ان کی سریلی آواز، بے عیب کنٹرول، اور گانے کے جذبات کو زندہ کرنے کی صلاحیت نے انہیں انڈسٹری میں ایک لیجنڈ بنا دیا۔ ان کے انتقال کے بعد بھی، ان کے گانے دنیا بھر میں موسیقی سے محبت کرنے والوں کو متاثر اور محظوظ کرتے رہتے ہیں۔
دسمبر 1924 کو پیدا ہونے والا یہ گلوکار داتا کی نگری کے معروف محلے بھاٹی گیٹ کی گلیوں میں پل کر جوان ہوئے، وہ ہر روز شہر کے سب سے بڑے لارنس گارڈن جا کر اپنی سریلی آواز کا جادو جگاتے تھے۔
1941 میں سترہ برس کی عمر میں ممبئی گئے لیکن لاہور شہر کے درو دیوار پر اب تک ان کی یادوں کے نقش موجود ہیں۔۔۔۔
اس گانے کے آخر میں سر بہت اونچے تھے جس کے نتیجے میں حلق کی جھلیاں متاثر ہوئیں اور ان سے خون بہنے لگا۔
www.dawnnews.tv
فلم 'بیجو باورا' کا گانا 'او دنیا کے رکھوالے' تھا جسے شکیل بدایونی نے تحریر جبکہ موسیقار نوشاد علی نے کمپوز کیا۔
اسے راگ درباری میں گایا گیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے محمد رفیع نے 15 دن تک ریاض کیا۔
کہا جاتا ہے کہ نوشاد نے گانے کے آخری سروں کے لیے محمد رفیع پر بہت زیادہ زور دیا جو بہت اونچے سر تھے جس کے نتیجے میں ان کی ووکل کورڈ (حلق کی جھلیوں) سے جریان خون شروع ہوگیا اور انہوں نے خون تھوکا۔
اس گانے کے نتیجے میں گلوکار کا گلا اتنا متاثر ہوا کہ وہ 10 روز تک گا نہیں سکے۔۔۔۔
سی گانے کے بارے میں ایک اور
واقعہ بھی بہت مشہور ہے جس کے مطابق ایک بار کسی مجرم کو پھانسی کی سزا دی جانی تھی۔
جب اس سے آخری خواہش کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کسی کھانے یا رشتے دار سے ملاقات کی بجائے کہا کہ وہ محمد رفیع کا گانا 'او دنیا کے رکھوالے' مرنے سے پہلے سننا چاہتا ہے۔
جیل کے حکام اس خواہش کے بارے میں جان کر دنگ رہ گئے اور اسے پورا کرنے کے لیے ٹیپ ریکارڈر پر اس گانے کو قیدی کو سنایا بھی گیا۔