آٹھ میں سے ایک امریکی بھوکا!

arifkarim

معطل
سال 2009 کی رپورٹ کے مطابق 37.9 ملین امریکیوں نے حکومتی خوراک پرچی پروگرام کا استعمال کیا۔ فیڈنگ امریکہ نامی فوڈ بینک کی ایک شاخ جو کہ شیکاگو میں مقیم ہے نے رپورٹ پیش کی ہے کہ پچھلے سال 46 فیصد مزید افراد نے 2005 کے مقابلہ میں یہاں کا دورہ کیا۔ انہی فیڈنگ سینٹرز میں پچھلے سال 13،9 ملین بچوں کو ایمرجنسی خوراک امداد دی گئی۔ 2005 میں یہی شرح 9،23 ملین تھی۔
کینسس فیڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق جن افراد نے گزشتہ سال انکا دورہ کیا، انکا تعلق اس کیٹیگری سے تھا:

* Nearly 60 percent were white, 23 percent black, 12 percent Hispanic and 5 percent other ethnic groups.

* 1 out of 3 households had at least one adult employed full-time.

* 2 out of 3 adults had a high school diploma or higher.

* Forty-five percent said they have had to choose between paying the mortgage or rent and buying food.

* Thirty-six percent said they have had to choose between medicine or medical care and food; a quarter have a family member in poor health, and more than half have unpaid medical bills.

اس سلسلہ میں‌ایک ویڈیو جو غرباء کی قطاروں کو عکس بند کرتی ہے:

مزید:
http://www.reuters.com/article/idUSTRE60C07520100113
http://online.wsj.com/article/SB10001424052748704022804575040911372196350.html
http://www.kansas.com/news/featured/story/1164302.html

کیا امریکی دوست جمہوریت پرست اور سرماریہ دارانہ نظام کی وکالت کرنے والے یہاں‌آکر امریکہ کی اس صورتحال پر روشنی ڈالنا پسند کریں گے؟ :)
 

سویدا

محفلین
’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘ کی وکالت کی بات ہوتی تو کچھ سمجھ بھی آتی لیکن ان لوگوں‌کے نزدیک مسئلہ سرمایہ دارانہ یا کسی نظام کا نہیں‌ہے
بس صرف اندھی تقلید ہے اور کچھ نہیں
 

dxbgraphics

محفلین
جمہوریت کے ہوتے ہوئے پاکستان کبھی بھی ترقی نہیں کر سکے گا اور بیرونی مسائل کا شکار رہیگا۔ اور اسمبلی میں چور لوگ ہی آتے رہینگے۔ رہا سوال کہ عام لوگ یعنی اچھے لوگ اسمبلی میں کیوں نہیں آسکتے تو ہر کسی کو اپنی عزت پیاری ہوتی ہے۔ نیز اچھے لوگ اس وجہ سے بھی اسمبلیوں تک جا نہیں پاتے کہ الیکشن کے لئے بھی اچھی خاصی پبلسٹی کرنی پڑتی ہے جو کہ ان کے بس کی بات نہیں۔
 

ساجد

محفلین
جمہوریت کے ہوتے ہوئے پاکستان کبھی بھی ترقی نہیں کر سکے گا اور بیرونی مسائل کا شکار رہیگا۔ اور اسمبلی میں چور لوگ ہی آتے رہینگے۔ رہا سوال کہ عام لوگ یعنی اچھے لوگ اسمبلی میں کیوں نہیں آسکتے تو ہر کسی کو اپنی عزت پیاری ہوتی ہے۔ نیز اچھے لوگ اس وجہ سے بھی اسمبلیوں تک جا نہیں پاتے کہ الیکشن کے لئے بھی اچھی خاصی پبلسٹی کرنی پڑتی ہے جو کہ ان کے بس کی بات نہیں۔
بھائی جی ، یہاں بات جمہوریت یا آمریت کی نہیں بلکہ بھوک کی ہو رہی ہے اور پاکستان بھی اس موضوع کا عنوان نہیں ہے۔
"بھوک" ایک عالمی مسئلہ ہے اور شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ بھی اس مسئلے کا شکار ہے اور اپنے طریقہ سے اس کو حل کرنا چاہتا ہے ۔ آپ کو اور مجھے اس طریقہ پر اعتراض ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہئیے کہ مغربی ممالک بشمول امریکہ اس کے حل کے لئیے زیادہ بہتر کوششیں کرتے رہے ہیں ۔ ان کے علاوہ چین نے بھی اس کے حل کے لئیے قابل قدر کام کیا ہے۔ جبکہ بھارت اور پاکستان میں بھوک اور خوراک کی کمی کا مسئلہ ابھی تک سنگین ہے۔ اور تفصیلات میں جائیں تو بعض حوالوں سے یہ دونوں ممالک غریب اور قحط زدہ افریقی ممالک کی قطار میں شمار کئیے جا سکتے ہیں۔
ایک پاکستانی ہونے کے ناطے اپنے وطن اور مسلمان ہونے کے ناطے پوری دنیا میں بھوک میں خاطر خواہ کمی لانے کے لئیے ہمیں تنقید کے ساتھ ساتھ تجاویز کے ساتھ آگے آنا چاہئیے۔ تنقید برائے تنقید کوئی مثبت تبدیلی نہیں لایا کرتی۔
 

ظفری

لائبریرین
جمہوریت کے ہوتے ہوئے پاکستان کبھی بھی ترقی نہیں کر سکے گا اور بیرونی مسائل کا شکار رہیگا۔ اور اسمبلی میں چور لوگ ہی آتے رہینگے۔ رہا سوال کہ عام لوگ یعنی اچھے لوگ اسمبلی میں کیوں نہیں آسکتے تو ہر کسی کو اپنی عزت پیاری ہوتی ہے۔ نیز اچھے لوگ اس وجہ سے بھی اسمبلیوں تک جا نہیں پاتے کہ الیکشن کے لئے بھی اچھی خاصی پبلسٹی کرنی پڑتی ہے جو کہ ان کے بس کی بات نہیں۔

دنیا میں بہت سے نیک کام ہوتے ہیں ۔ ان میں سے اپنے لیئے ایک نیک کام یہ منتخب کریں کہ موضوع پر رہ کر بات کریں‌ ۔ بصورت دیگر آپ کو انتباہ جاری کردیا جائے گا ۔
 

arifkarim

معطل
بہت شکریہ ساجد بھائی۔ واقعی تنقید برائے تنقید کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ بھوک کا مسئلہ آبادی کا زیادہ ہونا یا خوراک کی کمی ہونا نہیں ہے۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ چیک بک والا ضرورت سے زیادہ کھاتا ہے اور غریب بیچارا غیر فطری نظام حکومت کی وجہ سے مارا جاتا ہے۔ جب ہر کوئی ایک دوسرے سے مقابلہ کی بنا پر کام کرے گا تو ظاہر ہے کسی نہ کسی کو تو بھوکا سونا پڑے گا اور یہی کچھ آجکل دنیا میں‌ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ ہر انسان دوسرے سے مقابلہ کی سکت نہیں رکھتا اور موجودہ نظام نوکری اس چیز کو بالکل نظر انداز کر دیتا ہے!
 

dxbgraphics

محفلین
بھائی جی ، یہاں بات جمہوریت یا آمریت کی نہیں بلکہ بھوک کی ہو رہی ہے اور پاکستان بھی اس موضوع کا عنوان نہیں ہے۔
"بھوک" ایک عالمی مسئلہ ہے اور شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ بھی اس مسئلے کا شکار ہے اور اپنے طریقہ سے اس کو حل کرنا چاہتا ہے ۔ آپ کو اور مجھے اس طریقہ پر اعتراض ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہئیے کہ مغربی ممالک بشمول امریکہ اس کے حل کے لئیے زیادہ بہتر کوششیں کرتے رہے ہیں ۔ ان کے علاوہ چین نے بھی اس کے حل کے لئیے قابل قدر کام کیا ہے۔ جبکہ بھارت اور پاکستان میں بھوک اور خوراک کی کمی کا مسئلہ ابھی تک سنگین ہے۔ اور تفصیلات میں جائیں تو بعض حوالوں سے یہ دونوں ممالک غریب اور قحط زدہ افریقی ممالک کی قطار میں شمار کئیے جا سکتے ہیں۔
ایک پاکستانی ہونے کے ناطے اپنے وطن اور مسلمان ہونے کے ناطے پوری دنیا میں بھوک میں خاطر خواہ کمی لانے کے لئیے ہمیں تنقید کے ساتھ ساتھ تجاویز کے ساتھ آگے آنا چاہئیے۔ تنقید برائے تنقید کوئی مثبت تبدیلی نہیں لایا کرتی۔
اگر امریکہ عوامی طریقے سے یہ مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے تو عراق افغانستان سے اپنی فوجیں بلوالے۔ تو یہ مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا۔
 

آفت

محفلین
امریکہ کی تو خیر بات ہی الگ ہے لیکن یہاں اپنے ملک میں کیا ہو رہا ہے
آٹھ میں سے سات لوگ یا تو بھوکے ہیں یا پھر غیر معیاری خوراک یا کم خوراکی کا شکار نظر آتے ہیں ۔ یہاں بھی ایک کلاس فائیو سٹار ہوٹلوں میں ہزاروں کا بل کھانے پر سرف کرتی ہے تو دوسری طرف کئی بچے کچرے کے ڈھیروں سے کھانے کی اشیا اکٹھی کر کے اپنا پیٹ بھرتے ہیں ۔
ہر ملک کی اشرافیہ غریب لوگوں کا استحصال کرتی ہے جس کی وجہ سے ایسے حالات جنم لیتے ہیں ۔
کراچی میں کچھ غنڈے بھتے لے کر عیش و عشرت پر لگاتے ہیں تو کچھ محنت کش سارا دن کی مشقت کے بعد بھی ضروریات زندگی سے محروم ہیں بلکہ جب بھی لسانی فسادات کی سازش رچائی جاتی ہے تو اسی محنت کش طبقے کے افراد سڑکوں پر گاجر مولی کی طرح کاٹ دییے جاتے ہیں ۔
جب تک یہ طبقہ اپنے حقوق کے لیے نہیں اٹھے گا اس وقت تک نہ غنڈہ گردی اور بھتہ خوری ختم ہو گی اور نہ استحصالی طبقہ ان کو جینے دے گا ۔
 
Top