آپ اتنی تو کبھی مجھ پہ عنایت کرتے----برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع؛راحل؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ اتنی تو کبھی مجھ پہ عنایت کرتے
میری لغزش کو بھلانے کی جسارت کرتے
-----------
جان لیتے جو کبھی میری وفاداری کو
آپ ایسے نہ کبھی مجھ کو ملامت کرتے
---------
ہم کو آتا ہی نہیں ظلم کو سہتے جانا
ظلم سہتے نہ کبھی ہم تو بغاوت کرتے
----------------
ہم نے سیکھا ہے محبّت میں ہی جینا مرنا
--------یا
ہم سمجھتے ہیں محبّت کو عبادت اپنی
لوگ دیکھے ہیں محبّت کی تجارت کرتے
------------
ہم تو بیمار بنے تھے ہی تمہاری خاطر
تم سے اتنا نہ ہوا آ کے عیادت کرتے
---------------
رب ہی بستا ہو سدا جن کے دلوں میں ارشد
ان کو دیکھا ہے ہمیشہ ہی عبادت کرتے
-----------
 
آپ اتنی تو کبھی مجھ پہ عنایت کرتے
میری لغزش کو بھلانے کی جسارت کرتے
جسارت یہاں مناسب نہیں لگتا۔ جسارت عموما عاجزانہ طور پر اپنے عمل کے لیے بولا جاتا ہے ۔۔۔ کسی سے درخواست کے لیے نہیں۔
کچھ تغافل ہی مرے جرم کی بابت کرتے؟؟؟ یا کچھ اور۔۔۔

جان لیتے جو کبھی میری وفاداری کو
آپ ایسے نہ کبھی مجھ کو ملامت کرتے
جان لیتے کے بجائے آزماتے کیسا رہے گا؟
آزماتے جو کبھی میری وفاداری کو۔۔۔

ہم کو آتا ہی نہیں ظلم کو سہتے جانا
ظلم سہتے نہ کبھی ہم تو بغاوت کرتے
دنوں مصرعوں میں تضاد بیانی محسوس ہوتی ہے۔ جب ظلم سہانا آتا ہی نہیں تو پھر بغاوت کی کیوں نہیں گئی؟

ہم نے سیکھا ہے محبّت میں ہی جینا مرنا
--------یا
ہم سمجھتے ہیں محبّت کو عبادت اپنی
لوگ دیکھے ہیں محبّت کی تجارت کرتے
دولخت اور عجز بیان کا شکار ہے۔
 
الف عین
محمّد احسن سمیع؛راحل؛
محمد خلیل الرحمٰن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصلاح کے بعد دوبارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ اتنی تو کبھی مجھ پہ عنایت کرتے
کچھ تغافل ہی مرے جرم کی بابت کرتے
--------
آزماتے جو کبھی میری وفاداری کو
آپ ایسے نہ کبھی مجھ کو ملامت کرتے
----------
غیر فطری ہے سدا ظلم کو سہتے جانا
ظلم سہتے نہ کبھی ہم تو بغاوت کرتے
------------
ہم نے سیکھا ہی نہیں پیار میں دھوکا دینا
لوگ دیکھے ہیں محبّت کی تجارت کرتے
------------
ہم تو بیمار ہوئے صرف تمہاری خاطر
تم سے اتنا نہ ہوا آ کے عیادت کرتے
---------------
رب ہی بستا ہو سدا جن کے دلوں میں ارشد
ان کو دیکھا ہے ہمیشہ ہی عبادت کرتے
---------
 

الف عین

لائبریرین
درست لگ رہی ہے غزل تقریباً
غیر فطری ہے سدا ظلم کو سہتے جانا
ظلم سہتے نہ کبھی ہم تو بغاوت کرتے
.. ظلم کا لفظ دہرایا جانا اچھا نہیں
مفہومِ کے اعتبار سے دو لخت بھی لگتا ہے

رب ہی بستا ہو سدا جن کے دلوں میں ارشد
ان کو دیکھا ہے ہمیشہ ہی عبادت کرتے
---تو کیا نہیں کرنا چاہیے تھا؟ انداز بیان سے لگتا ہے کہ اعتراض کر رہے ہیں!
 
Top