آزاد نظم (سنو اک بات کہنی ہے)

فاخر

محفلین
اك بات كہنی ہے
فاخر
(احمد فاخرؔ)

1626419073070.png


سنو! تم سے مجھے اک بات کہنی ہے
تمہارا اس قدر بے زار سا رہنا
خفا،برہم ،تغافل کیش کی عادت
مجھے ادراک ہے اس کا
یہ ’’عنوانِ محبت ‘‘ ہے
تمہارا ہر ستم مجھ کو عزیز از جان ہے ؛لیکن
تمہاری خامشی مجھ سے قیامت سی گزرتی ہے
تبسم، قہقہے، شادابیِ رخسار و لب ،مزگاں
کی رعنائی
مرے شعر و سخن کے واسطے ’’اکسیر اعظم‘‘ ہیں
تقاضائے محبت تو یہی ہے ،تم
تبسم سے ، تکلم سے ، وجودِ حسن طینت سے
مرے فکر و تخیل کو کیا کرتے رہو معمور
چلو ضد چھوڑ کر اپنی
ترستی منتظر نظروں کو تم یکلخت
تجلی سے عطا معراج کردو !!!
٭٭٭
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
خفا،برہم ،تغافل کیش کی عادت
مجھے مکمل مصرع ہی چوں چوں کا مربہ لگ رہا ہے
خفا برہم تو ایک ہی بات یے
اسے دو مصرعوں میں کہنے کی کوشش کرو، جیسے
خفا ہونا ذرا سی بات پر
تغافل کی یہ عادت بھی

باقی نقل کر کے ہی کہہ دوں

تمہاری خامشی مجھ سے قیامت سی گزرتی ہے
... مجھ پر، محاورہ ہے

تبسم، قہقہے، شادابیِ رخسار و لب ،مزگاں
کی رعنائی
مرے شعر و سخن کے واسطے ’’اکسیر اعظم‘‘ ہے
... اتنی بہت سی چیزیں 'ہے'؟
یہ سب، یا ہر ایک استعمال کیا جائے اور ہے یا ہیں اسی مناسبت سے استعمال کرو

تقاضائے محبت تو یہی ہے ،تم
تبسم سے ، تکلم سے ، وجودِ حسن طینت سے
... وجودِ؟ بھرتی کا ہے

مرے فکر و تخیل کو کیا کرتے رہو معمور
.. معمور سے بہتر شاید 'انگیز' یو

چلو ضد چھوڑ کر اپنی
ترستی منتظر نظروں کو تم یکلخت
تجلی سے عطا معراج کردو !!!
یہ آخری دونوں مصرعے پھر کہو، کس تجلی سے؟ یک لخت ہی. کیوں؟ معراج. نظروں کی کیسی ہوتی ہے؟
 
Top