آسٹریلیا

قیصرانی

لائبریرین
آسٹریلیا

دولت مشترکہ آسٹریلیا جنوبی نصف کرے کا ایک ملک ہے جو کہ دنیا کے سب سے چھوٹے براعظم پر مشتمل ہے۔ اس میں تسمانیہ کا بڑا جزیرہ اور بحر جنوبی، بحر ہند اور بحر پیسیفک کے کئی چھوٹے بڑے جزائر شامل ہیں۔ اس کے ہمسائیہ ممالک میں انڈونیشیا، مشرقی تیمور اور پاپوا نیو گنی شمال کی طرف، سولومن جزائر، وانواتو اور نیو سیلیڈونیا شمال مشرق کی طرف اور نیوزی لینڈ جنوب مشرق کی طرف موجود ہے۔

آسٹریلیا کا مرکزی حصہ 42000 سال سے قدیمی آسٹریلین لوگوں سے آباد رہا ہے۔ شمال سے آنے والے اکا دکا ماہی گیروں اور یورپی مہم جوؤں اور تاجروں نے 17 صدی میں ادھر آنا شروع کر دیا تھا۔ 1770 میں آسٹریلیا کا مشرقی نصف حصہ پر برطانیہ نے دعویٰ کیا۔ اسے پھر 26 جنوری 1788 میں نیو ساؤتھ ویلز کی کالونی کا حصہ بنا دیا گیا۔ جونہی آبادی بڑھتی گئی اور نئے علاقے دریافت ہوتے گئے، 19ویں صدی تک ادھر مزید پانچ کالونیاں بھی بنا دی گئیں۔

یکم جنوری 1901 کو ان 6 کالونیوں نے مل کر ایک فیڈریشن بنائی اور اس طرح دولت مشترکہ آسٹریلیا وجود میں آئی۔ فیڈریشن سے لے کر اب تک، آسٹریلیا میں معتدل جمہوری سیاسی نظام موجود ہے اور یہ ابھی تک دولت مشترکہ ہے۔ اس کا دارلحکومت کینبرا ہے۔ اس کی آبادی 2 کروڑ 10 لاکھ ہے اور یہ مین لینڈ کے دارلحکومتوں سڈنی، میلبورن، برسبن، پرتھ اور ایڈیلیڈ میں پھیلا ہوا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
وجہ تسمیہ
لاطینی میں آسٹریلیس کا مطلب "جو جنوب میں ہو" ہے۔ جنوب کی نامعلوم زمین کے بارے کہانیاں قدیم رومن دور میں ملتی ہیں لیکن ان میں اصل براعظم کے بارے کوئی حقیقی معلومات نہیں تھیں۔ آسٹریلیا کا لفظ انگریزی میں پہلی بار 1625 میں استعمال کیا گیا۔ 1793 میں جارج شا اور سر جیمز سمتھ نے زوالوجی اور باٹنی برائے نیو ہالینڈ کے نام سے تحریر شائع کی جس میں انہوں نے وسیع و عریض جزیرے کا ذکر کیا تھا نہ کہ بطور براعظم کے۔

1814 میں آسٹریلیا کا نام مشہور ہوا جو کہ ایک برطانوی نیویگیٹر نے اپنے سفر کے بعد کتاب کی شکل میں لکھا۔ اس کا نام میتھیو فلنڈرز تھا اور اس نے پہلی بار آسٹریلیا کے گرد چکر لگایا۔ اس کتاب کی نوعیت اگرچہ فوجی تھی، لیکن لفظ "آسٹریلیا" کو عام مقبولیت حاصل ہوئی کیونکہ یہ کتاب وسیع پیمانے پر پڑھی گئی۔ بعد ازاں نیو ساوتھ ویلز کے گورنر نے اپنے سرکاری مراسلات میں لفظ "آسٹریلیا" کو استعمال کیا اور 1817 میں اس نام کو سرکاری درجہ دینے کی سفارش کی گئی جو کہ منظور ہوئی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
تاریخ

ابتدائی انسانی آبادکاری کا اندازہ 42000 سے 48000 سال قبل کا لگایا گیا ہے۔ یہ لوگ موجودہ دور کے قدیمی آسٹریلیائی باشندوں کے اجداد تھے جو کہ جنوب مشرقی ایشیا سے زمینی راستے سے ادھر پہنچے تھے۔ ان کی اکثریت شکاری اور گلہ بانوں کی تھی۔

آسٹریلیا کا مشاہدہ کرنے والا پہلا غیر متنازعہ یورپی ہالینڈ کا جہاز راں ولیم جانسزون تھا جس نے کیپ یارک کے جزیرہ نما کے ساحل کا منظر 1606 میں دیکھا۔ 17ویں صدی کے دوران ہالینڈ کے باشندوں نے مکمل مغربی اورشمالی ساحلی علاقوں کے نقشے بنائے اور اسے نیو ہالینڈ کا نام دیا لیکن آبادکاری کی کوئی کوشش نہیں کی۔ 1770 میں جیمز کُک ادھر پہنچا اور مشرقی ساحل کا نقشہ بنایا اور اسے نیو ساؤتھ ویلز کا نام دیا اور اسے برطانیہ نے نام کیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
نباتات و حیوانات

اگرچہ زیادہ تر آسٹریلیا نیم بنجر یا صحرائی ہے، اس میں بہت سی اقسام کے ماحول پائے جاتے ہیں۔ ان میں الپائن سے لے کر استوائی رین فارسٹ شامل ہیں۔ اس لئے اسے میگا ڈائورسٹی ملک کہا جاتا ہے۔ اپنی طویل عمر اور زرخیزی میں کمی کی وجہ سے پورے براعظم کا موسم کافی مختلف ہے اور جغرافیائی اعتبار سے بقیہ دنیا سے بہت عرصہ کٹے ہونے کی وجہ سے یہاں کی حیاتیاتی زندگی بہت مختلف اور بہت متنوع نوعیت کی ہے۔ تمام پھولدار پودوں کا 85 فیصد، ممالیہ کا 84 فیصد، پرندوں کا 45 فیصد، ساحل سمندر کی مچھلیوں کا 89 فیصد حصہ عام نوعیت کا ہے اور ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ ان قدرتی ماحولوں کی اکثریت کو انسانی مداخلت اور باہر سے لائی گئی مختلف نسلوں کی وجہ سے مٹ جانے کا اندیشہ لاحق ہے۔ وفاقی ماحول کے بچاؤ اور بائیو ڈائورسٹی کے تحفظ کے ایکٹ کو 1999 میں منظور کیا گیا جو معدومیت کے خطرےسے دوچار انواع کے بچاؤ کا کام کرتا ہے۔
آسٹریلوی لکڑی دار درختوں کی اکثریت سدا بہار ہے اور یہ آگ اور خشک سالی کے عادی ہیں۔ ان میں سفیدہ اور آکاکیاس شامل ہیں۔

جاری ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
معیشت

آسٹریلیا ایک خوشحال اور مغربی انداز کی معیشت رکھنے والا ملک ہے۔ اس کی فی کس جی ڈی پی آمدنی برطانیہ، جرمنی اور فرانس سے ذرا سا زیادہ ہے۔ انسانی ترقی کے انڈیکس میں اسے تیسرا نمبر دیا گیا ہے۔ اکانومسٹ نے 2005 میں انسانی معیار زندگی کے ھوالےسے چھٹا نمبر دیا ہے۔ آسٹریلیا کی معیشت میں برآمدی نوعیت کی اشیا کی تیاری نہ ہونا ایک بہت بڑی کمزوری سمجھی جاتی ہے۔ حال ہی میں بڑھتی ہوئی سیاحت اور آسٹریلیا کی برآمدات کی قیمتوں میں اضافے نے اس پر کچھ صورتحال تبدیل کی ہے۔ تاہم کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کے حوالے سے آسٹریلیا دنیا میں چوتھے نمبر پر آتا ہے۔

ہاک کی حکومت کے دوران معاشی اصلاحات کا عمل شروع کیا گیا جس میں آسٹریلیا کے ڈالر کو 1983 میں آزاد کر دیا گیا اور جزوی طور پر فنانشل سسٹم کو ڈی ریگولیٹ کیا گیا۔ ہاورڈ کی حکومت نے مائیکرواکنامک اصلاحات کے اس عمل کو جاری رکھا جس میں لیبر مارکیٹ کی جزوی ڈی ریگولیشن اور سرکاری اداروں کی نجکاری، جس میں ٹیلی کمیونیکیشن بہت اہم ہے، شامل ہیں۔ جولائی 2000 میں ٹیکسوں کے بالواسطہ نظام کی اصلاح کی گئی اوراشیا اور خدمات پر 10 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا۔ اس سے ذاتی اور کمپنیوں کے انکم ٹیکس پر انحصار میں کچھ کمی ہوئی۔

جنوری 2007 میں کل 10033480 افراد برسر روزگار ہیں اور اس وقت شرح بے روزگاری 4٫6 فیصدی ہے۔ گزشتہ دہائی سے افراط زر کی شرح 2 سے 3 فیصد تک رہی ہے۔ خدمات کا شعبہ بشمول سیاحت، تعلیم اور معاشی خدمات کل جی ڈی پی کا 69 فیصد حصہ ہیں۔ زراعت اور قدرتی ذرائع کل 3 سے 5 فیصد ہیں۔ آسٹریلیا کی برآمدی منڈیوں میں جاپان، چین، امریکہ، جنوبی کوریا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
آبادی

دو کروڑ دس لاکھ آسٹریلوی 19ویں اور 20ویں صدی کے آبادکاروں کی اولاد ہیں جن کی اکثریت برطانیہ اور آئرلینڈ سے آئی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے سے اب تک آسٹریلیا کی آبادی چار گنا بڑھ چکی ہے۔ اس کی ایک وجہ پرکشش پروگرام برائے تارکین وطن بھی شامل ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے لے کر 2000 تک تقریباً 69 لاکھ افراد بطور نئے تارکین وطن کے طور پر آئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آسٹریلوی آبادی کے ہر سات میں سے دو افراد آسٹریلیا سے باہر پیدا ہوئے ہیں۔ زیادہ تر تارکین وطن ہنرمند ہیں لیکن کچھ تعداد پناہ گزین مہاجرین کی بھی ہے۔

آسٹریلیا کے قدیمی باشندوں کی تعداد اب 410003 ہے جو کہ 1976 میں 115953 کی تعداد سے بہت زیادہ ہے۔ ان لوگوں کی جیل جانے کی اور بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ اور تعلیم کی کمی اور اوسط عمر دیگر آسٹریلیوں سے سترہ سال کم ہونا بھی شامل ہے۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح آسٹریلیا میں بھی آبادی میں بوڑھے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس سے مراد کم لوگوں کا کام پر جانا اور زیادہ لوگوں کا ریٹائر ہونا ہے۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں آسٹریلوی ملک سے باہر ہیں۔

سرکاری زبان انگریزی ہے اور اس کا لہجہ مخصوص آسٹریلوی ہوتا ہے۔ 2001 کے سروے میں یہ سامنے آیا کہ 80 فیصد گھروں میں انگریزی بولی جاتی ہے۔ اس کے بعد چینی، اٹالین اور یونانی بولی جاتی ہیں۔ نئے تارکین وطن کی اکثریت عموماً دو زبانیں بولتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آسٹریلیا میں 200 سے 300 تک قدیم زبانیں تھیں جب یورپی یہاں آئے۔ اب ان میں سے کل 70 باقی بچی ہیں اور ان میں سے 20 اب مٹ جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

سرکاری طور پر آسٹریلیا کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ 2006 کے سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کل آبادی کا 60 فیصد حصہ عیسائی ہے۔ 19 فیصد لادین ہیں۔ ۱۲ فیصد کی طرف سے دیا جانا والا جواب غیر اخلاقی ہونے کی وجہ سے نہیں لکھا جا رہا۔

6 سے 15 سال تک کے بچوں کے لئے سکول جانا لازمی ہے، کچھ حصوں میں یہ عمر 16 اور کچھ میں 17 سال بھی ہے۔ اس وقت آسٹریلیا کی شرح خواندگی 99 فیصد ہے۔ حکومتی سرمائے سے تعمیر ہونے والی یونیورسٹیوں کی تعداد 38 ہے اور اس کے علاوہ بہت ساری پرائیوٹ یونیورسٹیاں بھی موجود ہیں۔ اکثر یونیورسٹیاں حکومتی امداد سے چلتی ہیں۔ یہاں حکومت کی طرف سے ووکیشنل ٹریننگ کے سکول بھی قائم ہیں جو کہ Tafe ادارے کہلاتے ہیں۔ یہاں نئے ہنرمند تیار کیے جاتے ہیں۔ اندازاً آسٹریلیا کی 25 سے 64 سال تک کی 58 فیصد آبادی کے پاس ووکیشنل یا اس طرح کی دوسری تعلیم موجود ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ثقافت

1788 سے لے کر 20ویں صدی تک اینگلو سیلٹک انداز کی ثقافت آسڑیلیا میں موجود رہی۔ گزشتہ پچاس سالوں میں آسٹریلوی ثقافت پر امریکی ثقافت اور انگریزی زبان نہ بولنے والے ممالک کے تارکین وطن لوگوں اور آسٹریلیا کے ایشیائی ہمسائیوں کا گہرا اثر پڑا ہے۔ آسٹریلیا کے اپنے ادب، سینما، اوپرا، موسیقی، پینٹنگ، تھیٹر، ڈانس وغیرہ نے بین الاقوامی طور پر اپنی شناخت بنائی ہے۔ آسٹریلیا میں بصری فنون کی پرانی تاریخ موجود ہے جو کہ غاروں میں اور درختوں کی چھال پر قدیم لوگوں کی طرف سے بنائی گئی تصاویر پر مشتمل ہے۔

آسٹریلوی ادب پر بھی مناظر کا گہرا اثر ہوا ہے۔ بینجو پیٹرسن اور ہنری لاسن جیسے لکھاریوں نے آسٹریلوی جھاڑیوں سے اثر قبول کیا ہے۔ 1973 میں پیٹرک وائٹ کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ آسٹریلوی انگریزی کی اصل برطانوی انگریزی سے ہوئی ہے۔
آسٹریلیا میں دو نشری ادارے، تین کاروباری ٹیلی ویژن نیٹ ورک، کئی پے ٹی وی اور بہت سارے عوامی، غیر منافعتی ٹیلی ویژن اور ریڈیو سٹیشن موجود ہیں۔ آسٹریلوی فلم انڈسٹری نے بہت زیادہ کامیابی حاصل کی ہے۔ ہر بڑے شہر کا اپنا اخبار ہے اور دو قومی اخبارات بھی ہیں۔ پریس فریڈم کے حوالے سے آسٹریلیا کو 2006 میں 35واں نمبر دیا گیا تھا جو نیوزی لینڈ سے پیچھے اور امریکہ سے آگے تھا۔

کھیل کا آسٹریلوی ثقافت پر بہت گہرا اثر ہے۔ اس کے علاوہ موسم بھی ایسا ہے جو بیرونی کھیلوں وغیرہ کے لئے بہت مناسب ہے۔ بین الاقوامی سطح پر آسٹریلیا میں بہت سے کھیلوں کے مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔ آسٹریلیا کی کرکٹ، ہاکی، نیٹ بال، رگبی لیگ، رگبی یونین، سائیکلنگ، کشتی رانی اور تیراکی میں بہت عمدہ ٹیمیں ہیں۔ قومی سطح پر آسٹریلوی فٹ بال، گھڑ دوڑ، فٹ بال اور موٹر ریسنگ اہم ہیں۔ موجودہ دور میں ہونے والے ہر سمر اولمپک اور ہر دولت مشترکہ کی کھیلوں میں آسٹریلیا نے شرکت کی ہے۔ 1956 کے اولمپک میلبورن، آسٹریلیا میں منعقد ہوئے تھے۔ 2000 سے لے کر اب تک آسٹریلیا پہلے پانچ سب سے زیادہ تمغہ لینے والے ممالک میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ آسٹریلین اوپن جو کہ چار گرینڈ سلیم ٹینس مقابلوں میں سے ایک ہے، بھی ہوتا ہے۔ کھیلوں کے لئے اور مشہور کھلاڑیوں کے لئے حکومتی اور اداراتی مدد عام سی بات ہے۔ ٹی وی پر فٹ بال اور اولمپک کو دیکھنا بھی کافی مقبول ہے۔
 

تیشہ

محفلین
چھوٹے بھیا ذرا لگے ہاتھوں مجھے '' مالٹا ' ' جرمنی ' ' ان دو ملکوں کے بارے میں تفصیلات تو بتائیے مجھے ضرورت ہے ۔ مالٹا کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں کیونکہ اگلا ٹرپ میرا جرمنی ۔ ۔ مالٹا ۔۔ یا فرانس کا ہے ۔ تو مجھے انکے بآرے میں ڈیٹیل سے بتائیے ۔
 

تیشہ

محفلین
مالٹا ، ۔۔ کوالمپور ۔۔ جرمنی ۔۔۔فرانس ، ۔۔ بارسلونا ۔۔۔ مجھے ان کے بارے میں جاننا ہے ،۔ مالٹا میں کیا خاص بات ۔؟ کیا وہ ایسا ملک ہے جو دیکھنے کے قابل ہے ۔؟ کونسی اسکی جگہ دیکھی جاسکتیں ہیں ۔؟ اسکا نام مالٹا کیوں ہے ؟ کیا ہم کو مالٹا جاتے ہوئے ساتھ اپنا اپنا مالٹا کھانے لے جانے کی ضرورت ہے :grin::grin: ۔ وغیرہ وغیرہ ،

دوسرے نمبر پر مجھے جرمنی کی تفصیل چاہیے ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
مالٹا ، ۔۔ کوالمپور ۔۔ جرمنی ۔۔۔فرانس ، ۔۔ بارسلونا ۔۔۔ مجھے ان کے بارے میں جاننا ہے ،۔ مالٹا میں کیا خاص بات ۔؟ کیا وہ ایسا ملک ہے جو دیکھنے کے قابل ہے ۔؟ کونسی اسکی جگہ دیکھی جاسکتیں ہیں ۔؟ اسکا نام مالٹا کیوں ہے ؟ کیا ہم کو مالٹا جاتے ہوئے ساتھ اپنا اپنا مالٹا کھانے لے جانے کی ضرورت ہے :grin::grin: ۔ وغیرہ وغیرہ ،

دوسرے نمبر پر مجھے جرمنی کی تفصیل چاہیے ۔
جی باجو، کوالالمپور تو ملائیشیا کا شہر ہے اور دارلحکومت بھی۔ بارسلونا سپین کا دارلحکومت
 

تیشہ

محفلین
جی باجو، کوالالمپور تو ملائیشیا کا شہر ہے اور دارلحکومت بھی۔ بارسلونا سپین کا دارلحکومت،۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چھوٹے بھیا یہ تو مجھے بھی پتا ہے ناں :( :rolleyes: مجھے مالٹا کی تفصیل بتائیے اور جو نام لکھے ہیں انکے بارے میں ، ۔ ۔تاکے مجھے کچھ آئیڈیا ہو پھر مجھے ان میں سے بہتر لگے میں اسکو سلیکیٹ کروں ۔ ۔ ہو سکے تو تصویریں بھی لگادیں تو کیا ہی بات ہو ۔ ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
باجو کیا آپ دو یا تین دن انتظار کر سکتی ہیں؟ دراصل لمبے مضامین ہوتے ہیں نا، تو ترجمہ کرنے میں وقت لگ جاتا ہے :(
 

تیشہ

محفلین
باجو کیا آپ دو یا تین دن انتظار کر سکتی ہیں؟ دراصل لمبے مضامین ہوتے ہیں نا، تو ترجمہ کرنے میں وقت لگ جاتا ہے :(



جی بلکل انتظار کرسکتی ہوں ۔ آرام آرام سے بھلے لائیے مجھے بھی کونسا ابھی جانا ہے ؟ میں مارچ میں جانے کا ارادہ ہے مگر اگر مجھے کچھ آئیڈیا ہوتا کہ کونسا ملک اب دیکھنے کے قابل ہے کوئی ایسی انوکھی جو پہلے نہ دیکھی ہو تو مزہ آتا ہے ورنہ سارے یورپ اک جیسے ہیں :( میرے بہنوئی نے بتادیا ہے مالٹا اک چھوٹا سا جزیرہ ہے ۔ اور کچھ نہیں ۔ ۔۔ :( مگر انکا کہنا ہے گریس ٹھیک ہے ۔ ۔ تو مجھے گریس کی تفصیل تو بتائیے ویسے تو مالٹا بھی جی چاہ رہا ہے کہ جانا ہی چاہئیے کیونکہ مجھے جزیرے پسند ہیں ۔
Amsterdam' greece .. malta ...barcelona .. aur پیرس ،
ان میں سے کسی کو سلیکٹ کرنا ہے مجھے مارچ کے لئے ۔
 
Top