آتشدان کا بُت - صفحہ 6 تا 13

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 6 – 7

آہا ۔۔۔ کیا بات ہو گی! کیسا مزہ آئے گا۔" عمران خوش ہو کر بولا۔ "اخبارات میں ہماری تصویریں سائع ہو گی اور ان کے نیچے لکھا ہو گا ۔۔۔
مار کھانے سے پہلے ۔۔۔ اور ۔۔۔ مار کھانے کے بعد ۔۔۔ خدا سمجھے!" صفدر دانت پیس کر رہ گیا۔

یہ گفتگو دلکشا لاج کے عقبی پارک کی گنجان جھاڑیوں میں ہو رہی تھی! عمرا اور صفدر میک اَپ میں تھے! صفدر کے چہرہ پر گھنی سیاہ اور ڈھلکی ہوئی مونچھیں جن کے بال خم کھا کر نچلے ہونٹ تک چلے آئے تھے۔ عمران کا اپنا میک اپ بڑا واہیات تھا! کپڑے چیتھڑوں کی شکل میں جھول رہے تھے۔! اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سالخوردہ لوہاروں کی سی تھی۔ سفید داڑھی اور مونچھیں بے ترتیب اور کنگھی کو ترسی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔

اندھیرا پھیلتے ہی وہ یہاں آ چھپے تھے اور اب تو اس وقت گیارہ بجنے والے تھے۔ صفدر سے اس نے صرف اتنا ہی بتایا تھا کہ اُسے پائپ کے سہارے ۔۔۔۔۔۔۔۔ پر چرھنے کی ٹریننگ دینا چاہتا ہے۔

صفدر جانتا تھا کہ دلکشا لاج میں ایک معزز گھرانہ آباد ہے اور یہاں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ لڑکیاں تو شہر بھر میں مشہور تھیں۔ اونچی سوسائٹیز میں " دلکشا والیاں ۔۔۔۔۔۔۔ تھیں! صرف انہین تینوں پر بس نہیں تھی۔۔۔ پورا خاندان ہی اپنے حُسن کے لئے مشہور تھا! عورت مرد سبھی حسین تھے! صفدر سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایڈونچر کا تعلق کسی محکمہ جاتی کام سے ہو گا۔ بھلا اس عمارت میں محکمہ جاتی کام کی گنجائش کہاں۔

"یہاں کتے تو نہیں ہیں!" صفدر نے کچھ دیر بعد مردہ سی آواز میں پوچھا۔

"یہ کتے کہاں نہیں ہوتے! بس انہیں پہچاننا سیکھو۔!"

"ارے میں بھونکنے والے کتوں کی بات کر رہا تھا!"

"میں کاٹنے والے اور بھنبوڑنے والے کتوں کی بھی بات کر رہا ہوں!" عمرا نے جواب دیا۔

"میں جا رہا ہوں۔"

"نتیجے کے تم خود ذمہ دار ہو گے! یہ ایکس ٹو کی غلطی ہو سکتی ہے کہ اس نے تمہیں براہ راست نہیں بتایا۔"

"کیا کہا تھا؟"

"یہی کہ صفدر کو ساتھ لے جاؤ اور اسے بتاؤ کہ عمارتوں کے پائپوں کے سہارے اوپر کیسے چڑھتے ہیں۔"

"تو یہی عمارت کیوں؟"

"مجھے یہی پسند ہے۔"

"یہاں میرے کچھ شناسا بھی ہیں۔"

"اسی لئے ہم میک اپ میں آئے ہیں!"

"گویا آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ اس عمارت یں میرے جان پہچان والے بھی ہیں۔"

"بھئی ایکس ٹو سب کچھ جانتا ہے۔"

"تب پھر یہ کوئی سرکاری ہی کامہو تا۔! مگر اس عمارت کا سرکاری کام سے کیا تعلق۔!"

"ابھی کچھ دیر بعد معلوم ہو جائے گا! ٹھہرو! اوہ ۔ کونے والی نچلی کھڑکی میں سبز روشنی نظر آ رہی ہے ۔۔۔ آؤ چلیں۔"
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 8 – 9

عمران جھاڑیوں سے نکل آیا ۔۔۔ صفدر سوچ رہا تھا کہ اگر یہ کام سرکاری ہی نوعیت کا ہے تو یقیناً ایکس ٹو سے غلطی ہوئی ہو گی! اُس عمارت میں رہنے والے تو بیحد شریف تھے! لیکن صفدر نے یہ بات غلط کہی تھی کہ ان میں سے کوئی اس کی جان پہچان والا بھی تھا۔

وہ دونوں دیوار کے قریب آئے! صفدر نے محسوس کیا کہ عمران بہت زیادہ محتاط نہیں ہے! اُسے ایک نچلی کھڑکی میں سبز روشنی نظر آ رہی تھی اور یہ بھی کھلی ہوئی حقیقت تھی کہ عمران اسی روشنی کا حوالہ دے کر جھاڑیوں سے نکلا تھا۔ عمران اپنے جوتے اتار رہا تھا! صفدر نے بھی کینواس کے ربڑ سولڈ جوتے اتار کر جیبوں میں ٹھونسے! پھر اس نے عمران کو دیوار پر چڑھتے دیکھا۔

عمران کسی ہلکے پھلکے بندر کی طرح تیزی سے اوپر چڑھتا چلا جا رہا تھا۔ صفدر بھی یہ کام انجام دے سکتا تھا۔ مگر اتنی پھرتی سے نہیں! اس نے ابھی چوتھائی دیوار بھی نہیں طے کی تھی کہ عمران کو اوپر پہنچ کر کارنس پر کھڑے ہوتے دیکھا۔ کارنس سے پانچ یا چھ فٹ کی بلندی پر کھڑکیاں تھیں! لیکن سب ہی بند نظر آ رہی تھیں۔ عمران نے دونوں ہاتھ اٹھا کر ایک کھڑکی کی چوکھٹ پکڑ لی تھی۔ صفدر بھی کارنس پر پہنچ گیا! یہ کارنس تقریباً ایک فٹ چوڑی تھی! صفدر سوچنے لگا کہ یہ کھڑکیاں اس کارنس کی وجہ سے کتنی مخدوش ہو گئی ہیں جب کہ ان میں سلاخیں بھی نہیں لگائی گئیں!

وہ بھی عمران کے قریب ہی کھسک گیا اور اُسے کھڑکی کھلی ہوئی نظر آئی لیکن اندر اندھیرا تھا! عمران دونوں ہاتھوں پر زور دے کر اوپر اٹھا۔ اور اس کے پیر چوکھٹ پر پہنچ گئے! اب وہ کھڑکی کی دوسری جانب تھا! اس نے باہر سر نکال کر آہستہ سے کہا۔ " آ جاؤ۔۔۔!"

پھر صفدر بھی اندر پہنچ گیا! عمران نے کھڑکی بند کر دی! اور صفدر اندھیرے میں آنکھیں پھاڑنے لگا! اسے بڑی گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔ عمران نے جیب سے ٹارچ نکال کر روشن کی اور صفدر کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں! اُس نے خود کو ایک بہت بڑے ریفریجریٹر میں پایا جس میں ایک صوفہ سیٹ بھی پڑا ہوا تھا۔ فرش پر قالین بھی تھا! ایک جانب آتشدان بھی تھا۔ اور مینٹل پیس پر سیاہ رنگ کا ایک بُت بھی رکھا ہوا تھا۔ عمران سوئچ بورڈ کی طرف بڑھا! اور دوسرے ہی لمحے نہ صرف کمرہ روشن ہو گیا بلکہ جس کھڑکی سے وہ اندر داخل ہوئے تھے اس پر سفید رنگ کی ایک چادر بھی مسلط ہو گئی اور کمرہ بالکل ہی ریفریجریٹر بن کر رہ گیا! البتہ روشنی ہوتے ہی گھٹن دور ہو گئی تھی! اور ایسا ہی معلوم ہونے لگا تھا۔ جیسے وہ کوئی ایر کنڈیشنڈ کمرہ ہو۔

عمران نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اُسے بیٹھنے کا اشارہ کیا!۔۔۔ صفدر بیٹھ گیا! لیکن وہ بہت مضطرب تھا! اُس کے فرشتے بھی نہیں سوچ سکتے تھے۔ اس عمارت میں کوئی اس قسم کا کمرہ بھی ہو گا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کمرے کو ساؤنڈ پروف اور ائیر کنڈیشنڈ بنایا گیا ہے! کیونکہ ایسا ہی ایک کمرہ خود اُس کے ہیڈ کوارٹر دانش منزل میں موجود تھا۔

اُسے عمران کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نظر آئی۔ وہ بڑے اطمینان سے بیٹھا ٹانگیں ہلا رہا تھا! ۔۔۔ دس منٹ گزر گئے۔ وہ اسی طرح خاموش بیٹھے رہے۔ صفدر بار بار عمران کی طرف دیکھنے لگتا تھا! اور عمران کا یہ عالم تھا جیسے اپنے بیٹھا تھکن دور کر رہا ہو۔

دفعتاً کھڑکی کی مخالف سمت والا دروازہ کُھلا اور صفدر کی آنکھوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 10 – 11

میں بجلی سی کوند گئی۔ عمران کے ساتھ ہی وہ بھی اٹھ گیا تھا! بالکل مشینی طور پر ورنہ اس میں اس کے ارادے کو دخل نہیں تھا ۔۔۔ اب وہ پلکیں جھپکائے بغیر اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو دروازے سے اندر داخل ہوئی تھی!

اُس کے جسم پر سُرخ رنگ کا شب خوابی کا لبادہ تھا ۔۔۔ پتہ نہیں اُس کے رُخسار سچ مچ انگارے تھے یا ان پر لبادہ کا شوخ رنگ جھلکیاں مار رہا تھا۔ آنکھیں نیم غنودہ سی تھیں! اور سیاہ بال بے ترتیبی سے شانوں پر پڑے ہوئے تھے۔ جسم اتنا متناسب تھا کہ اس پر کسی قدیم یونانی مجسمے کا دھوکہ ہو سکتا تھا!

دروازہ بند کر کے وہ آگے بڑھ آئی۔

مگر صفدر عمران کے روئیے پر متحیر رہ گیا۔ اس نے اپنی جیب سے ایک پیکٹ نکالا تھا اور اُسے کھول کر فرش پر اُلٹ دیا تھا پھر لڑکی کی چیخ سے کمرہ گونج اٹھا تھا! ۔۔۔ کیونکہ اس پیک سے پھولوں کے ہار نہیں ملے تھے ۔۔۔ بلکہ وہ بڑا سا مینڈک تھا جو پورے کمرے میں اچھلتا پھر رہا تھا اور لڑکی بدستور چیخے جا رہی تھی۔

پھر یکایک عمران اس ناہجاز مینڈک کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا۔

لڑکی خاموش ہو گئی۔ صفدر سمجھا تھا کہ وہ اپنے دونوں سینڈل اتار کر عمران پر پل پڑے گی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس کے برخلاف وہ بے حد پرسکون نظر آ رہی تھی۔

عمران نے مینڈک کو پکڑ کر پھر پیکٹ میں بند کر لیا۔

"کیا خبر ہے؟" لڑکی نے پوچھا۔

"لال ٹائی والا کل اڑے گا۔" عمران نے پھنسی پھنسی سی آواز میں چیخنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا اور پھر بے تحاشہ کھانسنے لگا۔

"کیا ۔۔۔ "

لڑکی داہنے کان پر ہاتھ لگا کر اس طرح جھکی جیسے عمران کا ایک لفظ بھی اس نے نہ سُنا ہو!

"بڑی مصیبت ہے۔"

عمران کھانستے کھانستے کراہ کر چیخا! " مجھے زکام ہو گیا ہے۔ گلا پڑ گیا ہے! میں چیخ نہیں سکتا!"

"اچھا۔ چلو سُن لیا! مگر پہلے تم نے شاید کچھ اور کہا تھا۔" لڑکی نے کہا اور ٹہلتی ہوئی آتشدان کے قریب چلی گئی۔!

"لال ۔۔۔ ٹائی۔۔۔"

"نہیں سنائی دے رہا!۔ قریب آ جاؤ!" لڑکی نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ عمران اس کے قریب پہنچ گیا! اور اس کے کان کے پاس منہ لے جا کر چیخا۔

"لال ٹائی والا کل اڑے گا۔"

"ارے تو کان میں اتنے زور سے چیخنے کی کیا ضرورت ہے!" لڑکی جھلا کر بولی۔

"معافی چاہتا ہوں۔۔۔ زکام دماغ خراب کر دیتا ہے۔"

" کون دماغ خراب کر دیتا ہے؟"

"زکام۔۔۔!"

"کان نہ کھاؤ۔۔۔ زکام زکام ۔۔۔ اور کیا کہنا ہے!"
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 12 – 13

"گیارہواں آدمی نہیں ملا۔"

عمران پھر اس کے کان میں چیخا۔۔۔ اور یک بیک پیچھے ہٹ کر دوبارہ کھانسنے لگا! اس بار کھانسی کسی طرح رکنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی!

"کب کھانس چکو گے!" لڑکی نے غصیلے لہجے میں کہا! وہ صفدر کی طرف ایک بار بھی متوجہ نہیں ہوئی تھی!

عمران نے صفدر کی طرف اشارہ کیا اور صفدر سے بولا۔ " بتاؤ کہ گیارہواں آدمی نہیں ملا۔"

صفدر بھی چنگھاڑنا نہیں چاہتا تھا اس لئے وہ لڑکی کے قریب پہنچ گیا۔

"گیارہواں آدمی نہیں ملا۔" اس نے جھک کر اس کے کان میں کہا۔

"کیا پُھس پُھس کر رہے ہو۔ زور سے بولو۔" لڑکی غصیلے لہجنے میں بولی۔ صفدر نے بلند آواز میں یہی جملہ دُہرایا! لڑکی تھوڑی دیر تک خاموش کھڑی رہی! پھر عمران کی طرف جو اب صرف ہانپ رہا تھا۔ "چوہا۔" وہ انگلی اٹھا کر بولی اور دروازہ کی طرف مڑ گئی۔! دروازہ کھلا اور پھر بند ہر گیا۔ اب وہ دونوں کمرے میں تنہا رہ گئے تھے۔!

عمران نے صفدر کو واپس چلنے کا اشارہ کیا اور سوئچ بورڈ کے قریب چلا گیا۔ شائد اس نے کوئی سوئچ آن کیا تھا کیونکہ دوسرے ہی لمحے میں وہ کھڑکی پھر ظاہر ہو گئی تھی جس سے گزر کر وہ اس کمرے میں آئے تھے۔
*-*-*-*-*-*-*




دوسرے دن صفدر آفس میں بیٹھا بور ہو رہا تھا!۔ یہ آفس بھی عجیب تھا۔ ابھی حال ہی میں ایکسٹو نے ایک آفس قائم کرنے کی اسکیم بنائی تھی اور اُسے عملی جامہ بھی پہنا دیا تھا! اس آفس کا منیجر خاور تھا۔ جولیانا فٹزواٹر اسٹینو ٹائپسٹ تھی! صفدر، چوہان، تنویر، نعمانی اور صدیقی کلریکل اسٹاف میں تھے۔ چپراسی اور دوسرے ادنےٰ کام کرنے والے ادھر ادھر سے رکھے گئے تھے! فرم کا نام تھا " ڈھمپ اینڈ کو" اور بزنس تھا " فارورڈنگ اینڈ کلیرنگ" یعنی یہ فرم غیر ممالگ کو برآمد کیا جانے والا مال بک کرتی تھی اور باہر سے درآمد کیا ہوا مال کسٹم سے چھڑاتی تھی۔۔۔ چونکہ اس فرم کا تعلق ایکسٹو سے تھا! اس لئے یہ ظاہری کاروبار بھی دھڑلے سے چلنے لگا۔ بڑے درآمد و برآمد کندگان زیادہ تر اسی فرم سے رجوع کرنے لگے تھے!۔۔۔ یہ فرم اس لئے عالم وجود میں آئی تھی کہ سیکرٹ سروس والوں کی یہ ٹیم بھی عام آدمیوں میں ضم ہو جائے، جو اس شہر میں کام کر رہی تھی اور پھر ٹیم کو ایک ہی جگہ رکھنا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top