فیض آج شب کوئی نہیں ہے ۔ فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
آج شب کوئی نہیں ہے
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
آنکھ سے دور طلسمات کے در وا ہیں کئی
خواب در خواب محلّات کے در وا ہیں کئی
اور مکیں کوئی نہیں ہے،
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
"کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت"
کوئی امّید، کوئی آس مسافر صورت
کوئی غم، کوئی کسک، کوئی شک، کوئی یقیں
کوئی نہیں ہے
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
تم اگر ہو، تو مرے پاس ہو یا دُور ہو تم
ہر گھڑی سایہ گرِ خاطرِ رنجور ہو تم
اور نہیں ہو تو کہیں۔۔ کوئی نہیں، کوئی نہیں ہے
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
 

سید زبیر

محفلین
بہت شکریہ سید زبیر صاحب، سر جی! آپ بھی سر کہیں گے تو مجھ میں خواہ مخواہ کی رعونت آ جائے گی۔ اس لئے مجھے اس خطاب سے معاف رکھیں۔ میرا نام ہی کافی ہے۔ :)
ہم تو اقبال کے مرید ہیں
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
تو آپ بہت محترم ہیں اللہ آپ کے درجے بلند فرمائے (آمین)
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہم تو اقبال کے مرید ہیں
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
تو آپ بہت محترم ہیں اللہ آپ کے درجے بلند فرمائے (آمین)

شکریہ زبیر صاحب، سلامت رہیے لیکن نہ آپ اتنے پیر ہیں اور نہ میں اتنا جوان، سو کچھ بیچ میں ہی سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ :)
 
Top