آسمان ﴿منتخب نعتیہ کلام﴾ از : سعادت حسن آس

شاکرالقادری

لائبریرین
پیارے نبی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
انکی چاہ میں جی جی مرنا اچھا لگتا ہے
ٹھنڈی ٹھنڈی مہکی مہکی ہلکی ہلکی آہٹ سے
یادِ نبی کا دل میں اترنا اچھا لگتا ہے
جب ہستی کی چاہت کا ہے محور تیری ذات
پل پل تیرا ہی دم بھرنا اچھا لگتا ہے
میں بھی ثنا کے پھول سمیٹوں تم بھی درود پڑھو
پتھر دل سے پھوٹتا جھرنا اچھا لگتا ہے
تجھ سے میری من نگری کے روشن شام و سحر
تیرے نام کی آہیں بھرنااچھا لگتا ہے
غوث، قلندر اور ولی ہیں تیرے عشق کے روگی
سب کو تری توقیر پہ مرنا اچھا لگتا ہے
ماتھے پرامید کا جھومرمانگ میں آس کی افشاں
ایسا مجھ کو بننا سنورنا اچھا لگتا ہے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
میں غریب سے بھی غریب ہوں مرے پاس دستِ سوال ہے
اے قسیم راحتِ دو جہاں مری سانس سانس محال ہے
تو خدا ئے پاک کا راز داں تیرا ذکر زینتِ دو جہاں
تیرے وصف کیا میں کروں بیاں تیری بات بات کمال ہے
میں ہوں بے نوا تو ہے بادشہ میرا تاجِ سر تیری خاکِ پا
میں ہوں ایک بھٹکی ہوئی صدا تری ذات حسنِ مآل ہے
تو ہی فرش پر تو ہی عرش پر تیرا یہ بھی گھر تیرا وہ بھی گھر
جہاں ختم ہوتا ہے ہرسفر تیرا اس سے آگے جمال ہے
تیری ذات عالی شہ عرب کہاں میں کہاں یہ مری طلب
جو ملا، ملا وہ ترے سبب مرا اس میں کیسا کمال ہے
نہیںتیرے بعد کوئی نبی ہوئی ختم تجھ پر پیمبری
تیری ذاتِ حسن و جمال کی نہ نظیر ہے نہ مثال ہے
میں یہ کیوں کہوں کہ غریب ہوں شہ دوسرا کے قریب ہوں
میں تو آسؔ روشن نصیب ہوں غمِ مصطفےٰ مری ڈھال ہے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
سر جھکایا قلم نے جو قرطاس پر پھول اس کی زباں سے بکھرنے لگے
مدحتِ مصطفےٰ تیرا احسان ہے تجھ سے کیا کیا مقدر سنورنے لگے
یہ تو ان کی عنایات کی بات ہے ورنہ کیا ہوں میں کیا میری اوقات ہے
جس کا دنیا میں پرسان کوئی نہ تھااسکے دامن میں تارے اترنے لگے
یونہی مجھ پر کرم اپنا رکھناسدا اے مرے چارہ گراے شہ دوسرا
تیری چشمِ کرم جس طرف کو اٹھی اس طرف نور سینوں میں بھرنے لگے
قطب و ابدال غوث و ولی متقی سب کی محسن ہے نورِ تجلی تیری
روشنی تیرے کردار کی پاکے سب سینہ ٔ سنگ کو موم کرنے لگے
عشق سچا اگر ہو تو دیدار کی قید کوئی نہیں فاصلے کچھ نہیں
ہو گئی جن کے دل کو بصارت عطا لمحہ لمحہ وہ دیدار کرنے لگے
کچھ عجب وضع سے کررہے ہیں بسر تیرے عشاق سب اپنے شام و سحر
جیتا دیکھا کسی کو تو جینے لگے مرتادیکھا کسی کو تو مرنے لگے
اے خدا آسؔ کو وہ عطا نعت کر جو منور کرے سب کے قلب و نظر
بے سہاروں کو تسکین جو بخش دے غم کے ماروں کے جو زخم بھرنے لگے
 

شاکرالقادری

لائبریرین

لب کشائی کو اذنِ حضوری ملا چشمِ بے نور کو روشنی مل گئی
ہاتھ اٹھاوں میں اب کس دعا کے لیے انکی نسبت سے جب ہر خوشی مل گئی
ذوق میرا عبادت میں ڈھلنے لگا زاویہ گفتگو کا بدلنے لگا
ساعتیں میری پرکیف ہونے لگیں دھڑکنوں کو مری بندگی مل گئی
ناز اپنے مقدر پہ آنے لگا ہر کوئی ناز میرے اٹھانے لگا
دھل گیا آئینہ میرے کردار کا جب سے ہونٹوں کو نعتِ نبی مل گئی
ان کی چشمِ عنایت کا اعجاز ہے ورنہ کیا ہوں میں کیا میری پرواز ہے
خامیاں میری بنتی گئیں خوبیاں زندگی کو مری زندگی مل گئی
میری تقدیر بگڑی بنائی گئی بات جو بھی کہی کہلوائی گئی
میں نے تو صرف تھاما قلم ہاتھ میں جانے کیسے کڑی سے کڑی مل گئی
زندگی جب سے ان کی پناہوں میں ہے ایک تابندگی سی نگاہوں میں ہے
مجھ کو اقرار ہے اس کے قابل نہ تھاذاتِ وحدت سے جو روشنی مل گئی
مدحتِ مصطفےٰ ہے وہ نورِ مبیں جس کا ثانی دوعالم میں کوئی نہیں
آس اس کی شعاؤں کے ادراک سے راہ بھٹکوں کو بھی رہبری مل گئی
 

شاکرالقادری

لائبریرین

اپنی اوقات کہاں، ان کے سبب سے مانگوں
رب ملا ان سے تو کیوں ان کو نہ رب سے مانگوں
ان کی نسبت ہے بہت ان کا وسیلہ ہے بہت
کیوں میں کم ظرف بنوں بڑھ کے طلب سے مانگوں
جس ضیا سے صدا جگ مگ ر ہے دنیا من کی
اس کی ہلکی سی رمق ماہِ عرب سے مانگوں
آندھیاں جس کی حفاظت کو رہیں سرگرداں
پیار کا دیپ وہ بازارِ ادب سے مانگوں
کوئی اسلوب سلیقہ نہ قرینہ مجھ میں
سوچتا ہوں انھیں کسی طور سے، ڈھب سے مانگوں
کارواں نعت کا اے کاش رواں یوں ہی رہے
اور میں نِت نئے عنوان ادب سے مانگوں
آسؔ آباد رہے شہر مری الفت کا
ہر گھڑی اس کی خوشی دستِ طلب سے
 

شاکرالقادری

لائبریرین

جمال عکس محمدی سے فضائے عالم سجی ہوئی ہے
قرارِ جاں بن کے زندگی میں انہی کی خوشبو بسی ہوئی ہے
خدائے واحد کی بن کے برہاں حضور آئے ہیں اس جہاں میں
دکھوں سے جلتی ہوئی زمیں پھرہر ایک غم سے بری ہوئی ہے
نجانے کیسا کمال دیکھا نبیؐ کا جس نے جمال دیکھا
حواس گم سم نگاہ حیراں زباں کو چپ سی لگی ہوئی ہے
سمندروں کی تہوں سے لے کر مقام سدرہ کی رفعتوں تک
مرے نبی کے کرم کی چادر ہر اک جہاں پر تنی ہوئی ہے
تمام چاہت کے روگیوں کا عجیب ہم نے کمال دیکھا
جدا جدا صورتیں ہیں لیکن دلوں کی دھڑکن جڑی ہوئی ہے
وہی حقیقت میں زندگی ہے وہی حقیقت میں بندگی ہے
جو میرے سرکار کی محبت کے راستوں پر پڑی ہوئی ہے
انگشتری میں نگینہ جیسے زمیں کے دل پر مدینہ جیسے
حضورؐ اس طرح آسؔ تیری، مری نظر میں جڑی ہوئی ہے
 

شاکرالقادری

لائبریرین

رنگ لائی مرے دل کی ہر اک صدا لوٹنے زندگی کے خزینے چلا
میرے رب نے کیا مجھ کومنصب عطا میں مدینے چلا میں مدینے چلا
میری مدت کی یہ آس پوری ہوئی رشک کرنے لگا مجھ پہ ہر آدمی
ہونے والی ہے اب زندگی، زندگی سیکھنے زندگی کے قرینے چلا
میرے گھر ملنے والوں کی یلغار ہے آج سب کو مری ذات سے پیار ہے
آرزؤں کے غنچوں کی مہکار ہے کس مقدس مبارک مہینے چلا
ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ میرے لیے جا کے روضے پہ رکھنا دعا کے دیے
اور یہ کہنا کہ چشم کرم اک ادھر ہر کوئی جام کوثر کے پینے چلا
سوچتا ہوں سفر کا ارادہ تو ہے شوق جانے کا بھی کچھ زیادہ تو ہے
عشق کا معصیت پہ لبادہ تو ہے پر میں کیا ساتھ لیکر خزینے چلا
میں نے پورے کیے کیا حقوق ا لعباد اور مٹائے ہیں کیا جگ سے فتنے فساد
کیا مسلماں میں پیدا کیا اتحاد کون سا مان لے کر مدینے چلا
آسؔ کیا منہ دکھاؤں گا سرکار کو اپنے ہمدرد کو اپنے غم خوار کو
کیوں گراؤں میں فرقت کی دیوار کو کس لیے ہجر کے زخم سینے چلا
 

شاکرالقادری

لائبریرین
مرے دل میں یونہی تڑپ رہے مری آنکھ میں یونہی نم رہے
مری ہر نگارشِ شوق پر اے کریم تیرا کرم رہے
میں لکھوں جو نعت حضورؐ کی دلِ مضطرب کے سرور کی
کبھی چشم ناز بلند ہو کبھی سر نیاز سے خم رہے
مری سانس سانس مہک اٹھے مجھے روشنی سی دکھائی دے
میرا حرف حرف دعا بنے مری آہ آہ قلم رہے
یہ یقین ہے جو میں مر گیا تو کہیں گے سب یہ ملائکہ
یہ ہے شاعرِ شاہِ دوسرا ذرا اس کا پاس، بھرم رہے
یہ دعا ہے آسؔ حضورؐ کا کبھی دل سے پیار نہ ہو جدا
مری زندگی کی جبین پر سدا ان کا نام رقم رہے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
آپؐ سے حسن کائنات آپ کہاں کہاں نہیں
آپ کا ذکر نہ ہو جہاں ایسا کوئی جہاں نہیں
ایک جاں سرور آگ سلگی ہے میری ذات میں
ہے یہ عجیب ماجرا راکھ نہیں دھواں نہیں
جن فیصلوں پہ آپ کی مہر ثبت ہوگئی
اس کے بعد با خدا کوئی بھی این و آں نہیں
اوصافِ پاک آپ کے جس سے تمام ہوں بیاں
ایسا کوئی قلم نہیں ایسی کوئی زباں نہیں
واعظ کی بات بھی پرکھ اپنے بھی من کی بات سن
جس سر سے اٹھ گئے وہ ہاتھ اس کی کہیں اماں نہیں
حضرت بلالؓ دے گئے آس یہ ہم کو فلسفہ
جس کے بنا بھی ہوسحر، ایسی اذاں، اذاں نہیں
 

شاکرالقادری

لائبریرین

ہے یہ دربارِ نبی خاموش رہ
چپ کو بھی ہے چپ لگی خاموش رہ
بولنا حدِ ادب میں جرم ہے
خامشی سب سے بھلی خاموش رہ
ان کے در کی مانگ رب سے چاکری
تجھ کو جنت کی پڑ ی خاموش رہ
ہے ذریعہ بہترین اظہار کا
اک زبانِ خامشی خاموش رہ
دل سے ان کو یاد کر کے دیکھ تو
پاس ہیں وہ ہر گھڑی خاموش رہ
بھیگی پلکیں کر نہ دیں رسوا تجھے
ضبط کر دیوانگی خاموش رہ
جیسے کی ہے میرے آقا نے بسر
ویسے تو کر زندگی خاموش رہ
جس نے بھی دیکھا ہے جلوہ آپ کا
اس کو ہی چپ لگ گئی خاموش رہ
نعت لکھواتی ہے کوئی اور ہی ذات
ورنہ جرأت آسؔ کی خاموش رہ
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ہر طرف لب پہ صل علیٰ ہے ہر طرف روشنی روشنی ہے
جشنِ میلاد ہے مصطفےٰ کا کیا معطر معطر گھڑی ہے
آج سن لی ہے سب کی خدا نے کھل گئے رحمتوں کے خزانے
جتنا دامن میں آئے سمیٹو ہر طرف رحمتوں کی جھڑی ہے
چھٹ گئیں ظلمتوں کی گھٹائیں کیسے دن آج کا بھول جائیں
عید میلاد آؤ منائیں کون سی عید اس سے بڑی ہے
ہم سے کہتا ہے خود ربِ اکبر میں ثناخوان ہوں مصطفےٰ کا
تم بھی بھیجو درود ان پہ ہر دم ان کی مدحت مری بندگی ہے
اک خدا اک رسول ایک قرآں ایک کیوں کرنہیںپھر مسلماں
چھوڑ دو فرقہ بندی خدارا اس نے جاں کتنے بندوں کی لی ہے
ہر مسلمان ماتم کناں ہے گنگ انسانیت کی زباں ہے
آپ محسن ہیں انسانیت کے آپ کے درسے ہی لو لگی ہے
اپنے در پر ہی رکھنا خدارا غیر کا در نہیں ہے گوارا
آسؔ مانا کہ عاصی بہت ہے پر حضور آپ کا امتی ہے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ذکرِ نبیؐ اسرارِ محبت صلی اللہ علیہ وسلم
حق کا پیمبر ختم رسالت صلی اللہ علیہ و سلم
صبح ازل کی جان بھی ہے و ہ شام ابد کی شان بھی ہے وہ
اس کی ثنا گو ہر اک ساعت صلی اللہ علیہ وسلم
ذکر نبی میں دل کی طرب ہے دل کی طرب خوشنودی رب ہے
رب کی رضا سرکار کی مدحت صلی اللہ علیہ وسلم
کس کے تصدق چمکا ستاراچاند زمیں پر رب نے اتارا
ہم آزاد ہیں کس کی بدولت صلی اللہ علیہ وسلم
وحدت کی پہچان اسی میںبخشش کا سامان اسی میں
کرتے رہویہ ذکر سعادت صلی اللہ علیہ وسلم
پاکستان کا پیارا خطہ آپ کی ہے نعلین کا صدقہ
آپ کے صدقے پائی یہ جنت صلی اللہ علیہ وسلم
قرآں ہو دستور ہمارا چمکے آسؔ نصیب کا تارا
رہبر ہو جب آپ کی سیرت صلی اللہ علیہ و سلم
 

شاکرالقادری

لائبریرین
میں مریضِ عشقِ رسول ہوں مجھے اور کوئی دوا نہ دو
یہی نام میرا علاج ہے یہی نام لیتے رہا کرو
مرے ہم سخن مرے ساتھیو مرے مونسومرے وارثو
تمہیں مجھ سے اتنا ہی پیار ہے مرے ساتھ صلِ علیٰ پڑھو
کوئی چھیڑو قصے حضور کے گریں بت زمیں پہ غرور کے
کھلیں باب عقل و شعور کے دل مضطرب کو قرار ہو
مری زندگی بھی ہو زندگی مری شاعری بھی ہو شاعری
کھلے دل کے شہر میں چاندنی درِ مصطفےٰ پہ چلیں چلو
مری چشمِ ناز کا نور وہ مری نبضِ جاں کا سرور وہ
نہیں پل بھی مجھ سے ہیںدور و ہ مری دھڑکنوں کی صدا سنو
وہ خدا کا عکسِ جمال ہیں وہی رشکِ او ج کمال ہیں
وہ توآپ اپنی مثال ہیں کوئی تم نہ ان کی مثال دو
جسیان کی ایک جھلک ملی وہ ہر ایک غم سے ہوا بری
اسے آس اس طرح چپ لگی کہ نہ جیسے منہ میں زبان ہو
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ہر اک لب پہ نعت نبی کے ترانے ہر اک لب پہ صلِ علیٰ کی صدا ہے
ہمارے نبی جس میں تشریف لائے وہ رحمت کا پر نور دن آگیا ہے
درودوں کے تحفے سلاموں کے ہدیے دعاؤں کے منظر عقیدت کے نعرے
مقدس مقدس ہراک سمت جلوئے معطر معطر ہر اک سو فضا ہے
عطاؤں کی بارش دعا کی گھڑی ہے ہر اک شخص کی آپ سے لو لگی ہے
ہر اک آنکھ میں آنسوؤں کے سمندر ہر اک دل میں تعظیم کا در کھلا ہے
خدا کی خدائی کے مختار ہیں وہ تمام انبیاء کے بھی سردار ہیں وہ
خدا کی خدائی طلبگار ان کی مقام ان کو رب نے عطا وہ کیا ہے
اٹھے گی وہ چشمِ کرم غم کے مارو انہیں دل کی گہرائیوں سے پکارو
نچھاور کرو پھول ان پہ ثنا کے اسی میں ہی آسؔ اپنے رب کی رضا ہے
 

شاکرالقادری

لائبریرین

تری یاد کا سدا گلستاں مری نبضِ جاں میںکھلا رہے
مری سانس جس سے مہک اٹھے وہ قرار دل میں بسارہے
میں پڑا رہوں تری راہ میں تری چاہتوں کی پناہ میں
مجھے ٹھوکروں کی نہ فکر ہو مرا زخم زخم ہرا رہے
مری زندگی کا ہر ایک پل ترے پیار سے بنے باعمل
تری چاہتوں پہ جیوں مروں ترے غم کی دل میں جلا رہے
رہے تیری یاد سے واسطہ کوئی اور نہ ہو مرا راستہ
مرے شعرمیری بقا بنیں مرا رنگ سب سے جدا رہے
یہی آسؔ ہے یہی آرزو تیری ہر گھڑی کروں گفتگو
مری آنکھ ہو سدا با وضو یونہی مجھ پہ فضلِ خدا رہے
 

شاکرالقادری

لائبریرین

نور سے اپنے ہی اک نور سجایا رب نے
پھر اسی نور کو محبوب بنایا رب نے
ان کی ہر بات میں رکھ رکھ کے محبت کی مٹھاس
پیکرِ خُلق کا دیدار کرایا رب نے
انبیا جب تیرے دیدار کو بے تاب ہوئے
پھر امامت کو سرِ عرش بلایا رب نے
پیکر حسن میں سب خوبیاں اپنی بھر کر
تجھ کو قرآن کی صورت میں بنایا رب نے
تیری سیرت کی زمانے سے گواہی لینے
دیکھنے والی نگاہوں کو دکھایا رب نے
اپنی قدرت کو دو عالم پہ اجاگر کرنے
ناز تخلیق کو پھر پاس بلایا رب نے
اور بھی بیش بہا نعمتیں دی ہیں لیکن
دے کے محبوب یہ احسان جتایا رب نے
شکر اس ذات کا جتنا بھی کروں کم ہے آسؔ
مجھ کو بھی نعت کا انداز سکھایا رب نے
 

شاکرالقادری

لائبریرین

بڑھتی ہی جارہی ہے آنکھوں کی بے قراری
یارب دکھادے پھر سے صورت نبی کی پیاری
پھر دل کی انجمن میں بجھنے لگی ہیں شمعیں
پھر ہجر کی تڑپ میں گزرے گی رات ساری
جس میں کھلیں تمہاری الفت کے پھول آقا
اس دن کے میں تصدق اس رات کے میں واری
ان راستوں کے ذرے بنتے گئے ستارے
جن راستوں سے گزری سرکار کی سواری
ہم کو بھی اس نظر میں رہنے کی آرزو ہے
جس کی ضیاء سے جگمگ ہے کائنات ساری
مہکار بٹ رہی ہے جس میں محبتوں کی
وہ ہے نگر تمہارا وہ ہے گلی تمہاری
جینے کی آسؔ دل میں کچھ اور بڑھ گئی ہے
جب سے ہوئی ہیں نعتیں میرے لبوں پہ جاری
 

شاکرالقادری

لائبریرین

بڑھتی ہی جارہی ہے آنکھوں کی بے قراری
یارب دکھادے پھر سے صورت نبی کی پیاری
پھر دل کی انجمن میں بجھنے لگی ہیں شمعیں
پھر ہجر کی تڑپ میں گزرے گی رات ساری
جس میں کھلیں تمہاری الفت کے پھول آقا
اس دن کے میں تصدق اس رات کے میں واری
ان راستوں کے ذرے بنتے گئے ستارے
جن راستوں سے گزری سرکار کی سواری
ہم کو بھی اس نظر میں رہنے کی آرزو ہے
جس کی ضیاء سے جگمگ ہے کائنات ساری
مہکار بٹ رہی ہے جس میں محبتوں کی
وہ ہے نگر تمہارا وہ ہے گلی تمہاری
جینے کی آسؔ دل میں کچھ اور بڑھ گئی ہے
جب سے ہوئی ہیں نعتیں میرے لبوں پہ جاری
 

شاکرالقادری

لائبریرین
دیکھنے والی ہے اس وقت قلم کی صورت
چومتا جاتا ہے کاغذ کو حرم کی صورت
اس پہ تحریر ہوئی جاتی ہے آقا کی ثناء
بن رہی ہے مرے عصیاں پہ کرم کی صورت
آپ کا پیار سنبھالا جو نہ دیتا مجھ کو
اور ہی ہوتی مرے رنج و الم کی صورت
شہر تو شہر ہے شیدائی مرے آقا کے
’’دشت میں جائیں تو ہو دشت ارم کی صورت‘‘
مدح سرکار میں آنکھوں کا وضو لازم ہے
خود بخود بنتی ہے پھر نعت رقم کی صورت
ہر کوئی اپنی نگاہوں پہ بٹھاتا ہے مجھے
اور کیا ہوتی ہے الطاف و کرم کی صورت
آس سرکار کا دامان شفاعت ہو نصیب
تب ہی محشر میں بنے میرے بھرم کی صورت
 

شاکرالقادری

لائبریرین
وہ جدا ہے راز و نیاز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں
وہ الگ ہے ذات نماز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں
یہ کہا زمیں سے حسیں کوئی مرے مصطفےٰ سے بھی بڑھ کے ہے
تو کہا یہ عجز و نیاز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں
یہ کہا فلک سے کہ اور کوئی تیری رفعتوں سے ہے آشنا
تو کہا یہ اس نے بھی راز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں
یہ کہا زمیں سے کہ معتبر درِ مصطفےٰ سی کوئی جگہ
تو کہا یہ اس نے بھی ناز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں
یہ کہا فلک سے کہ رفعتیں کسی اور نبی کو بھی یوں ملیں
تو کہا یہ صیغۂ راز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں
یہ کہا زمیں سے صعوبتیں کسی اور کی آل کو یو ںملیں
تو کہا یہ سوز و گداز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں
یہ کہا فلک سے کہ کہکشاں کسی اور کی گردِ سفر بھی ہے
تو کہا یہ آس کو ناز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں
 
Top