آج سپریم کورٹ، آسیہ بی بی کی آخری اپیل سنے گی

زیک

مسافر
شہداء فورس کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ ہمیں توہین رسالت کی مرتکب آسیہ بی بی کو رہائی دلوانے کیلئے ہونے والی کاوشوں پر شدید تحفظات ہیں اور ایسی صورت میں اس کا دفاع کرنے والوں کو بھی توہین رسالت کا مرتکب ہی سمجھا جائے گا۔
بہتر ہو گا کہ ان سب کو فوری جہنم رسید شہید کر دیا جائے۔
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

عدالت کا کام پر یہی پریشر ہے جس وجہ سے عدالت درست فیصلہ نہیں دے پا رہی، اول دن سے اس کیس پر بغور مطالعہ رہا اور اس پر بہت فورمز پر بحث بھی ہو چکی، اس کے کیس کو کوئی بھی سٹڈی کر لے جس کی ترتیب ہی درست نہیں۔

والسلام
 
آسیہ بنام ریاست پاکستان، رب کریم نے پاکستان کو اور اس کے عوام کو اپنی عدالت میں کھڑا کیا ہے۔ اگر آسیہ کو سزا ہوئی تو یہ اس کی جیت اور پاکستان کی ہار ہوگی۔
 
آسیہ بنام ریاست پاکستان، رب کریم نے پاکستان کو اور اس کے عوام کو اپنی عدالت میں کھڑا کیا ہے۔ اگر آسیہ کو سزا ہوئی تو یہ اس کی جیت اور پاکستان کی ہار ہوگی۔

نہ آسیہ کی جیت ہوگی نہ ہار
پاکستان میں قانون چلے گا
 
پاکستان میں قانون چلے گا
قانون اسلام یا بزازی ازم؟ کیا چاہئے؟

عباسی خلیفہ بنیادی طور پر ایرانی یا فارسی خلیفہ تھے لکھا ان کو خلیفہ ہی جاتا ہے لیکن بنیادی طور پر یہ بادشاہت تھی، جو نسل در نسل چلی، اس نام نہاد خلافت نے اپنی بادشاہت کو اپنی نسلوں تک محدود رکھنے کے لئے کہ بادشاہت باپ سے بیٹے تک منتقل ہوتی رہے، طرح طرح کی قانون سازی کی، جس میں فتوے بازی، دلائیل بازی اور طرح طرح کی تاویل بازی شامل ہے۔ ۔ خلیفہ ہارون الرشید کا حوالہ ملاحظہ فرمائیے کہ یہ ایک بادشاہ جانے جاتے ہیں ، ابو جعفر عبداللہ المامون ابن ہارون الرشید کے زمانے سنہ 813 تا 833 عیسوی میں پہلی بار یہ فتوی البزازی ( محمد بن محمد بن شهاب المعروف بابن البزاز الکردري الحنفي المتوفي ‎۸۲۷) نے دیا کہ رسول اکرم کی توہین کی سزا موت ہے ۔ اس فتوے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بادشاہ کی بادشاہت کی حفاظت کی جائے اور وہ لوگ جو باہمی مشورے کی حکومت بذریعہ بیعت (ووٹنگ) خلافت راشدہ کے اصولوں پر چاہتے ہیں اور اس طرح باپ کی بادشاہت وراثت میں بیٹے کو ملنے کے خلاف ہیں، ایسے افراد کو شاتم رسول قرار دے کر، ان افراد کا قلع قمع کیا جائے۔ لہذا جو کوئی بھی اس موضوع پر بحث کرتا تھا، اس کے لئے یہ فتوی موجود تھا۔ مغل بادشاہوں نے نے بھی اسی فتوے کا سہارا لیا ۔ اور فتاوی عالمگیری میں درج فتاوی اور روایات کے مطابق عام طور پر تارک الرسول اور تارک قرآن قرار دے کر مخالفین کی گردن زدنی کرتے رہے۔

جب ملاء ، خلافت کا اور اسلامی نظام کا تقاضا کرتا ہے تو وہ بنیادی طور پر عباسی خلافت نما بادشاہت مانگتا ہے کہ اس نظام میں البزازی ازم نے خوب فروغ پایا، ملاء کو قومی دولت، عورت اور غلام تینوں کی بادشاہ وقت کی طرف سے فراوانی رہی، فوج ، قانون اور کنٹرول ملاء کے ہاتھ میں رہا۔ پاکستان میں دفعہ 295 سی ، قرآنی یا اسلامی قوانین کی آئینہ دار نہیں۔ یہ البزازی ازم کی آئینہ دار ہے۔

ثبوت ملاحظہ فرمائیے۔ کہ 295 سی پہلی بار البزازی نے لکھا ، اسلام قرانی آیات سے مروج ایک متوازن اور رحم کرنے والے قانون کا نام ہے۔ جب کہ بزازی ازم ، انتہا پسندی۔ "اختلاف کی سزا موت" ، سنگساری، اور ٹوٹل کنٹرول کا نام ہے کہ آپ اللہ کے فرمان کے مطابق، کسی بھی بات پر "باہمی مشورہ " نا کرسکیں ، آواز اٹھائیں یا بحث کریں ، بس "اختلاف کی سزا موت " ۔

رب کریم اللہ تعالی نے صاف صاف لکھ دیا کہ دو وجوہات کے علاوہ کسی دوسری وجہ سے قتل کرنا گویا تمام انسانیت کا قتل ہے ، خود فیصلہ کیجئے کہ جو جان بچانے نکلے اسکو برسرعام بنا وارننگ کے قتل کردیا جائے اور جو قتل کردے اس کو ہیرو قرار دیا جائے، اس میں سے بزازی ازم کون سا ہے اور اسلام کون سا ہے۔ جو لوگ انتہا پسندی سے بھرپور بزازی ازم کے قائیل ہیں وہ اپنے آپ کو مسلمان کیوں کہتے ہیں ۔ اپنے آپ کو بزازی کیوں نہیں کہتے؟

سورہ المائیدہ - آیت نمبر 32
اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اورجس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی اورہمارے رسولوں ان کے پاس کھلے حکم لا چکے ہیں پھر بھی ان میں سے بہت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں

درج ذیل حوالہ ڈان اخبار سے ہے
5486a6a0cc7fb.jpg



5486a6a01bcb1.jpg

حوالہ:
 
آخری تدوین:
قانون اسلام یا بزازی ازم؟ کیا چاہئے؟

عباسی خلیفہ بنیادی طور پر ایرانی یا فارسی خلیفہ تھے لکھا ان کو خلیفہ ہی جاتا ہے لیکن بنیادی طور پر یہ بادشاہت تھی، جو نسل در نسل چلی، اس نام نہاد خلافت نے اپنی بادشاہت کو اپنی نسلوں تک محدود رکھنے کے لئے کہ بادشاہت باپ سے بیٹے تک منتقل ہوتی رہے، طرح طرح کی قانون سازی کی، جس میں فتوے بازی، دلائیل بازی اور طرح طرح کی تاویل بازی شامل ہے۔ ۔ خلیفہ ہارون الرشید کا حوالہ ملاحظہ فرمائیے کہ یہ ایک بادشاہ جانے جاتے ہیں ، ابو جعفر عبداللہ المامون ابن ہارون الرشید کے زمانے سنہ 813 تا 833 عیسوی میں پہلی بار یہ فتوی البزازی ( محمد بن محمد بن شهاب المعروف بابن البزاز الکردري الحنفي المتوفي ‎۸۲۷) نے دیا کہ رسول اکرم کی توہین کی سزا موت ہے ۔ اس فتوے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بادشاہ کی بادشاہت کی حفاظت کی جائے اور وہ لوگ جو باہمی مشورے کی حکومت بذریعہ بیعت (ووٹنگ) خلافت راشدہ کے اصولوں پر چاہتے ہیں اور اس طرح باپ کی بادشاہت وراثت میں بیٹے کو ملنے کے خلاف ہیں، ایسے افراد کو شاتم رسول قرار دے کر، ان افراد کا قلع قمع کیا جائے۔ لہذا جو کوئی بھی اس موضوع پر بحث کرتا تھا، اس کے لئے یہ فتوی موجود تھا۔ مغل بادشاہوں نے نے بھی اسی فتوے کا سہارا لیا ۔ اور فتاوی عالمگیری میں درج فتاوی اور روایات کے مطابق عام طور پر تارک الرسول اور تارک قرآن قرار دے کر مخالفین کی گردن زدنی کرتے رہے۔

جب ملاء ، خلافت کا اور اسلامی نظام کا تقاضا کرتا ہے تو وہ بنیادی طور پر عباسی خلافت نما بادشاہت مانگتا ہے کہ اس نظام میں البزازی ازم نے خوب فروغ پایا، ملاء کو قومی دولت، عورت اور غلام تینوں کی بادشاہ وقت کی طرف سے فراوانی رہی، فوج ، قانون اور کنٹرول ملاء کے ہاتھ میں رہا۔ پاکستان میں دفعہ 295 سی ، قرآنی یا اسلامی قوانین کی آئینہ دار نہیں۔ یہ البزازی ازم کی آئینہ دار ہے۔

ثبوت ملاحظہ فرمائیے۔ کہ 295 سی پہلی بار البزازی نے لکھا ، اسلام قرانی آیات سے مروج ایک متوازن اور رحم کرنے والے قانون کا نام ہے۔ جب کہ بزازی ازم ، انتہا پسندی۔ "اختلاف کی سزا موت" ، سنگساری، اور ٹوٹل کنٹرول کا نام ہے کہ آپ اللہ کے فرمان کے مطابق، کسی بھی بات پر "باہمی مشورہ " نا کرسکیں ، آواز اٹھائیں یا بحث کریں ، بس "اختلاف کی سزا موت " ۔

رب کریم اللہ تعالی نے صاف صاف لکھ دیا کہ دو وجوہات کے علاوہ کسی دوسری وجہ سے قتل کرنا گویا تمام انسانیت کا قتل ہے ، خود فیصلہ کیجئے کہ جو جان بچانے نکلے اسکو برسرعام بنا وارننگ کے قتل کردیا جائے اور جو قتل کردے اس کو ہیرو قرار دیا جائے، اس میں سے بزازی ازم کون سا ہے اور اسلام کون سا ہے۔ جو لوگ انتہا پسندی سے بھرپور بزازی ازم کے قائیل ہیں وہ اپنے آپ کو مسلمان کیوں کہتے ہیں ۔ اپنے آپ کو بزازی کیوں نہیں کہتے؟

سورہ المائیدہ - آیت نمبر 32
اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اورجس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی اورہمارے رسولوں ان کے پاس کھلے حکم لا چکے ہیں پھر بھی ان میں سے بہت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں

درج ذیل حوالہ ڈان اخبار سے ہے
5486a6a0cc7fb.jpg



5486a6a01bcb1.jpg

حوالہ:
یہ نازک معاملہ ہے ۔ ایمان جانے کا خطرہ ہے۔ اس معاملہ کو علما پر چھوڑیں ۔ ہم آپ جیسے کم علم غلط بول گئے تو قبر میں کیا کریں گے؟
توبہ کرو ایمان کی تجدید کرو۔ اللہ رحم کرے ہم سب پر
 
یہ نازک معاملہ ہے ۔ ایمان جانے کا خطرہ ہے۔

بہت ہی نازک معاملہ بالکل نہیں ہے۔ بزازی بن کر ایمان پہلے ہی جاچکا ہے۔ یہ وہ دین ہے جس میں انتہا پسندی کو اسلام کا نام دے دیا گیا ہے۔ جو دین ایک انسان کے ناحق قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اس میں اللہ کی حدود سے باہر جانے والے انتہاپسند، بزازیوں کی تقلید چہ معانی دارد۔

بزازی ازم اس بادشاہت کی ضرورت ہے جہاں اگلا بادشاہ ولی عہد، موجودہ بادشاہ کا بیٹا ہوتا ہے۔ جیسے سعودی عرب ، اردن، متحدہ عرب امارات۔ ۔۔۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ کوئی سعودی ، امارتی ، اردنی ولی عہد بادشاہ بننے کی جگہ "باہمی مشورہ کی حکومت" کے قرآنی حکم کو مانتے ہوئے بادشاہت سے انکار کردے گا۔ دوسری طرف کیا آپ نواز شریف کی بیٹی، شہباز شریف کی بھتیجی، کہ باپ وزیراعظم اور چچا گورنر، ایسی بہترین خاتون کو پاکستان کا بلا انتخاب وزیر اعظم بنانے پر تیار ہوجائیں گے۔ رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے اور کسی بھی قسم کی مخالف کو قتل کرنے کے لئے یہ ممالک ، پاکستان میں بزازی ازم کو فروغ دے رہے ہیں کہ ان کی موروثی حکومتیں قائم رہیں۔ تاکہ عوام کی دولت پر قبضہ ہو، غلاموں اور باندیوں کی فوج در فوج ہو۔ ایسی واحدبادشاہ کی حکومت کو خلافت کا نام دینے کے لئے ایسے ہی بزازی علماء کی ضرورت ہے۔

ہم آپ جیسے کم علم غلط بول گئے تو قبر میں کیا کریں گے؟
اگر آپ ان بزازی علماء کو موقع دیتے رہے تو یہ آپ کو ہی اپنا مخالف قرار دے کر قبر میں پہنچا دیں گے۔ یہ چاہتے ہیں کہ ان من گھڑت روایات کی پیروی کی جائے جو ایک فرد واحد کو بادشاہت کے درجے پر فائز کرکے ان بزازی ملاؤں کی ہی سنے ، کیوں کہ یہ بزازی ملاء ہی علماء بن کر بادشاہ کے تین ہزار عورتوں کے حرم کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اس طرح یہ بزازی ملاؤں کا ٹولہ عوام کی دولت پر قبضہ کرتا ہے۔ اور مردوں کو غلام بنا کر کوڑے برساتا ہے۔
جبکہ مسلمان با ایمان اس مذہب کی پیروی کرتا ہے جو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے رحم سے شروع ہوتی ہے۔ وہ نظام قائم کرتا ہے جس کی بنیاد فلاح و بہبود ہوتی ہے۔ لہذا رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم پر لاکھوں درود و سلام کہ آپ تمام انسانیت کے لئے رحم اور سلامتی کا اسلام لائے ناکہ کمزوروں کہ حمایت کرنے والے بزازیوں کا بزازی ازم کہ جس میں کمزور اور بے سہارا عورتوں کو ریاست کی بھینٹ چڑھا دیا جائے؟
 
آخری تدوین:
بہت ہی نازک معاملہ بالکل نہیں ہے۔ بزازی بن کر ایمان پہلے ہی جاچکا ہے۔ یہ وہ دین ہے جس میں انتہا پسندی کو اسلام کا نام دے دیا گیا ہے۔ جو دین ایک انسان کے ناحق قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اس میں اللہ کی حدود سے باہر جانے والے انتہاپسند، بزازیوں کی تقلید چہ معانی دارد۔

بزازی ازم اس بادشاہت کی ضرورت ہے جہاں اگلا بادشاہ ولی عہد، موجودہ بادشاہ کا بیٹا ہوتا ہے۔ جیسے سعودی عرب ، اردن، متحدہ عرب امارات۔ ۔۔۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ کوئی سعودی ، امارتی ، اردنی ولی عہد بادشاہ بننے کی جگہ "باہمی مشورہ کی حکومت" کے قرآنی حکم کو مانتے ہوئے بادشاہت سے انکار کردے گا۔ دوسری طرف کیا آپ نواز شریف کی بیٹی، شہباز شریف کی بھتیجی، کہ باپ وزیراعظم اور چچا گورنر، ایسی بہترین خاتون کو پاکستان کا بلا انتخاب وزیر اعظم بنانے پر تیار ہوجائیں گے۔ رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے اور کسی بھی قسم کی مخالف کو قتل کرنے کے لئے یہ ممالک ، پاکستان میں بزازی ازم کو فروغ دے رہے ہیں کہ ان کی موروثی حکومتیں قائم رہیں۔ تاکہ عوام کی دولت پر قبضہ ہو، غلاموں اور باندیوں کی فوج در فوج ہو۔ ایسی واحدبادشاہ کی حکومت کو خلافت کا نام دینے کے لئے ایسے ہی بزازی علماء کی ضرورت ہے۔


اگر آپ ان بزازی علماء کو موقع دیتے رہے تو یہ آپ کو ہی اپنا مخالف قرار دے کر قبر میں پہنچا دیں گے۔ یہ چاہتے ہیں کہ ان من گھڑت روایات کی پیروی کی جائے جو ایک فرد واحد کو بادشاہت کے درجے پر فائز کرکے ان بزازی ملاؤں کی ہی سنے ، کیوں کہ یہ بزازی ملاء ہی علماء بن کر بادشاہ کے تین ہزار عورتوں کے حرم کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اس طرح یہ بزازی ملاؤں کا ٹولہ عوام کی دولت پر قبضہ کرتا ہے۔ اور مردوں کو غلام بنا کر کوڑے برساتا ہے۔ مسلمان با ایمان اس مذہب کی پیروی کرتا ہے جو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے رحم سے شروع ہوتی ہے۔ وہ نظام قائم کرتا ہے جس کی بنیاد فلاح و بہبود ہوتی ہے۔ لہذا رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم پر لاکھوں درود و سلام کہ آپ تمام انسانیت کے لئے رحم اور سلامتی کا اسلام لائے ناکہ کمزوروں کہ حمایت کرنے والے بزازیوں کا بزازی ازم کہ جس میں کمزور اور بے سہارا عورتوں کو ریاست کی بھینٹ چڑھا دیا جائے؟
اللہ رحم کرے
اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے بھائی۔
 
Top