آتش ہو ، اور معرکہء خیر و شر نہ ہو - اختر عثمان

شمشاد

لائبریرین
آتش ہو ، اور معرکہء خیر و شر نہ ہو
پروانگی عبث ہے جو رقص شرر نہ ہو

یہ کار عشق بھی ہے عجب کار ناتمام
سمجھیں کہ ہو رہا ہے مگر عمر بھر نہ ہو

اک لمحہء کمال کہ صدیوں پہ پھیل جائے
اک لحظہء وصال مگر مختصر نہ ہو

اک دشت بے دلی میں لہو بولنے لگے
ایسے میں ایک خواب کہ تو ہو مگر نہ ہو

چہرے پہ سائے میں بھی خراشیں دکھائی دیں
آئینہءحیات پہ اتنی نظر نہ ہو

اک آستاں کہ جس پہ ابد تک پڑے رہیں
اک گلستاں کہ جس میں صبا کا گذر نہ ہو

مٹی تغارچوں میں پڑی سوکھتی رہے
پیکر تراشنے کے لئے کوزہ گر نہ ہو

اک یاد خوش جمال جواز حیات ہے
اک محور خیال ہے یہ بھی اگر نہ ہو

اک لفظ جس کی لَو میں دمکتا رہے دماغ
اک شعر جس کی گونج کہیں پیشتر نہ ہو

اک بات کی چڑھائی کہ دَم ٹوٹنے لگیں
کہنے کا شوق ہو مگر اتنا ہنر نہ ہو

ایسا بھی کیا کہ یاد لہو میں گھلی رہے
ایسا بھی کیا کہ عمر گذشتہ بسر نہ ہو

یوں خط ہجر کھینچئے اپنے اور اس کے بیچ
دونوں طرف کی سانس ادھر سے ادھر نہ ہو

دونوں طرف کا شور برابر سنائی دے
دونوں طرف کسی کو کسی کی خبر نہ ہو

اک شام جس میں دل کا سبوچہ بھرا رہے
اک نام جس میں درد تو ہو، اس قدر نہ ہو

شام آئے اور گھر کے لئے دل مچل اٹھے
شام آئے اور دل کے لئے کوئی گھر نہ ہو
(اختر عثمان)
 

طارق شاہ

محفلین

یہ کارِ عشق بھی ہے عجب کارِ ناتمام !
سمجھیں کہ ہورہا ہے ، مگرعمربھرنہ ہو

اک یادِ خوش جمال جوازِ حیات ہے
اک محورِ خیال ہے، یہ بھی اگر نہ ہو

کیا کہنے صاحب

:):)
 
واہ واہ کیا ہی عمدہ غزل ہے ۔
اک یاد خوش جمال جواز حیات ہے
اک محور خیال ہے یہ بھی اگر نہ ہو
خوبصورت شراکت کا شکریہ ۔
 
Top