آج کل کی خواتین کا لباس عورتوں کی زبانی

فرید احمد

محفلین
خوااتین کے لباس کے متعلق گفتگو چل رہی تھی، وہاں میں نے ایک اور خبر بی بی سی کے حوالہ سے رکھی ہے، وہ کالج کی خبر ہے، اور یہ مسلمان عورت مفتیہ واقفہ دین کی بات ہے، ملاحظہ ہو،
وقتِ اشاعت: Wednesday, 24 September, 2003, 11:24 GMT 15:24 PST
خواتین کا جاری کردہ پہلا فتویٰ
یہ مفتی خواتین کا اولین دارالافتاء ہے
بھارت کے شہر حیدرآباد میں تین خواتین مفتیہ فاطمہ عزیز، مفتیہ سیّدہ فاطمہ اور مفتیہ رضوانہ زرّیں پر مشتمل اولیّن دارالافتاء کا قیام عمل میں آیا ہے۔ عورتیں اپنے دینی اور فقہی مسائل پر اب ان مفتی خواتین سے رابطہ کر سکتی ہیں۔

یہ تینوں خواتین جامعۃالبنات کی فارغ التحصیل ہیں جہاں کے ناظم مفتی مستان علی نے بتایا ہے کہ مفتی بننے کے لئے کسی خاتون کو عالمہ، فاضلہ اور کاملہ کا کورس کرنے کے علاوہ دو سال کا مفتیہ کا کورس بھی کرنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں اب تک کوئی ایسا ادارہ موجود نہ تھا جو شریعت کی روشنی میں مسلم خواتین کی رہنمائی کر سکے ، چنانچہ دارالافتاء کے قیام نے وقت کی ایک اہم ضرورت کو پوراکیا ہے۔

مفتی خواتین کے پینل نے اپنے پہلے فتوے میں کہا ہے کہ عورتوں کے لئے زیب و زینت تو جائز ہے لیکن سر کے سامنے والے بالوں کو کاٹنا، ابرو کے بالوں کو اکھاڑنا، بالوں کا رنگ اُڑانا اور آنکھوں پر رنگین کانٹیکٹ لینس لگانا جائز نہیں ہے۔ حیدرآباد کی ایک خاتون جویریہ فاطمہ کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان مفتی خواتین نے کہا کہ اسلام میں عورتوں کے لئے مردانہ لباس پہننا بھی جائز نہیں ہے۔

جامعۃالبنات میں اس وقت مزید پانچ طالبات مفتیہ کا کورس کر رہی ہیں اور وہ

بھی آئندہ چند ماہ میں فتوے جاری کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔

مفتیہ رضوانہ زرّیں سے جب پوچھا گیا کہ جیّد علمائے دین اور مستند مفتی حضرات کے ہوتے ہوئے اس شعبہ دین میں خواتین کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی تو انھوں نے جواب دیا کہ عورتوں کے کچھ ذاتی مسائل ایسے ہوتے ہیں جن پر وہ مردوں کے ساتھ کھُل کے بات نہیں کر سکتیں-

عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات کے سابق سربراہ انور معظم نے خواتین کی جانب سے فتاویٰ کے اجراء کو ایک مثبت قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے مسلم خواتین میں بہتر دینی شعور پیدا ہو سکے گا۔
 
Top