آج کا امریکہ… چند مشاہدات از جاوید حفیظ

جاوید حفیظ صاحب نے اپنے دورہ امریکہ کے احوال پانچ قسطوں میں لکھے ہیں امریکہ کو جاننے کے لئے بہت دلچسپ ہیں۔
قسط 1
میں استنبول سے سیدھا واشنگٹن پہنچا۔ واشنگٹن میں تین ایئرپورٹ ہیں لیکن سب سے بڑا اور جدید ترین ڈالاس Dulles ایئرپورٹ ہے اور انٹرنیشنل پروازیں یہاں آتی ہیں۔ یہ وسیع و عریض ہوائی اڈہ ہے جس کے کئی ٹرمینل ہیں۔ مسافروں کی سہولت کے لئے ایئرپورٹ کے اندر ٹرین بھی چلتی ہے۔ استنبول سے بیک وقت چھ پروازیں امریکہ کے کئی شہروں کے لئے روانہ ہو رہی تھیں۔ سکیورٹی کلیئرنس استنبول ایئرپورٹ پر ہی ہوئی۔ یہاں ہم نے امریکہ جانے کے شوق میں جوتے بھی اتارے۔ لیکن باقی مسافروں کو بھی اسی عمل سے گزرنا پڑا لہٰذا غبار خاطر میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ اب امریکہ جانے والے ہر مسافر کی دقیق جامہ تلاشی معمول کا امر ہے۔ یہ لوگ نائن الیون کو ابھی تک نہیں بھولے۔
ڈالاس ایئرپورٹ ڈی سی سے پون گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے لیکن میرا بیٹا عادل حفیظ ایئرپورٹ سے پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر آشبرن Ashburn ورجینیا میں رہتا ہے۔ عادل مع فیملی ایئرپورٹ پر استقبال کے لئے موجود تھا۔ بیٹے کو دیکھ کر سفر کی تھکاوٹ غائب ہو گئی۔ بہو لیلیٰ شیخ حفیظ پیدائشی امریکن ہونے کے باوجود پاکستانی روایات سے سو فیصد واقف ہے کہ نجیب الطرفین قصوری ٹھہری۔ ننھی پوتی مرینہ حفیظ راستے میں اپنے سکول کی کہانیاں سناتی رہی کہ نئی نئی درسگاہ جانے لگی ہے۔ یہاں کے سکولوں کا ماحول بچوں کے لئے بیحد دوستانہ ہے اور پورا ایجوکیشن سسٹم بشمول سکول‘ کالج اور یونیورسٹی امریکی معیشت‘ سیاسی زندگی اور سوشل سسٹم کو بڑی توانائی فراہم کرتا ہے۔ کئی سکولوں کی عمارتیں‘ پلے گرائونڈ لیبارٹریاں ایسی شاندار ہیں کہ رشک آتا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ امریکہ کے سینکڑوں سکول سہولتوں میں لاہور کے ایچی سن کالج کی طرح ہیں۔ امریکی اپنے دفتر اور گھر کے کام خود کرتے ہیں۔ دفتروں میں نائب قاصد یا چپڑاتی نہیں ہوتے۔ کئی امریکی وزیر کار خود ڈرائیو کر کے آفس آتے ہیں۔
امریکہ میں نووارد کو جو چیز سب سے زیادہ امپریس کرتی ہے وہ یہاں کا صفائی کا شاندار نظام ہے اور اس سے بڑھ کر حیران کن امر یہ ہے کہ سڑکوں اور گلیوں میں خاکروب شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔ اپنے ملک کو صاف ستھرا رکھنا ہر امریکی شہری کا نصب العین ہے۔ کئی شرفا رضاکارانہ طور پر اپنے گلی محلے کی صفائی کرتے ہیں۔ آشبرن ورجینیا کا نیا شہر ہے اور بہت ہی صاف ستھرا۔ میں یہاں روزانہ واک کے لئے باہر جاتا ہوں۔ یہاں کے رہائشی متمول لوگ ہیں۔ گھر خاصے بڑے ہیں۔ سڑکیں کشادہ ہیں۔ درمیان میں جگہ جگہ کھلے پلاٹ ہیں تاکہ گھٹن کا احساس نہ ہو۔ یہاں گورے امریکیوں کی اکثریت ہے۔ دوسرے نمبر پر انڈین ہیں جو آئی ٹی کے شعبہ کے عروج کے زمانے میں تیس چالیس سال پہلے آئے تھے۔ یہاں رہنے والا ہر شخص تقریباً ایک کروڑ روپے سالانہ کماتا ہے۔ اسی وجہ سے آشبرن فی کس آمدنی کے حساب سے امریکہ کے خوشحال شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ امریکیوں کو کتے رکھنے کا شوق ہے۔ شام کو درجنوں لوگ اپنے اپنے کتے کو لے کر باہر نکلتے ہیں۔ جونہی پالتو جانور رُک کر اجابت کرنے لگتا ہے مالک فوراً اپنی جیب سے پلاسٹک کا دستانہ نکالتا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے اس کا فضلہ اٹھاتا ہے اور نزدیک ترین کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے۔ جب کوئی گند ڈالتا ہی نہیں تو چہ عجب کہ سڑکیں اور گلی کوچے اس قدر صاف ستھرے ہیں۔
اس ملک اور معاشرے کا طرہ امتیاز یہاں کا میرٹ سسٹم ہے۔ یہاں کوئی کسی سے دریافت نہیں کرتا کہ تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو۔ یہاں نہ کوئی خان صاحب ہے نہ چوہدری صاحب اور نہ سردار سائیں۔ یہ معاشرہ تعلیم‘ محنت‘ دیانت اور مہارت کی قدر کرتا ہے یہاں پدرم سلطان بود والی کوئی بات نہیں۔ ہر ایک کو میرٹ کے پیمانے پر تولا جاتا ہے۔ امریکہ کی مشہور ترین یونیورسٹی ہارورڈ میں امسال گریجوایشن کلاس یعنی بی اے‘ بی ایس سی میں داخل ہونے والوں میں پچاس فیصد سے زائد اُن لوگوں کے بچے ہیں جو ہجرت کر کے گزشتہ تیس چالیس سالوں میں یہاں آئے ہیں اور ان بچوں میں بڑی تعداد چینی یا انڈین اوریجن کی ہے‘ اور جو معاشرہ میرٹ پر سمجھوتہ نہیں کرتا اُسے ترقی سے نہیں روکا جا سکتا۔ دنیا بھر میں نوبل انعام حاصل کرنے والوں میں سب سے زیادہ امریکی ہیں۔ یہاں ٹیکس ایمانداری سے ادا نہ کرنا گناہ کبیرہ تصور ہوتا ہے۔ انکم ٹیکس کے علاوہ پراپرٹی ٹیکس‘ میونسپل ٹیکس‘ سوشل سکیورٹی کے لئے اور ہیلتھ انشورنس کی کٹوتی بھی کی جاتی ہے۔ یہاں لوگ خوب کماتے ہیں اور ایک متمول آدمی کی انکم کا چالیس فیصد ٹیکس میں چلا جاتا ہے‘ لیکن ٹیکس ادا کرنے والے کو پتہ ہے کہ سرکار کا نظام اسی پیسے سے چلتا ہے۔ یہاں جان اور مال بڑی حد تک محفوظ ہیں۔ سڑکیں کشادہ اور اچھی حالت میں ہیں۔ سڑکوں پر کچرا کہیں نظر نہیں آتا سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار شاندار ہے‘ لہٰذا لوگ ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ انہیں اپنی فیڈرل اور سٹیٹ (صوبائی) حکومتوں پر اعتماد ہے۔ کائونٹی یعنی لوکل گورنمنٹ کا نظام فعال ہے۔ کائونٹی سکول بھی چلاتی ہے اور صفائی کا انتظام بھی کرتی ہے۔ شہر کی پولیس میئر کے انڈر ہے اور میئر منتخب ہوتا ہے۔ میں نے یہاں لوگوں سے پوچھا کہ میئر پولیس کو اگر اپنے ذاتی ایجنڈا کے لئے استعمال کرنا چاہے تو کیا ہو گا؟ جواب ملا کہ اوّل تو میئر ایسی جسارت نہیں کر سکتا اور اگر کرے گا تو پولیس اس کا غیر قانونی حکم نہیں مانے گی اور ایسی صورت میں پولیس کو عدلیہ کی حمایت حاصل ہو گی۔
میں آج صبح سیر کر کے آیا ہوں۔ آشبرن کا شہر پچھلے آٹھ دس سال میں آباد ہوا ہے۔ اب بھی ارد گرد درختوں کے جھنڈ ہیں۔ رات کو ہلکی بارش ہوئی تھی‘ موسم شاندار ہے۔ ہوا میں ہلکی ہلکی خنکی تھی۔ راستے میں چند ہرن اور خرگوش بھی نظر آئے۔ اکا دکا لوگ کاروں پر کام کے لئے نکل رہے تھے۔ اس شہر میں کئی ریٹائرڈ لوگ بھی رہتے ہیں جو آرام سے اٹھتے ہیں۔ انفرادیت امریکی معاشرے کی سب سے بڑی علامت ہے۔ یہاں ہر کوئی دوسرے کی پرائیویسی کا احترام کرتا ہے۔ اپنا گھر اور اپنی فیملی ہر امریکی کے لئے بے حد اہم ہیں۔ یہ گھر اس کا ذاتی قلعہ ہے جہاں وہ کسی کو بغیر اجازت داخلے کی اجازت نہیں دیتا۔ فون کئے بغیر کسی کے گھر جانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہ لوگ صبح سے لے کر شام تک کام کرتے ہیں۔ سارا دن کام کر کے شام کو جب خاوند گھر آتا ہے تب بھی کچن میں بیوی کا ہاتھ ضرور بٹاتا ہے۔ میں امریکن شوہروں کو دیکھ کر دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ پاکستان میں خاوندوں کے بڑے مزے ہیں۔
پاکستان میں اکثر لوگ یہ تصور رکھتے ہیں کہ امریکہ کی زندگی جنت نظیر ہے تو ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ یہاں بہت سے بچے شادی کے بندھن کے باہر پیدا ہو رہے ہیں۔ منشیات کا استعمال ایک مسئلہ بن رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو بہت سے لوگوں نے بطور صدر ذہنی طور پر قبول نہیں کیا۔ خاص طور پر نئے امریکیوں میں ٹرمپ کی مقبولیت بہت ہی کم ہے۔ علاج بہت مہنگا ہے۔ ان تمام مسائل پر اگلے کالم میں بات ہو گی۔ (جاری)
 
آج کا امریکہ… چند مشاہدات (2)

مجھے امریکہ آئے ہوئے کئی روز ہو چکے ہیں۔ ورجینیا کے علاوہ میں جنوبی اِلّی نوائے Illinois اور پنسلوانیا کا چکر لگا آیا ہوں۔ ہر جگہ پاکستانی‘ انڈین اور خالص امریکیوں سے بات ہوئی۔ امریکی معاشرے کے اپنے مخصوص مسائل ہیں۔ انفرادیت بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ عام امریکی قریبی رشتے داروں سے زیادہ اپنے پالتو جانور کا خیال رکھتا ہے۔ کتا بیمار ہو جائے تو مالک کے چہرے پر پریشانی دیدنی ہوتی ہے۔ ڈرگز یعنی منشیات کا استعمال مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اکیلے والدین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ طلاق کی شرح میں اضافہ ہے‘ اور دوسرا سبب یہ کہ بغیر شادی کے بچے پیدا کرنا یہاں اب گناہ نہیں رہا۔ ہتھیار عام ہونے کی وجہ سے کچھ شہروں میں جرائم کی شرح خاصی بلند ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد امریکی سوسائٹی منقسم نظر آتی ہے۔ نئے امریکن پریشانی میں مبتلا لگتے ہیں۔
امریکی سرکاری اور پرائیویٹ ادارے شماریات میں خاصے ترقی یافتہ ہیں۔ مختلف چیزوں کی گنتی کرتے رہنا یہاں کا معمول ہے۔ اہم اور دلچسپ معلومات اخباروں اور الیکٹرانک میڈیا پر آتی رہتی ہیں۔ یہاں غیر طبعی اموات کے تین بڑے اسباب ہیں۔ پہلا سبب ہتھیاروں کے استعمال سے قتل اور خودکشی ہے۔ دوسرا روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے اموات ہیں‘ اور تیسری وجہ منشیات کا زیادہ مقدار میں استعمال ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ اموات منشیات کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ مشاہدہ ہے کہ نسبتاً غریب علاقوں میں منشیات کا استعمال زیادہ ہے کہ وہاں غمِ دوراں اور زندگی کے تلخ حقائق کو بھولنے کی خواہش زیادہ ہوتی ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ 1960ء کی دہائی میں ہپی Hippie تحریک امریکہ کے شہر سان فرانسسکو سے شروع ہوئی تھی۔ یہ لوگ کم سے کم کپڑوں میں گزارہ کرتے تھے۔ حشیش‘ جسے امریکہ میں Marijuana کہا جاتا ہے‘ پی کر نروان حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ لوگ اکثر نوجوان جوڑوں کی شکل میں امریکہ اور یورپ سے نکلتے تھے اور پاکستان یا انڈیا کے راستے نیپال جاتے تھے۔ انڈیا میں ان دنوں ہرے رام ہرے کرشنا موومنٹ زوروں پر تھی۔ میرا قیام 1970ء میں لاہور کی وائی ایم سی اے میں تھا‘ جو مال روڈ پر بینک سکوائر کے پاس واقع ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہپی لوگ اکثر وہاں قیام کرتے تھے کہ کرایہ نہایت ہی مناسب تھا۔ اب اس وقت پریشان کن امر یہ ہے کہ حشیش یا چرس کی بجائے امریکہ میں ہیروئن اور دوسری خطرناک منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ منشیات کے استعمال کی وجہ سے شکاگو اور دیگر کچھ شہروں میں جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے‘ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ 1991ء کے بعد امریکہ کے دوسرے شہروں مثلاً نیویارک میں جرائم میں کمی آئی ہے۔ امریکن سوسائٹی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے مسائل کے حل کی تلاش میں ہر وقت لگے رہتے ہیں۔
ہتھیاروں کا استعمال امریکن سوسائٹی کا خاصہ رہا ہے۔ مغربی اور جنوبی ریاستیں ہتھیاروں کی مدد سے فتح کی گئیں۔ ریڈ انڈین‘ جو امریکہ کے قدیم قبائل تھے‘ کو ہتھیاروں کی مدد سے زیر کیا گیا۔ آپ نے کائوبوائے (Cow boy) فلمیں یقیناً دیکھی ہوں گی۔ یہ فلمیں امریکن سوسائٹی کے ہتھیاروں سے رومانٹک لگائو کا مظہر تھیں۔ ابراہم لنکن سے لے کر جان کینیڈی تک چار صدر دورانِ اقتدار قتل ہوئے۔ صدر رونلڈ ریگن پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر پچھلے سال جون میں انتخابی مہم کے دوران حملہ ہوا تھا۔ 2013ء میں گیارہ ہزار امریکی شہری ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے لقمہء اجل بنے اور ان میں بڑی تعداد خود کشی کے واقعات کی تھی‘ لیکن یہاں میں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ بادی النظر میں یہ خاصا پرامن اور شانت معاشرہ لگتا ہے۔ مثلاً میں نے یہاں کسی سکول کے گرد خاردار تار نہیں دیکھے۔ کسی بینک کے باہر بندوق بردار سکیورٹی گارڈ نہیں دیکھا۔ البتہ اکثر متمول لوگوں نے گھروں میں سکیورٹی الارم سسٹم ضرور لگوائے ہوئے ہیں‘ لیکن عمومی طور پر یہاں کی سڑکیں اور گھر محفوظ ہیں اور اس کی بڑی وجہ مستعد پولیس ہے جو مکمل طور پر غیر سیاسی ہے۔
امریکہ میں اس وقت سنگل والدین کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کو صرف والد یا ماں‘ پال رہے ہیں۔ سنگل والدین میں سے اسی فیصد مائیں ہیں۔ سنگل مدر خاندان اس وقت ٹول امریکن فیملیز کا پچیس فیصد یعنی ایک چوتھائی ہیں۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ غریب طبقے میں سنگل مدرز کی تعداد زیادہ ہے اور ان کے ہاں بچوں کی شرح پیدائش بھی زیادہ ہے۔ ان مائوں کے لئے بچوں کو پالنے کے لئے جاب کرنا ازبس ضروری ہوتا ہے۔ صرف پبلک ایڈ یا سرکاری امداد سے بچے نہیں پالے جا سکتے۔ اب ماں ہمہ وقت کام کرتی ہے۔ علیحدہ رہنے والا والد ویک اینڈ پر بچوں اور ان کی ماں‘ جسے وہ گرل فرینڈ کہتا ہے‘ سے ملنے آتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بچوں کی شخصیت‘ ان کی اقدار اور تعلیم و تربیت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ میں جنوبی اِلی نوائے میں چار روز اپنی بہن کے پاس رہا۔ اُن کے میاں وہاں کے معروف آئی سرجن ہیں۔ یہ علاقہ ورجینیا کے مقابلے میں غریب ہے۔ میں اپنی سسٹر کے گھر پانچ دفعہ گیا ہوں۔ ہر دفعہ امریکہ آ کر سینٹ لوئس کے راستے کاربن ڈیل جانا لازمی ہوتا ہے۔ اُن کے گھر کام کرنے والی مستقل میڈ اس دفعہ غائب تھی۔ اس کی جگہ ایک اور خاتون گھر کا کام کر رہی تھی۔ پہلے والی میڈ‘ جس کا نام ویرا ہے‘ کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا کہ اس کی تیس سالہ بیٹی کینسر کے مرض میں مبتلا ہے۔ بیٹی نے شادی نہیں کی مگر اس کے چار بچے ہیں اور ویرا آج کل نواسوں کی پرورش اور بیٹی کے مرض کی وجہ سے بے حد مصروف ہے۔
میرے بہنوئی کو امریکہ میں پنتالیس سال ہو چکے ہیں۔ کہنے لگے کہ شروع میں بغیر شادی کے ماں یا باپ بننا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا مگر اب اس میں کوئی عار نہیں۔ کئی جوڑے اس وجہ سے شادی نہیں کرتے کہ میاں بیوی کی انکم اکٹھی ہو گی تو ٹیکس بریکٹ میں آ جائے گی‘ لہٰذا علیحدہ رہنا زیادہ بہتر ہے لیکن اس صورتحال کے امریکی معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس علاقے میں منشیات کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے اور سنگل مدرز کے بچے بے راہ روی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
میری بہو‘ جو کئی سال سے سکول میں پڑھا رہی ہے‘ کا کہنا ہے کہ امریکن سوسائٹی میں سنگل والدین کے مسئلے کے علاج ایک حد تک نکال لئے گئے ہیں۔ طلاق کی صورت میں بچے باری باری دونوں والدین کے پاس رہتے ہیں اور والدین ایک دوسرے کے خلاف بچوں کے کان نہیں بھرتے اور اگر وہ ایسی حرکت کریں تو ہر سکول میں متعین سائیکالوجسٹ یعنی ماہر نفسیات والدین کو بلا لیتا ہے۔
امریکہ کی شاندار ترقی میں امیگرنٹ یعنی نئے امریکنوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایٹم بم سے لے کر ایل ای ڈی بلب تک باہر سے آنے والے لوگوں کی بے شمار ایجادات ہیں۔ دنیا بھر سے بے شمار ڈاکٹر‘ انجینئر‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر امریکہ میں عشروں سے کام کر رہے ہیں۔ ایڈز اور ہیپاٹائٹس سی یعنی کالے یرقان کے مکمل علاج کی دوائیاں یہاں ایجاد ہوئیں۔ سائنسی ریسرچ میں امریکہ سب سے آگے ہے۔ چینی‘ انڈین‘ پاکستانی‘ مصری اور دیگر ملکوں سے لوگ آ کر یہاں ترقی میں چار چاند لگا رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں روایتی گوروں کا ایک حصہ اپنی تساہل پسندی کی وجہ سے پیچھے رہ گیا ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے مسائل باہر سے آنے والے امیگرنٹ کی وجہ سے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اسی طبقے نے ووٹ دیے ہیں۔ تنوع امریکی معاشرے کی طاقت ہے۔ یہ لوگ تنوع یعنی Pluralism کے آگے پل باندھ رہے ہیں۔ شکوک اور نفرتیں پچھلے ایک سال میں بڑھی ہیں۔ (جاری)
 
آج کا امریکہ… چند مشاہدات (3)

میں آج ہی لونگ آئی لینڈ نیویارک سے اپنی بیگم کے بھانجے ڈاکٹر رضا اشرف کی شادی اٹینڈ کر کے ورجینیا واپس آیا ہوں۔ یہاں پاکستانی شادیوں میں سُنت نکاح‘ رسم حنا‘ بھنگڑا‘ انڈین اور امریکی گانوں پر رقص سب اکٹھے ہو جاتے ہیں اور خوب رونق لگتی ہے۔ اپنے لوگوں کی تعداد اب خاصی زیادہ ہے اور شادی کے دوران محسوس ہی نہیں ہوا کہ ہم پاکستان سے باہر ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ برطانیہ‘ امریکہ اور کینیڈا میں رہنے والے پاکستانی خاندان اپنے آبائی وطن میں بہو اور داماد تلاش کرتے تھے۔ اب یہ لوگ خودکفیل ہو چکے ہیں۔ نئی پڑھی لکھی نسل ارینجڈ Arranged شادی کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر رہی۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ لوگ ذات پات کے چنگل سے نکل کر بچوں کی خواہشات کے مطابق رشتے کر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہ لوگ پنجابی‘ پٹھان‘ سندھی‘ راجپوت‘ آرائیں اور جاٹ کی چھوٹی چھوٹی اکائیوں سے نکل رہے ہیں اور یہ بہت خوش آئند بات ہے۔
یہاں ایک اچھی بات ٹریفک کا منظم بندوبست ہے۔ سُرخ بتی پر ہر کوئی رُکتا ہے بلکہ سٹاپ سائن کا بھی مکمل احترام ہوتا ہے۔ سٹاپ سائن ہر اُس مقام پر لگے ہوئے ہیں جہاں چھوٹی سٹریٹ بڑی سڑک سے ملتی ہے یا چوراہا سامنے ہے۔ ان مقامات پر چند سیکنڈ کے لیے رُک کر دونوں جانب دیکھنا ضروری ہے۔ اگر کوئی گاڑی نہیں آ رہی تو آپ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اپنی لین Lane بدلتے ہوئے ہر ڈرائیور اشارہ ضرور دیتا ہے ۔کوئی کار میں سے کوکا کولا کا ٹن Tin یا ہمبرگر کا گتے کا ڈبہ سڑک پر نہیں پھینکتا۔ میں شام کو واک کرتے ہوئے جب سڑک کراس کرتا ہوں تو اگر کوئی گاڑی آ رہی ہو تو ڈرائیور فوراً رُک جاتا ہے کہ پیدل جانے والا شخص آرام سے سڑک پار کر لے۔
یہ خوشحال معاشرہ ہے لہٰذا گاڑیاں عمومی طور پر اچھی حالت میں ہیں۔ پھر بھی ہر گاڑی کی دو طرح کی سالانہ انسپیکشن ضروری ہے۔ ایک معائنہ گاڑی کے انجن کا ہوتا ہے کہ صحیح طرح سے پٹرول کا مکمل استعمال کرنے کے قابل ہے کہ نہیں۔ اگر گاڑی دھواں چھوڑ رہی ہو تو مالک پر لازم ہو گا کہ مرمت کروا کے دوبارہ انسپیکشن کے لیے لائے۔ دوسری انسپیکشن سیفٹی کے حوالے سے ہے۔ یہاں گاڑی کے بریک ٹائر اور لائٹ دقیق نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور جب تک انسپیکشن والے گاڑی کو پاس کر کے ونڈ سکرین پر سٹکر Sticker نہیں لگا دیتے ڈرائیور کو اس کار یا جیپ کے ساتھ سڑک پر لانے کا حق نہیں ۔یہاں قوانین کی تنفیذ پر سمجھوتہ نہیں ہوتا۔
آپ کو یاد ہو گا کہ 2008ء میں امریکی معیشت کساد بازاری یعنی Depression کا شکار تھی۔ ہر طرف مندی تھی۔ بیروزگاری کی شرح بڑھ گئی تھی۔ نئے گھروں کے خریدار کم کم تھے۔ آج امریکہ کی معیشت پھر سے بحال ہوگئی ہے۔ بیروزگاری کی شرح کم ہے۔ نئے گھروں کی ڈیمانڈ بہت ہے۔ معیشت کی بحالی کا سہرا اکثر لوگ بارک اوباما کے سر باندھتے ہیں‘ جس نے امریکہ کو عراق کی جنگ سے نکالا اور افغانستان میں عسکری اخراجات کم کئے۔ صدر اوباما کا دوسرا کارنامہ اوباما کیئر کی ہیلتھ پالیسی تھی جس سے غریبوں اور بوڑھوں کا فائدہ ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے الیکشن مہم میں اوباما کیئر کی مخالفت کی تھی لیکن وہ ابھی تک اسے بدل نہیں سکے کیونکہ امریکی پارلیمنٹ یعنی کانگرس میں کئی ری پبلکن ممبر بھی تبدیلی کے حق میں نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ خوشحال ملک ہے لیکن یہاں بھی آپ کو کہیں کہیں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو کہ Please help me یا I am homeless کے پوسٹر اٹھائے پھرتے ہیں۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سست الوجود لوگ شراب یا منشیات خریدنے کے لیے بھیک مانگتے ہیں۔ خوشحالی‘ خالص خوراک اور فاسٹ فوڈ کا ایک منفی نتیجہ یہ ہے کہ امریکی بہت موٹے ہو رہے ہیں۔ بالغ لوگوں میں سے دو تہائی سے زائد 69فیصد کا وزن آئیڈیل وزن سے زائد ہے۔ اچھا اور صحت مند وزن وہ ہوتا ہے جب آپ کا باڈی ماس انڈکس Body mass index پچیس یا اس سے کم ہو اور ایک تہائی سے زیادہ 38فیصد امریکن انتہائی موٹے ہیں۔ موٹاپے سے بلڈ پریشر ذیابیطس اور دل کے امراض بڑھ رہے ہیں۔ امریکی خوشحالی‘ کاروں کا عام استعمال اور فاسٹ فوڈ نے بہت سارے منفی اثرات بھی مرتب کئے ہیں۔ ویسے گر کر دوبارہ ابھرنا اس سوسائٹی کا خاصا ہے اور مجھے یقین ہے کہ فربہی کے مسئلے کا حل بھی نکال لیا جائے گا۔ کاربن ڈیل Carbondale الّی نوائے میں جولائی کے آخر میں گرمی خاصی تھی۔ میں اپنی ہمشیرہ کے ساتھ ایک بڑے شاپنگ مال میں واک کرنے جاتا تھا۔ اس مال کا ایک چکر ایک میل کے برابر تھا۔ ایئرکنڈیشنڈ ماحول میں جتنی دیر بھی پیدل چلیں تھکن کا احساس کم ہوتا ہے۔ ہم روزانہ تین چکر ضرور لگاتے تھے۔ شاپنگ مال میں خریداروں کی کمی صاف نظر آتی تھی بلکہ بعض دفعہ محسوس ہوتا تھا کہ مال میں اُلّو بول رہے ہیں۔ سبب معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اکثر امریکن اب آن لائن شاپنگ کرتے ہیں۔ میسی Macy,s اور جے سی پینی JC Penny جیسے بڑے بڑے سٹور اپنی شاخیں کم رہے ہیں۔ توقع ہے کہ آئندہ سالوں میں شاپنگ مال بھی کم بنیں گے۔
امریکہ ٹیکنالوجی میں ایک عرصے سے ورلڈ لیڈر ہے ۔ہوائی جہاز اور کمپیوٹر خالصتاً امریکی ایجادات ہیں اور ان کی وجہ سے ہی ہماری زندگی میں انقلاب آیا ہے۔ ایک اور اہم امریکی ایجاد یعنی سو فیصد بیٹری پر چلنے والی گاڑی تین چار سال پہلے مارکیٹ میں آ گئی تھی۔ اس سے اگلا قدم بلا ڈرائیور گاڑی ہے۔ گاڑی کے کمپیوٹر میں آپ اپنی منزل مقصود درج کر دیں گے اور یہ خود بخود آپ کو وہاں لے جائے گی۔ اس ایجاد سے حادثات بہت ہی کم ہو جائیں گے۔
امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹرز نے خاصی عزت کمائی ہے اور دولت بھی۔ امریکی اپنا کام خود کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ بڑے سے بڑا آدمی اپنے لان کی گھاس خود کاٹتا ہے۔ گھاس کاٹنے والی مشین کی وجہ سے یہ کام خاصا آسان ہو گیا ہے۔ گھریلو نوکر میں نے یہاں صرف ڈاکٹروں کے گھروں میں دیکھے ہیں۔ باقی متمول پاکستانی ہفتہ میں ایک بار میڈ سرونٹ کو بلاتے ہیں ۔وہ اپنی کار میں آتی ہے اور ایک دو گھنٹے میں صفائی کر کے چلی جاتی ہے۔ ہمہ وقت نوکر رکھنا یہاں تقریباً ناممکن ہے۔
ایک ڈنر پر پاکستانی ڈاکٹرز خاصی تعداد میں تھے۔ ایک صاحب کہنے لگے کہ پاکستان میں ڈاکٹروں کے مزے ہیں ۔میں نے کہا کہ وہاں ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور کینیڈا میں ڈاکٹر عیش کرتے ہیں۔ کہنے لگے آپ کو کبھی کسی پاکستانی ڈاکٹر نے فیس لے کر رسید دی ہے ؟میرا جواب نفی میں تھا۔ پھر وہ گویا ہوئے کہ نارتھ امریکہ میں ڈاکٹروں کی تمام فیسیں انشورنس کمپنیوں کے ذریعہ ادا کی جاتی ہیں البتہ تھوڑا سا حصّہ مریض خود ادا کرتا ہے اور بھی عام طور پر کریڈٹ کارڈ کے ذریعے۔ یہاں کرنسی نوٹ کا استعمال تقریباً ختم ہو رہا ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب بولے کہ امریکہ میں مریض ڈاکٹر پر رعب ڈال سکتا ہے۔ ذرا سی غلطی ہو جائے تو یہ لوگ ڈاکٹروں پر مقدمہ کر دیتے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں کالے اور گورے کی تمیز ختم ہو چکی ہے اور اس کا ثبوت بارک اوباما کا دو مرتبہ صدر ہو جانا تھا۔ لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ انسانی مساوات کا خواب ابھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ۔ورجینیا کے ایک قصبے میں نسلی فساد ہوا ہے ۔ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کا خواب ابھی پورا نہیں ہوا۔ لیکن امریکی معاشرے کی سمت صحیح ہے۔ یہاں تعلیم اور میرٹ دونوں بیحد اہمیت کے حامل عوامل ہیں۔ (جاری)
 
آج کا امریکہ…چند مشاہدات… (4)

لنکاسٹر پنسلوینیا کے سفر کا اصل مقصد تو اپنے گورنمنٹ کالج لاہور کے کلاس فیلو سرور ناصر سے ملاقات تھی۔ میں جب تین سال پہلے یہاں آیا تھا تب بھی لنکاسٹر گیا تھا لیکن وہ وزٹ ایک دن کا تھا۔ اس مرتبہ دو دن وہاں قیام کیا کواڈرینگل اور نیو ہوسٹل کی یادیں تازہ کیں۔ رات گئے تک باتیں کیں اور اب محسوس ہو رہا ہے کہ وہاں مزید ٹھہرنا چاہیے تھا ان کہی باتیں یاد آ رہی ہیں چینی زبان کا مقولہ ہے کہ جب پرانے دوست ملتے ہیں تو ہزار جام بھی کم پڑ جاتے ہیں۔
میں نے بیٹے عادل حفیظ کے ذمہ لگایا کہ مجھے لنکاسٹر چھوڑ آئے۔ دو دن بعد واپسی سرور ناصر اور نسرین بھابھی کے ساتھ ہوئی۔ پوٹامیک Potomac دریا ‘ورجینیا اور میری لینڈ کے درمیان حد فاصل ہے۔ میری لینڈ میں گھنٹہ بھر ڈرائیو کرنے کے بعد پنسلوینیا کی ریاست شروع ہو جاتی ہے۔ راستے میں گیٹس برگ Gettysburg کا تاریخی شہر آتا ہے جہاں 1863ء میں امریکن سول وار کی مشہور جنگ ہوئی تھی یہ جنگ تین روز تک جاری رہی۔ میری بہو لیلیٰ شیخ حفیظ فیرفیکس کائونٹی کے ایک سکول میں ہسٹری اور انگلش پڑھاتی ہیں۔ وہ راستے میں کہنے لگیں کہ میں متعدد بار بچوں کو یہ تاریخی مقام دکھانے لائی ہوں‘ چنانچہ فیصلہ کیا کہ میدان جنگ جا کر لیلیٰ بیٹی سے بریفنگ لی جائے۔ لیلیٰ ہمیں بتا رہی تھی کہ سول وار میں بنیادی طور پر چار ایشوز تھے۔ ان میں سے سیاہ فام لوگوں کی غلامی سرفہرست تھا۔ درآمدات پر ڈیوٹی شمال اور جنوب کا ثقافتی بُعد اور دستور کی ہیئت ترکیبی دوسرے بڑے اختلافی ایشوز تھے۔ جنوبی ریاستوں کی ڈیمانڈ تھی کہ کسی بھی یونٹ کو امریکہ سے علیحدگی کی اجازت ہونی چاہیے جبکہ شمالی ریاستیں دائمی اتحاد کے حق میں تھیں۔
گیٹس برگ کی جنگ میں جنوبی فوج کو شکست ہوئی انہیں گولہ بارود جارجیا سے آتا تھا۔ سپلائی لائن لمبی تھی۔ جارجیا کی اسلحہ بنانے اور سپلائی کرنے کی استعداد بھی محدود تھی۔ الغرض گیٹس برگ کی جنگ نے امریکی سول وار کا پانسہ بڑی حد تک پلٹ دیا۔ یہی وہ میدان جنگ تھا ، جہاں لڑائی کے اختتام پر معروف امریکی لیڈر لنکن نے کہا کہ امریکی قوم کے خمیر میں آزادی کا تصور شامل ہے اور تمام انسان برابر پیدا کئے گئے ہیں پھر ابراہم لنکن نے میدان جنگ کے ایک حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام مارے جانے والے فوجی اس جگہ دفن کئے جائیں گے ان لوگوں نے اپنی زندگیاں اس لیے قربان کی ہیں تاکہ امریکی قوم زندہ رہے۔ یہاں کئی امریکی اور غیر ملکی سیاح آتے ہیں کہ ماڈرن امریکہ کی مختصر تاریخ کا اہم سنگ میل دیکھ سکیں۔
لنکاسٹر کے بہت قریب آمش لوگ رہتے ہیں یہ جرمنی اور سوئٹزرلینڈ سے سترہویں صدی میں ہجرت کر کے امریکہ آئے تھے۔ ان کا چرچ علیحدہ ہے‘ یہ لوگ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کم سے کم کرتے ہیں۔ پندرہ بیس گھروں کی چھوٹی چھوٹی بستیوں میں رہتے ہیں فیملی پلاننگ کے خلاف ہیں مگر پھر بھی ان کی موجودہ آبادی صرف اڑھائی لاکھ ہے۔ یہ بنیادی طور پر دیہاتی لوگ ہیں گھوڑے اور گائے پالتے ہیں کار کی بجائے گھوڑے جوت کر بگھی میں سفر کرتے ہیں ‘اپنے ہم عقیدہ لوگوں میں شادیاں کرتے ہیں اس گروہ کا رنگ عام امریکیوں کے مقابلے میں سرخی مائل ہے۔ ہر آمش مرد پر لازم ہے کہ وہ شادی کے بعد داڑھی رکھے۔ آپ جیسے ہی آمش ایریا میں داخل ہوتے ہیں آپ کو باریش مرد بگھیاں چلاتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ بہت محنتی ہیں مگر آٹھویں کلاس سے آگے تعلیم حاصل نہیں کرتے ان کا خیال ہے کہ اتنی تعلیم زراعت اور دستکاری کے لیے کافی ہے۔ آمش لوگوں کو دیکھنے کے لیے بے شمار سیاح آتے ہیں۔ یہاں سیاحوں کے لیے اچھے سے اچھے ہوٹل بن گئے ہیں۔ سیاح آمش لوگوں کی بنائی ہوئی دستکاری خریدتے ہیں اور اس میں لکڑی کی بنی ہوئی مختلف اشیاء فرنیچر اور خواتین کی کشیدہ کاری سرفہرست ہیں۔ آمش بہت قدامت پسند لوگ ہیں یہ اجنبی سیاحوں کی اپنے گھروں میں آنے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے یہ خیال تھا کہ یہ چھوٹا سا گروہ امریکہ کے بڑے معاشرے میں تحلیل ہو جائے گا۔ اب بھی کچھ آمش اپنے علاقوں سے ہجرت کرتے ہیں چند آمش لڑکیاں اپنے ہم عقیدہ لوگوں سے باہر شادیاں بھی کرتی ہیں لیکن دو تین وجوہات کی بناء پر یہ گروہ زندہ ہے ‘ایک تو ان کا مختلف عیسائی عقیدہ ہے ‘دوسرے اپنی موجودہ شکل میں یہ لوگ سیاحوں کی دلچسپی کا باعث ہیں اور بگھیاں جوت کر خوب کما رہے ہیں۔ فیملی پلاننگ کی مخالفت کی وجہ سے آمش لوگوں میں شرح تولید باقی امریکہ سے زیادہ ہے۔
پچھلے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں ٹیکس ادا نہ کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے اور امریکہ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ امریکی شہری خواہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتا ہو اُس کے لیے لازمی ہے کہ ہر سال انکم ٹیکس کے گوشوارے بھرے۔ اگر سالانہ انکم پچھتر (75) ہزار ڈالر سے کم ہے تو کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑے گا البتہ سوشل سکیورٹی کی مد میں کٹوتی پھر بھی ہو گی۔ آپ سوشل سکیورٹی کے لیے جتنا پیسہ جمع کراتے جائیں گے 67 سال کی عمر کے بعد آپ کو اُسی تناسب سے سوشل سکیورٹی ملنا شروع ہو جائے گی۔ There in no free lunch یہاں کا مشہور مقولہ ہے یعنی مفت خوروں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
امریکہ میں ایک وکھری طرز کا ٹیکس بھی ہے جسے ڈیتھ ٹیکس کہا جاتا ہے Death Tax صرف امیر لوگوں پر لاگو ہوتا ہے۔ اگرمرنے والے شخص کے کل اثاثے پانچ ملین ڈالر سے زائد ہیں تو اضافی اثاثوں کا نصف حکومت کو دینا پڑے گا۔ صدر ٹرمپ اس ٹیکس کے خلاف ہیں ان کا استدلال ہے کہ فوت ہونے والے شخص کے ورثاء کو اکثر یہ ٹیکس دینے کے لیے اپنے اضافی اثاثے بیچنا پڑتے ہیں کیونکہ یہاں لوگ اپنے اثاثے بینک بیلنس کی شکل میں کم ہی رکھتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ فوت ہونے والے امریکی شہری نے دس ملین ڈالر کے اثاثے چھوڑے ہیں ان میں دو ملین ڈالر کا گھر ہے اور آٹھ ملین ڈالر کی فیکٹری۔ اس شخص کا ڈیتھ ٹیکس اڑھائی ملین ڈالر بنے گا جو ورثاء نے ہر صورت میں ادا کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ڈیتھ ٹیکس سے بزنس کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے لوگوں کو اپنے بزنس اثاثے ٹیکس ادا کرنے کے لیے بیچنا پڑتے ہیں پچھلے ایک کالم میں ایک امریکی ڈاکٹر کے سوال کا ذکر تھا کہ آیا پاکستانی ڈاکٹر فیس لے کر رسید دیتے ہیں اس کا واضح اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ پاکستان میں ڈاکٹر ایمانداری سے انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ یہی صاحب کہنے لگے کہ امریکہ اور کینیڈا کے گورے لوگ پاکستانی اور انڈین لوگوں سے کہیں زیادہ سچ بولتے ہیں ‘میں نے کہا کہ ذرا اپنی بات کی وضاحت کے لیے کوئی مثال دیں تو فرمانے لگے کہ یہاں لائف انشورنس کا رواج عام ہے انڈین لوگ بیوی کی لائف انشورنس کرا کے اُسے واپس انڈیا بھیج دیتے تھے اور یہاں جعلی انشورنس کلیم داخل کرا دیتے تھے۔ اسی طرح کینیڈا میں غریب لوگوں کو اچھی خاصی سوشل سکیورٹی ملتی ہے۔ غریب شہریوں کے سکول جانے والے بچوں کو علیحدہ الائونس ملتا ہے۔ جب سوشل سکیورٹی کے پیسے بینک اکائونٹ میں آنا شروع ہو جاتے تھے تو بچے واپس انڈیا یا پاکستان بھیج دیئے جاتے تھے مگر یہ فالتو کی آمدنی جاری رہتی تھی۔ اب امریکہ اور کینیڈا کی حکومتوں نے خاصی سختی کر دی ہے۔
امریکی مختلف ریاستوں کے لیے مختلف لقب استعمال کرتے ہیں ورجینیا کو Land of Lover یعنی عشاق کی سرزمین کہا جاتا ہے اور میری عشاق کی سرزمین سے دو روز بعد واپسی ہے لیکن واپسی سے قبل پوٹامک دریا کی سیر اور لائبریری آف کانگرس وزٹ کرنے کا پروگرام ہے۔ (جاری)
 
۔
آج کا امریکہ…چند مشاہدات (5)

امریکہ نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور دانستہ طور پر کئی برطانوی رسوم و قیود کو توڑا۔ انگریز کرکٹ کے شیدائی تھے امریکہ والوں نے کرکٹ کو اپنانے کی بجائے بیس بال کھیلنا شروع کیا۔ انگلستان میں گاڑیاں سڑک کی بائیں جانب چلائی جاتی ہیں امریکہ والے کاریں دائیں جانب چلاتے ہیں۔ انگریز فٹبال کھیلنے کے شوقین تھے امریکہ نے روایتی فٹبال کو اپنانے کی بجائے نئی طرز کی فٹبال گیم ایجاد کی۔ برطانیہ والے اشرافیہ کی برتری پر یقین رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پرانے متمول خاندانوں میں پیدا ہونے والے بچے عمومی طور پر اچھی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ نو دولتیے چھچھورے اور خودغرض ہوتے ہیں۔ امریکہ والوں نے ہر اُس شخص کی عزت کی جو غریب عوام میں پیدا ہوا اور اپنی ذہانت اور محنت کے بل بوتے پر ترقی کی اعلیٰ منازل طے کر گیا اس کی حالیہ مثالیں سابق صدر اوباما اور بل گیٹس ہیں۔ یہاں From rayes to riches ہتک آمیز الفاظ نہیں ہیں۔ چیتھڑے پہننے والا شخص اگر اپنی محنت سے محلات میں رہنے لگے تو اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور امریکہ کی متاثر کن ترقی کا بڑا راز بھی یہی ہے۔
ماڈرن امریکہ‘ جو اٹھارہویں صدی سے شروع ہوتا ہے‘ نے باہر سے آنے والے ذہین لوگوں کو اہلاً وسہلاً کہا امریکہ کی ترقی کا راز بڑی حد تک یہی ذہین اور محنتی نئے امریکی شہری تھے اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ امریکی گورے ذہانت اور محنت میں کسی سے پیچھے ہیں۔ بل گیٹس اور وارن بوفے دونوں گورے ہیں۔ دونوں اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر امیر ترین اشخاص بن گئے دونوں خیراتی کاموں میں آگے آگے ہیں۔ جیسا کہ پچھلے کالم میں لکھا تھا امریکی سسٹم میں میرٹ کی قدر ہوتی ہے آشبرن ورجینیا سے واشنگٹن ڈی سی جلدی جانا ہو تو راستے میں ایک ٹول روڈ آتی ہے جو کہ پرائیویٹ روڈ ہے۔ یہاں سے گزرنے والی ہر گاڑی کو ساڑھے چھ ڈالر ٹول ٹیکس دینا پڑتا ہے اور اس سڑک کے مالک ایک سردار جی ہیں مجھے یقین ہے کہ امریکہ میں سڑک کے ایسے شاندار حصے کو خریدنے کے پیسے سردار جی انڈیا سے نہیں لائے ہونگے۔
میں نے پہلے ذکر کیا تھا کہ میری بہو لیلیٰ حفیظ یہاں ایک سکول میں پڑھاتی ہے اس سال اُسے چھٹے گریڈ کی گفٹڈ چلڈرن کی کلاس ملی ہے ظاہر ہے کہ یہ بچے عام سٹوڈنٹس سے ذہانت اور معلومات میں آگے ہیں۔ لیلیٰ بیٹی کا کہنا ہے کہ ان بچوں کی ذہنی استعداد آٹھویں گریڈ کے برابر ہے۔ میں نے پوچھا کہ کلاس میں کتنے بچے ہیں جواب ملا کہ چھبیس (26) پھر میرے ذہن میں سوال اٹھا کہ ان ذہین بچوں کی بیک گرائونڈ کیا ہو گی۔ لیلیٰ نے جواب دیا کہ گیارہ بچے انڈین اوریجن کے ہیں اور گیارہ ہی چینی نسل کے ہیں اور باقی ماندہ چار امریکی گورے ہیں۔ مجھے افسوس اس بات کا ہوا کہ اس خوش قسمت کلاس میں ایک بھی پاکستانی نہیں۔ انڈیا اور چین والے ہم سے تعلیم کے میدان میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جس بات نے مجھے بے حد متاثر کیا وہ یہ تھی کہ سلیکشن میرٹ پر ہوتی ہے۔ میں نے لیلیٰ سے پوچھا کہ یہاں بچوں کو ہوم ورک ملتا ہے جواب ملا کہ ملتا ضرور ہے مگر صرف اتنا کہ وہ آرام سے آدھ پون گھنٹے میں کر دیں۔ تعلیمی فلسفہ یہ ہے کہ بچے جو سیکھیں شوق سے سیکھیں۔ تعلیم کو اگر بوجھ بنا دیا جائے تو اس کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
ہم واشنگٹن ڈی سی میں کھڑے ہیں‘ جارج واشنگٹن امریکہ کی تاریخ کا اہم ترین نام ہے۔ اس عظیم شخص نے امریکہ کی تیرہ ریاستوں کو سیاسی اور عسکری طور پر متحد کر کے برطانیہ کے خلاف جنگ آزادی کامیابی سے لڑی اور پھر امریکہ کے پہلے صدر ہونے کا شرف حاصل کیا۔ ہم واشنگٹن مونیومنٹ کے سامنے ہیں یہ طویل کالم پانچ سو پچپن فٹ بلند ہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں تعمیر ہونے والا یہ سٹرکچر اُس وقت دنیا میں بلند ترین تھا۔ اتنے بلند پایہ لیڈر کے لیے یہ بہت مناسب خراج عقیدت ہے۔
جارج واشنگٹن کے بعد ابراہم لنکن امریکی تاریخ کی دوسری بڑی معتبر شخصیت ہیں لنکن میموریل بھی پاس ہی دریائے پوٹامک کے کنارے بنایا گیا ہے۔ لنکن سول وار کے دوران امریکہ کے صدر تھے اور صدور میں ان کا سولہواں نمبر ہے۔ لنکن نے شمالی اور جنوبی ریاستوں کو پھر سے متحد کیا۔ لنکن کا تعلق سپرنگ فیلڈ الی نوائے سے تھا۔ اسی مناسبت سے الی نوائے کو لینڈ آف لنکن کا لقب ملا ہے۔ دریائے پوٹامک واشنگٹن ڈی سی کے بیچوں بیچ گزرتا ہے اسے امریکہ کا نیشنل ریور یا قومی دریا بھی کہا جاتا ہے۔ جارج ٹائون کا علاقہ ڈی سی کا بارونق ایریا ہے۔ یہاں مشہور جارج ٹائون یونیورسٹی بھی ہے۔ دریا میں سیر کرانے کے لیے متعدد موٹر بوٹس کنارے پر کھڑی ملتی ہیں ہم ایک موٹربوٹ میں سوار ہوئے اور کوئی پون گھنٹہ دریا کی سیر کی۔ موٹربوٹ میں بیس پچیس لوگ آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔ کھانے پینے کے تمام لوازمات کشتی میں موجود تھے گویا کہ موٹربوٹ کینٹین بھی ہے۔ واشنگٹن مونیومنٹ اور لنکن میموریل یہاں سے بھی واضح نظر آتے ہیں۔ کینیڈی سنٹر آف پرفارمنگ آرٹس بھی دریا کے کنارے‘ یہ ایک بڑی بلڈنگ ہے جہاں
اوپرا اور بیلے ہال ہے۔ اس کے علاوہ یہاں سٹیج ڈرامے ہوتے ہیں۔ پاس ہی واٹر گیٹ کمپلیکس ہے یہ کئی ہم شکل عمارتوں کا مجموعہ ہے۔ اس عمارت کو دیکھ کر مجھے واٹر گیٹ سکینڈل اور صدر رچرڈ نکسن یاد آ گئے۔ 1972ء کے الیکشن میں واٹر گیٹ کمپلیکس کے ایک ہال میں ڈیموکریٹک پارٹی کا کنونشن تھا وہاں چند لوگ جاسوسی کے آلات لگانے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ شک تھا کہ یہ حرکت ری پبلکن پارٹی والوں کی پشت پناہی سے ہوئی ہے۔ صدر نکسن نے مختلف طریقوں سے معاملے کو دبانے کی کوشش کی۔ کانگریس میں صدر کے مواخذے کی باتیں ہونے لگیں۔ کانگریس کی متعلقہ کمیٹی نے صدر سے چند سوالات پوچھے اور نکسن نے باقاعدہ مواخذے سے پہلے ہی استعفا دے دیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس ملک کے ادارے مضبوط ہیں تب ہی صدر نکسن کے اقتدار میں ہونے کے باوجود آزادانہ تحقیق کرتے رہے اور علیحدہ ہونے کے بعد صدر نکسن نہ سڑکوں پر آئے اور نہ ہی یہ دعویٰ کیا کہ مجھے کروڑوں امریکیوں نے منتخب کیا ہے تو چند سو افراد پر مشتمل پارلیمنٹ میرا مواخذہ کیسے کر سکتی ہے۔ اس کے بعد ہم لائبریری آف کانگریس گئے جو کیپٹل ہل کے ساتھہ ہی عظیم الشان عمارت میں واقع ہے یہ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری ہے۔ یہاں ہر کانگریس مین کے ساتھ سٹاف ہوتا ہے جومسلسل ریسرچ کا کام کرتا رہتا ہے اس لائبریری میں بے شمار کتابیں اور پرانی دستاویزات اصل شکل میں موجود ہیں۔ یہاں ہزاروں لوگ وزٹ کرنے یا پڑھنے آتے ہیں۔ اس کے باوجود لائبریری میں مکمل خاموشی تھی۔ بچوں کا ریڈنگ روم علیحدہ ہے اور عمارت میں کئی منزلیں ہیں۔ کیپٹل ہل یعنی پارلیمنٹ اور وائٹ ہائوس قریب ہی ہیں لیکن یہ میں پہلے دیکھ چکا تھا ویسے بھی اب وہائٹ ہائوس کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ آج رات کو پاکستان واپسی ہے۔ مجھے پیکنگ کرنی ہے دوستوں اور عزیزوں کو خدا حافظ بھی کہنا ہے۔ امریکہ بے شک خوبصورت ملک ہے لیکن وطن عزیز کی کشش مجھے اپنی جانب بلا رہی ہے۔ الوداع امریکہ ۔(ختم)
 
Top