آستادِ گرامی، ایک نئی کاوش، آپ کی راہنمائی کی منتظر ہے

پھول تو ہیں مہک ہی باقی نہیں
پرندے ہیں چہک ہی باقی نہیں

درد میں جاں جو چھڑکتے تھے
جان تو ہے چھڑک ہی باقی نہیں

حسن کو اور بھی عیاں کرتے
شوخ چہرے، چمک ہی باقی نہیں

جھنجھنا دیتی تھی کبھی چھن چھن
چوڑیوں میں کھنک ہی باقی نہیں

کر رھا تھا حسابِ لہن کے بس
آوازیں ہیں لہن ہی باقی نہیں

عمر کے اب قدم جو ہیں اظہر
نیم جاں ہیں دھمک ہی باقی نہیں

آستادِ محترم،
ھاتھ پاؤں مار رہا ہوں کے پہلی کوشش کامیاب ہو
پر کند زہنی آڑے آتی ہے
معزرت
والسلام
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
کچھ خیالات اچھے ہیں، اور اکثر مصرعے بھی۔ اب ایک ایک کر کے
پھول تو ہیں مہک ہی باقی نہیں
پرندے ہیں چہک ہی باقی نہیں

/// پہلا مصرع بحر میں ہے، دوسرا مصرع نہیں، تقطیع کرنے کی کوشش کرو تو ’پرندے‘ در اصل ’پَر۔ نِدے‘ ہو جاتا ہے جو غلط تلفظ ہے۔ اس کو یوں کر سکتے ہیں
ہیں تو پنچھی، ہمک ہی باقی نہیں

درد میں جاں جو چھڑکتے تھے
جان تو ہے چھڑک ہی باقی نہیں

///پہلا مصرع ’جاں‘ کی وجہ سے گڑبڑ کر رہا ہے، جب کہ ’جان‘ مکمل بحر میں آتا ہے، ممکن ہے کمپوزنگ کی غلطی ہو۔ لیکن دوسرے مصرع میں چھڑک؟ یہ لفظ اسم کب سے ہو گیا؟

حسن کو اور بھی عیاں کرتے
شوخ چہرے، چمک ہی باقی نہیں

/// درست ہے یعنی وزن میں۔

جھنجھنا دیتی تھی کبھی چھن چھن
چوڑیوں میں کھنک ہی باقی نہیں

///یہ بھی درست۔۔

کر رھا تھا حسابِ لہن کے بس
آوازیں ہیں لہن ہی باقی نہیں

///لحن؟ لیکن یہن قافیہ نہیں آتا بحر میں، اس لئے کہ اس کا تلفظ لحن میں ’ح‘ ساکن ہے، بر وزن فعل، تم نے فِ عِ ل باندھا ہے جو غلط ہے۔ پہلے مصرع میں درست تلفظ ہے، لیکن اس کا حساب۔۔ چہ معنی دارد؟ اس کو پھر کہو۔

عمر کے اب قدم جو ہیں اظہر
نیم جاں ہیں دھمک ہی باقی نہیں

///وزن میں تو درست ہے لیکن مطلب واضح نہیں۔

مجموعی طور پر اچھی کاوش ہے، موزونیت کی طرف سفر جاری ہے ماشاء اللہ۔
 
پھول تو ہیں مہک ہی باقی نہیں
ہیں تو پنچھی، چہک ہی باقی نہیں

درد میں جان جو چھڑکتے تھے
اُن کی اب تو، جھلک ہی باقی نہیں

میری تکلیف پر بلکتے تھے
ویسی اب تو کسک ہی باقی نہیں

حسن کو اور بھی عیاں کرتے
شوخ چہرے، چمک ہی باقی نہیں

جھنجھنا دیتی تھی کبھی چھن چھن
چوڑیوں میں کھنک ہی باقی نہیں

اُن کی بستی کو جاتی کوئی ڈگر
کوئی رستہ، سڑک ہی باقی نہیں

زندگی کا ہی زائقہ اظہر
زہر سا ہے ، نمک ہی باقی نہیں



اُستادِ محترم،
سیروں خون بڑھا دیا آج آپ نے، یہ سب اللہ کا کرم اور آپ اساتزہ کی توجہ کا نتیجہ ہے۔
اب دیکھیے تو صحیح ہوا کہ نہیں؟
والسلام
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
درد میں جان جو چھڑکتے تھے
اُن کی اب تو، جھلک ہی باقی نہیں
یہ بھی اب بھی درست نہیں ہوا مفہوم کے اعتبار سے

اُن کی بستی کو جاتی کوئی ڈگر
کوئی رستہ، سڑک ہی باقی نہیں
درست، وزن میں بھی اور مفہوم میں بھی۔

زندگی کا ہی زائقہ اظہر
زہر سا ہے ، نمک ہی باقی نہیں
(املا کی تصحیح، درست ذائقہ(
یہاں نمک سے کیا مراد ہے، یہ شعر بھی اب بھی قابل قبول نہیں لگ رہا۔
 
پھول تو ہیں، مہک ہی باقی نہیں
ہیں تو پنچھی، چہک ہی باقی نہیں

آنکھ کے سامنے جو رہتے تھے
اُن کی اب تو، جھلک ہی باقی نہیں

میری تکلیف پر بلکتے تھے
ویسی اب تو کسک ہی باقی نہیں

اُن کی بستی کو جاتی کوئی ڈگر
کوئی رستہ، سڑک ہی باقی نہیں

حسن کو اور بھی عیاں کرتے
شوخ چہرے، چمک ہی باقی نہیں

جھنجھنا دیتی تھی کبھی چھن چھن
چوڑیوں میں کھنک ہی باقی نہیں

چھت تو پہلے ہی چھن چکی ااظہر
اب تو دھرتی، فلک ہی باقی نہیں



آستادِ گرامی ،
کیا اب قابلِ قبول ہوئے
والسلام
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
اب کافی بہتر ہے اظہر۔ لیکن ایک بات، کئی جگہ مفہوم کے اعتبار سے ردیف ’ہی باقی نہیں‘ کی بجائے ’بھی باقی نہیں‘ کا محل ہے۔
 
Top