آج کی حدیث

سیما علی

لائبریرین
6dhAgFn.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 208

´روزانہ وعظ و نصیحت سے گریز`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثَلَاثًا ". رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ . . .»
”. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب گفتگو فرماتے تھے تو تین دفعہ فرماتے اور جب کسی قوم اور جماعت کے پاس تشریف لاتے تو تین دفعہ سلام کرتے۔ ا س حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 208]

تخريج الحدیث:
[صحيح بخاري 95]

فقہ الحدیث:
➊ تقریر، تبلیغ اور نصیحت وغیرہ کے دوران میں اہم بات دو تین دفعہ دہرانی چاہئیے تاکہ مخاطب اسے سمجھ کر یاد کر لے۔
➋ تین دفعہ سلام کہنے سے مراد کسی گھر یا جگہ میں داخل ہونے کے لئے سلام کہنا ہے۔ جیسا کہ امام بخاری کی کتاب الاستئذان میں تبویب سے ظاہر ہے اور علمائے کرام نے بھی یہی مفہوم بیان کیا ہے۔
➌ منصب کے لحاظ سے کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو، دوسرے کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت طلب کرنا ضروری ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 208
 

سیما علی

لائبریرین
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3115
´مدینہ کی فضیلت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے، اور ہم اس سے، اور وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ پر قائم ہے، اور عیر (یہ بھی ایک پہاڑ ہے) جہنم کے باغات میں سے ایک باغ پر قائم ہے۔‏‏‏‏“ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3115]

اردو حاشہ: 1۔
علامہ زہیر شاویش نے فرمایا:
عیر ایک بہت چھوٹا سا پہاڑ ہےجو مدینہ ائیر پورٹ کے قریب واقع ہے۔ 2۔
صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی نظر احد پہاڑ پر پڑی تو فرمایا:
یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ (صحيح مسلم الحجباب فضل المدينه۔
۔
۔
۔
وبيان حدود حرمهاحديث: 1365)
 

سیما علی

لائبریرین
3sFx7t7.jpg
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3591
´ام سلمہ رضی الله عنہا کی دعا کا بیان`
زیاد بن علاقہ کے چچا قطبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من منكرات الأخلاق والأعمال والأهواء» ”اے اللہ! میں تجھ سے بری عادتوں، برے کاموں اور بری خواہشوں سے پناہ مانگتا ہوں۔‏‏‏‏“ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3591]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! میں تجھ سے بری عادتوں،
برے کاموں اور بری خواہشوں سے پناہ مانگتا ہوں۔
 

سیما علی

لائبریرین
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 69

´روایت حدیث `
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور خوش کرو اور نفرت نہ دلاؤ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 69]

تشریح:
معلّمین و اساتذہ و واعظین و خطباء اور مفتی حضرات سب ہی کے لیے یہ ارشاد واجب العمل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 69
bar.gif

66676869707172
0nGAgJu.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1439
´حدود کا نفاذ سزا یافتہ کے گناہوں کا کفارہ ہے۔`
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مجلس میں موجود تھے، آپ نے فرمایا: ”ہم سے اس بات پر بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ شرک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے اور زنا نہ کرو گے، پھر آپ نے ان کے سامنے آیت پڑھی ۱؎ اور فرمایا: جو اس اقرار کو پورا کرے گا اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور جو ان میں سے کسی گناہ کا مرتکب ہوا پھر اس پر حد قائم ہو گئی تو یہ اس کے لیے کفارہ ہو جائے گا ۲؎، اور جس نے کوئی گناہ کیا اور اللہ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو وہ اللہ کے اختیار میں ہے، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو اسے بخش دے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1439]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ آیت کس سورہ کی تھی؟ اس سلسلہ میں بصراحت کسی صحابی سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے،
کیونکہ شرک باللہ،
چوری اور زنا نہ کرنے کی صورت میں پورا پورا اجر ملنے کا ذکر قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں ہے اور یہ کہنا کہ فلاں سورہ کی فلاں آیت ہی مقصود ہے تو اس کے ثبوت کے لیے کسی صحابی سے اس کی تصریح ضروری ہے۔
اکثر علماء نے اس آیت سے مراد سورۃ ممتحنہ کی آیت رقم 12 مراد لیا ہے،
جو یہ ہے ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَائكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ﴾ إلى آخره-
2؎:
اس حدیث میں جو یہ عموم پایا جارہا ہے کہ جو ان میں سے کسی گناہ کا مرتکب ہو پھر اس پر حد قائم ہو تو یہ حد اس کے لیے کفارہ ہے تو یہ عموم آیت کریمہ:
﴿إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء﴾ (النساء: 116) سے خاص ہے،
لہٰذا ارتداد کی بنا پر اگر کسی کا قتل ہوا تو یہ قتل اس کے لیے باعث کفارہ نہیں ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1439
bar.gif

15161718192021
 

سیما علی

لائبریرین
سیدنا انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تَسحَّروا فإن في السحور برکة 25
''سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہوتی ہے۔''
 

سیما علی

لائبریرین
تم نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھنے آئے ہو !

حضرت وابِصَہ اَسَدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں حضورِ اکرمصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ، میرا ارادہ یہ تھا کہ آج میں نیکی اور گناہ میں سے کوئی ایسی شے نہیں چھوڑو ں گا کہ جس کے بارے میں سوال نہ کر لوں۔میں لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جانے لگا تو صحابَۂ کرام نے کہا : اے وابِصَہ ! رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے دور رہو۔ میں نے کہا : دَعُونِي اَدْنُو مِنْهُ فَاِنَّهٗ مِنْ اَحَبِّ النَّاسِ اِليَّ مجھے چھوڑدو ، مجھے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قریب ہولینے دو کیونکہ آپ مجھے لوگوں میں سے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اُدْنُ يَا وَابِصَةُ اے وابصہ ! قریب آجاؤ۔ ( حضور نے دومرتبہ اس طرح فرمایا )

حضرت وابِصَہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں اتنا قریب ہوا کہ میرے گھٹنے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک گھٹنوں کو چھونے لگے۔نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اے وابصہ ! میں تمہیں اس چیز کے بارے میں بتاؤں کہ جس کے متعلق تم پوچھنے آئے ہو ؟ میں نے عرض کی : یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! آپ بتادیجئے۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جِئْتَ تَسْاَلُنِي عَنِ الْبِرِّ وَالْاِثْمِ یعنی تم نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھنے آئے ہو۔ میں نے عرض کی : جی ہاں ! تو آپ نے اپنی تین مبارک انگلیاں جمع کرکے میرے سینے پر مارتے ہوئے فرمایا : يَا وَابِصَةُ اِسْتَفْتِ نَفْسَكَ یعنی اے وابصہ ! اپنے آپ سے پوچھو ! نیکی وہ ہے جس پر دل مطمئن ہو اور طبیعت جمے اور گناہ وہ ہے جو طبیعت میں چبھے اور دل میں کھٹکے اگرچہ لوگ تمہیں فتویٰ دیں یا تم سے لیں۔

( مسندامام احمد ، 6 / 292 ، حدیث : 18033 )
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں :۔
ایک بار صفہ میں دوران تعلیم ہی شدید بھوک پیاس کا دورآیا ۔ ایسی حالت میں کہیں سے دودھ کا ایک پیالہ آیا تو دل میں خواہش آئی کہ یہ مجھے مل جائے لیکن نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ ابو ہریرہ جتنے لوگ بیٹھے ہیں دائیں
طر ف سے شروع کرو اور سب کو پلاتے جاؤ۔ سب نے جب سیر ہو کر پی لیا تو پھر مجھے حکم دیا کہ تم بھی خوب پیو میں نے سیر ہو کر پیا۔ آخر میں نبی کریم ﷺ نے نوش فرمایا ۔[13]۔ نبی کریم ﷺ کی تربیت نفوس کے حوالے سے اس واقعہ میں کئی نکات ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ضبط نفس کا صرف درس ہی نہیں دیا بلکہ تربیت بھی کی جا رہی ہے۔ تعمیر شخصیت اورمکارم اخلاق میں ضبط نفس کی اہمیت اور اثرات ایک مسلمہ امر ہے کہ اس واقعہ میں ضبط نفس نمایاں طور پر نظر آ رہا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا حضرت ابوہریرہ ؓکو باوجود بھوک اور پیاس کے دیگر افراد کو پہلے دودھ پیش کرنے کا حکم " ویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصہ[14])کا عملی نمونہ ہے ۔ اس ایک واقعہ میں ایثار، صبر ، ضبط نفس ، اتباع معلم ایسی خوبیاں واضح طور پر نظر آ رہی ہیں۔ یہ اور اس طرح کے دیگر محاسن اخلاق نبی کریم ﷺ کے طریقہ تدریس و تربیت میں نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو افراد براہ راست صفہ کی درس گاہ میں آپ کے سامنے زانوے تلمذ طے کیے رہے وہ تمام کے تمام مختلف معاشروں میں پھیل کر معلم انسانیت ہی کے طریقہ تدریس کے مطابق تعلیم و تعلم کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔ فرد اور معاشرہ کو ظلمتوں سے نکا ل کر راہِ حق پر گامزن کرنے میں ان حضرات کو جو کامیابی حاصل ہوئی اُس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ زبان سے افکار محمدیﷺ پیش کرتے تھے اور کردار سے اخلاقی محمدی پیش کرتے تھے ۔
 

سیما علی

لائبریرین
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تشہد کے بعد یہ کلمات کہتے تھے:
’أَحْسَنُ الْکَلَامِ کَلَامُ اللّٰہِ، وَأَحْسَنُ الْہَدْيِ ہَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ ۔
’’سب سے اچھا کلام اللہ کا کلام ہے اور سب سے بہتر طریقہ ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔‘‘(سنن النسائي : 1311، وسندہٗ صحیحٌ)
 

سیما علی

لائبریرین
حدیث نمبر: 5432
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن شيبة، قال: اخبرني ابن ابي الفديك، عن ابن ابي ذئب، عن المقبري، عن ابي هريرة، قال:" كنت الزم النبي صلى الله عليه وسلم لشبع بطني حين لا آكل الخمير ولا البس الحرير ولا يخدمني فلان ولا فلانة والصق بطني بالحصباء واستقرئ الرجل الآية وهي معي كي ينقلب بي فيطعمني، وخير الناس للمساكين جعفر بن ابي طالب ينقلب بنا فيطعمنا ما كان في بيته حتى إن كان ليخرج إلينا العكة ليس فيها شيء فنشتقها فنلعق ما فيها".
ہم سے عبدالرحمٰن بن شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن ابی الفدیک نے خبر دی، انہیں ابن ابی ذئب نے، انہیں مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں پیٹ بھرنے کے بعد ہر وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہا کرتا تھا۔ اس وقت میں روٹی نہیں کھاتا تھا۔ نہ ریشم پہنتا تھا، نہ فلاں اور فلانی میری خدمت کرتے تھے (بھوک کی شدت کی وجہ سے بعض اوقات) میں اپنے پیٹ پر کنکریاں لگا لیتا اور کبھی میں کسی سے کوئی آیت پڑھنے کے لیے کہتا حالانکہ وہ مجھے یاد ہوتی۔ مقصد صرف یہ ہوتا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائے اور کھانا کھلا دے اور مسکینوں کے لیے سب سے بہترین شخص جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے، ہمیں اپنے گھر ساتھ لے جاتے اور جو کچھ بھی گھر میں ہوتا کھلا دیتے تھے۔ کبھی تو ایسا ہوتا کہ گھی کا ڈبہ نکال کر لاتے اور اس میں کچھ نہ ہوتا۔ ہم اسے پھاڑ کر اس میں جو کچھ لگا ہوتا چاٹ لیتے تھے۔
 

سیما علی

لائبریرین

سنن ابو داؤد

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ ہی کی رضا کے لیے محبت کی، اللہ ہی کی رضا کے لیے دشمنی کی، اللہ ہی کی رضا کے لیے دیا، اللہ ہی کی رضا کے لیے منع کر دیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا ۔

سنن ابو داؤد حدیث : 4681
 

سیما علی

لائبریرین
جنت میں جانے والوں کے حسن و قد وقامت کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے جنت میں جانے والا پہلا گروہ چودھویں رات کے چاند کی صورت پر ہو گا، پھر جو ان کے بعد داخل ہو گا وہ آسمان پر سب سے زیادہ چمکنے والے ستارے کی صورت پر ہو گا، نہ انہیں بول و براز کی حاجت ہو گی نہ وہ تھوکیں گے اور نہ وہ ناک صاف کریں گے، ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی اور پسینہ کستوری کا ہو گا، ان کے دھونی دان اگر بتی (عود) کے ہوں گے، ان کی ازواج حوریں ہوں گی، اور ان کی تخلیق ایک جیسی ہو گی اپنے باپ آدم علیہ السلام کی طرح ساٹھ ہاتھ (لمبے ہوں گے)۔“
[مسند اسحاق بن راهويه: حدیث نمبر 961]
تخریج الحدیث: «بخاري، رقم: 3327 . مسلم، كتاب الجنة، باب اول زمرة تدخل الجنة الخ، رقم: 2834 . سنن ترمذي، رقم: 2535 . مسند احمد: 230/2 .»
 

سیما علی

لائبریرین
روزی کی دعا بقدرِ ضرورت ہونے کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! آل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بقدر ضرورت روزی عطا فرما۔“
[مسند اسحاق بن راهويه: حدیث نمبر 917]
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الرفاق، باب كيف كان عيش النبى صلى الله عليه وسلم واصحابه، رقم: 6460 . مسلم، كتاب الزكاة، باب فى الكفاف والقناعة، رقم: 1055 . سنن ترمذي، رقم: 2361 . مسند احمد: 7173 .»
 
Top