آدھی رات کے شاید سپنے جھوٹے تھے - فرزانہ نیناں

شمشاد

لائبریرین
آدھی رات کے شاید سپنے جھوٹے تھے
یا پھر پہلی بار ستارے ٹوٹے تھے

جس دن گھر سے بھاگ کے شہر میں پہنچی تھی
بھاگ بھری کے بھاگ اُسی دن پھوٹے تھے

مذہب کی بنیاد پہ کیا تقسیم ہوئے
ہمسایوں نے ہمسائے ہی لوٹے تھے

شوخ نظر کی چٹکی نے نقصان کیا
ہاتھوں سے چائے کے برتن چھوٹے تھے

اوڑھ کے پھرتی تھی جو نیناں ساری رات
اُس ریشم کی شال پہ یاد کے بوٹے تھے
(فرزانہ نیناں)
 

طارق شاہ

محفلین
انتہائی عمدہ۔
ایک بے ساختہ اور نیالہجہ ہے، جو توجہ کو کھینچ لیتاہے۔

تلمیذ صاحب کی بات سے متفق ہوں

عمومی اثر یا قاری پر فوری تاثرِ خوب قائم کرتی یہ تحریر کشش اور نرم گوشہ
رکھنے کی وجہ سے خود میں بیان کی کمزوریاں محسوس نہیں کرنے دیتی ہے

آدھی رات کے شاید سپنے جھوٹے تھے
یا پھر پہلی بار ستارے ٹوٹے تھے
ایک معیّن سمے اور وقت پر محیط ہے قیاس (قیاس لفظ شاید نے لکھوایا مجھ سے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس دن گھر سے بھاگ کے شہر میں پہنچی تھی
بھاگ بھری کے بھاگ اُسی دن پھوٹے تھے

مفہوم پر غور کریں تو یہ کہا جارہا ہے کہ
گھر سے بھاگنا از خود بُراعمل نہیں تھا مگر شہر رسیدن :)
دوسری بات یہ بھی اس پر صادق آتی ہے کہ
بھاگے ایک مدت سے تھے سب ٹھیک تھا ، قسمت پُھوٹی جو شہر پہنچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذہب کی بنیاد پہ کیا تقسیم ہوئے
ہمسایوں نے ہمسائے ہی لوٹے تھے

" ہی" لوٹے تھے
" ہی " کسی اور کو لوٹنے کے الزام سے مبرا کرنے کے سوا یہاں کچھ اور نہیں کر رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوخ نظر کی چٹکی نے نقصان کیا
ہاتھوں سے چائے کے برتن چھوٹے تھے

باقی برتن ، یا وہ برتن جو چائے کے نہیں تھے کے نہ ٹوٹنےکا بیان ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوڑھ کے پھرتی تھی جو نیناں ساری رات
اُس ریشم کی شال پہ یاد کے بوٹے تھے

ساری رات سوچوں گا اس پر
:)
تشکّر ، شیئر کرنے پر، کبھی کبھی سوچتا ہوں کیوں اس قسم کی باتیں فراق، فیض،مجاز، ناصر کاظمی
صاحبان کے کلام میں نہیں ہوتیں ، اسی لئے ہی شاید ہم لوگ انھیں نہیں پڑھتے:):)
شاید
 
آخری تدوین:

سہیل امجد

محفلین
تلمیذ صاحب کی بات سے متفق ہوں

عمومی اثر یا قاری پر فوری تاثرِ خوب قائم کرتی یہ تحریر کشش اور نرم گوشہ
رکھنے کی وجہ سے خود میں بیان کی کمزوریاں محسوس نہیں کرنے دیتی ہے

آدھی رات کے شاید سپنے جھوٹے تھے
یا پھر پہلی بار ستارے ٹوٹے تھے
ایک معیّن سمے اور وقت پر محیط ہے قیاس (قیاس لفظ شاید نے لکھوایا مجھ سے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس دن گھر سے بھاگ کے شہر میں پہنچی تھی
بھاگ بھری کے بھاگ اُسی دن پھوٹے تھے

مفہوم پر غور کریں تو یہ کہا جارہا ہے کہ
گھر سے بھاگنا از خود بُراعمل نہیں تھا مگر شہر رسیدن :)
دوسری بات یہ بھی اس پر صادق آتی ہے کہ
بھاگے ایک مدت سے تھے سب ٹھیک تھا ، قسمت پُھوٹی جو شہر پہنچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذہب کی بنیاد پہ کیا تقسیم ہوئے
ہمسایوں نے ہمسائے ہی لوٹے تھے

" ہی" لوٹے تھے
" ہی " کسی اور کو لوٹنے کے الزام سے مبرا کرنے کے سوا یہاں کچھ اور نہیں کر رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوخ نظر کی چٹکی نے نقصان کیا
ہاتھوں سے چائے کے برتن چھوٹے تھے

باقی برتن ، یا وہ برتن جو چائے کے نہیں تھے کے نہ ٹوٹنےکا بیان ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوڑھ کے پھرتی تھی جو نیناں ساری رات
اُس ریشم کی شال پہ یاد کے بوٹے تھے

ساری رات سوچوں گا اس پر
:)
تشکّر ، شیئر کرنے پر، کبھی کبھی سوچتا ہوں کیوں اس قسم کی باتیں فراق، فیض،مجاز، ناصر کاظمی
صاحبان کے کلام میں نہیں ہوتیں ، اسی لئے ہی شاید ہم لوگ انھیں نہیں پڑھتے:):)
شاید

خاصے بودے اعتراضات ہیں شاہ صاحب۔
 
Top