب سے زیادہ محبت لڑکے کو دو دوستوں سے تھی۔انکو اس نے بعد میں اپنی شادی میں بھی بلایا۔ دل چاہتا ہے کہ چار سال گزر جایں اور میں اپنی محبت پا لوں۔ لیکن سینے میں کچھ یادیں ہیں کہ جب بڑوں کی آوازیں اتنی بلند ہویں کہ ہمت جواب دے گی تو ہاسٹل کا سوچا۔ ایک دوست کے ساتھ مل کر ساری تفصیلات جمع کیں لیکن ہمت نے ساتھ نہ دیا کہ اس بات کو گھر میں کرتے۔ لڑکے کو معلوم ہو چکا تھا کہ اس دلدل سے نکلنا بے حد مشکل ہے۔
یورنیورسٹی ختم ہوی۔ اب ان کہے امتحانوں کا وقت شروع ہو چکا تھا۔
سین چینج ہوا سولہ نومبر انیس سو ستانویں۔
- میاں ظہوری

پہلی نوکری - سو لفظوں کی کہانی
سولہ نومبر انیس سو ستانویں کو لڑکا پہلی نوکری گیا۔یہ پہلا ان کہا امتحان تھا! کمپیوٹر کی کم از کم دس لینگویج پر کام کرنا آتا تھا لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ کمپنی میں جذبات کی کوی قدر نہیں۔ لفظ نوکری پر غور ہی نہیں کیا۔ نوکر۔سروینٹ۔ جس گھر میں کبھی نوکری دیکھنے میں نہ آی ہو بھلا وہاں لفظ نوکر کی وسعت کو کون پہچان سکتا تھا۔ کیا معلوم تھا کہ یہ اتنا گنجلک کام ہے۔ کیا معلوم تھا کہ دوست نہیں دوست نما ملیں گے۔ یہ کیسی عجیب جگہ ہے۔ میرا دل نہیں لگ رہا۔ یہاں دوست و دشمن کے پیمانے محض رقم ہے۔ کوی کچھ بھی بولنے اور کرنے کو تیار ہے بس رقم کی خاطر۔ میری ساری خوابی دنیا چکنا چور ہو رہی تھی۔ادھر مجھے میری پہلی اور آخری محبت ملنے والی تھی۔
سین چینج ہوا پیام نکاح۔
- میاں ظہوری

پیام نکاح - سو لفظوں کی کہانی
ابھی نوکری کوسات ماہ ہی ہوے تھے۔ایک لڑکی کو دیکھنے کے لیے سب گے۔ بڑے لڑکے کے لیے۔لیکن استخارے نے ایک طویل محنت کو ایک رات میں ہی ٹھکانے لگا دیا۔سو سب سر جھکا ے بیٹحے تھے۔ منجھلے نے کہا میرے لیے پوچھ لیں۔
نوکری۔
نوکری ایک ڈرونا خواب لگ رہا تھا۔ اس بات کی اہمیت نہ تھی کہ کون کیسا محسوس کر رہا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ جتنا کام کیا جاے گا اتنا امیر باس ہوتا جاے گا۔ اس لیے وہ طرح طرح سے پر دباو ڈال رہا تھا۔ کمپنی برطانیہ کی ایک بڑی کمپنی کی سسٹر تھی۔ باس کے لیے مہ نوشی عام بات تھی۔ چھ مہینے پہلے جنرل مینجر کو لڑکا استعفہ پیش کر چکا تھا۔ وہ مسکرا کر رہ گے۔ لیکن دوسرا جام پر جام پیتا اور لوگوں کو بد حال کرتا۔
وہ کتنی پیاری تھی۔ وہ کتنی معصوم تھی۔پیام دیا گیا۔ایک ماہ لگا منظور ہو گیا۔
سین چینج ہوا منگنی۔
- میاں ظہوری

منگنی - سو لفظوں کی کہانی
لڑکا آفس سے شام سات بجے گھر پہنچا تو سارے گھر والے خوشی سے لڑکے کو دیکھ رہے تھے۔وہ شان استغنا سے ٹفن ایک طرف رکھتا ہے تو نانی آنکھ مارتیں ہیں۔ اور خوشی کے مارے چباتے ہوے بولیں کہ انہوں نے پیام قبول کر لیا۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے اس موقعے پر جذبات کا اظہار کرے!
کتاب کو اکیلے میں قبول کرنا کتنا آسان تھا۔ غلط تشریح کی سات جلدیں کتنی آسانی سے سمجھ آرہی تھیں۔ لڑکا کتاب سے مانوس اور لوگوں سے غیر مانوس ہو چکا تھا۔ اسکی سال ہا سال کی کتاب دوستی نے اسے زمینی حقایق سے کسقدر بے خبر بنا دیا تھا۔ یہ رومانوی منظر کتنا بھیانک بننے جا رہا تھا۔
آفس عجیب سے عجیب تر معلوم ہو رہا تھا۔ لڑکا براہ راست پوچھ لیتا کہ آپ یہ کیوں کر رہے ہیں؟ یا یوں کرنے کا کیا مقصد؟ لوگوں کے لب پر ایک گھمبیر مسکراہٹ پھیل جاتی۔ لڑکا سمجھ رہا تھا سب کتاب کے دیوانے ہیں۔ جب بات اتنی معقول ہے تو ان تک بھی پہنچی ہو گی۔ پھر ان کے عمل کی کیا تشریح ہو سکتی ہے۔ لڑکا اللہ کے ستاری اور لوگوں کی معذور ی سے بے خبر تھا۔دھوکہ اور غیبت تو اس رومانوی کتاب میں لکھا تھا کہ برے لوگ کرتے ہیں۔ تو یہ لوگ۔ نہیں نہیں۔ کسی سے تعلق نہیں بن پا رہا تھا۔ کوی سرا نہیں مل رہا تھا۔گھر کے تمام لوگ اپنی معصومیت کا اظہار کر چکے جس کو قبول کرنے سے نہ کتاب روک رہی تھی نہ محبت۔ ان پر فنا ہونے کو دل کرتا۔کہیں ہتیم لڑکے کو کچھ بتانے سے رہ گیا تھا۔
اس کی والدہ کتنی اچھی تھیں۔ لڑکا جو انکا اکلوتا داماد بننے کو تھا، گال پر پیار کرتیں اور خوب دعایں دیتیں۔ کتنا اچھا منظر تھا۔
سین چینج ہوتا ہے اسکو دیکھنے اور ملنے کی تمنا ہر وقت انگڑای لے رہی تھی۔
- میاں ظہوری

دیدار - سو لفظوں کی کہانی
گھر اسکے امی ابو آے ہوے تھے۔ لڑکے کےدل میں گدگدی ہو رہی تھی۔ سب خوش تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ تتلیوں جیسے جذبے کسی نہ معلوم سمت سے آکر قلب کے ساحل پر دھیرے دھیرے شور مچا رہے ہیں۔ہر شے پر شام کی خوبصورت رومانٹک تہہ چڑھ چکی تھی۔
ہر کام میں دل لگ رہا تھا۔ جب اسکے امی ابو آتے تو اسکو دیکھنے کی خواہش دو چند ہو جاتی۔
وہ کیا کر رہی ہو گی۔ کیا پہنا ہو گا۔ کیسی لگ رہی ہو گی۔ سارے سوال ہل چل بھی تھے اور دل کا سکون بھی۔
لیکن کتاب کا رومانوی منظر اور گھر کی بلند آوازیں اور روحانیت کی کمی ڈرا رہی تھی۔ مجھے ان کہے واقعات آنے کا تصور ڈرا رہا تھا۔ میں سکون چاہتا تھا جو مجھ سے لمحہ بہ لمحہ اپنے حسن و بے باکی کے ساتھ قریب ہو رہا تھا۔
میں اسکے دیدار کے لیے تڑپ رہا تھا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے لڑکا اسکے گھر جاتا ہے۔
- میاں ظہوری

ملاقات - سو لفظوں کی کہانی
کتاب کی دوستی بھی عجیب ہوتی ہے۔ انسان اپنے شہر کے راستوں سے بے خبر ہوتا ہے۔
لڑکے نے اللہ والی چورنگی کا راستہ سمجھا۔ لیکن راستہ بھٹک گیا۔ وہ بیمار ہوی تھی۔ موٹر ساکل پر جوس کا کارٹن پوری جولانی دکھا رہا تھا۔ لڑکے کو راستہ بھی نہ معلوم تھا اور اس نئے تعلق کے آداب سے بھی ناواقف تھا۔
اس پر ہرا اور سفید رنگ کتنا حسین لگ رہا تھا۔لڑکے کو بولنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ لڑکا اس کو تک رہا تھا۔
وہ مسکرا کر پوچھتی ہے یہ کیا لاے ہیں۔ لڑکا صورت میں کہیں غرق، سکوت ٹوٹنے پر ہل سا جاتا ہے۔
جوس ہے۔
اچھا ادھر دیں۔ وہ بولتی ہے اور اندر سے آواز آتی ہے ذرا ادھر آو۔
یوں یہ مختصر یادگار ملاقات ختم ہو جاتی ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے اسلام آباد روانگی۔
- میاں ظہوری

اسلام آباد - سو لفظوں کی کہانی
منگنی میں لڑکا مدعو نہ تھا۔ سو ملاقات نہ ہوی۔
برٹھ ڈے ۹ ستمبر کو بھی کیک الگ میں ہی کاٹ لیا گیا۔ لڑکا گفٹ میں گولڈ چین دے کر واپس آ چکا تھا۔
اس نے لڑکے کیسٹ تحفہ دینے کا ادب سکھایا۔ لڑکے نے بازار سے خرید کر دیا اس نے گھنٹوں ریکارڈ کر کے اپنے من پسند نغمے بھیجے۔
نوکری روز بروز تلخ ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے کسی نوکر سے آفس کے گفتگو کے پیمانے سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی۔ مجھے کتاب پر یقین تھا۔ میری لابریری کا حجم بڑھتا جا رہا تھا۔مجھے لگ رہا تھا میں ٹھیک ہوں۔میں ان کے پیمانے کے مطابق بڑا نہیں ہوا تھا۔ باس نے کنفرم کرتے ہوے دو ہزار بڑھاے اور کہا آی وانٹ یو ٹو گرو اپ۔اس کی تشریح جو اب سمجھ میں آی کتاب نہیں سڑک سے سیکھو۔
منگنی ہوے تیسرا مہینہ اور جاب ختم ہوے بیسواں دن۔لڑکے کے والدین پریشان کہ اسکے گھر والے آ گے تو کیا کہیں گے۔
اسلام آباد کی ایک کمپنی میں یورنیورسٹی کا دوست پہنچا اور کال کر کے پوچھا یہاں پڑھانے آو گے؟
ہاں۔
منظر تبدیل ہوتا ہے اسلام آباد کی بارش۔
- میاں ظہوری

بارش - سو لفظوں کی کہانی
دسمبر ۹۸ کی ٹھنڈی شام جہاز اسلام آباد کی فضاوں میں داخل ہوا۔ بارش نے ٹھنڈک کو دو چند کر دیا تھا۔
ہیرو دوست نے پلنگ اور لحاف دلایا اور ایک نالون کے بان کا پلنگ بھی۔کہتے ہیں انجینر بننے سے مقدر بن جاتا ہے!
کتاب ایسا محو کر دیتی ہے کہ اسکو چھوڑ کر آنے کا کوی غم ہی نہ تھا۔
نہ ہی والدین کو نہ ہی بہن بھای، ماموں، کزنز اور دوست۔
لڑکے نے لوگوں کو یاد نہ رکھا لیکن ان کو لڑکا یاد تھا۔
اسکے والد لڑکے کو بیٹوں سے بڑھ کر محبوب جانتے اور امریکہ ایم ایس کے لیے بھیجنا چاہتے تھے۔محبت آنکھوں سے اپنی اکلوتی چاہت کے لیے ٹپکتی۔ لیکن لڑکےکی نظروں پر کتاب کی تشریح کی سیاہی چھای ہوی تھی۔ یہ گھر میں بلند اصول اصول اصول کی رٹ تھی جس نے یتیم کے لڑکے کو سب کھونے پر مجبور کر دیا!
اسلام آباد کے لوگ سادے اور پیار دینے والے تھے۔ نقوی صاحب کی سربراہی میں ہم سب بہت خوش تھے۔ایک لڑکی سیگریٹ پینے والی اور تاش کحیلنے والی نے اسکو معصوم کہا اور لڑکے کے عشق میں اس لیے مبتلا ہو گی کہ اس نے بیوی کے منہ پر تھپڑ مارنے کو کتاب کے خلاف قرار دیا۔ اسکے گھر میں یہ ہوتا تھا!
منظر تبدیل ہوتا ہے ہوم سک۔
- میاں ظہوری

بارش - سو لفظوں کی کہانی
دو مہینے ہونے کو آے تھے۔
منگیتر کے والد لڑکے کو فون کرتے، پیار کی بات کرتے، دعایں دیتے اور کپٹرے تحفے میں بھیجتے۔
ای میل کا زمانہ آ گیا تھا لیکن لڑکا ہاتھ سے لکحے خط کراچی روانہ کرتا۔
ایک چوکور کمرے میں رہنا ایک نیا تجربہ تھا۔ پلنگ اور لحاف کے علاوہ کمرے میں صرف ہیٹر تھا۔
لڑکا یہاں نہیں رہ سکتا تھا۔جمعے کی نماز کے بعد ٹکٹ بک کرایا اور واپسی کی خبر کمپنی کے مالک نقوی صاحب کو دی۔ وہ امریکہ سے آے تھے۔ لڑکے نے اپنی زندگی میں ان سے نفیس انسان نہ دیکھا تھا۔
وہ لڑکی آی جس نے لڑکے کی منگیتر کو معصوم کہا تھا۔ مجھے تب نہ پتہ تھا کہ محبت کی حرکات و سکنات کیا ہوتیں ہیں۔ مجھے اپنے کام سے کام تھا۔
وہ رکنے پر اصرار کرتی۔ میں انکار کرتا۔
اب سمجھ میں آتا ہے کہ وہ یوں کیوں کر رہی تھی۔
سب خاندان کے لیے زندگی میں پہلی بار امپورٹڈ کینڈی لیں۔
واپسی کا جہاز شام سات بجے اسلام آباد کی فضاوں سے بلند ہوتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے میری شادی۔
- میاں ظہوری

لاہوری امریکہ - سو لفظوں کی کہانی
انجینر بننا گھر والوں کے ادھورے خوابوں کی تکمیل کی امید بھی ہوتی ہے۔
لڑکا ناکام ہو رہا ہے۔
دوسری نوکری سے بھی خاطر خواہ مال نہ بن سکا۔لڑکی والے کسی بھی وقت آسکتے تھے، ایک خوف تھا۔
دباو بڑھ رہا تھا۔ خاندان کےچار انجینر لڑکوں کے امریکہ جانے کے قصوں میں تیزی آتی جا رہی تھی۔
یہ اسی نوعیت کا دباو تھا کہ جسکی وجہ سے لڑکے نے انجینرنگ کے سال دویم میں ٹی وی سروس کا چھ مہینے کا کورس کیا، کمپیوٹر کا ڈپلومہ کیا، بی کام میں داخلے کی جستجو کرنا شروع کر دی علاوہ ٹیوشن اور دس مضامین کی پڑھای کے۔
کہیں سے مال آ جاے اور گھر والی کے ادھورے خواب پورے ہوں۔
لیکن سال دوم میں ایک عملی امتحان میں فوڈ پوازن کے بعد لڑکا فیل ہو گیا۔
مرتا کیا نہ کرتا۔ لڑکے نے آٹھ ہزار میں ایک لاہوری گروپ سے امریکہ کے ویزے کی بات کی۔
گھر والے خوش تھے کہ امیدیں بر آنے کو تھیں۔
جہاز لڑکے کو سات اور سمیت لے کر اسلام آباد امریکہ ویزا کے لیے بلند ہوتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے شرابی ویزا گروپ کی ناکامی۔
- میاں ظہوری

شرابی لاہوری کا امریکہ - سو لفظوں کی کہانی
ابھی اسلام آباد سے واپسی پر لڑکے کی تیسری نوکری چند ہفتوں میں لگی تھی۔ لیکن اگر اصول اور پیسے کی صدایں زور سے بلند ہو رہیں ہو ں تو پانچ ہزار کا فرق بھی اگلی نوکری کا باعث بن سکتا ہے۔
چوتھی نوکری کو سات دن ہوے تھے کہ لڑکا امریکہ ویزے کے لیے ایرپورٹ پہنچتا ہے۔
نوکری، نوکری کی تبدیلی اور بلا وجہ کے سفر تھکاوٹ میں حواس سن اور خوشی کہیں گم ہوتی دکھای دے رہی تھی۔
مجھے وہ یاد نہ رہی۔ وہ بہت معصوم تھی۔ میں اس سے فون پر بھی بات نہیں کر سکتا تھا۔ وہ الڑ تھی۔ جلدی سے رکھ دیتی تھی۔
امریکہ کے ویزا کے لیے سب بے چین تھے۔ انکو یقین تھا۔ اسلام آباد سے کال کر کے لڑکے نے نکاح کی تاریخ مخصوص کر نے کو کہا تا کہ لڑکی بھی ساتھ جا سکے۔
رات بھر لاہوری نے شراب میں گزاری۔
امریکہ ویزا آفیسر کے پاس چھ گھنٹے کی قطار کے بعد پہنچے تو اس نے ہم سب کو اوپر سے نیچے تک دیکھا۔
فارم پر ریجیکٹ کی مہر ثبت ہوی اور رات نو بجے طیارہ کراچی کی فضاوں میں داخل ہوا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے لڑکا نکاح کی تقریب میں بغیر ویزا کے پہنچتا ہے۔
- میاں ظہوری

نو ویزا - -- نو نوکری - سو لفظوں کی کہانی
نکاح کی تقریب میں بے حد خوش تھے۔
سابقہ تربیت نے اپنا لڑکے کے جسم پر اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔
لا شعور کہہ رہا تھا۔
نو نوکری۔۔۔
نو ویزا۔۔۔۔
بٹ نکاح از ریڈی۔۔۔
ہاتھ کانپ رہے تھے۔ لڑکا مسلسل ہونٹ بھینچ رہا تھا۔
فکریں ہر سو سے سمٹ سمٹ کر عین قبول کے وقت گر رہیں تھیں۔
لڑکے کی آنکھوں کے سامنے سے ہر منظر گزرتا دکھای دے رہا تھا۔
لیکن سرخ غرارے میں وہ حسن کا پیکر لگ رہی تھی۔
جاتے لمحے اس نے مذاق میں ہاتھ بڑھایا کہ ساتھ لے چلیں۔
میں کہیں غرق تھا۔ مسکرا کر رہ گیا۔
اس کی مسکراہٹ ایک کرن تھی جو ڈھلتی شب میں پھوٹی۔
منظر تبدیل ہوتا ہے پانچویں نوکری اسکے گھر کے پاس۔
- میاں ظہوری

شادی - سو لفظوں کی کہانی
نوکری اسکے گھر کے پاس ملی۔ محبت گلیوں سے بھی محبت پیدا کر دیتی ہے۔
لڑکے کو آج بھی اس گلی سے محبت ہے۔
۱۸ جنوری ۲۰۰۰ کی شام وہ پریوں جیسی لگ رہی تھی۔
یہ اسکی شادی کا دن تھا۔
نارنجی غرارے میں چنبیلی کا گجرا ، معلوم ہوتا تھا شفق میں چاند اتر آیا ہو۔
یک جان دو قالب ہو گے۔
وہ روے تو رونا آے۔
وہ ہنسے تو ہسنا آے۔
لڑکے کو اب کسی چیز کی ضرورت نہ تھی۔
لیکن وہی ہوا جس کا خوف تھا۔
اصول کی صدایں بلند ہونا شروع ہویں۔
پھر عورت عورت کی دشمن ہوتی ہے۔
اور لڑکا کتاب کے سحر میں گرفتار۔ ان سب حقایق سے بے خبر۔
اسکی دنیا وہ تھی۔
لیکن ہر دن زہر گھل رہا تھا۔
بات بے بات آوازیں بلند ہو رہیں تھیں۔
اسکے رونے کی آوازیں لڑکا باتھ روم میں سن سکتا تھا۔
لڑکا توسولہ سال کی عمر میں ہی سن ہو چکا تھا۔
اب یہ شور اور نہیں ہونا چاہیے۔
اسی اثنا میں لڑکے اور اسکی نوبیاتا دلہن امریکہ روانہ ہوتے ہیں۔
لڑکے کی نوکری امریکہ کی ایک فرم میں لگی تھی۔
منظر تبدیل ہوتا ہے نیویارک آمد۔
- میاں ظہوری

بوسٹن براستہ نیویارک - سو لفظوں کی کہانی
بعض لوگ سن سے ہوتے ہیں۔
سنای سب دیتا ہےسمجھ کچھ نہیں آتا۔
وہ کچھ کہتی لڑکا کچھ سمجھتا۔
وہ کچھ کہتی لڑکا سنتا ہی نہیں۔
لڑکے کی فیملی سے خیر خواہی لڑکی کی محبت سے ٹکرا رہی تھی۔
بوسٹن میں وہ تنہا ۔ اکثر رونے لگی۔
لڑکے کے آفس جانے لگی۔
لڑکے سے اسکا رونا دیکھا نہ جا رہا تھا۔
نوکری میں چڑچڑاہٹ آ نے لگی۔
لڑکی کو ایک کالج میں داخلہ دلا دیا۔ لیکن برف میں اسکا آنا جانا دکھ کا باعث تھا۔
اسی میں کمپنی کے ایک کسٹمر سے بات بگڑی۔انہوں نے جھٹ نکالا اور ویزا کینسل کر دیا۔
بوسٹن سےکراچی کی پرواز لڑکی کو لے کر فضاوں میں بلند ہوی۔
سب سے تکلیف دہ دن بوسٹن کا یہ تھا۔ایک طویل تیاری کے بعد وہ یہاں آے تھے۔
لڑکا اپنا اپارٹمنٹ خالی کر کے کمپنی کے ہی ایک بنجابی ساتھی کے ساتھ ٹہرا۔
ایک ہفتے بعداسکو لے کر پرواز بوسٹن کے آسمان کو چھوڑ کر سان فرانسکو کے آسمانوں میں داخل ہوتی ہے۔
لڑکا اپنے ایک رشتے دار کے ساتھ فراٹے بھرتی گاڑی میں بیٹھا ہے۔
گفتگو ہو رہی ہے لیکن زبان سے۔دل کہیں اور ہے۔ دماغ کہیں اور۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکا نوکری کی تلاش میں۔
- میاں ظہوری

یاد - سو لفظوں کی کہانی
دو مہینے ہو نے کوہیں لیکن کوی نوکری دینے کو تیار نہیں۔
امریکہ عجیب جگہ ہے۔سٹزن ہونا نوکری کی نوید ہے۔
لڑکے سے اسکے بغیر رہا نہیں جا رہا تھا۔
لڑکے کے بڑے بھای کی شادی بھی ہے۔
لڑکا شدید جذباتی لگاو کی وجہ سے امریکہ سے زیادہ بھای کی شادی کو اہمیت دے رہا ہے۔
ویسے بھی تین سال گزرے کو آے ہیں لیکن اسکو اب تک یہ نہیں پتہ چل رہا تھا کہ اس نے پیسوں کی خاطر نوکری کیوں تبدیل کیں ہیں۔ وہ کیوں امریکہ آیا ہے۔ سب بلا تہمید ہو رہا ہے۔اسکے دل میں رقم کی چنداں اہمیت نہیں۔ لیکن سب اسی کو اہمیت دے رہے ہیں۔اسکے ذہن میں سوال ہیں اور یہ سب ان سوالوں کے جواب کے لیے زہر قاتل ہے۔ جواب سکون و تسلی مانگتے ہیں۔
امریکہ میں سود اسکو کاٹ رہا ہے۔ کتا ب کی تشریح الگ تنگ کر رہی ہے۔
لاکھ منع کرنے کے باوجود لڑکا ایک صبح قریبی ایجنٹ سے رات ایک بجے کراچی کی فلایٹ کا ٹکٹ بک کراتا ہے۔
سالوں کی دعاوں سے ہونے والا سفر صرف چھ ماہ میں اختتام پذیر ہوا۔
سان فرانسسکو کی رات کی چمکتی روشنیاں بلند ہوتے جہاز میں کراچی کے لوگوں کی امیدوں کی طرح مدھم ہونے لگیں۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکا دوبارہ پہلی کمپنی میں۔
- میاں ظہوری

عجیب محبت - سو لفظوں کی کہانی
سان فرانسسکو سے اڑا طیارہ کراچی پہنچنے کے قریب تھا۔
وہی شہر جہاں سے یتیم کا بیٹا اپنی دولہن کو لے کر چھ ماہ پہلے اڑا تھا۔
باپ کی محبت عجیب ہوتی ہے۔ جو اسکو نہ ملا ہو وہ پورے دل و جان سے اپنی اولاد کو دیتا ہے۔
محبت نہ ملی ہو تو اپنی اولاد کے لیے محبت کا سمندر بن جاتا ہے۔
امریکہ سے واپسی دلہن کے آنسوں کی بنا پر تھی۔ سو دولہا کے پہچنے سے پہلے وہ عتاب میں آ چکی تھی۔
بعض عتاب محبت کی بنا پر ہوتے ہیں۔بعض غصے شیدید اخلاص کی بنا پر ہوتے ہیں۔
لیکن دولہا دلہن کے بیچ یہ عتاب دراڑ بن گیا۔
بھای کی شادی پر فیروزی اڑے پاجامے میں دہ انار کلی کو محو حیرت کیے دے رہی تھی۔
وہ چلتی تو یوں محسوس ہوتا خوش رنگ تتلیاں اڑ اڑ کر منظر کو دلکش بنا رہی ہوں۔
لیکن اس کے جذبات سلیم اور اکبر نے دیوار میں چن دیے تھے۔
وہ چپ تھی۔
سب کچھ تبدیل ہونے جا رہا تھا۔
وہ دولہن جو پندرہ ماہ پہلے رخصتی پر سب کو رلاتی آی تھی اور کھیر چٹای پر اپنے بکھرے کاجل پرکھل کھلا کر ہنسی تھی، اب چپ تھی۔
منظر تبدیل ہوتا ہے دراڑ گہری ہوتی جاتی ہے۔
- میاں ظہوری

دراڑ - سو لفظوں کی کہانی
یتیم کو اسقدر دھوکے ہوے کہ وہ اصول سے چمٹ گیا تھا۔
اب جو اسکی مانے وہ محبت کے لایق۔
لیکن جو وہ نہ وھوراے وہ یتیم کی بے دلی کے عتاب میں آجاتا۔
اب یتیم کے لڑکے پاس ایک ہی ترکیب تھی کہ سب سے بلند اصول یعنی کتاب اللہ پر اصول کی بحث لے آی جاے تاکہ روز روز کی خوشیاں نہ چھنیں۔ بات بات پر آواز بلند نہ ہو۔ عتاب کی حد و حدو متعین ہو جاے۔ عزت کے اصول متعین ہو جایں۔
لیکن یہ ممکن نہ تھا!
سب ٹوٹنے والا تھا۔ یہ ترکیب ناکامی کا شکار ہونے جا رہی تھی۔
دولہن الھج گی تھی۔ اسکے جذبات، لطیف جذبات ماحول کے ماحول کی سختی نے پرخچے اڑا دیے تھے۔
وہ پندرہ پندرہ دن اپنے اس آشیاں میں رہنے لگی جہاں اس نے آنکھ کھولی تھی۔
دولہا کے لیے یہ سب کچھ عذاب مسلسل تھا۔
وہ اسکے بغیر رہ نہیں سکتا تھا۔
اور وہ کیونکر خوش ہو سکتی تھی کہ اگر اسکا دولہا خوش نہ ہو۔
منظر تبدیل ہوتا ہے اصول کی کوشش تیز ہوتی ہے۔
- میاں ظہوری

ناکام جنگ - سو لفظوں کی کہانی
لڑکا اس بات سے بے خبر کہ بعض بندے پیار کے بعض مار کے ہوتے ہیں۔
لڑکا اصول کی بحث میں شدت لے آتا ہے۔اسکی دلہن افسردہ ہے۔
لابریری کا سایز سینکڑوں سے بڑھ کر ہزار سے تجاوز کر گیا۔
شیخ اختری، شیخ مدنی مذکرہ، شیخ مکی مسجد، خلیفہ ڈاکٹر اسرار، مفتی دارلعلوم و مودودی، ہند و عرب کے علما، دیوبندی و بریلوی کتابیں، شیعہ کے بحر الانوار و نہج البالغہ اور اہل حدیث کی تحقیقات ، گاندھی، فراز، فیض، ابن خلدون، تفاسیر، ستہ۔ وہ سب جو اصول سے متعلق تھا زیر مطالعہ آتا گیا۔
ویڈیو، آڈیو کے ہزاروں گھنٹے نوکری چھوڑ کر سنے۔
ایک وقت آیا کہ نوکری محض دو ہزار روپے کی۔ کسی جگہ پڑھانے کی۔
دولہن حیرت زدہ۔
لیکن پیار کا پیاسا دلیل نہیں کندھا اور محبت مانگتا ہے۔
لو سک۔ محبت کا بیمار۔یتیم کو دلیل نہیں محبت درکار تھی۔
دولہا کو کوی راہ اور دلیل نہ ملتی تھی کتابوں میں کہ یتیم سے دلیل مانگی جاے۔لیکن امیدیں اسکے کندھے شل کر رہیں تھیں۔ اور دلہن کتنی پیاری تھی۔ اس کا چپ دولہا کا دل کاٹے دے رہا تھا۔
دولہا نے ایسی جنگ کرنے کا ارادہ کر لیا تھا جس کو آسمانوں میں ناکام لکھ دیا گیا تھا۔
منظر تبدیل ہوتا ہےدولہا اصول اپنانے کا ارادہ کرتا ہے۔
- میاں ظہوری

لبادہ - سو لفظوں کی کہانی
جو جو شیوخ فرماتے جاتے، جو جو کتابیں تجویز کرتی جاتیں دولہا پہنتا جاتا۔
وہ دولہن کو عجیب لگ رہا تھا۔
وہ یتیم کی سمجھ سے بالاتر ہو رہا تھا۔
یتیم کی ہر دلیل کا توڑ ہو رہا تھا صالح علم سے۔
لیکن یہ توڑ آسمان میں ہلاکت کے نام سے لکھ دیا گیا تھا۔
لڑکے کا بھای حیرت زدہ۔ بے بس۔ امیدوں کے بوجھ تلے دبا ہوا۔
لڑکے کے بھای کی شادی ہوی دولہن آی۔
بچی ہوی۔
اور تین سال میں وہ بھای کی دولہن ہمیشہ ہمشہ کے لیے اپنے اس گھر واپس چلی گی جہاں اس نے آنکھ کھولی تھی۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکا بھای کی دولہن کو واپس لانے کی کوشش کرتا ہے۔
- میاں ظہوری

بھای کی دولہن - سو لفظوں کی کہانی
بھای سے شدت اخلاص نے لڑکے کو مجبور کیا کہ یتیم کی رضامندی نہ ہونے کے باوجود بھای کی دولہن کو واپس لاے۔
اس سخت کشمکش نے بھای کو کینڈا جانے پر مجبور کر دیا۔
لڑکا بھای کی دولہن لے آیا۔
وہ کینیڈا بھی گی۔
لیکن وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
دولہن کی ماں اور یتیم کی خفیہ تدبیروں کے درمیان کسی کی ایک نہ چلی۔
دولہن کی ماں کی آواز بے حد بلند تھی۔ وہ خان تھی۔
بھای کی دولہن ہمیشہ ہمشہ کے لیے اپنی ماں کی ہوی!
لڑکا اور اسکی دلہن اب مذید عتاب میں آگے۔
وہ غدار اور مجرم ٹھیرے۔
وہ کھولتے سوالوں کی زد میں تھے۔
تپش بے حد بڑھ گی تھی۔
سب کچھ پگھلتا محسوس ہو رہا تھا۔
کوی اخلاص حکومت کا عتاب کم نہیں کر رہا تھا۔
لڑکے کی دولہن نے رونا چھوڑ دیا تھا۔
اسکے آنسو خشک ہو گےتھے۔
ادھر کچھ ایسا ہونے کو تھا کہ جسکا لڑکا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
منظر تبدیل ہوتا دولہن کے بھای کی شادی ہوتی ہے۔
- میاں ظہوری

بھابی - سو لفظوں کی کہانی
آے دن لڑکی اپنے والدہ کے گھر آتی ۔
بھابی نے جب یہ دیکھا کہ ہے تو اسنے بھای کو اس کا استحضار کرایا۔
بھابی اچھی پنجابی خاتون تھیں۔لیکن سب کچھ ہاتھ سے نکلتا جا رہا تھا۔
لڑکے سے بے حد محبت کرنے والے ساس سسر کا کینیڈا جانا تھا کہ بھابی کے ہاتھ پورے گھر کا کنٹرول آگیا۔
اب کے بار لڑکی شل ہو کر آی تو اگلے دن بھای سامان اٹھانے والی گاڑی لے آے۔
سامان جا چکا تھا۔وہ خلا چاہتے تھے۔
لڑکا اکیلا ہو گیا تھا۔
وہ جگہ رہنے قابل نہ رہی تھی جہاں اسے کبھی سکون نہ ملا۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکا دولہن کے گھر والوں کو سمجھاتا ہے۔
- میاں ظہوری

ابوظہبی - سو لفظوں کی کہانی
اس سے چند ماہ قبل کہ نوبت خلا تک پہنچے، لڑکی شل ہو کر اپنے گھر جاتی ہے۔
لڑکا مایوس ہو جاتاہے۔
وہ ایک نوکری پر تھا۔ باس ابو ظہبی میں تھا۔
باس نے کہا ابوظہبی آو گے۔
لڑکے کو ایک پل چین نہ آ رہا تھا۔
اس نے حامی بھری۔
جہاز ابوظہبی کے تپتے صحرا پر اپنی گرمی بکھیرتے ایرپورٹ پر اترا۔
باس نے پاسپورٹ رکھ لیا۔
دبی میں مقیم ایک رشتہ دار نے اپنے توسط سے لڑکے کو ایک فلیٹ میں پلنگ دلا دیا۔
نو لوگوں میں ایک شاول والا، ایک آٹو کیڈ والا، ایک نیٹ ورک والا، ایک ابوظہبی کے گٹروں کے محکمے میں کام کرنے والا اور نہ جانے کون کو ن تھے۔
تین لوگ ایک کمرے اور نو ایک فلیٹ میں ہوں تو افراد پر نظر رکھنی ہوتی ہے۔
لڑکا مجھ سے محبت کرنے لگے۔لڑکا انکا خیال رکھتا۔
دو مہینے وہاں رہنے کے بعد وہاں دل نہیں لگ رہا تھا۔
کیسے لگے، کہ لڑکے کے دل کی دھڑکن تو کراچی میں تھی۔
طیارہ لڑکے کو لے کر کر اچی پہنچتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکا یتیم کا گھر چھوڑتا ہے۔
- میاں ظہوری

پارک - سو لفظوں کی کہانی
لڑکا اپنی دلہن سے پارک میں ملتا ہے۔کتنی خوشی کا دن تھا وہ۔
یتیم اور ان کی رفیق حیات نے اب اس گھرمیں دولہن کی واپسی نامنظور کر دی تھی۔
بات یہ ہے کہ انکے دل ہاتھ میں لیے والا بھی کوی نہ تھا۔
لڑکے عجیب سمتوں میں جا چکے تھے۔
کسی کا دل نہیں لگ رہا تھا۔
گھر کشادگی کے باوجود تنگ ہوتا جا رہا تھا۔
لڑکا اپنی دولہن کے بھای کو سمجھاتا ہے۔
وہ مان جاتے ہیں۔ اک گھر۔ خالی سا بنا لیتے ہیں۔کراے پر۔
آینہ ٹوٹ گیا تھا۔ لیکن جڑ تو گیا تھا۔
عکس تو دکھای دے رہا تھا ۔ خوش ہو گے دونوں۔
یتیم اور انکی رفیق حیات اس پر ناخوش تھے۔ ساری عزت خاک میں مل گی تھی۔
مذہب یتیم میں جو بات اس کو نرمی اور پیار سے بانہیں ڈال کر نہ کی جاے وہ حرام بمقابلہ شراب ہے۔
اور سب معاملے میں لڑکا اور دلہن شراب پی پی کر مدہوش ہو چکے تھے۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکا یتیم کو منانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔
- میاں ظہوری

سخت ترین عتاب - سو لفظوں کی کہانی
حکومت سے غداری کر کے جنت بنانے کی ناکام کوشش لڑکے اور دولہن نے کی تھی۔
اس جنت کو مٹ جانا چاہیے تھا۔
جذبات کو سخت ٹھیس پہنچ چکی تھی۔
یہ جوڑنا نور یوسف مانگتا تھا۔جو ممکن نہ تھا۔
یتیم، انکی رفیق حیات اور اسکے لڑکے میں ایک گہرا تعلق تھا۔
یہ عام تعلق سے اونچا تھا۔
یہ مختلف تھا۔
یہ روحانی تھا۔
اس میں بنت نبی کے خون سے کوی زنجیر تھی جو یتیم اور لڑکے کو دو جان یک قالب بناے ہوے تھی۔
اسکو توڑنا ممکنات میں سے تھا۔
یتیم اس تعلق کو عتاب نازل کرنے کے لیے استعمال کرنے لگا۔
انکی رفیق حیات بھی اس کمزوری پر ضربیں لگانے لگیں۔
ابھی آینہ جو کرچی کرچی ہوا تھا اس پر تکلیف دہ ضربیں پڑ رہیں تھیں۔
اسکو کوی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ یہ روحانی تھیں۔
یہ ایک روحانی بوجھ تھا جو ایک قلب دوسرے کو دے رہا تھا۔
اور دوسرا اگلے کو دے رہا تھا۔
آینہ پھر ٹوٹنے کو تھا۔
بھای کی دوسری شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔
منظر تبدیل ہوتا بھای کی دوسری شادی میں بارہ دن ہیں۔
- میاں ظہوری

روحانی کرب - سو لفظوں کی کہانی
دولہن کو الگ گھر میں رہتے ہوے اٹھارہ ماہ ہونے کو آے تھے۔
ان دونوں نے عمرہ کر لیا تھا۔
اس کا داخلہ ہمدرد یورنیورسٹی میں لڑکے نے کرا دیا تھا۔
وہ جب گھر آتی تو صندل جیسے چہرے پر پسینے کی سیاہ لکیریں ہوتیں۔
اب وہ ایک اسکول میں جاب بھی کرنے لگی تھی۔
لاکھ علاج کے باوجود اسکو اولاد نہ ہوتی تھی۔ لیکن کب کس کو اسکی پرواہ!
ان سب کے باوجود سات سال قبل والی دلہن اور دولہااب سرد مہر ہو چکے تھے۔
پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا تھا۔
روحانی کرب نے ساتھ رہتے ہوے بھی لاتعلق سا بنا دیا تھا۔
لڑکا اپنے بچپن کے محسنوں کے سامنے مجرم بن چکا تھا۔
کوی کسی سے کچھ نہیں کہہ رہا تھا لیکن سب ایک کرب میں تھے۔
بھای کی دوسری شادی میں بارہ دن رہ گے تھے۔
لڑکا اور دولہن کی ایک معمولی بات پر تکرار ہوی۔
گاڑی گھر کے سامنے رکی۔
لڑکی گھر کے اندر گی۔ اسکے تیور اچھے نہیں تھے۔
وہ اب شل نہیں ہونا چاہتی تھی۔ وہ اپنا مقام چاہتی تھی ۔
لڑکا کمرے میں رہا۔ وہ گھر کا دروازہ کھول کر جاچکی تھی۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکی روتے ہوے اپنے والد کے گھر پہنچتی ہے۔
- میاں ظہوری

مضمحل والد کی لپک - سو لفظوں کی کہانی
لڑکا گھر کا دروازہ بند کرتا ہے۔
جس سے محبت کی جاتی ہے اسکو دکھ نہیں دیا جاتا۔
لیکن لڑکے کے قلب کا کوزہ بھرا ہوا تھا۔
کوی روحانی مشق اس کوزے کا سایز نہیں بڑھا رہی تھی۔
کیا دولہن کو مذید تکلیف نہ دی جاے؟ لڑکا تنہا گھر میں سوچ رہا ہوتا ہے۔
اگلے گھنٹے بعد لڑکی کے مضمحل والد اپنے بھای اور بیٹے کے ساتھ گھر میں داخل ہوتے ہیں۔
ایک گالی اور کی چپلیں لڑکے کو مارتے ہیں۔
لڑکا کہتا ہے سنیں۔
وہ کہتے تھے کیا تو خدا ہے!
منظر تبدیل ہوتا لڑکا لڑکی کو تکلیف سے نجات دیتا ہے۔
- میاں ظہوری

محبت کی علیحیدگی - سو لفظوں کی کہانی
اب کیا بچا تھا۔سب کچھ دینے کے بعد بھی کچھ ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔
اسکا دل ٹوٹ چکا تھا۔
سو مہر اور ایک پیپر لڑکی کے بھای کو بلا کر دے دیا۔
وہ کچھ دن بعد سامان لے گے۔
گھر میں ایک قالین، ایک تکیہ اور ایک پردہ بچا تھا۔
سو اسی پر دن رات گزارنے شروع کر دیے۔
بھای کی دوسری شادی میں لڑکا شریک نہیں ہوتا۔
بھابی کو اسکا شکوہ آج تک ہے۔
گھر گرد سے اٹا جا رہا تھا۔
لڑکا صبح ناشتہ خود ہی بنا لیتا۔
یونہی گیارہ ماہ گزر گے۔
لڑکا اپنے دیگر گھر والوں سے ملنے جاتا۔
لڑکا سمجھتا تھا کہ اس طرح دلہن کو چھوڑنے پر حکومت کی سیاسی فتح ہو گی اور وہ خوش ہو ں گے۔
لیکن ہر طرف تعلق اوپری سا ہو کر رہ گیا تھا۔
لڑکے کے لیے دوسری شادی کے لیے لڑکیاں دیکھی جا رہیں تھیں۔
اس دوران لڑکے نے خود ہی اخبار میں نکاح کا ایڈ دیا۔
ایک خاتون دوسرا نکاح چاہتیں تھیں۔
لڑکا نہیں چاہتا تھا لیکن اکیلا لڑکا کیا حکومت کے خلاف دوسری بغاوت کرے؟
نہیں
منظر تبدیل ہوتا دوسری شادی۔
- میاں ظہوری

اسکی فون کال - سو لفظوں کی کہانی
الگ رہنے سے محبت ختم نہیں ہو جاتی۔
وہ ہر دن لڑکے کو کال کرتی۔
وہ سات سال میں ہر چیز کے لیے تیار ہو گی تھی لیکن سمجھ نہیں پای کہ لڑکے نے یہ کیوں کیا!
وہ لڑکے سے خوش تھی۔لیکن اس سے زاید چیزوں سے ناخوش۔
وہ بتاتی کہ اسکے والد اسکو میرج بیورو لے گے۔
وہ اپنی ہر بات لڑکے سے شیر کرتی۔
جو اس نے لڑکے سے سیکھا تھا اسکو دہراتی اور فخر کرتی۔
جو موباہل لڑکے نے اسکو دیا تھا اسکو اپنا زیور سمجھتی۔
وہ معصوم تھی۔
وہ لڑکےکی پہلی بیٹی کے ہونے کی خبر سے پہلے تک کال کرتی رہی۔
جب لڑکے نے اسکو اپنی بیٹی کے آنے کی امید کی خبر دی۔ وہ ٹھٹک کر رہ گی۔
اسکی سات سال کوی اولاد نہ ہوی تھی۔
پھر اس نے کبھی میری کال کا جواب دیا نہ خود کال کی۔
اسکی پنجابی بھابی نے فیصل آباد کے ایک پنجابی سے جو دبی میں مقیم تھا شادی کرا دی۔
اسکے والدین کینیڈا میں اپنے بیٹوں کے ساتھ ہیں۔
لڑکا اب ایک ایسی ملاقات کے انتظار میں ہے جو شاید ناممکن ہو!
وہ فیس بک پر اسکو تلاش کرتا رہا لیکن وہ نہ ملی۔
وہ بلا وجہ کراچی کی ان گلیوں سے گزرتا ہے جہاں سے وہ کبھی اسکے ساتھ گزرا تھا۔
اب بھی وہ اسکے رشتے داروں کی فیس بک میں تصاویر میں اس کو ڈھونڈتا ہے۔ لیکن وہ کہیں نہیں!
اپنے چند ایک رشتہ داروں سے لڑکے نے چند سال پہلے کہا کہ کسی طرح اس سے ملاقات کرا دیں۔
لیکن کون کب کسی کا ساتھ دیتا ہے!
دل چاہتا ہے سب بدل جاے اور پھر وہ مجھے اسی طرح کاجل لگا کر نارنجی غرارے میں مل جاے۔
منظر تبدیل ہوتا دوسری شادی ایک عجیب قصہ۔
- میاں ظہوری
 
علما اپنے اپنے حصے کے لڑکوں کو اغوا کر رہے تھے۔ یتیم اغوا ہوا لیکن علمی اغوا کا علم بہت دیر میں ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ بعض لوگ محبت میں پروی ہر تسبح اپنے قلم کی نوک اور بزور طاقت کاٹ رہے تھے۔ انکا ارادہ تھا کہ غلام بنانے کا سب سے آسان طریقہ کم از کم نبی کے برابر عمل کرنے کی تبلیغ کرنا تھا۔ طریقہ واردات بے حد آسان اور مصروف مردوں اور سادہ لوح عورتوں کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ کھانے کھلانے کے محبت بھرے انداز کو تہہ تیغ کیا جا رہا تھا۔ انکو وہ لڑکے درکار تھے جو ہاتھ میں ہتھیار اٹھا کر لوگوں کی جان کے درپے ہوں اور ملکوں ملکوں گھومیں۔ ماں باپ کے واحد سہاروں کو دو ممالک کے سرکردہ دوسروں کے اشاروں پر چھین رہے تھے

ایک پھول۔ دو محبتیں اور چالیس مضامین۔

بعد میں پتہ چلا کہ جتنا کام کیا جاے گا اتنا امیر باس ہوتا جاے گا

تتلیوں جیسے جذبے کسی نہ معلوم سمت سے آکر قلب کے ساحل پر دھیرے دھیرے شور مچا رہے ہیں

موٹر ساکل پر جوس کا کارٹن پوری جولانی دکھا رہا تھا

اس کی تشریح جو اب سمجھ میں آی کتاب نہیں سڑک سے سیکھو۔

ب یتیم کے لڑکے پاس ایک ہی ترکیب تھی کہ سب سے بلند اصول یعنی کتاب اللہ پر اصول کی بحث لے آی جاے تاکہ روز روز کی خوشیاں نہ چھنیں۔ بات بات پر آواز بلند نہ ہو۔ عتاب کی حد و حدو متعین ہو جاے۔ عزت کے اصول متعین ہو جایں۔

لڑکا اس بات سے بے خبر کہ بعض بندے پیار کے بعض مار کے ہوتے ہیں۔

:):):)
 
Top