آنڈے گرم آنڈے۔عبد الخالق بٹ

ام اویس

محفلین
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
شعر علامہ اقبال کا ہے اور انڈے نئی تہذیب کے۔انڈے مرغی کے ہوتے تو گندے ہونے کے باوجود کمرشل استعمال میں آجاتے۔یقین نہ آئے تو بیکری میں کام کرنے والے ’اندر کے آدمی‘سے پوچھ لیں۔
اردو زبان میں انڈے کی رعایت سے بہت سے محاورے موجود ہیں۔
جیسے
’ایک انڈا وہ بھی گندا‘ یا ’موٹی مرغی چھوٹا انڈا ‘ وغیرہ۔
استاد نادرست جواب کی صورت میں کاپی پر دائرہ بناتے ہیں جو ’صفر‘ کی علامت ہوتا ہے، مگر ’سلینگ‘ میں اسے بھی ’انڈا‘ کہتے ہیں۔عام طور پر اس طرح کے ’انڈوں‘ کا نتیجہ ’ڈنڈوں‘ کی صورت میں نکلتا تھا۔
سیدہ فرحت کہہ گئی ہیں:
چھین لے ہاتھ سے استاد کے ڈنڈا کوئی
بدلے ڈنڈے کے کھلا دے ہمیں انڈا کوئی
انڈے کا آملیٹ بنانا مقصود ہوتو اسے اچھی طرح پھینٹتے ہیں۔اسی سے محاورہ ’ پھینٹی لگانا‘ ہے۔
معروف مزاحیہ شاعر سید ضمیر جعفری نے اس ’ پھینٹی‘ اور مابعد کے مراحل کو ذہن میں رکھتے ہوئے دنیا کی بے مروتی کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
آدمی سے سلوک دنیا کا
جیسے انڈے تلا کرے کوئی
ایک زمانے میں کراچی میں ایک جملہ ’انڈا پھوڑ چلی‘ مشہور تھا، ممکن ہے اب بھی بولا جاتا ہو۔اس جملے کے معنی نہ اُس وقت سمجھ آئے اور نہ اب، تاہم گمان ہے کہ اس سے ’شیخ چلی‘ کی اُن خام خیالیوں کی جانب اشارہ ہے جس میں وہ انڈے سے چوزہ، چوزے سے مرغی پھر مزید انڈے اور مزید مرغیوں کا منصوبہ بنا رہا تھا کہ ’انڈا‘ ہی پھوٹ گیا۔اس طرح کے منصوبے بنانے والے کو اب ’شیخ چلی‘ نہیں کہتے کہ عہدہ بڑا اور احترام لازم ہے۔
چوں کہ ہم غیر سیاسی آدمی ہیں اس لیے ہمیں انڈے کے گندے ہونے سے کوئی سروکار نہیں، ہمیں تو انڈے کو ’انڈا‘ کہنے سے دلچسپی ہے۔
’ انڈا ‘سنسکرت کا لفظ ہے جو بنا کسی تبدیلی کے اردو میں رائج ہے۔جب کہ بعض علاقائی زبانوں میں یہ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ جیسے پنجابی میں انڈے کو ’ آنڈا‘ بولتے ہیں۔ سردیوں میں پھیری والے گلیوں بازاروں میں ’ آنڈے گرم آنڈے‘ کی صدائیں لگاتے ہیں۔ جب کہ بذریعہ ٹرین خانیوال سے گزرنے والوں کو ’خانیوال کے آنڈوں‘ سے سابقہ پڑتا ہے، جنہیں دیکھ کر ہمیشہ یہ خیال آیا کہ انڈے اگر خانیوال دیتا ہے تو پھر مرغیاں کیا دیتی ہیں؟
ماہرین لسانیات کے مطابق سنسکرت اور فارسی زبانوں کا سرچشمہ ایک ہے، اس لیے ان زبانوں میں لفظی اشتراک کسی بھی دوسری زبان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔اس کے باوجود سنسکرت کا ’انڈا‘ فارسی میں موجود نہیں۔ فارسی میں انڈے کے لیے ’تخمِ مرغ، مرغانہ اور خاگ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
’تخمِ مرغ‘ کا مطلب ہے ’پرندے کا بیج‘۔یہ لفظ جدید فارسی کا ہے، مگر اس لفظ میں قدرے تکلف اور تَصنُع پایا جاتا ہے۔یوں کہہ لیں کہ اس لفظ میں بے ساختہ پن نہیں بناوٹ ہے۔
لفظ ’مرغانہ‘ کو سیدھے اور صاف طور پر ’مرغ‘ سے نسبت ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ’دیو‘ سے ’دیوانہ‘، ’شاہ‘ سے ’شاہانہ‘ اور ’عارف‘ سے ’عارفانہ‘وغیرہ۔
’خاگ‘ قدیم فارسی یا پہلوی زبان کا لفظ ہے۔اسی سے لفظ ’خاگینہ‘ بھی ہے جو انڈوں سے بنے پکوان کے لیے اردو بول چال میں اب بھی موجود ہے۔ایسے میں ’انڈوں کا خاگینہ‘ نادرست ترکیب ہے، کیونکہ خاگ کا مطلب ہی انڈا ہے۔ حرف ’خ‘ کے حرف ’ہ‘ سے بدلنے پر ’خاگ‘ کی ایک صورت ’ہاگ‘ بھی ہے۔اب آپ اس ’ہاگ ‘ کی جھلک پشتو زبان کے ’اَ گئی‘ (هګۍ) اور سندھی زبان کے ’هيڪو‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہی ’ہاگ‘ فارسی کے زیر اثر ’ کُردی‘ زبان میں ’ہیک‘(hêk) ہے۔ پھر مشرق وسطیٰ سے آگے بڑھ کر جب یہ لفظ یورپ پہنچا تو ’اسکاٹ گیلک‘ زبان میں ’ اُوگ ‘(ugh) ہوگیا۔تھوڑا سا غور کرنے پر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ’ اُوگ ‘ انگریزی کے’ ایگ‘(egg)سے ایک قدم کے فاصلے پر ہے۔اس ’ ایگ ‘ کو آپ شمالی یورپ کی ناروجیئن، ڈینش اور سوئیڈش زبانوں میں ملتے جُلتے تلفظ میں بالترتیب ’ایگ (egg)،ایگ(æg) اورایگ(ägg)کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔
’انڈے‘ اور ’خاگ‘ کے حوالے سے جن زبانوں کا ذکر ہوا ان سب کا تعلق ’ہند یورپی‘ زبانوں سے ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ زبانوں کے اس گروہ سے باہر ’منگولین اور زُلو (zulu)‘ زبانوں میں ’ انڈا اور ایگ‘ دونوں الفاظ ملی جلی صورت میں بولے جا تے ہیں۔گویا یہ دونوں زبانیں لفظ ’انڈا اور ایگ‘ کا ’سنگم پوائنٹ‘ ہیں۔
منگولین زبان میں،جو منگولیا اور اس سے ملحقہ چینی علاقوں میں بولی جاتی ہے انڈے کو ’انڈوگ‘(өндөг) کہتے ہیں۔دوسری طرف زُلو(zulu) زبان ہے جو جنوبی افریقہ سمیت بہت سے افریقی ممالک میں بولی جاتی ہے، اور اس زبان میں انڈے کو ’ایکانڈا‘ (iqanda)کہتے ہیں۔یہ ’ایکانڈا‘ اگر’ ایگ+انڈا ‘ نہیں تو اور کیا ہے۔
عربی زبان میں روشن اور سفید کے لیے ایک لفظ ’بیضا‘ بھی آیا ہے۔
معروف عالم یعقوب حموی بغدادی نے اپنی معروف کتاب ’معجم البلدان ‘ میں ’بیضا‘ نام کے ایک شہر اور کئی مقامات کا ذکر کیا ہے۔
مشہور مفسر قرآن عبداللہ بن عمر کا تعلق اسی بیضا شہر سے تھا جس کی نسبت سے ان کی کاوش ’تفسیرِ بیضاوی‘ کہلاتی ہے۔
حضرت موسیٰؑ کو دیے گئے معجزات میں سے ایک ’ید بیضا‘ یعنی چمکدار ہاتھ بھی تھا۔
اس سفیدی کی رعایت سے عربی میں انڈے کو’ بیضہ ‘ کہتے ہیں۔اسی بیضہ ہی کی نسبت سے ایک خاص طرح کی گولائی کو ’بیضوی‘(oval) کہاجاتا ہے۔
معروف گیت نگار شکیل بدایونی کہہ گئے ہیں:
بیضوی شکل میں تھے حسن کے جلوے پنہاں
آنکھ میں سحر بھرا تھا مگر آنسو تھے رواں
زمانہ قدیم ہی سے ایران اور اس کے زیر اثر علاقوں میں موسم بہار کی آمد پر’ جشن نو روز‘ منایا جاتا ہے۔اس نوروز میں بچے رنگ برنگ انڈے لڑاتے ہیں، اور یہ انڈے ’بیضۂ نوروز‘ کہلاتے ہیں۔
جیسا کہ عام مشاہدہ ہے کہ حرف ’ب‘ حسب موقع حرف ’واؤ‘ سے بھی بدل جاتا ہے۔چنانچہ یہی تبدیلی البانوی زبان میں ’بیضہ‘ کے ساتھ ہوئی یوں عربی کا ’بیضہ‘ البانوی زبان میں ’ویزا‘(Vezë) ہوگیا اور مطلب ’انڈا‘ ہی رہا۔
آپ کو ’اُبلا‘ انڈا پسند ہے یا نہیں، ہمیں اس سے غرض نہیں ہمیں تو لفظ ’اُبال‘ میں دلچسپی ہے جو انگریزی لفظ بوائل(Boil) کا بچھڑا بھائی معلوم ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کے انڈوں کے طولانی تذکرے کے بعد انڈوں سے بچے نکل آئیں آپ ’اُبال‘ کی رعایت سے شکیل اعظمی کا ایک اچھا سے شعر ملاحظہ کریں اور ہمیں اجازت دیں:
کسی سے رکھتے کہاں دشمنی کا رشتہ ہم
لہو کو سرد بھی ہونا تھا اِک اُبال کے بعد

آنڈے گرم آنڈے۔عبدالخالق بٹ - Daleel.Pk
 
Top