'ایک دن قبل میرے والد نے کہا کہ ہم عیدالاضحیٰ اپنے گھر پر بنائیں گے، لیکن انہوں نے میرے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ وہ 'انقلاب' کب آئے گا، جس کا ہمارے قائد ڈاکٹر طاہر القادری نے ہم سے وعدہ کیا تھا'۔
میانوالی سے اسلام آباد آنے والی 22 سالہ ہما نعیم نے شاہراہ دستور پر قائم اپنے خیمے میں ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ چھیالیس دن سے اپنی پوری فیملی کے ہمراہ پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے دھرنے میں موجود ہے۔
ہما نے بتایا کہ اگرچہ وہ لوگ ڈیڑھ ماہ سے سڑکوں پر موجود ہیں لیکن قائد علامہ طاہر القادری کی جانب سے دکھائے گئے 'انقلاب' کے خواب کی حقیقی جھلک ابھی تک نظر نہیں آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں دھرنے میں شرکت کرنے کے حق میں نہیں تھی، لیکن میرے والد نے کہا کہ ہمیں وہاں جانا ہے کیوںکہ یہ ڈاکٹر طاہر القادری کی ہدایت تھی کہ کارکن ملک میں 'انقلاب' لانے کےلیے اسلام آباد پہنچیں'۔
ہما نے بتایا کہ عوامی تحریک کی قیادت اب اپنے حامیوں اور شرکاء کو یہ کہہ کر تسلی دے رہی ہے کہ ہم عوام میں ان کے بنیادی حقوق کے حوالے سے آگہی بیدار کر کے 'انقلاب' لانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
ہما نے سوال کیا کہ 'میں سرگودھا یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز کر رہی ہوں، جب میں واپس جاؤں گی تو میں اپنے ساتھیوں کو کیا بتاؤں گی کہ ہمیں دھرنا دے کر کیا حاصل ہوا'۔
شیخوپورہ کے رہائشی 38 سالہ نذیر چوہان لاہور میں ایک ٹیکسٹائل مل میں سپروائزر تھے لیکن دھرنے میں شرکت کرنے کے لیے انہیں اپنی ملازمت چھوڑنی پڑی، کیوںکہ انہیں فیکٹری سے چھٹیاں نہیں ملی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے دھرنے میں شرکت کے لیے اپنی ملازمت کی قربانی دی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ تمام شرکاء کی قربانیاں رائیگاں جائیں گی، کیونکہ ہماری قیادت شرکاء کو اس بات کے لیے تیار کر رہی ہے کہ وہ عید سے قبل دھرنا ختم کرکے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں'۔
سیالکوٹ کی 48 سالہ حلیمہ بی بی واپسی کے خیال سے بہت خوش ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ایک ایسے ماحول میں رہنا جہاں صفائی ستھرائی کا فقدان ہو، بہت مشکل ہے۔ میرے تین بچے پہلے ہی دھرنا چھوڑ کر گھر جا چکے ہیں کیوںکہ ان کے اسکول اور دفاتر سے انہیں زیادہ چھٹیاں نہیں مل رہی تھیں'۔
حلیمہ نے بتایا کہ ان کے شوہر عوامی تحریک کے حامی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمیں یہاں آنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ' سیالکوٹ میں آنے والے سیلاب سے وہ بہت پریشان تھیں، لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہمارا گھر محفوظ ہے، ہاں لیکن ہماری فصل تباہ ہو گئی ہے'۔
حلیمہ نے ڈان کو بتایا کہ' جب انہیں یہ پتہ چلا کہ وہ لوگ عید گھر پر منائیں گے تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اب میں سیالکوٹ جا کر اپنے اور بچوں کے لیے عید کی خریداری کروں گی'۔
لیّہ کے رہائشی 44 سالہ صغیر اختر نے بتایا کہ انہیں یقین تھا کہ پاکستان عوامی تحریک کی قیادت 'انقلاب' لانے میں کامیاب ہو جائے گی، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ کام مشکل ہو گیا ہے۔
صغیر نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ اگر پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کی قیادت اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی تو آئندہ کوئی بھی ان پر اعتماد نہیں کرے گا۔
انہوں نے سوال کیا کہ 'آخر ہمارے قائدین مذہب کا نام لے کر اپنے حامیوں کو کیوں بلیک میل کرتے ہیں؟ اور مجھے نہیں معلوم کہ اپنے دوستوں، رشتے داروں اور پڑوسیوں کو میں کیا بتاؤں گا کہ میں نے اس دھرنے سے کیا حاصل کیا'۔
رابطہ کرنے پر عوامی تحریک کے ترجمان عمر ریاض عباسی نے ڈان کو بتایا کہ پارٹی قیادت نے عید کے موقع پر شرکاء کو گھر جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم عوام میں ان کے بنیادی حقوق کے حوالے سے آگہی پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور ان دھرنوں کے نتیجے میں آئندہ انتخابات کے نتائج بہت مختلف ہوں گے'۔
۔۔۔
ربط