آخرت کا سفر

عدیل منا

محفلین
(عربی میں لکھی گئی تحریر کا اردو میں ترجمہ)​
کسی آدمی کی کہانی جوجدہ سے ریاض جا رہا تھا۔​
ایک بار ریاض جانے کیلئے میں ایک گھنٹہ پہلے گھر سے نکلا، لیکن راستے میں رش اور چیکنگ کی وجہ سے ائیر پورٹ لیٹ پہنچا۔ جلدی سے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی اور دوڑتے ہوئے کاؤنٹر پر پہنچا۔ کاؤنٹر پر موجود ملازم سے میں نے کہا، مجھے ریاض جانا ہے۔​
اس نے کہا۔ ریاض والی فلائٹ تو بند ہوچکی ہے۔​
میں نے کہا۔ پلیز مجھے ضرور آج شام ریاض پہنچنا ہے۔​
اس نے کہا۔ زیادہ باتوں کی ضرورت نہیں۔اس وقت آپکو کوئی بھی جانے نہیں دےگا۔​
میں نے کہا۔ اللہ تمہارا حساب کردے۔​
اس نے کہا۔ اس میں میرا کیا قصور؟​
بہرحال میں ائیر پورٹ سے باہر نکلا۔پریشان تھا کہ کیا کروں، ریاض جانے کا پروگرام کینسل کردوں، اپنی گاڑی پر روانہ ہوجاؤں یا ٹیکسی میں چلا جاؤں؟ بالآخر ٹیکسی میں جانے والی بات پر اتفاق کیا۔ ائیرپورٹ کے باہر ایک پرائیویٹ گاڑی کھڑی تھی۔میں نے پوچھا ریاض کیلئے کتنے لوگے؟ اس نے کہا 500ریال۔بڑی مشکل سے اسے 450ریال پر راضی کیا اور اس کے ساتھ بیٹھ کر ریاض کیلئے روانہ ہوا۔ بیٹھتے ہی میں نے اسےکہا گاڑی تیز چلانی ہے۔ اس نے کہا فکر مت کرو۔ واقعی اس نے خطرناک حد تک گاڑی دوڑانی شروع کردی۔ راستے میں اس سے کچھ باتیں ہوئیں۔ اس نے میری جاب اور خاندان کے متعلق سوالات کئے اور کچھ سوالات میں نے بھی پوچھ لئے۔​
اچانک مجھے اپنی والدہ کا خیال آیا کہ ان سے بات کرلوں۔ میں نے موبائل نکالا اور والدہ کوفون کیا۔​
انہوں نے پوچھا بیٹے کہاں ہو؟​
میں نے جہاز کے نکل جانے اور ٹیکسی میں سفر کرنے والی بات بتادی۔ماں نے دعا دی، بیٹے! اللہ تمہیں ہر قسم کے شر سے بچا ئے۔ میں نے کہا انشاء اللہ میں ریاض پہنچ کر آپکو اطلاع دیدوں گا۔​
قدرتی طور پر میرے دل پر ایک پریشانی سے چھاگئی اور مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی مصیبت میرا انتظار کررہی ہو۔اس کے بعد میں نے اپنی بیوی کو فون کیا اور اسے بھی ساری بات بتادی اور اسے ہدایت کی کہ بچوں کا خیال رکھے با لخصوص چھوٹی بیٹی سو سو کا۔​
اس نے کہا جب سے آپ گئے ہو، سوسو مسلسل آپ کے بارے میں پوچھ رہی ہے۔​
میں نے کہا۔ ملادو۔​
بچی نے کہا۔بابا آپ کب آئیں گے؟​
میں نے کہا۔ابھی تھوڑی دیر میں آجاؤں گا، کوئی چیز چاہیئے؟​
وہ بولی۔ہاں، میرے لئے چاکلیٹ لے آؤ۔​
میں ہنسا اور کہا۔ ٹھیک ہے۔​
اسکے بعد میں اپنی سوچوں میں گم ہوگیا کہ اچانک ڈرائیور کے سوال نے مجھے چونکا دیا۔​
اس نے پوچھا۔کیا میں سگریٹ پی سکتا ہوں؟​
میں نے کہا۔ بھائی! تم مجھے ایک نیک اورسمجھدار انسان لگ رہے ہو، کیوں اپنے آپ اور اپنے مال کو نقصان پہنچارہے ہو؟​
اس نے کہا۔ میں نے پچھلے رمضان میں بہت کوشش کی کہ سگریٹ چھوڑدوں لیکن کامیاب نہیں ہوسکا۔​
میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بڑی قوت عطا کی ہے، تم سگریٹ چھوڑنے کا معمولی کام نہیں کرسکتے۔۔۔بہرحال، اس نے کہا۔ آج کے بعد میں سگریٹ نہیں پیئوں گا۔​
میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ثابت قدمی عطا فرمائے۔​
مجھے یاد پڑتا ہےکہ اس کے بعد میں نےگاڑی کے دروازے سےسر لگایا کہ اچانک ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی اور پتہ لگا کہ گاڑی کا ایک ٹائر پھٹ گیا ہے۔ میں نے گھبرا کے ڈرائیور سے کہا،سپیڈ کم کردو۔ اس نے گھبراہٹ میں کوئی جواب نہیں دیا۔گاڑی ایک طرف نکل گئی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی ایک جگہ جاکر رک گئی۔​
مجھے اللہ نے توفیق دی اور میں نے زور زور سے کلمہ تشہد پڑھا۔مجھے سر میں چوٹ لگی تھی اور درد کی شدت سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ سر پھٹا جا رہا ہو۔ میں جسم کے کسی حصے کو حرکت نہیں دے سکتا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا درد کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں بات کرنا چاہ رہا تھا لیکن بول نہیں سکتاتھا۔ حتیٰ کہ میری آنکھیں کھلی تھیں لیکن مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔اتنے میں میں نے لوگوں کے قدموں کی آواز سنی جو ایک دوسرے سے یہ کہہ رہے تھے کہ اسے ہلاؤ نہیں، سر سے خون نکل رہا ہے اور دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں۔ میری تکلیف میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا اور سانس لینے میں شدید دشواری محسوس کررہا تھا۔مجھے اندازہ ہوا کہ شاید میری موت آگئی ہے۔اس وقت مجھے گذری ہوئی زندگی پر جو ندامت ہوئی، میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔مجھے لگا کہ اب مجھے موت سے کوئی نہیں بچا سکتا۔​
(اس کہانی کے متعلق آخر میں بتاؤنگا کہ اس کی کیا حقیقت ہے۔یہاں ہم میں سے ہر کوئی یہ تصوّر کرے کہ جو کچھ ہورہا ہے میرے ساتھ ہو رہا ہے۔ کیونکہ عنقریب ہم سب کو اس سے ملتے جلتے حالات سے سابقہ پیش آناہے)​
اسکے بعد لوگوں کی آوازیں آنا بند ہوگئیں۔میری آنکھوں کے سامنے مکمل تاریکی چھاگئی اور میں ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے میرے جسم کو چھریوں سے کاٹا جارہا ہو۔اتنے میں مجھے ایک سفید ریش آدمی نظر آیا۔​
اس نے مجھے کہا۔ بیٹے! یہ تمہاری زندگی کی آخری گھڑی ہے، میں تمہیں نصیحت کرناچاہتاہوں کیونکہ اللہ نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔​
میں نے پوچھا۔کیا ہے نصیحت؟​
اس نے کہا۔"عیسائیت کی ترغیب" خدا کی قسم!اس میں تمہاری نجات ہے۔اگر تم اس پر ایمان لائے تو تمہیں اپنے گھر والوں کو لوٹادونگا اور تمہاری روح واپس لے آؤنگا۔۔۔۔جلدی سے بولو، ٹائم ختم ہوا جا رہا ہے۔​
مجھے اندازہ ہوا کہ یہ شیطان ہے۔مجھے اس وقت جتنی بھی تکلیف تھی اور جتنا بھی اذیّت سے دوچار تھا لیکن اس کے باوجود اللہ اور اسکے رسول پر پکّا ایمان تھا۔میں نے اسے کہا۔جاؤ، اللہ کے دشمن۔میں نے اسلام کی حالت میں زندگی گزاری ہے اور مسلمان ہی مرونگا۔​
اس کا رنگ زرد پڑگیا، بولا۔تمہاری نجات اس میں ہے کہ تم یہودی یا نصرانی مرجاؤ، ورنہ میں تمہاری تکلیف بڑھا دونگا اور تمہاری روح قبض کردونگا۔​
میں نے کہا۔موت تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے، جو بھی ہو میں اسلام کی حالت ہی میں مرونگا۔​
اتنے میں اس نے اوپر دیکھا اور دیکھتے ہی بھاگ نکلا۔
(جاری ہے)
 

عدیل منا

محفلین
مجھے لگا جیسے کسی نے اسے ڈرایا ہو۔ اچانک میں نے عجیب قسم کے چہروں والے اور بڑے بڑے جسموں والے لوگ دیکھے۔ وہ آسمان کی طرف سے آئے اور کہا۔ السلام و علیکم!​
میں نے کہا۔ وعلیکم السلام!​
اس کے بعد وہ خاموش ہوگئے اور ایک لفظ بھی نہیں بولے۔ ان کے پاس کفن تھے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میری زندگی ختم ہوگئی۔ ان میں سے ایک بہت بڑا فرشتہ میری طرف آیا اور کہا۔​
ایًتُہَاالنّفسُ المُطمَئِنّۃ ط اًخرجِی اِلٰی مَغفِرَۃ مِنَ اللہِ وَرِضوان (اے نیک روح! اللہ کی مغفرت اور خشنودی کی طرف نکل آ)​
یہ سن کر میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا، میں نے کہا۔ اللہ کے فرشتے، میں حاضر ہوں۔​
اس نے میری روح کھینچ لی۔ مجھے اب ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے میں نیند اور حقیقت کے مابین ہوں۔ ایسا لگا مجھے جسم سے آسمان کی طرف اٹھایا جارہا ہے۔ میں نے نیچے دیکھا تو پتہ چلا کہ لوگ میرے جسم کے اردگرد کھڑے ہیں اور انہوں نے میرے جسم کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ ان میں سے کسی نے کہا۔ اِنًا لِلًٰہِ وَاِنًا اِلَیہِ رَاجِعُون۔​
میں نے دو فرشتوں کو دیکھا کہ وہ مجھے وصول کر رہے ہیں اور مجھے کفن میں ڈال کر اوپر کی طرف لے جارہے ہیں۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا تو مجھے اُفق کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔ مجھے بلندی سے بلندی کی طرف لے جایا جارہا تھا۔ ہم بادلوں کو چیرتے چلے گئے۔ جیسے کہ میں جہاز میں بیٹھا ہوں۔ یہاں تک کہ پوری زمین مجھے ایک گیند کی طرح نظر آرہی تھی۔​
میں نے ان دو فرشتوں سے پوچھا۔ کیا اللہ مجھے جنت میں داخل کرے گا؟​
انہوں نے کہا۔ اسکا علم اللہ تعالٰی کی ذات کو ہے۔ ہمیں صرف تمہاری رُوح لینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور ہم صرف مسلمانوں پر مامُور ہیں۔​
ہمارے قریب سے کچھ اور فرشتے گزرگئے جن کے پاس ایک روح تھی اور اس سے ایسی خوشبو آرہی تھی کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی زبردست خوشبو کبھی نہیں سونگھی تھی۔​
میں نے حیرانگی کے عالم میں فرشتوں سے پوچھا۔"یہ کون ہے؟" اگر مجھے معلوم نہ ہوتا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت کر گئے ہیں تو میں کہتا کہ یہ انکی روح ہوگی۔​
انہوں نے کہا۔یہ ایک فلسطینی کی روح ہے جسے یہودیوں نے تھوڑی دیر پہلے قتل کیا، جبکہ وہ اپنے دین اور وطن کی مدافعت کررہا تھا۔اسکا نام ابولعبد ہے۔​
میں نے کہا۔"کاش میں شہید ہوکر مرتا۔"​
اسکے بعد کچھ اور فرشتے ہمارے پاس سے گزرے۔ان کے پاس ایک روح تھی جس سے سخت بدبو آرہی تھی۔ میں نے پوچھا۔یہ کون ہے؟​
انہوں نے کہا۔یہ بتوں اور گائے کی پوجا کرنے والا ہندو ہے، جسے تھوڑی پہلے اللہ تعالٰی نے اپنے عذاب سے ہلاک کردیا۔​
میں نے شکر کیا کہ شکرہے میں کم از کم مسلمان مرا ہوں۔​
میں نے کہا۔ میں نے آخرت کے سفر کے حوالے سے بہت پڑھا ہے لیکن یہ جو کچھ ہورہا ہے میں نے اسکا تصوّر نہیں کیا۔​
انہوں نے کہا، شکر کرو مسلمان مرے ہو۔ لیکن ابھی تمہارے سامنے سفر بہت لمبا ہے اور بے شمار مراحل ہیں۔​
اس کے بعد ہم فرشتوں کے ایک بہت بڑے گروہ کے پاس سے گزر گئے۔ہم نے انہیں سلام کیا۔انہوں نے پوچھا یہ کون ہے؟​
میرے ساتھ والے دو فرشتوں نے جواباََ کہا۔یہ ایک مسلمان ہے، جو تھوڑی دیر پہلے حادثے کا شکار ہوگیا اور اللہ نے ہمیں اسکی روح قبض کرنے کا حکم دیا۔​
انہوں نے کہا۔مسلمانوں کیلئے بشارت ہے کیونکہ یہ اچھے لوگ ہیں۔​
میں نے فرشتوں سے پوچھا۔یہ کون لوگ ہیں؟​
انہوں نے کہا۔یہ وہ فرشتے ہیں جو آسمان کی حفاظت کرتے ہیں اور یہاں سے شیطانوں پر شہاب پھینکتے ہیں۔​
میں نے کہا۔یہ تو اللہ کی بہت عظیم مخلوق ہیں۔​
انہوں نے کہا۔ان سے بھی زیادہ عظیم فرشتے ہیں۔​
میں نے پوچھا۔وہ کون ہیں؟​
وہ بولے۔جبرائل اور عرش کو اٹھانے والے فرشتے اور یہ مخلوق ایسی ہے جو اللہ کے حکم کی سرتابی نہیں کیا کرتے۔​
اس کے بعد ہم مزید اوپر چڑھتے گئے، یہاں تک کہ آسمانِ دنیا پہنچ گئے۔میں اس وقت خوف اور کرب کے عالم میں تھا کہ نہ معلوم آگے کیا ہوگا۔​
میں نے آسمان کو بہت بڑا پایا۔اس کے اندر دروازے تھے جو بند تھے۔​
دونوں فرشتوں نے کہا۔السلام وعلیکم۔ان کے ساتھ میں نے بھی یہی الفاظ دہرائے۔​
دوسرے فرشتوں نے جواباََ کہا۔وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔اور کہا۔رحمت کے فرشتو! اھلاََ و سھلاََ، ضرور یہ مسلمان ہے، تم اندر آسکتے ہو، کیونکہ آسمان کے دروازے صرف مسلمانوں کیلئے کھلتے ہیں۔ "لا تفتح لھم ابواب السمائ'" (ترجمہ: کافروں کیلئے آسمان کے دروازے نہیں کھلیں گے۔قرآن)​
ہم اندر گئے تو بہت ساری عجیب چیزیں دیکھیں۔پھر ہم آگے بڑھے اور اوپر چڑھنا شروع کیا، یہاں تک کہ دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں، چھٹا اور بالآخر ساتویں آسمان پر جا پہنچے۔یہ آسمان باقی تمام آسمانوں سے بڑا نظر آرہا تھا جیسے ایک بڑا سمندر۔​
فرشتے کہہ رہے تھے۔ "اللهم أنت السلام و منك السلام تباركت يا ذا الجلال و الإكرام "​
مجھ پر ایک بہت بڑی ہیبت طاری ہوگئی۔​
اللہ تعالٰی نے میرے بارے میں حکم صادر فرمایا کہ میرے اس بندے کا عمل نامہ "علیّین" میں لکھدو اور اسے زمین کی طرف واپس لے جاؤ کیونکہ میں نے انہیں زمین سے پیدا کیا، اسی میں ان کی واپسی ہوگی اور ایک بار پھر اسی زمین سے انہیں اٹھاؤنگا۔​
شدید رعب، ہیبت اور خوشی کے ملے جلے جذبات میں میں نے کہا۔ پروردگار! تُو پاک ہے۔ لیکن ہم نے تیری وہ بندگی نہیں کی جو ہونی چاہئے تھی۔​
"سبحانك ما عبدناك حق عبادتك"
فرشتوں نے مجھے واپس زمین کی طرف روانہ کیا اور جہاں جہاں سے گزرتے گئے دوسرے فرشتوں کو سلام کرتے گئے۔​
میں نے راستے میں ان سے پوچھا۔کیا میں اپنے جسم اور گھروالوں کے متعلق جان سکتا ہوں؟​
انہوں نے کہا۔اپنے جسم کو عنقریب تم دکھ لو گے۔لیکن جہاں تک تمہارے گھر والوں کا تعلق ہے، ان کی نیکیاں آپ کو پہنچتی رہیں گی لیکن آپ انہیں دیکھ نہیں سکتے۔​
اس کے بعد وہ مجھے زمین پر لے آئے اور کہا۔ اب تم اپنے جسم کے ساتھ رہو۔ہمارا کام ختم ہوگیا۔اب قبر میں تمہارے پاس دوسرے فرشتے آئیں گے۔​
میں نے کہا۔اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے، کیا میں پھر کبھی آپ کو دیکھ سکونگا؟​
انہوں نے کہا۔"قیامت کے دن" اس کے ساتھ ہی ان پر ہیبت طاری ہوئی۔انہوں نے کہا۔ "اگر تم اہل جنت میں سے نکلے تو ہم ساتھ ساتھ ہوں گے۔ انشاء اللہ"​
میں نے پوچھا۔ جو کچھ میں نے دیکھا اور سنا، کیا اس کے بعد بھی میرے جنت جانے میں کوئی شک رہ گیا ہے؟​
انہوں نے کہا۔تمہارے جنت جانے کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔تمہیں جو عزت و اکرام ملا وہ اسلئے کہ تم مسلمان مرے ہو۔لیکن تمہیں اعمال کی پیشی اور میزان سے ضرور سابقہ پیش آنا ہے۔​
مجھے اپنے گناہ یاد آئے اور چاہا کہ زور زور سے روؤں۔​
انہوں نے کہا۔اپنے رب سے نیک گمان کرو، کیونکہ وہ کسی پر ظلم ہرگز نہیں کرتا۔اس کے بعد انہوں نے سلام​
کیا اور بڑی تیزی سے اُوپر کی طرف اُٹھ گئے۔​
(جاری ہے)​
 

عدیل منا

محفلین
میں نے اپنے جسم پر نظر دوڑائی۔میری آنکھیں بند تھیں اور میرے ارد گرد میرے بھائی اور والد صاحب رو رہے تھے۔ اس کے بعد میرے جسم پر پانی ڈالا گیا تو مجھے پتہ چلا کہ مجھے غسل دیا جارہاہے۔ان کے رونے سے مجھے تکلیف ملتی تھی اور جب میرے والد دُعا کرتے کہ اللہ تعالٰی تم پر رحم فرمائے تو اُن کی یہ بات مجھے راحت پہنچاتی تھی۔ اس کے بعد میرے جسم کو سفید کفن پہنایاگیا۔ میں نے اپنے دل میں کہا۔افسوس میں اپنے جسم کو اللہ کی راہ میں ختم کرتا۔کاش میں شہید مرتا۔افسوس میں ایک گھڑی بھی اللہ کے ذکر یا نماز یا عبادت کے بغیر نہ گزارتا۔کاش میں شب و روز اللہ کی راہ میں خرچ کرتا۔ افسوس ھائے افسوس۔​
اتنے لوگوں نے میرا جسم اُٹھایا۔ میں اپنے جسم کو دیکھ رہا ہوں لیکن نہ تو اس کے اندر جا سکتا ہوں اور نہ دور ہوسکتا ہوں۔ایک عجیب سی صورتِ حال سے دوچار تھا۔​
مجھے جب اُٹھایا گیا تو جو چیز میرے لئے اُس وقت تکلیف دہ تھی وہ میرے گھر والوں کا رونا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا میں اپنے ابّا سے کہہ دوں۔اباجان! پلیز، رونا بند کردیں۔بلکہ میرے لئے دعا کریں۔کیونکہ آپکا رونا مجھے تکلیف دے رہا ہے۔میرا رشتہ داروں میں اس وقت جو کوئی میرے لئے دعا کرتا تو اس سے مجھے راحت مل جاتی تھی۔​
مجھے مسجد پہنچایا گیا اور وہاں اتارا گیا۔میں نے سنا کہ لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں۔مجھے شدید خواہش ہوئی کہ میں بھی ان کے ساتھ نماز میں شریک ہوجاؤں۔میں نے سوچا کتنے خوش قسمت ہیں یہ لوگ کہ نیکیاں کما رہے ہیں جبکہ میرا عملنامہ بند ہوگیا ہے۔​
نماز ختم ہوئی تو مؤذن نے اعلان کیا۔"الصلوٰۃ علی الرجلِ یرحمکم اللہ" امام میرے قریب آیا اور نماز جنازہ شروع کی۔میں حیران ہوا کہ وہاں بہت سارے فرشتے آگئے جو ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے کہ نماز پڑھنے والے کتنے لوگ ہیں اور ان میں کتنے موحّد ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے؟​
چوتھی تکبیر میں میں نے دیکھا کہ فرشتے کچھ لکھ رہے ہیں۔مجھے اندازہ ہوا کہ وہ لوگوں کی دُعائیں لکھ رہے ہوں گے۔​
اس وقت میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ امام اس رکعت کو مزید لمبی کردے۔ کیونکہ لوگوں کی دُعاؤں سے مجھے عجیب سی راحت اور سرور مل رہا تھا۔​
نماز ختم ہوئی اور مجھے اٹھا کر قبرستان کی طرف لے گئے۔ راستہ میں کچھ دعائیں مانگ رہے تھے اور کچھ رو رہے تھے۔میں حیران و پریشان تھا کہ نامعلوم میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ مجھے اپنے گناہ اور غلطیاں، ظلم اور جو غفلت کی گھڑیاں میں نے دنیا میًن گزاری تھیں ایک ایک چیز سامنے آرہی تھی۔ ایک شدید ھیبت کا عالم تھا جس سے میں گزر رہاتھا۔ الغرض قبرستان پہنچا کر مجھے اتارا گیا۔ اس وقت مختلف قسم کی آوازیں سننے میں آئیں۔ کوئی کہہ رہا تھا۔ جنازے کو راستہ دیدو۔کوئی کہہ رہا تھا اس طرف سے لے جاؤ۔کوئی کہتاہے قبر کے قریب رکھدو۔​
یا اللہ! میں نے تو کبھی اپنے بارے میں یہ باتیں نہیں سوچی تھیں۔​
مجھے قبر میں رُوح اور جسم کے ساتھ اتارا گیا۔لیکن انہیں صرف میرا جسم نظر آرہا تھا روح نہیں نظر آرہی تھی۔​
اس کے بعد لحد کو بند کرنا شروع کردیا گیا۔میرا دل چاہ رہا تھا کہ چیخ چیخ کر کہہ دوں کہ مجھے یہاں نہ چھوڑیں۔پتہ نہیں میرے ساتھ کیا ہوگا۔لیکن میں بول نہیں سکتا تھا۔​
الغرض، مٹی ڈالنی شروع ہوئی اور قبر میں گھپ اندھیرا چھا گیا۔لوگوں کی آوازیں بند ہوتی چلی گئیں۔لیکن میں ان کے قدموں کی آوازیں سن رہا تھا۔ ان میں سے جو کوئی میرے لئے دعا کرتا تو مجھے سکون مل جاتاتھا۔​
اچانک قبر مجھ پر تنگ ہوگئی اور ایسا لگا کہ میرے جسم کو کچل دے گی۔اور قریب تھا کہ میں ایک چیخ نکال دوں لیکن پھر دوبارہ اصلی حالت میں آگئی۔​
اس کے بعد میں نے ایک طرف اور دوسری طرف دیکھنے کی کوشش کی کہ اچانک دو ہیبتناک قسم کے فرشتے نمودار ہوئے جن کے بڑے بڑے جسم، کالے رنگ اور نیلی آنکھیں تھیں۔ ان کی آنکھوں میں بجلی جیسی چمک تھی اور ان میں سے ایک کے ہاتھ میں گرز تھا۔ اگر اس سے پہاڑ مارے تو اسے ریزہ ریزہ کردے۔​
ان میں سے ایک نے مجھے کہا۔بیٹھ جاؤ۔ تو میں فوراََ بیٹھ گیا۔ پھر اس نے کہا مَن ربّک (تمہارا رب کون ہے)​
جس کے ہاتھ میں گرز تھا وہ مجھے بغور دیکھ رہا تھا۔​
میں نے جلدی سے کہا۔ ربّی اللہ (میرا رب اللہ ہے) جواب دیتے وقت مجھ پر کپکپی طاری تھی۔ اسلئے نہیں کہ مجھے جواب میں کوئی شک تھا۔ بلکہ ان کے رعب کی وجہ سے۔ پھر ا س نے مذید دو سوال کئے کہ تمہارا نبی کون ہے اور تمہارا دین کونسا ہے۔ اور الحمداللہ میں نے ٹھیک جواب دیدئیے۔​
انہوں نے کہا۔ اب تم قبر کے عذاب سے بچ گئے۔ میں نے پوچھا۔ کیا تم منکر نکیر ہو؟ انہوں نے کہا۔ ہاں، اور اگر تم صحیح جوابات نہ دیتے تو ہم تمہیں اس گرز سے مارتے اور تم اتنی چیخیں نکالتے کہ اسے زمین کی ساری مخلوق سن لیتی سوائے انسانوں اور جنوں کے۔ اور اگر جن و انس سن لیں تو بے ہوش ہوجائیں۔​
میں نے کہا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اس مصیبت سے بچا لیا۔ اس کے بعد وہ چلے گئے۔ان کے جانے کے بعد مجھے قدرے اطمینان ہوا اور ساتھ ہی مجھے سخت گرمی محسوس ہوئی اور لگا کہ میرا جسم جلنے والا ہے۔ جیسے جہنم سے کوئی کھڑکی کھولی گئی ہو۔ اتنے میں دو اور فرشتے نمودار ہوئے اور کہا۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔​
میں نے جواب دیا۔وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔​
انہوں نے کہا ہم فرشتے ہیں اور تمہارے اعمال تمہیں پیش کرنے آئے ہیں تاکہ قبر میں قیامت تک تمہیں اپنی نیکیوں کا جو بدلہ ملنا چاہئے وہ مل جائے۔​
میں نے کہا۔ "اللہ کی قسم، جس سختی اور اذیت سے میں دو چار ہوں، میں نے کبھی اس کے متعلق سوچا نہیں تھا۔" پھر میں نے پوچھا۔"کیا میں اہل جنت میں سے ہوں، اور کیا اتنی ساری تکلیفیں جھیلنے کے بعد بھی میرے لئے جہنم جانے کا خطرہ ہے ؟"​
انہوں نے کہا۔تم ایک مسلمان ہو۔اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہو، لیکن جنت جانے کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔بہرحال، اگر تم جہنم چلے بھی گئے وہاں ہمیشہ نہیں رہوگے۔ کیونکہ تم موحّد ہو۔​
میرے آنسو جاری ہوگئے اور میں نے کہا اگر اللہ نے مجھے دوزخ بھیج دیا تو پتہ نہیں میں وہاں کتنا عرصہ رہوں گا؟​
انہوں نے کہا۔ اللہ سے امید رکھو کیونکہ وہ بہت کریم ہے۔ اب ہم تمہارے اعمال پیش کررہے ہیں۔ تمہارے بلوغت کے وقت سے تمہارے ایکسیڈنٹ کے وقت تک۔سب سے پہلے ہم نماز سے شروع کرتے ہیں کیونکہ کافر اور مسلمان کے مابین فرق کرنے والی چیز نماز ہے۔ لیکن فی الحال تمہارے سارے اعمال معلّق ہیں۔
(جاری ہے)
 

عدیل منا

محفلین
میں نے حیرانگی سے پوچھا۔میں نے اپنی زندگی میں بہت سارے نیک اعمال کئے ہیں، آخر میرے اعمال معلّق کیوں ہیں۔اور اس وقت جو میں اپنے جسم میں دنیا جہاں کی گرمی محسوس کررہا ہوں اس کی کیا وجہ ہے؟​
انہوں نے کہا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہارے اوپر قرضہ ہے جو تم نے مرنے سے پہلے ادا نہیں کیا۔​
میں رو پڑا اور کہا۔ کیسے؟ اور یہ جو میرے اعمال معلق ہیں کیا اس کی وجہ بھی یہی ہے؟ میرا سوال ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ قبر میں اچانک روشنی ہوگئی اور ایسی خوشبو پھیل گئی جو میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں سونگھی تھی۔​
اس روشنی سے آواز آئی۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔​
میں نے کہا۔وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔ تم کون ہو؟​
اس نے کہا۔میں "سورۃ المُلک" ہوں۔ میں اسلئے آئی ہوں کہ اللہ سے تیرے لئے مدد طلب کروں۔ کیونکہ تم نے میری حفاظت کی تھی اور تمہارے رسول نے تمہیں بتا دیا تھا کہ جو کوئی "سورۃ المُلک" پڑھے گا قبر میں وہ اس کیلئے نجات کا ذریعہ ہوگی۔​
میں بہت خوش ہوا اور کہا۔میں نے بچپن میں تمہیں حفظ کیا تھا اور میں ہمیشہ نماز میں اور گھرمیں تیری تلاوت کیا کرتا تھا۔مجھے اِس وقت تمہاری اشد ضرورت ہے۔​
ہاں، اسی لئے تو میں آئی ہوں کہ اللہ سے دعا کرولوں کہ تمہاری تکلیف کو آسانی میں تبدیل کردے۔ لیکن تم سے ایک غلطی ہوئی ہے کہ تم نے لوگوں کے قرضے ادا نہیں کئے ہیں۔​
میں نے کہا۔ نجات کا کوئی طریقہ؟​
اس نے کہا۔تین باتوں میں سے کوئی ایک تمہارا مسئلہ حل کرسکتا ہے۔​
میں نے جلدی سے کہا۔وہ کونسے کام ہیں؟​
اس نے کہا۔پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے کوئی کاغذ لکھ کو چھوڑا ہے، جسے دیکھ کر تمہارے ورثہ وہ قرضے ادا کردیں؟​
ورثہ کا نام سن کر میرے آنسو نکل آئے۔مجھے گھر والے امی، ابو، بیوی، بہن، بھائی اور بچے یاد آئے۔ پتہ نہیں، میرے بعد انکا کیا حال ہوگا؟ میری چھوٹی بچی جس کے ساتھ میں نے چاکلیٹ کا وعدہ کیا تھا۔ اب کون اس کیلئے چاکلیٹ لے کر دے گا۔میری بیوی کو لوگ بیوہ کہیں گے۔ کون انکا خیال رکھے گا؟​
سورۃ الملک نے پوچھا۔لگ رہا ہے تم کوئی چیز یاد کر رہے ہو؟​
میں نے کہا۔مجھے میرے اہل وعیال یاد آرہے ہیں کہ میرے بعد انکا کیا حال ہوگا۔​
سورۃ المُلک نے کہا۔جس نے انہیں پیدا کیا ہے وہی روزی بھی دے گا اور وہی نگہبان بھی ہے۔​
سورۃ المُلک کی اس بات سے مجھے کافی تسلی ہوئی۔اس کے بعد میں نے پوچھا۔کیا میں جان سکتا ہوں کہ میرے اوپر ٹوٹل کتنا قرضہ ہے؟​
سورۃ المُلک نے کہا کہ میں نے فرشتے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ایک ہزار سات سو ریال ہیں۔ ہزار آپ کے دوست کے ہیں جس کا نام ابو حسن ہے اور باقی مختلف لوگوں کے ہیں۔​
میں نے کہا۔ مختلف لوگ کون ہیں؟​
اس نے کہا۔"دراصل بلوغت سے لیکر آخری دن تک تم سے کئی بار اس بارے میں کوتاہی ہوئی ہے۔ اس طرح قرضہ بڑھ گیا ہے۔ مثلاََ 5 ریال اس دکاندار کے ہیں جس سے آپ نے کوئی چیز خریدی تھی جبکہ آپ کی عمر پندرہ سال تھی۔ آپ نے اسے کہا تھا پیسے کل دیدونگا اور پھر آپ نے نہیں دئیے۔ اسی طرح لانڈری والے سے آپ نے کپڑے دُھلوائے اوراس کی ادائیگی کرنا بھول گئے۔" کرتے کرتے اس نے سارے لوگوں کے نام بتا دیئے اور سارے مجھے یاد آئے۔​
سورۃ المُلک نے کہا۔"لوگوں کے حقوق کو معمولی سمجھنے اور ان سے تساھل برتنے کی وجہ سے بہت سارے لوگوں پر قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ کیا تمہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر نہیں دی تھی کہ شہید کے اعمال بھی روک لئے جائیں گے جب تک اس کا قرضہ ادا نہیں ہوا ہوگا۔"​
میں نے کہا۔نجات کا کوئی طریقہ ہو سکتا ہے؟​
اس نے کہا۔ پہلا حل تو یہ ہے کہ جس کا قرضہ ہے وہ اپنا قرضہ معاف کردے۔​
میں نے کہا۔ان میں سے اکثر تو ان قرضوں کو بھول گئے ہیں۔ جس طرح میں بھول گیا تھا۔ اور ان کو میرے مرنے کی خبر بھی نہیں ہوگی۔​
اس نے کہا۔پھر دوسراحل یہ ہے کہ تمہارے ورثہ تمہاری طرف سے ادائیگی کردیں۔​
میں نے کہا۔ ان کو میرے قرضوں کی اور میری تکلیف کی کہاں خبر ہے؟ جب کہ میں نے کوئی وصیت نامہ بھی نہیں چھوڑا۔ کیونکہ مجھے موت اچانک آگئی اور مجھے ان ساری مشکلات کا علم نہیں تھا۔​
سورۃ المُلک نے کہا۔ایک اور حل ہوسکتا ہے لیکن میں تھوڑی دیر بعد تمہیں بتا دونگی۔اب میں جاتی ہوں۔​
میں نے کہا۔خدا را مت جائیے کیونکہ تمہارے جانے سے تاریکی ہوجائے گی جو میری موجودہ تکلیف میں اضافے کا باعث بنے گی۔​
اس نے کہا۔میں زیادہ دیر کیلئے نہیں جارہی۔​
وہ چلی گئی اور میں گھپ اندھیرے میں اکیلا رہ گیا۔ ہیبت اور تکلیف کے باوجود میں نے کہا۔ یا ارحم الراحمین۔ اے اجنبیوں کے مولٰی اور ہر اکیلے کے ساتھی۔ اس قبر کی تاریکی میں میری مدد کر۔لیکن فوراًً مجھے خیال آیا کہ میں تو دارالحساب میں ہوں اب دعاؤں کا کیا فائدہ۔​
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ میں نے ایک مانوس آواز سن لی۔ میں نے آواز پہچان لی۔ یہ میرے والد بزرگوار کی آواز تھی جو کہہ رہے تھے۔​
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔​
میں نے کہا ۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔​
لیکن میرا جواب انہیں کون پہنچائے۔ پھر انہوں نےروتے ہوئے کہا۔ اے اللہ! میں اس بیٹے سے راضی ہوں۔تو بھی اس سے راضی ہوجا۔​
میرے والد صاحب جب دعا مانگ رہے تھے تو دعا کے دوران ایک زبردست روشنی میرے قبر میں آئی۔یہ دراصل رحمت کا فرشتہ تھا جو میرے والد کی دعا کو نوٹ کر رہا تھا۔ اور جب تک میرے والد نہیں گئے میرے ساتھ رہا۔جب میرے والد صاحب واپس چلےہوئے تو فرشتے نے کہا کہ تیرے والد کی دعا آسمانوں تک جائے گی اور انشاء اللہ اللہ تعالٰی اس کو قبول کرے گا۔ کیونکہ والد کی دعا اپنے بیٹے کیلئے مستجاب ہوتی ہے۔​
میں نے پوچھا۔جب سے میں مرا ہوں، اب تک کتنا عرصہ گزرگیا؟​
اس نے کہا۔جب سے تمہاری وفات ہوئی ہے، آج تیسرا دن ہے اور اس وقت ظہر کا وقت ہے۔​
میں نے حیرانی سے کہا۔تین دن اور اتنے سارے احداث اور واقعات، اور یہ قبر کی تاریکی جبکہ باہر دنیا روشن ہے۔​
اس نے کہا۔تمہارے سامنے بہت لمبا سفر ہے۔ اللہ تمہارے لئے آسان کردے۔​
میں اپنے آپ کو قابو نہ کرسکا اور رونے لگا اور ایسا رویا کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں کبھی زندگی میں اتنا رویا ہوں۔ میں نے دل میں سوچا کہ اتنا خطرناک سفر اور دنیا میں میری اس قدر اس سے غفلت۔​
فرشتے نے جاتے وقت بتا دیا کہ قبر میں موجودہ روشنی تیرے والد کی دعا کی وجہ سے ہے اور یہ اسی طرح جب تک اللہ چاہے۔ مجھے پتہ چلا کہ والد کا آنا میرے لئے باعثِ رحمت ہے۔ میں نے تمنا کی کاش میرے ابو میری آواز سن لیں اور میں انہیں بتا دوں۔ ابو! میرے قرضے کی ادائیگی کردیں اور میری طرف سے صدقے کردیں۔اللہ کے واسطے! میرے لیے دعا کریں۔ مگر کون ہے جو انہیں بتا دے۔ میں نے محسوس کیا کہ بعض اوقات میرے جسم کی گرمی کم ہوجاتی تھی لیکن اچانک پھر سے بڑھ جاتی تھی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس کا تعلق میرے حق میں لوگوں کی دعائیں ہیں۔​
اچانک میری قبر میں پھر وہی روشنی آئی جو اس سے پہلے میں دیکھ چکا تھا۔ یعنی سورۃ الملک کی۔​
سورۃ الملک نے کہا تمہارے لیے دو خوشخبریاں ہیں۔
(جاری ہے)
 

عدیل منا

محفلین
میں نے اشتیاق کے سات فوراًً کہا۔کیا ہیں؟​
کہا۔تمہارے دوست نے اللہ کی خاطر تمہارا قرضہ معاف کردیا ہے۔​
میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور مجھے پتہ لگا کہ میری گرمی کم ہوجانے کی وجہ شاید یہی تھی۔ میں نے کہا۔دوسری بشارت کیا ہے؟​
اس نے کہا۔ "میں نے اللہ سے بہت درخواست کی مگر وہ انسانوں کے حقوق معاف نہیں کرتا۔البتہ اللہ نے ایک فرشتہ بھیج دیا ہے جو تیرے رشتہ داروں میں سے کسی کو خواب میں آئے گا۔ تاکہ وہ تمہارے قرضوں کے متعلق سمجھ جائیں۔" اس نے پوچھا۔"تمہارے خیال میں کون بہتر ہے جس کو خواب میں فرشتہ کسی شکل میں آئے اور پھر وہ اس کو سچا سمجھ کر قرض کی ادائیگی کرے۔"​
میں نے اپنی امی کے بارے میں سوچا، لیکن پھر سوچا کہ اگر انہوں نے مجھے خواب میں دیکھا تو رونا شروع کردیں گی اور خواب کی تفسیر نہیں سمجھ سکیں گی۔ پھر میں نے تمام رشتہ داروں کے متعلق سوچا اور جو بندہ مجھے بہتر لگا وہ میری بیوی تھی۔کیونکہ وہ ہمیشہ خوابوں کو اہتمام دیا کرتی تھی۔میں نے کہا۔ "میری بیوی اگر مجھے خواب میں دیکھ لے تو ہوسکتا ہے وہ اس کی تفسیر سمجھ جائے۔"​
سورۃ الملک نے کہا۔میں متعلقہ فرشتے کو اطلاع دیتی ہوں اور اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ آپ کی مشکل آسان کردے۔ اسکے بعد وہ چلی گئی۔ اور میری قبر میں بدستور وہ روشنی باقی تھی جو میرے والد کی دعا کی برکت سے آئی تھی۔میں انتظار کرتا رہا، جیسے کہ جیل کے اندر ہوں۔ مجھے ٹائم کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ کیونکہ نا گھڑی، نا نماز، ناکھانا پینا، اور نا ہی کوئی مصروفیت۔ دعائیں مانگنا اور ذکر و اذکار بھی بے کار۔ بعض اوقات لوگوں کو قدموں کی آوازیں سن لیتا تو اندازہ کر لیتا کہ شاید کسی کا جنازہ ہے۔ بعض اوقات لوگوں کے ہنسنے کی آوازیں آجاتی تھیں تو مجھے تعجب ہوتا تھا کہ ان کو اندازہ نہیں ہے کہ ہم کس صورتِ حال سے دوچار ہیں۔​
کافی وقت گزرنے کے بعد اچانک میرے جسم کی گرمی بڑھنی شروع ہوئی اور میں چیخنے لگا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے میں ایک تندور کے اندر ہوں۔ میرے خوف میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ لیکن پھر اچانک گرمی کم ہونی شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ بلکل غائب ہوگئی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسا کیوں ہو جاتا ہے۔​
اس کے بعد ایک بار پھر سورۃ الملک کی روشنی آگئی۔"تمہیں مبارک ہو۔" میں نے کہا۔ "وہ کیسے؟" اس نے کہا۔"خوابوں کا فرشتہ تمہاری بیوی کو خواب میں گیا اور تمہاری بیوی نے خواب میں تمہیں ایک سیڑھی پر چڑھتے ہوئے دیکھا اور دیکھا کہ سات سیڑھیاں باقی ہیں اور تم پریشان کھڑے ہو، آگے نہیں چڑھ سکتے۔ پھر وہ فجر کی نماز سے پہلے اٹھی، تمہاری یاد میں روئی۔ صبح ہوتے ہی ایک عورت سے رابطہ کیا جو خوابوں کی تفسیر کرتی ہے اور اسے اپنا خواب سنایا۔​
اس عورت نے کہا۔"تمہارا شوہر قبر میں تکلیف میں مبتلا ہے۔ کیونکہ اس پر کسی کا قرضہ ہے۔"​
تیری بیوی نے پوچھا۔"کس کا قرضہ ہے اور ہم کیسے ادا کریں!"​
اس نے کہا۔"مجھے نہیں معلوم، اس بارے میں علماء سے پتہ کرو۔"​
پھر تیری بیوی نے ایک شیخ کی اہلیہ سے رابطہ کیا اور اسے ساری بات بتا دی تاکہ وہ شیخ سے جواب پوچھ لے۔ الغرض، شیخ نے کہا۔"میت کی طرف سے صدقہ کردے، ہوسکتا ہے، اللہ تعالٰی اسے قبول کر کے میت کا عذاب ہٹادے۔" تیری بیوی کے پاس سونا تھا، اس نے وہ سونا تیرے والد کو دیا اور تیرے والد نے اس کے ساتھ کچھ مزید رقم لگا کر صدقہ کردیا۔اور یوں تیرا مسئلہ حل ہوگیا۔​
میں نے کہا۔"الحمد اللہ۔ مجھے اس وقت کوئی تکلیف نہیں ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالٰی کے فضل اور تیرے تعاون سے ہوا۔"​
سورۃ الملک نے کہا۔"الحمد اللہ، اب اعمال والے فرشتے تمہارے پاس آجائیں گے۔"​
میں نے کہا۔"کیا اس کے بعد بھی میرے لئے کوئی خطرہ ہے؟"​
اس نے کہا۔ "سفر بہت لمبا ہے۔ہوسکتا ہے، اس میں کئی سال لگ جائیں۔لہٰذا اس کیلئے تیار رہو۔"کئی سال والے جواب نے میری پریشانی میں اضافہ کردیا۔ اس نے کہا۔"بہت سارے لوگ صرف اس وجہ سے قبروں میں عذاب جھیل رہے ہیں کہ وہ بعض باتوں کو معمولی سمجھتے ہیں۔ جبکہ اللہ کے نزدیک وہ معمولی نہیں ہیں۔​
میں نے کہا۔ مثلاََ کونسے اعمال؟​
اس نے کہا۔ "بہت سارے لوگوں پر قبروں میں اسلئے عذاب ہے کہ وہ پیشاب سے نہیں بچتے تھے۔ گندگی کی حالت میں اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے تھے۔اسی طرح چغلی، چوری، سود اور یتیم کے مال کی وجہ سے۔"پھر اس نے کہا۔"کچھ لوگوں پر عذاب قبر اسلئے ہے تاکہ قیامت آنے سے پہلے ان کا کھاتہ صاف ہوجائے اور کچھ لوگوں پر قیامت تک عذاب رہے گا اور پھر وہ جہنم میں داخل کئے جائیں گے۔​
میں نے کہا۔" اللہ تعالٰی کی سزا سے بچنے کی کوئی سبیل ہے؟"​
اس نے کہا۔"عمل تو تمہارا منقطع ہو چکا ہے، البتہ تین کام ایسے ہیں جو تمہیں اب بھی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ اہل و عیال کی دعا اور نیک عمل۔ اس کے علاوہ کوئی کام جو تم نے دنیا میں کیا ہے۔ جو انسانوں کیلئے نفع بخش ہو۔ مثلاََ مسجد کی تعمیر۔ اس سے تم مرنے کے بعد بھی مستفید ہوگے۔ اسی طرح اگر علم کی نشرواشاعت میں تم نے حصہ لیا ہو تو وہ اب بھی تمہارے لئے نفع بخش ہے۔​
میں نے سوچا۔ میں کتنا بدبخت ہوں کہ دنیا میں کتنے عمل کے مواقع تھے جن سے میں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور آج بے یار و مددگار قبر میں پڑا ہوں۔ میرا دل چاہا کہ میں چیخ چیخ کر لوگوں کو پکاروں کہ اے لوگو! قبر کیلئے تیاری کرلو۔ خدا کی قسم! اگر تم لوگوں نے وہ کچھ دیکھا جو میں نے دیکھا تو مسجدوں سے باہر نہیں نکلو گے اور اللہ کی راہ میں سارا مال لگا دوگے۔​
سورۃ الملک نے کہا۔"مردہ لوگوں کی نیکیاں عام طور پر شروع کے دنوں میں بہت ہوتی ہیں لیکن اس کے بعد رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔"​
میں نے پوچھا۔" کیا یہ ممکن ہے کہ میرے گھروالے اور میرے رشتہ دار مجھے بھول جائیں۔ مجھے یقین نہیں آرہا کہ وہ اتنی جلدی مجھے جائیں گے۔"​
اس نے کہا۔ "نہیں، ضرور ایسا ہوگا۔ بلکہ تم دیکھوگے کہ شروع میں تمہاری قبر پر تمہارے اہل و عیال زیادہ آئیں گے لیکن جب دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہونگے تو تمہاری قبر پر آنے والا ایک بندہ بھی نہیں ہوگا۔"​
مجھے یاد آیا کہ جب ہمارے دادا کا انتقال ہوا تھا تو ہم ہر ہفتہ انکی قبر پر جایا کرتے تھے۔ پھر ہر مہینے میں ایک بار اور پھر ہم انہیں بھول گئے۔جب میں زندہ تھا تو مُردوں کو بھول جاتا تھا۔ لیکن آج میں خود اس حالت کو پہنچ چکا ہوں۔​
دن، ہفتے اور مہینے گزرتے گئے اور میری مدد کیلئے کوئی نا تھا سوائے چند نیک اعمال کے جو مجھے پہنچتے تھے۔ یا میرے والد، بھائی اور دوسرے رشتہ داروں کا میری قبر پر آنا جو رفتہ رفتہ کم ہوتا جا رہا تھا۔ زیادہ تر مجھے اپنی والدہ کی دعا پہنچتی رہی جو تہجد میں میرے لئے کرتی رہیں۔ بخدا وہ دعا میرے لئے طمانیت کا باعث ہوتی تھی۔​
نیک اعمال کا آنا کم ہوتا چلا گیا۔ نا معلوم کیا وجہ تھی کہ سورۃ الملک کا آنا بھی بند ہوگیا۔ میری قبر میں پھر سے اندھیرا چھا گیا۔ مجھے بعض گناہ یاد آئے جو میں نے کئے تھے۔ ایک ایک دن اور ایک ایک گھڑی یاد آرہی تھی۔ مجھے اپنے گناہ پہاڑ کے برابر لگ رہے تھے۔ اپنے آپ کو ملامت کر رہا تھا۔ کتنے گناہ ہیں جو میں نے بڑی دلیری سے کئے ہیں۔ کتنی نمازیں جو میری فوت ہوگئی ہیں۔ کتنی فجر کی نمازیں ہیں جو میں نے غفلت کی وجہ سے نہیں پڑھی ہیں۔ یہ سارے گناہ یاد کرکے میں اتنا رویا کہ مجھے ٹائم کا چونکہ اندازہ نہیں تھا اسلئے اگر میں کہوں کہ مہینوں رویا ہونگا تو مبالغہ نہیں ہوگا۔​
ایک دن اچانک ایسی روشنی آئی جیسے سورج نکل چکا ہو اور میں نے فرشتوں کی آوازیں سنیں جو ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے کہ میرے پاس سورۃ الملک آئی اور خوشخبری سنائی کہ ماہ رمضان شروع ہوگیا ہے اور یہ رحمت اور معافی کا مہینہ ہے۔ اس میں بہت سارے مردے مسلمانوں کی دعاؤں کی برکت سے نجات پا لیتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوا کہ اللہ تعالٰی انسانوں پر کتنا مہربان ہے لیکن انسان ہے کہ گمراہی پر تُلا ہوا ہے۔​
سورۃ الملک نے بتایا کہ اللہ تعالٰی کسی کو آگ میں نہیں ڈالنا چاہتا لیکن انسانوں کی اپنی حماقت ہوتی ہے کہ وہ گناہ کرجاتے ہیں جو ان کی سزا کا موجب ہوتے ہیں۔پھر اس نے بتایا کہ اب تھوڑی دیر بعد مسلمان نماز پڑھیں گے اور تم ان کی آوازیں سنو گے۔ سورۃ الملک چلی گئی اور میری قبر میں بدستور روشنی تھی۔ میں نے پہلی بار مسجد سے آنے والی آواز سن لی۔ اپنی زندگی کو یاد کیا اور تراویح کو یاد کیا تو بہت رویا۔ میں نے سنا کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں اور پھر میں نے امام کی دعا سنی اور محسوس کیا کہ وہ دعا سیدھی قبول ہورہی ہے۔ کیونکہ مجھے اس سے کافی خوشی اور راحت مل رہی تھی۔میں روتا جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ آمین آمین پڑھتا جا رہا تھا۔اسی طرح رمضان کا سارا مہینہ بہت سکون اور راحت سے گزرا۔​
پھر ایک دن میری قبر میں انسان کی شکل میں ایک آدمی آیا جس سے بہت تیز خوشبو آرہی تھی۔ میں حیران ہوا کیونکہ مرنے کے بعد یہ پہلا انسان تھا جو میں دیکھ رہا تھا۔
(جاری ہے)
 

عدیل منا

محفلین
اس نے مجھے سلام کیا اور میں نے جواب دیا۔​
اس نے کہا۔ "میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ اللہ تعالٰی نے تمہارے گناہ معاف کئے ہیں۔"​
میں نے کہا۔ "اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آپ کون ہیں؟ میں پہلی دفعہ قبر میں انسان کی شکل دیکھ رہا ہوں۔"​
اس نے کہا۔"میں انسان نہیں ہوں۔"​
میں نے پوچھا۔"تو کیا آپ فرشتے ہیں؟"​
اس نے کہا۔"نہیں، میں دراصل تمہارے نیک اعمال ہوں۔ تمہاری نمازیں، تمہارے روزے، حج، انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ کو اللہ تعالٰی نے اس شکل میں تمہارے پاس بھیجا ہے۔"​
میں بہت خوش ہوا اور اللہ کا شکر ادا کیا اور پوچھا۔"تم اتنے لیٹ کیوں آئے۔"​
اس نے کہا۔"تمہارے گناہ اور تمہارے قرضے میری راہ میں رکاوٹ تھے اور جب اللہ تعالٰی نے معافی کا اعلان کردیا تو میرے لئے راستہ کھل گیا۔"​
میں نے پوچھا۔"توکیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالٰی مجھے جنت دے گا؟"​
اس نے کہا۔"یہ بات اللہ تعالٰی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔"پھر اس نے کہا۔"قیامت کے دن میزان سے تمہارے جنت اور دوزخ جانے کا پتہ چلے گا۔" اس کے بعد عمل صالح نے کہا۔"تمہارے کچھ نیک اعمال بلکل زندگی کی آخری گھڑیوں میں آگئے۔"​
میں نے پوچھا۔"وہ کیا ہیں؟"​
اس نے کہا۔"اگر تمہیں یاد ہو تو مرتے وقت اللہ تعالٰی نے تمہیں توفیق دی اور تم نے کلمہ تشہد پڑھا۔ تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ فرشتوں کو کتنی خوشی ہوئی کہ تمہاری زندگی کا خاتمہ توحید پر ہوا جبکہ شیطان تمہیں نصرانیت اور یہودیت کی تلقین کررہا تھا۔اس وقت تمہارے اردگرد دو قسم کے فرشتے موجود تھے۔ ایک وہ جو مسلمانوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں۔ جب تم نے کلمہ پڑھا تو وہ فرشتے چلے گئے جو کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور وہ ٹھہر گئے جو مسلمانوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور پھر انہوں نے تمہاری روح قبض کرلی۔"​
میں نے پوچھا۔"اس کے علاوہ بھی کوئی نیکی ہے؟"​
اس نے کہا۔"ہاں، جب تم نے ڈرائیور کو سگریٹ چھوڑنے کی نصیحت کی تو آج جو خوشبو تم سونگھ رہے ہو یہ اس نصیحت کی بدولت ہے۔اس کے علاوہ اپنی والدہ کو تمہاری کال اور اس کے ساتھ جو بھی تم نے باتیں کیں، اللہ تعالٰی نے ہر بات کے بدلے تمہارے لئے نیکیاں لکھ دیں۔"​
مجھے یاد آیا، جو باتیں میں نے والدہ سے کی تھیں۔ مجھے پتہ ہوتا تو میں ان باتوں میں گھنٹے لگا دیتا۔​
پھر عمل صالح نے بتایا کہ زندگی کے آخری وقت میں ایک گناہ بھی تمہارے کھاتے میں لکھا گیا۔میں حیران ہوا اور پوچھا، وہ کیسے؟ وہ بولا۔ تم نے بچی سے کہا۔ میں تھوڑی دیر میں آجاؤنگا۔ اس طرح تم نے اسے جھوٹ بول دیا۔ کاش مرنے سے پہلے تم توبہ کر لیتے۔​
میں نے کہا۔ "اللہ کی قسم ! میرا ارادہ جھوٹ کا نہیں تھا بلکہ میرا خیال یہ تھا کہ اس طرح وہ میرے آنے تک صبر کرلے گی۔"​
اس نے کہا۔ "جو بھی ہو، آدمی کو سچ بولنا چاہئے، کیونکہ اللہ تعالٰی سچے لوگوں کو پسند کرتا ہے اور جھوٹ بولنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔ لیکن لوگ اس میں بہت تساھل برتتے ہیں۔" پھر اس نے کہا۔"تمہاری وہ بات بھی گناہ میں لکھدی گئی ہے جو تم نے ائیر پورٹ میں کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے شخص سے کہدی کہ 'اللہ تمہارا حساب کردے' اس طرح تم نے ایک مسلمان کا دل دکھادیا۔"​
میں حیران ہوگیا کہ اتنی اتنی معمولی باتیں بھی ثواب اور گناہ کا باعث بنتی ہیں۔​
عمل صالح نے مزید بتایا کہ انسانوں پر اللہ تعالٰی کا بہت بڑا احسان ہے کہ جب وہ ایک نیکی کریں تو اللہ تعالٰی اسے 10 گناہ بلکہ 700 گناہ تک بڑھا دیتا ہے اور بہترین اعمال وہ ہیں جو اللہ تعالٰی کو زیادہ محبوب ہیں۔​
میں نے کہا۔"پنج وقتہ نماز کے بارے میں کیا ہے؟"​
عمل صالح نے کہا۔​
مجھے یاد آیا کہ جب ہمارے دادا کا انتقال ہوا تھا تو ہم ہر ہفتہ انکی قبر پر جایا کرتے تھے۔ پھر ہر مہینے میں ایک بار اور پھر ہم انہیں بھول گئے۔جب میں زندہ تھا تو مُردوں کو بھول جاتا تھا۔ لیکن آج میں خود اس حالت کو پہنچ چکا ہوں۔
دن، ہفتے اور مہینے گزرتے گئے اور میری مدد کیلئے کوئی نا تھا سوائے چند نیک اعمال کے جو مجھے پہنچتے تھے۔ یا میرے والد، بھائی اور دوسرے رشتہ داروں کا میری قبر پر آنا جو رفتہ رفتہ کم ہوتا جا رہا تھا۔ زیادہ تر مجھے اپنی والدہ کی دعا پہنچتی رہی جو تہجد میں میرے لئے کرتی رہیں۔ بخدا وہ دعا میرے لئے طمانیت کا باعث ہوتی تھی۔
نیک اعمال کا آنا کم ہوتا چلا گیا۔ نا معلوم کیا وجہ تھی کہ سورۃ الملک کا آنا بھی بند ہوگیا۔ میری قبر میں پھر سے اندھیرا چھا گیا۔ مجھے بعض گناہ یاد آئے جو میں نے کئے تھے۔ ایک ایک دن اور ایک ایک گھڑی یاد آرہی تھی۔ مجھے اپنے گناہ پہاڑ کے برابر لگ رہے تھے۔ اپنے آپ کو ملامت کر رہا تھا۔ کتنے گناہ ہیں جو میں نے بڑی دلیری سے کئے ہیں۔ کتنی نمازیں جو میری فوت ہوگئی ہیں۔ کتنی فجر کی نمازیں ہیں جو میں نے غفلت کی وجہ سے نہیں پڑھی ہیں۔ یہ سارے گناہ یاد کرکے میں اتنا رویا کہ مجھے ٹائم کا چونکہ اندازہ نہیں تھا اسلئے اگر میں کہوں کہ مہینوں رویا ہونگا تو مبالغہ نہیں ہوگا۔
ایک دن اچانک ایسی روشنی آئی جیسے سورج نکل چکا ہو اور میں نے فرشتوں کی آوازیں سنیں جو ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے کہ میرے پاس سورۃ الملک آئی اور خوشخبری سنائی کہ ماہ رمضان شروع ہوگیا ہے اور یہ رحمت اور معافی کا مہینہ ہے۔ اس میں بہت سارے مردے مسلمانوں کی دعاؤں کی برکت سے نجات پا لیتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوا کہ اللہ تعالٰی انسانوں پر کتنا مہربان ہے لیکن انسان ہے کہ گمراہی پر تُلا ہوا ہے۔
سورۃ الملک نے بتایا کہ اللہ تعالٰی کسی کو آگ میں نہیں ڈالنا چاہتا لیکن انسانوں کی اپنی حماقت ہوتی ہے کہ وہ گناہ کرجاتے ہیں جو ان کی سزا کا موجب ہوتے ہیں۔پھر اس نے بتایا کہ اب تھوڑی دیر بعد مسلمان نماز پڑھیں گے اور تم ان کی آوازیں سنو گے۔ سورۃ الملک چلی گئی اور میری قبر میں بدستور روشنی تھی۔ میں نے پہلی بار مسجد سے آنے والی آواز سن لی۔ اپنی زندگی کو یاد کیا اور تراویح کو یاد کیا تو بہت رویا۔ میں نے سنا کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں اور پھر میں نے امام کی دعا سنی اور محسوس کیا کہ وہ دعا سیدھی قبول ہورہی ہے۔ کیونکہ مجھے اس سے کافی خوشی اور راحت مل رہی تھی۔میں روتا جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ آمین آمین پڑھتا جا رہا تھا۔اسی طرح رمضان کا سارا مہینہ بہت سکون اور راحت سے گزرا۔
پھر ایک دن میری قبر میں انسان کی شکل میں ایک آدمی آیا جس سے بہت تیز خوشبو آرہی تھی۔ میں حیران ہوا کیونکہ مرنے کے بعد یہ پہلا انسان تھا جو میں دیکھ رہا تھا۔
اس نے مجھے سلام کیا اور میں نے جواب دیا۔
اس نے کہا۔ "میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ اللہ تعالٰی نے تمہارے گناہ معاف کئے ہیں۔"
میں نے کہا۔ "اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آپ کون ہیں؟ میں پہلی دفعہ قبر میں انسان کی شکل دیکھ رہا ہوں۔"
اس نے کہا۔"میں انسان نہیں ہوں۔"
میں نے پوچھا۔"تو کیا آپ فرشتے ہیں؟"
اس نے کہا۔"نہیں، میں دراصل تمہارے نیک اعمال ہوں۔ تمہاری نمازیں، تمہارے روزے، حج، انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ کو اللہ تعالٰی نے اس شکل میں تمہارے پاس بھیجا ہے۔"
میں بہت خوش ہوا اور اللہ کا شکر ادا کیا اور پوچھا۔"تم اتنے لیٹ کیوں آئے۔"
اس نے کہا۔"تمہارے گناہ اور تمہارے قرضے میری راہ میں رکاوٹ تھے اور جب اللہ تعالٰی نے معافی کا اعلان کردیا تو میرے لئے راستہ کھل گیا۔"
میں نے پوچھا۔"توکیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالٰی مجھے جنت دے گا؟"
اس نے کہا۔"یہ بات اللہ تعالٰی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔"پھر اس نے کہا۔"قیامت کے دن میزان سے تمہارے جنت اور دوزخ جانے کا پتہ چلے گا۔" اس کے بعد عمل صالح نے کہا۔"تمہارے کچھ نیک اعمال بلکل زندگی کی آخری گھڑیوں میں آگئے۔"
میں نے پوچھا۔"وہ کیا ہیں؟"
اس نے کہا۔"اگر تمہیں یاد ہو تو مرتے وقت اللہ تعالٰی نے تمہیں توفیق دی اور تم نے کلمہ تشہد پڑھا۔ تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ فرشتوں کو کتنی خوشی ہوئی کہ تمہاری زندگی کا خاتمہ توحید پر ہوا جبکہ شیطان تمہیں نصرانیت اور یہودیت کی تلقین کررہا تھا۔اس وقت تمہارے اردگرد دو قسم کے فرشتے موجود تھے۔ ایک وہ جو مسلمانوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں۔ جب تم نے کلمہ پڑھا تو وہ فرشتے چلے گئے جو کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور وہ ٹھہر گئے جو مسلمانوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور پھر انہوں نے تمہاری روح قبض کرلی۔"
میں نے پوچھا۔"اس کے علاوہ بھی کوئی نیکی ہے؟"
اس نے کہا۔"ہاں، جب تم نے ڈرائیور کو سگریٹ چھوڑنے کی نصیحت کی تو آج جو خوشبو تم سونگھ رہے ہو یہ اس نصیحت کی بدولت ہے۔اس کے علاوہ اپنی والدہ کو تمہاری کال اور اس کے ساتھ جو بھی تم نے باتیں کیں، اللہ تعالٰی نے ہر بات کے بدلے تمہارے لئے نیکیاں لکھ دیں۔"
مجھے یاد آیا، جو باتیں میں نے والدہ سے کی تھیں۔ مجھے پتہ ہوتا تو میں ان باتوں میں گھنٹے لگا دیتا۔
پھر عمل صالح نے بتایا کہ زندگی کے آخری وقت میں ایک گناہ بھی تمہارے کھاتے میں لکھا گیا۔میں حیران ہوا اور پوچھا، وہ کیسے؟ وہ بولا۔ تم نے بچی سے کہا۔ میں تھوڑی دیر میں آجاؤنگا۔ اس طرح تم نے اسے جھوٹ بول دیا۔ کاش مرنے سے پہلے تم توبہ کر لیتے۔
میں نے کہا۔ "اللہ کی قسم ! میرا ارادہ جھوٹ کا نہیں تھا بلکہ میرا خیال یہ تھا کہ اس طرح وہ میرے آنے تک صبر کرلے گی۔"
اس نے کہا۔ "جو بھی ہو، آدمی کو سچ بولنا چاہئے، کیونکہ اللہ تعالٰی سچے لوگوں کو پسند کرتا ہے اور جھوٹ بولنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔ لیکن لوگ اس میں بہت تساھل برتتے ہیں۔" پھر اس نے کہا۔"تمہاری وہ بات بھی گناہ میں لکھدی گئی ہے جو تم نے ائیر پورٹ میں کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے شخص سے کہدی کہ 'اللہ تمہارا حساب کردے' اس طرح تم نے ایک مسلمان کا دل دکھادیا۔"
میں حیران ہوگیا کہ اتنی اتنی معمولی باتیں بھی ثواب اور گناہ کا باعث بنتی ہیں۔
عمل صالح نے مزید بتایا کہ انسانوں پر اللہ تعالٰی کا بہت بڑا احسان ہے کہ جب وہ ایک نیکی کریں تو اللہ تعالٰی اسے 10 گناہ بلکہ 700 گناہ تک بڑھا دیتا ہے اور بہترین اعمال وہ ہیں جو اللہ تعالٰی کو زیادہ محبوب ہیں۔
میں نے کہا۔"پنج وقتہ نماز کے بارے میں کیا ہے؟"
عمل صالح نے کہا۔"نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج وغیرہ تو فرائض ہیں، میں ان کے علاوہ بھی تمہیں ایسے اعمال بتا دوں گا جو اللہ تعالٰی کو بہت محبوب ہیں۔"
میں نے کہا۔"وہ کیا ہیں؟"
بولا۔"تمہاری عمر جب 20سال تھی تم عمرے کیلئے رمضان کے مہینے میں گئے تھے۔ تم نے 100ریال کی افطاری خرید کر لوگوں میں بانٹ دی۔ اس کا بہت بڑا اجر تم نے کمایاہے۔ اسی طرح ایک بار ایک بوڑھی عورت کو کھانا کھلایا تھا۔ وہ بوڑھی عورت ایک نیک عورت تھی۔ اس نے تمہیں جو دعائیں دی ہیں، اس کے بدلے اللہ تعالٰی نے تمہیں بہت نیکیاں اور اجر دیا ہے۔میں تمہیں ایک اور بات بتا دوں۔ ایک بار تم مدینہ جا رہے تھے، راستے میں تمہیں ایک آدمی کھڑا ہو ملا، جس کی گاڑی خراب ہوئی تھی۔ تم نے اس کی مدد کی۔ اللہ تعالٰی کو تمہاری وہ نیکی بہت پسند آئی اور تمہیں اس کا بہت بڑا اجر ملا ہے۔"اس کے بعد میری قبر کھل گئی اور اس میں بہت زیادہ روشنی آگئی اور فرشتوں کے گروہ درگروہ آتے ہوئے نظر آئے۔عمل صالح نے کہا۔"آج لیلۃ القدر ہے۔"

یہ کہانی عبرت کیلئے لکھی گئی ہے۔ لیکن احادیث کے بیان کے مطابق ہے۔
1۔کیا اس کہانی کے سننے کے بعد بھی ہم آخرت کیلئے فکرمند نہیں ہونگے؟
2۔کیا اس کہانی کے بعد بھی ہم گناہ کریں گے؟
3۔کیا اس کہانی کے سننے کے بعد بھی ہم فجر کی نماز سے غیر حاضر ہونگے؟
4۔کیا جماعت کی زندگی ہمارے لئے باعث رحمت نہیں ہے، جہاں وقتاََ فوقتاََ اس طرح کی تذکیر سننے کو ملتی ہے۔
أقول قولي هذا واستغفرالله لي ولكم فاستغفروه يغفر لكم إنه هو الغفور الرحيم
 

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ عدیل بھائی۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

یوسف-2

محفلین
جزاک اللہ عدیل بھائی!
پڑھتے ہوئے آنکھیں نم ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس دھاگہ پر اجر دے اور ہمیں فکر آخرت کی توفیق عطا کرے۔ آمین
 
جزاک اللہ، کتنا اہم ہے وہ وقت جو ہمارے ہاتھ میں آج ہے اور کل کس نے دیکھی ہے، اللہ کرے کہ سب مسلمان اس وقت کی قدر کریں کہ وقت زندگی ہے۔
آج کل اسی موضوع پر ایک کتاب "جب زندگی شروع ہوگی" بہت مقبول ہو رہی ہے خوش قسمتی سے انٹرنیٹ پر یہ دستیاب بھی ہے اس کا لنک یہ ہے
http://ia601205.us.archive.org/15/items/ISLAHI-JAB_ZINDAGI_SHURU_HO_GI/JubZindagiShuruHogi_HQ.pdf اچھی کوالٹی

اور میڈیم کوالٹی
http://ia601205.us.archive.org/15/items/ISLAHI-JAB_ZINDAGI_SHURU_HO_GI/JubZindagiShuruHogi_MQ.pdf
 
Top