آزادی مارچ اپڈیٹس

زرقا مفتی

محفلین
10671205_986660391347797_3499936699719675211_n.jpg


شادی کے کارڈ پر بھی
 

سید زبیر

محفلین
جلوں کے حاضرین سے اندازہ ہوتا ہے کہ دراصل یہ اکیسویں صدی کی خودساختہ سول سوسائٹی یا خود کوعوام سے جدا اشرافیہ اور عوام کو ۔۔۔۔۔۔۔کہلانے والے دو طبقوں کی جنگ ہے جن میں سے ایک مراعات یافتہ اور دوسرا غیر مراعات یافتہ ۔ دونوں طبقے استحصالی ہیں ۔ غریب ، مجبور ، بے کسوں کا لہو چوسنے والے دونوں گروہوں میں سرخیل کے طور پر نظر آئیں گے ۔ اس ملک کو احمدی نژاد یا کسی بھی غیر مسلم حکمرانوں جیسا انصاف پسند حکمران چاہئیے جو خود کو ایک انسان سمجھے یہاں تو ہر سیاستدان ، دولتمند خواہ نیا ہو یا پرانا خود کو ایک دیومالائی کردار بنا کر پیش کرتا ہے اور غریب عوام اپنے خوابوں میں اسے دیوتا بنا لیتی ہے اس کی ہر غلط بات ، اس کے قول و فعل کے تضاد نہ صرف اسے نظر نہیں آتے بلکہ وہ اسے اس کے لئے جائز قرار دے دیتی ہے کیونکہ وہ اسے اپنا دیوتا سمجھتی ہے ۔ شائد یہ صدیوں کی جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ غلامی کا نتیجہ ہے حریت افکار اور حرمت گفتار سے عاری انہی دیومالائی کردار وں نے نہ صرف ملک کو دو لخت کیا بلکہ باقی ماندہ کو بھی تباہی اور مفلسی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
جلوں کے حاضرین سے اندازہ ہوتا ہے کہ دراصل یہ اکیسویں صدی کی خودساختہ سول سوسائٹی یا خود کوعوام سے جدا اشرافیہ اور عوام کو ۔۔۔۔۔۔۔کہلانے والے دو طبقوں کی جنگ ہے جن میں سے ایک مراعات یافتہ اور دوسرا غیر مراعات یافتہ ۔ دونوں طبقے استحصالی ہیں ۔ غریب ، مجبور ، بے کسوں کا لہو چوسنے والے دونوں گروہوں میں سرخیل کے طور پر نظر آئیں گے ۔ اس ملک کو احمدی نژاد یا کسی بھی غیر مسلم حکمرانوں جیسا انصاف پسند حکمران چاہئیے جو خود کو ایک انسان سمجھے یہاں تو ہر سیاستدان ، دولتمند خواہ نیا ہو یا پرانا خود کو ایک دیومالائی کردار بنا کر پیش کرتا ہے اور غریب عوام اپنے خوابوں میں اسے دیوتا بنا لیتی ہے اس کی ہر غلط بات ، اس کے قول و فعل کے تضاد نہ صرف اسے نظر نہیں آتے بلکہ وہ اسے اس کے لئے جائز قرار دے دیتی ہے کیونکہ وہ اسے اپنا دیوتا سمجھتی ہے ۔ شائد یہ صدیوں کی جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ غلامی کا نتیجہ ہے حریت افکار اور حرمت گفتار سے عاری انہی دیومالائی کردار وں نے نہ صرف ملک کو دو لخت کیا بلکہ باقی ماندہ کو بھی تباہی اور مفلسی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ۔
محترم سید زبیر صاحب آپ جہاندیدہ آدمی ہیں کیا آپ بھی صرف تنقید کا حصہ ہی بن کر رہنا پسند کرتے ہیں یا کوئی قابلِ عمل تجویز بھی دیں گے کہ ان حالات میں لاچار اور بے بس لوگ کسے اپنا مسیحا مانیں اور کس سے منصفی چاہیں کیا کریں صرف چپ کی چادر تان کر ظلم کا ہر نظام برداشت کرتے رہے یا ہر ظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں آج اگر موجودہ حکمران ظالم ہیں تو کل کو کوئی اور ظالم بھی اگر آ کر قابض ہو جائے تو پھر کیا یہ حکمت عملی ہونی چاہیے کہ پہلے موجودہ ظالموں کو ظلم کرنے دینا چاہیے اور پھر اگلے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے یا پھر یہ کہ پہلے موجودہ ظالموں کے احتساب کے لیے جہد کرنی چاہے اور تاکہ آئندہ آنے والے بھی سبق سیکھ سکیں اور جھوٹی چودھراہٹ کے چکر میں عوام الناس کو ظلم کی چکی میں پیسنے سے اجتناب کریں ؟

شکوۂ ظُلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے!
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
محترم سید زبیر صاحب آپ جہاندیدہ آدمی ہیں کیا آپ بھی صرف تنقید کا حصہ ہی بن کر رہنا پسند کرتے ہیں یا کوئی قابلِ عمل تجویز بھی دیں گے کہ ان حالات میں لاچار اور بے بس لوگ کسے اپنا مسیحا مانیں اور کس سے منصفی چاہیں کیا کریں
مسیحا تو نہ کوئی ہے نہ ہو گا
 

زرقا مفتی

محفلین
لاہور: حکمران جماعت (ن) لیگ کے صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین کو سینٹرل ماڈل سکول کا دورہ اُس وقت مہنگا پڑ گیا جب صوبائی وزیر کے آتے ہی طالب علموں نے 'گو نواز گو' کے نعرے لگا دیے۔
صوبائی وزیرخوراک بلال یاسین نے سنٹرل ماڈل سکول میں انسداد ڈینگی سے متعلق تقریب میں شرکت کی۔

جیسے ہی تقریب کا آغاز ہوا تو بچوں نے 'گو نواز گو' کے نعرے لگانا شروع کردیے اور موقف اختیار کیا کہ وہ دو گھنٹوں سے انتہائی گرمی میں بجلی کے بغیر مہمانوں انتظار کررہے تھے اور تاخیر سے آنے کی وجہ سے نعرے بازی کی۔

http://urdu.dawn.com/news/1010280/
 
'ایک دن قبل میرے والد نے کہا کہ ہم عیدالاضحیٰ اپنے گھر پر بنائیں گے، لیکن انہوں نے میرے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ وہ 'انقلاب' کب آئے گا، جس کا ہمارے قائد ڈاکٹر طاہر القادری نے ہم سے وعدہ کیا تھا'۔

میانوالی سے اسلام آباد آنے والی 22 سالہ ہما نعیم نے شاہراہ دستور پر قائم اپنے خیمے میں ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ چھیالیس دن سے اپنی پوری فیملی کے ہمراہ پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے دھرنے میں موجود ہے۔

ہما نے بتایا کہ اگرچہ وہ لوگ ڈیڑھ ماہ سے سڑکوں پر موجود ہیں لیکن قائد علامہ طاہر القادری کی جانب سے دکھائے گئے 'انقلاب' کے خواب کی حقیقی جھلک ابھی تک نظر نہیں آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں دھرنے میں شرکت کرنے کے حق میں نہیں تھی، لیکن میرے والد نے کہا کہ ہمیں وہاں جانا ہے کیوںکہ یہ ڈاکٹر طاہر القادری کی ہدایت تھی کہ کارکن ملک میں 'انقلاب' لانے کےلیے اسلام آباد پہنچیں'۔

ہما نے بتایا کہ عوامی تحریک کی قیادت اب اپنے حامیوں اور شرکاء کو یہ کہہ کر تسلی دے رہی ہے کہ ہم عوام میں ان کے بنیادی حقوق کے حوالے سے آگہی بیدار کر کے 'انقلاب' لانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

ہما نے سوال کیا کہ 'میں سرگودھا یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز کر رہی ہوں، جب میں واپس جاؤں گی تو میں اپنے ساتھیوں کو کیا بتاؤں گی کہ ہمیں دھرنا دے کر کیا حاصل ہوا'۔

شیخوپورہ کے رہائشی 38 سالہ نذیر چوہان لاہور میں ایک ٹیکسٹائل مل میں سپروائزر تھے لیکن دھرنے میں شرکت کرنے کے لیے انہیں اپنی ملازمت چھوڑنی پڑی، کیوںکہ انہیں فیکٹری سے چھٹیاں نہیں ملی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے دھرنے میں شرکت کے لیے اپنی ملازمت کی قربانی دی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ تمام شرکاء کی قربانیاں رائیگاں جائیں گی، کیونکہ ہماری قیادت شرکاء کو اس بات کے لیے تیار کر رہی ہے کہ وہ عید سے قبل دھرنا ختم کرکے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں'۔

سیالکوٹ کی 48 سالہ حلیمہ بی بی واپسی کے خیال سے بہت خوش ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایک ایسے ماحول میں رہنا جہاں صفائی ستھرائی کا فقدان ہو، بہت مشکل ہے۔ میرے تین بچے پہلے ہی دھرنا چھوڑ کر گھر جا چکے ہیں کیوںکہ ان کے اسکول اور دفاتر سے انہیں زیادہ چھٹیاں نہیں مل رہی تھیں'۔

حلیمہ نے بتایا کہ ان کے شوہر عوامی تحریک کے حامی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمیں یہاں آنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ' سیالکوٹ میں آنے والے سیلاب سے وہ بہت پریشان تھیں، لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہمارا گھر محفوظ ہے، ہاں لیکن ہماری فصل تباہ ہو گئی ہے'۔

حلیمہ نے ڈان کو بتایا کہ' جب انہیں یہ پتہ چلا کہ وہ لوگ عید گھر پر منائیں گے تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اب میں سیالکوٹ جا کر اپنے اور بچوں کے لیے عید کی خریداری کروں گی'۔

لیّہ کے رہائشی 44 سالہ صغیر اختر نے بتایا کہ انہیں یقین تھا کہ پاکستان عوامی تحریک کی قیادت 'انقلاب' لانے میں کامیاب ہو جائے گی، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ کام مشکل ہو گیا ہے۔

صغیر نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ اگر پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کی قیادت اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی تو آئندہ کوئی بھی ان پر اعتماد نہیں کرے گا۔

انہوں نے سوال کیا کہ 'آخر ہمارے قائدین مذہب کا نام لے کر اپنے حامیوں کو کیوں بلیک میل کرتے ہیں؟ اور مجھے نہیں معلوم کہ اپنے دوستوں، رشتے داروں اور پڑوسیوں کو میں کیا بتاؤں گا کہ میں نے اس دھرنے سے کیا حاصل کیا'۔

رابطہ کرنے پر عوامی تحریک کے ترجمان عمر ریاض عباسی نے ڈان کو بتایا کہ پارٹی قیادت نے عید کے موقع پر شرکاء کو گھر جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم عوام میں ان کے بنیادی حقوق کے حوالے سے آگہی پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور ان دھرنوں کے نتیجے میں آئندہ انتخابات کے نتائج بہت مختلف ہوں گے'۔
۔۔۔
ربط
 
محترمہ زرقا مفتی کی پوسٹز سے پتہ پڑتا ہے کہ بچے بالے گو نواز گو کی نعرے لکھ لگا رہے ہیں۔ بچے نابالغ اور بے شعور ہوتے ہیں۔ وہ شور و غوغا سے متاثر ہوتے ہیں۔
چند لوگ سمجھتے ہیں کہ ملک میں غربت، افلاس، بیماری، اور کمزوری نواز کی حکومت کی وجہ سے ہے۔ حالانکہ یہ انکے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے
کچھ لوگ سجھتے ہیں کہ کہ نواز کے جانے کے بعد انقلاب ائے گا اور سب سدھر جاوے گا۔ حالانکہ اگر دیکھیں تو حکمران بد سے بدتر اتے رہے۔ یعنی ایوب کے بعد یحییٰ، اس کے بعد بھٹو، اس کے بعد ضیا، اس کے بعد نواز بے نظیر، پھر مشرف پھر زرداری ۔ یعنی بدسے بدترپھر اس سے بدتر۔ یہ ہونہیں سکتا کہ اچانک ایک اچھا حکمران اجاوے اور سب ٹھیک ہوجاوے۔ یہ حکمران اپ کے اپنے اعمال کی پیداوار ہیں۔ بہ حثیت قوم سب کرپٹ ہوئے ہوئے ہیں۔ یہ حکمران جن کے نام میں گنواچکاہوں سب فوجی یا فوجی پیداوار تھے سوائے بھٹو ،بے نظیر اور زرداری کے۔ مجموعی طور پر بھٹو ،بے نظیر اور زرداری کے دور کچھ بہتر رہے۔

حالات جب بدلیں گے جب اپ اپنے اپ کو بدل لیں۔ منافقت چھوڑ دیں۔ پاکستانی اور مسلمان ہونے کے ناطے اچھے پاکستانی اور مسلمان بنیں۔ پاکستانی مسلمان کبھی بھی مغریبت اپنا کر ترقی نہیں کرسکتے۔
 
ماؤزے تنگ کے بنائے عوامی جمہوریہ چین کو 1979 سے ڈینگ سیاؤ پنگ نے ان اہداف کی طرف بڑی جرأت اور ثابت قدمی کے ساتھ موڑا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری اس طرح کا ماحول پاکستان کے لیے بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے انھیں ہمارے نوجوانوں کو سمجھانا یہ ہو گا کہ ’’تبدیلی‘‘ کا مقصد صرف امیروں کو ریاستی مداخلت کے بغیر مختلف اشیائے صرف کے اجارہ داروں میں تبدیل کرنا اور ملٹی نیشنلز کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہی نہیں۔ حقیقی تبدیلی کے لیے بے زمین کسانوں اور سرکاری اسکولوں میں ٹاٹوں پر بیٹھ کر رٹا لگاکر فروعی سی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکریوں کے لیے بدحال نوجوانوں کے لیے بھی کچھ سوچنا ہو گا۔ پاکستانی ریاست میں اب یہ سکت ہی باقی نہیں رہی کہ وہ ایسے نوجوانوں کو Electables کی سفارشوں کے ذریعے چھوٹی موٹی نوکریوں میں کھپا سکے۔

http://www.express.pk/story/292083/
 
'ایک دن قبل میرے والد نے کہا کہ ہم عیدالاضحیٰ اپنے گھر پر بنائیں گے، لیکن انہوں نے میرے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ وہ 'انقلاب' کب آئے گا، جس کا ہمارے قائد ڈاکٹر طاہر القادری نے ہم سے وعدہ کیا تھا'۔

میانوالی سے اسلام آباد آنے والی 22 سالہ ہما نعیم نے شاہراہ دستور پر قائم اپنے خیمے میں ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ چھیالیس دن سے اپنی پوری فیملی کے ہمراہ پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے دھرنے میں موجود ہے۔

ہما نے بتایا کہ اگرچہ وہ لوگ ڈیڑھ ماہ سے سڑکوں پر موجود ہیں لیکن قائد علامہ طاہر القادری کی جانب سے دکھائے گئے 'انقلاب' کے خواب کی حقیقی جھلک ابھی تک نظر نہیں آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں دھرنے میں شرکت کرنے کے حق میں نہیں تھی، لیکن میرے والد نے کہا کہ ہمیں وہاں جانا ہے کیوںکہ یہ ڈاکٹر طاہر القادری کی ہدایت تھی کہ کارکن ملک میں 'انقلاب' لانے کےلیے اسلام آباد پہنچیں'۔

ہما نے بتایا کہ عوامی تحریک کی قیادت اب اپنے حامیوں اور شرکاء کو یہ کہہ کر تسلی دے رہی ہے کہ ہم عوام میں ان کے بنیادی حقوق کے حوالے سے آگہی بیدار کر کے 'انقلاب' لانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

ہما نے سوال کیا کہ 'میں سرگودھا یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز کر رہی ہوں، جب میں واپس جاؤں گی تو میں اپنے ساتھیوں کو کیا بتاؤں گی کہ ہمیں دھرنا دے کر کیا حاصل ہوا'۔

شیخوپورہ کے رہائشی 38 سالہ نذیر چوہان لاہور میں ایک ٹیکسٹائل مل میں سپروائزر تھے لیکن دھرنے میں شرکت کرنے کے لیے انہیں اپنی ملازمت چھوڑنی پڑی، کیوںکہ انہیں فیکٹری سے چھٹیاں نہیں ملی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے دھرنے میں شرکت کے لیے اپنی ملازمت کی قربانی دی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ تمام شرکاء کی قربانیاں رائیگاں جائیں گی، کیونکہ ہماری قیادت شرکاء کو اس بات کے لیے تیار کر رہی ہے کہ وہ عید سے قبل دھرنا ختم کرکے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں'۔

سیالکوٹ کی 48 سالہ حلیمہ بی بی واپسی کے خیال سے بہت خوش ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایک ایسے ماحول میں رہنا جہاں صفائی ستھرائی کا فقدان ہو، بہت مشکل ہے۔ میرے تین بچے پہلے ہی دھرنا چھوڑ کر گھر جا چکے ہیں کیوںکہ ان کے اسکول اور دفاتر سے انہیں زیادہ چھٹیاں نہیں مل رہی تھیں'۔

حلیمہ نے بتایا کہ ان کے شوہر عوامی تحریک کے حامی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمیں یہاں آنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ' سیالکوٹ میں آنے والے سیلاب سے وہ بہت پریشان تھیں، لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہمارا گھر محفوظ ہے، ہاں لیکن ہماری فصل تباہ ہو گئی ہے'۔

حلیمہ نے ڈان کو بتایا کہ' جب انہیں یہ پتہ چلا کہ وہ لوگ عید گھر پر منائیں گے تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اب میں سیالکوٹ جا کر اپنے اور بچوں کے لیے عید کی خریداری کروں گی'۔

لیّہ کے رہائشی 44 سالہ صغیر اختر نے بتایا کہ انہیں یقین تھا کہ پاکستان عوامی تحریک کی قیادت 'انقلاب' لانے میں کامیاب ہو جائے گی، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ کام مشکل ہو گیا ہے۔

صغیر نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ اگر پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کی قیادت اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی تو آئندہ کوئی بھی ان پر اعتماد نہیں کرے گا۔

انہوں نے سوال کیا کہ 'آخر ہمارے قائدین مذہب کا نام لے کر اپنے حامیوں کو کیوں بلیک میل کرتے ہیں؟ اور مجھے نہیں معلوم کہ اپنے دوستوں، رشتے داروں اور پڑوسیوں کو میں کیا بتاؤں گا کہ میں نے اس دھرنے سے کیا حاصل کیا'۔

رابطہ کرنے پر عوامی تحریک کے ترجمان عمر ریاض عباسی نے ڈان کو بتایا کہ پارٹی قیادت نے عید کے موقع پر شرکاء کو گھر جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم عوام میں ان کے بنیادی حقوق کے حوالے سے آگہی پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور ان دھرنوں کے نتیجے میں آئندہ انتخابات کے نتائج بہت مختلف ہوں گے'۔
۔۔۔
ربط
اِ ن لوگوں کو سمجھائیں
صبح شام "گونواز گو" کا ورد کریں
انشااللہ نفع ہوگا۔
 
محترمہ زرقا مفتی کی پوسٹز سے پتہ پڑتا ہے کہ بچے بالے گو نواز گو کی نعرے لکھ لگا رہے ہیں۔ بچے نابالغ اور بے شعور ہوتے ہیں۔ وہ شور و غوغا سے متاثر ہوتے ہیں۔
14 اگست کے حوالے سے ایک ویڈیو پر معزز رکن نے یہ ریمارکس دئیے تھے
نہایت افسوسناک امر ہے کہ اتنی چھوٹی عمر کے بچوں کے اذہان کو پراگندہ کیا جا رہا ہے ۔ اس عمر میں یاد کئے ہوئے سبق کبھی نہیں بھولتے
 
Top