آتشدان کا بُت صفحہ 38 تا 53

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
آتشدان کا بُت - صفحہ 38 – 39

ہوا تھا! صفدر نے سوٹ کیس کو پہچاننے میں غلطی نہیں کی تھی! مگر مچھ کی کھال کا سیاہ سوٹ کیس!

صفدر نے عمران کی توجہ بھی اس کی طرف مبذول کرائی۔

"تمہیں یقین ہے! کہ یہ وہی سوٹ کیس ہے!" عمران نے پوچھا۔

"مجھے یقین ہے! میری آنکھیں بہت کم دھوکہ کھاتی ہیں!"

"تب پھر اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ آدمی اس وقت سے باہر نکلا ہی نہیں۔" عمران نے تشویش کن لہجہ میں کہا۔

صفدر کچھ نہ بولا! عمران نے تھوڑی دیر بعد کہا! " یہ آدمی بھی خطرے میں ہے!"

"کیوں۔۔۔!"

"بھلا وہ آدمی جہاز کی سیڑھیوں سے گر کر کیوں مر گیا تھا! اور یہ سوٹ کیس تھانے کیوں نہیں پہنچا! قاعدے سے مرنے والے کی ایک ایک چیز پر فی الحال پولیس کا قبضہ ہونا چاہیے تھا!

"ہاں یہ تو ہے۔!"

" ہو سکتا ہے کہ اسی سوٹ کیس کی وجہ سے اس کی جان گئی ہو!"

"ہونے کو بہت کچھ ہو سکتا ہے عمران صاحب! لیکن آخر یہ چکر کیا ہے!"

"تم نے پھر وہی سوال کیا؟ حالانکہ میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ میں بھی تمہاری ہی طرح اندھیرے میں ہوں! بس جتنا کہا جا رہا ہے اُسی کے مطابق کسی مشین کی طرح عمران بھی چل پڑا ہے!"

صفدر خاموش ہو گیا لیکن اس کا عمران کے بیان سے اطمینان نہیں ہوا تھا۔

"اس پر نظر رکھو۔" عمران نے کہا۔

"لیکن جیسے وہ ختم ہو گیا تھا اُسی طرح یہ بھی ختم ہو سکتا ہے۔"

"ضروری نہیں ہے! یہ کافی محتاط معلوم ہوتا ہے۔ تم شاید یہ سمجھتے ہو کہ اس وقت تمہارے ہی خیال دلانے سے مجھے اس کی موجودگی کا علم ہوا ہے۔"

"پھر ۔۔۔؟"

"میں اُسے دیر سے دیکھ رہا ہوں! یہ ویٹروں کی لائی ہوئی چیزیں پہلے انہیں ہی چکھا دیتا ہے! پھر خود کھاتا پیتا ہے! چونکہ یہ بڑے آدمیوں کا کلب ہے، اس لئے ویٹر کو ایسی حرکات پر حیرت بھی نہیں ہوتی۔ وجہ یہی ہے کہ ان کی دانست میں یہاں اُس سے بھی زیادہ وہمی اور سنکی آدمی آتے ہیں!"

"تو کیا آپ اس کا سوٹ کیس ہتھیانے کی فکر میں ہیں۔"

"مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے۔!" عمران بائیں آنکھ دبا کر مسکرایا۔

"مطلب یہ کہ ابھی تم لال ٹائی والے کے اصل ٹھکانے تک نہیں پہنچے! میرا خیال ہے کہ وہ کسی قسم کا خطرہ ہی محسوس کر کے یہاں آ جما تھا۔ اور اب بھی یہیں موجود ہے۔۔۔ ائیر پورٹ سے یہاں تک وہ کیسے آیا تھا!"

"ٹیکسی میں۔"

"ہوں۔۔۔! تمہیں اب پھر اس کا تعاقب کرنا ہے! لیکن تعاقب کرنے سے پہلے اپنی مونچھیں نکال دینا۔ تا کہ رانا تہور علی کے سیکرٹری
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 40 – 41

کی حیثیت ختم ہو جائے!"

"پتہ نہیں کیا چکر ہے!" صفدر بڑبڑایا۔

"ایک بات ذہن نشین کر لو۔۔۔ اگر اس بہری لڑکی کو یہ معلوم ہو گیا کہ کل رات دلکشا میں ہم ہی دونوں تھے تو ہماری کھوپڑیوں میں یہیں سوراخ ہو جائیں گے!"

"اوہ ۔۔۔ !" صفدر سیٹی بجانے والے انداز میں ہونٹ سکوڑ کر رہ گیا۔ چند لمحے پلکیں جھپکاتا رہا پھر بولا ۔۔۔" تب جوزف سے یہ چھیڑ چھاڑ۔!"

"اتفاقیہ بھی ہو سکتی ہے!۔۔۔ یہ بڑی دلچسپ جگہ ہے۔ صفدر صاحب!۔۔۔ رانا تہور علی صاحب صندوقی یہاں اکثر آتا رہتا ہے۔"

"مگر ملازمین کے انداز سے تو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ آپ کو پہچانتے ہوں۔"

"یہاں ملازمین بدلتے رہتے ہیں!۔۔۔ باہر جتنے موجود تھے اُن میں سے کوئی بھی مجھے نہیں پہچانتا تھا لیکن یہاں اندر تو میرے خاص آدمی بھی موجود ہیں۔ ورنہ میں سنگترے کا شربت نہ پی رہا ہوتا۔ حالانکہ بوتلوں میں پرتگالی شرابوں کے لیبل موجود ہیں۔"

صفدر نے ایک طوریل سانس لی! اوعر اب یہ بات اس کی سمجھ میں آئی کہ عمران ضرورتاً بھی نہیں پی سکتا۔!

"مگر یہاں آپ کا کیا کام۔!"

"ملک و قوم کے دشمن جھونپڑیوں اور چھوٹے چھوٹے مکانوں میں نہیں ملتے۔"

صفدر پھر خاموش ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد بولا۔ " اگر جوزف والا واقعہ اتفاقیہ نہ ہوا تو۔"

"دیکھا جائے گا۔" عمران نے لاپرواہی کے اظہار میں شانوں کو جنبش دی۔ "رانا تہور علی صندوقی چوہے دان میں نہیں مر سکتا! ویسے یہ جگہ ایسی ہی ہے! پچھلے دنوں یہاں ایک بڑا شاندار واقعہ پیش آیا تھا! ایک ڈاڑھی والے نواب صاحب تشریف رکھتے تھے! ایک بڑی شریر قسم کی لڑکی ناچ رہی تھی۔ نواب صاحب کے قریب پہنچ کر اس نے گانا شروع کر دیا! افریقہ کے کسی جنگلی گیت کا انگریزی ترجمہ تھا۔۔۔! اچانک گاتے گاتے اس نے نواب صاحب کی ڈاڑھی پکڑ لی۔ اس وقت وہ گا ہری تھی جھاڑیاں ہوا سے ہلتی ہیں۔۔۔! یہ منظر اس نے ڈاڑھی ہلا کر دکھایا! نواب صاحب بدک کر اُچھلے اور لڑکی کی پشت پر ایک دھپ رسید کر دی! میں سمجھا تھا شاید اس پر لنگامہ برپا ہو جائے گا! مگر لوگ ہنسنے لگے تھے! پھر یہ منظر دیکھنے میں آیا کہ نواب صاحب اپنی چھڑی سنبھالے سارے ہال میں اس کے پیچھے دوڑتے پھرتے رہے۔ لڑکی دوڑ رہی تھی آرکسٹرا بج رہا تھا اور لڑکی کا گیت بھی جاری تھا! اب وہ گا رہی تھی کہ ایک لکڑ بگھا میرا پیچھا کر رہا ہے۔۔۔ مجھے بچاؤ۔۔۔ جھاڑیاں ہوا سے نہیں ہل رہی تھیں بلکہ ان میں لکڑ بگھا چھپا ہوا تھا۔ مجھے بچاؤ۔ نواب صاحب بوڑھے تھے اور لڑکی بیحد پھرتیلی تھی۔ وہ ہر بار ان کی چھڑی کی زد سے نکل جاتی تھی! اس کا جنگلی گیت بھی جاری تھا اور لوگ بے تحاشہ ہنس رہے تھے! آخر نواب صاحب اسی طرح دوڑتے ہوئے ایک بار ہال سے باہر ہی نکل گئے۔۔۔! اگر وہ زیادہ اچھل کو مچاتے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 42 – 43

تو شاید اٹھا کر باہر پھینک دیئے جاتے!۔۔۔ یہاں کی تفریح یہی ہے۔! اس وقت جوزف بھی ان کی تفریح کا باعث بن گیا ہوتا۔ لیکن میں نے اُسے قابو رکھا۔"

"خاصی دلچسپ جگہ ہے ۔۔۔ اب جب بھی تشریف لائیے رانا صاحب اس خادم سیکرٹری کو نہ بھولیئے۔" صفدر نے مسکرا کر کہا ۔۔۔ پھر یک بیک سنجیدہ نظر آنے لگا! وہ کنکھیوں سے سُرخ ٹائی والے کی طرف دیکھ رہا تھا! پھر اس نے عمران کی طرف دیکھا جو سُرخ ٹائی والے کے پاس دو فوجی آفیسروں کو کھڑا دیکھ کر ٹھنڈی سانسیں بھرنے لگا۔ ایک فوجی نے سوٹ کیس اٹھایا اور دوسرا سُرخ ٹائی والے سے کچھ کہنے لگا۔

"اٹھوں ۔۔۔" صفدر نے عمران سے پوچھا۔

"نہیں پیارے !" وہ ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ " ٹھنڈک۔! مجھے غلط فہمی ہوئی تھی۔!"

"کیا مطلب!۔۔۔"

"کچھ نہیں۔۔۔ ! تم شیری پیو گے یا شیرا! یہاں شاید بکری اور بکرا بھی مل جائیں! چلو فکر نہیں اگر ایک طرف سے ٹھنڈک نصیب ہوئی ہے تو دوسری طرف سے یقیناً ۔۔۔ یقیناً ۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔۔ وہ پھر آ رہی ہے۔!"

صفدر مڑا۔ لڑکی تھرکتی ہوئی پھر اُدھر ہی آ رہی تھی!

"باس۔! ۔۔۔ میں پاگل ہو جاؤں گا۔!" جوزف غرایا۔

"نہیں ۔۔۔ تم اٹھ کر کام شروع کر دو۔۔۔ پانچ سو ڈنڈ اور ایک ہزار بیٹھکیں!"

"نہیں ۔۔۔ باس ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ مجھے بخار چڑھ آیا ہے۔"

بہری لڑکی پھر جوزف کی میز کے قریب رُک کر تھرکنے لگی!

"اے ۔۔۔ !" دفعتاً عمران غرایا۔ " تم ہماری توہین کر رہی ہو۔ ہماری موجودگی میں ہمارے ملازمین سے دل لگاتی ہو! آنکھیں لڑاتی ہو۔ ہماری ریاست میں ہوتیں تو ہم تمہیں بتاتے۔!"

دفعتاً لڑکی اس کی طرف مڑی اور گانے لگی!

"تم خزاں کے ببول ہو اور وہ آبنوس کا ہرا بھرا درخت ہے!
تم ایک خارش زدہ مُرغ ہو اور وہ چمکدار پہاڑی کوا ہے!
تم جھلسا دینے والی دوپہر ہو!
اور وہ ایک ٹھنڈی اندھیری رات ہے۔!"
پھر بتاؤ میں تمہیں کیسے چاہوں!"

یک بیک عمران بھی اٹھ کر انگریزی میں حلق پھاڑنے لگا۔ اُس کے انداز سے ایسا ہی معلوم ہو رہا تھا جیسے بہت زیادہ نشہ ہو گیا۔ ! وہ گا رہا تھا !

"تم میٹھے پانی کی ایک سُبک رو ندی ہو!
اور میں ایک پیاسا ارنا بھینسا ہوں!
ایک یتیم اور لاوارث بچھڑا۔
جس کی ماں دکھن کی طرف چلی گئی ہو اور باپ اُتر کی طرف چرتے چرتے دونوں نہ جانے کہاں جا نکلے ہوں۔
کیا تم مجھے ایک گھونٹ بھی نہ دو گی۔"
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 44 – 45

تم میری ماں ہو۔
میں تمہارا باپ ہوں۔"

قہقہوں سے چھت اڑی جا رہی تھی! لڑکی بھی ہنس رہی تھی! جوزف بھی ہنس رہا تھا۔ لڑکی اب بھی تھرکے جا رہی تھی۔ اور آرکسٹرا کان پھاڑ رہا تھا۔

عمران بیٹھ گیا! اس کے چہرے پر سچ مچ یتیمی برسنے لگی تھی!

اب صفدر کو سُرخ ٹائی والے کا ہوش آیا! وہ کرسی کی پشت سے ٹکا ہوا سگار پی رہا تھا! سوٹ کیس اور دونوں فوجی غائب تھے!

"کیا تم نہیں پیو گے۔!" دفعتاً لڑکی نے جوزف سے پوچھا۔

"ماہ ۔۔۔!" جوزف بھرائی ہوئی آواز میں دھاڑا۔

"تم پر پھٹکار۔۔۔ خدا کرے تم بھی جلدی سرکنڈوں کی جھاڑیوں میں پہنچ جاؤ کالے سانپ بن کر!" اس نے کہا۔ بوتل اور گلاس سمیٹے اور تھرکتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔"

جوزف کانپ رہا تھا! بالکل اسی طرح جیسے جاڑا دے کر بخار آ گیا ہو! چہرہ سُت گیا تھا اور آنکھیں خوفزدہ تھیں۔ وہ اٹھ کر اُسی طرح کانپتا ہوا عمران کی میز کے قریب آیا۔!

"بھاگ چلو گورنر۔۔۔!" اس نے کانپتی ہوئی اور خوفزدہ آواز میں کہا۔۔۔" وہ کوئی بُری روح ہے۔ کیا تم نے نہیں سُنا کہ اس نے مجھے بد دعا دی تھی۔۔۔ میرے مالک۔۔۔ سرکنڈوں کی جھاڑیاں۔۔۔"

"کیا بکواس ہے۔"

"سرکنڈوں کی جھاڑیوں میں ان کی روحیں سانپ بن کر رہتی ہیں جن کی مشمبا مشامبا ہڈیاں چبا جاتا ہے۔!"

"کیا تمہیں شراب کی بُو سے بھی نشہ ہو جاتا ہے!" عمران نے متحیرانہ انداز میں کہا۔

"نہیں باس اس نے بد دعا دی ہے۔ میرے مالک آج بُدھ کی رات ہے۔۔۔ ارے باپ رے۔۔۔ " جوزف اور تیزی سے کانپنے لگا۔

"بیٹھو۔۔۔!" عمران اس کی میز کی طرف اشارہ کر کے غرایا۔

"رحم ۔۔۔ رحم میرے ۔۔۔۔ آج بدھ کی رات ہے۔۔۔ مشمبا مشامبا۔!"

"ہمارے ملک میں مشمبا مشامبا نہیں چلے گی! کیونکہ یہاں ہر وقت اس کا سینہ ہوائی جہاز چیرتے رہتے ہیں! بیٹھو۔۔۔ اس طرح نہ کانپو ورنہ بدہضمی ہو جائے گی۔"

"ہیضہ بھی ہو سکتا ہے، گورنر۔" جوزف ہانپتا ہوا بولا۔ "مشمبا مشامبا۔"

"کیا میں اٹھوں اور یہیں شروع کر دوں!" عمران نے اُسے دھمکی دی اور جوزف اسی طرح کانپتا ہوا اپنی میز کی طرف مڑ گیا۔

"یہ مشمبا مشامبا کیا بلا ہے! صفدر نے عمران سے پوچھا۔

"دریائے کانگو کے کنارے بسنے والوں کا دیوتا!" عمران بولا۔

"تم اسے طوفان کا دیوتا بھی کہہ سکتے ہو! ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جو لوگ اس دیوتا کی نذر ہوتے ہیں۔ ان کی روحیں سرکنڈوں کی جھاڑیوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 46 - 47

میں سانپ بن کر رہتی ہیں۔!"

" ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس کا دم ہی نکل جائے گا۔" صفدر جوزف کی طرف دیکھ کر ہنسا۔" پتہ نہیں یہ جانور کہاں سے آپ کے ہاتھ لگا۔"

"بیحد ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں! شیروں سے لڑ جائیں گے، مگر مشمبا مشامبا جیسے توہمات سے ان کا دم نکلتا رہے گا۔"

تھوڑی دیر تک خاموشی ہی رہی۔ پھر صفدر نے کہا۔ " اب ہم یہاں کیا کر رہے ہیں! اب تو سوٹ کیس بھی نکل گیا۔!"

"اب ہم یہ سوچنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ لڑکی واقعی بہت حسین ہے۔" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔

" خدا رحم کرے اس کے حال پر۔!"

اتنے میں صفدر نے دیکھا کہ سُرخ ٹائی والا بھی اٹھ کر جا رہا ہے!

" وہ جا رہا ہے!" اس نے آہستہ سے کہا۔

"جانے دو!" عمران کے لہجے میں لاپروائی تھی۔

صفدر بیک وقت بہت سے سوالات اس کے سامنے رکھنا چاہتا تھا مگر یہ سوچ کر خاموش رہ جاتا تھا کہ جوابات اوٹ پٹانگ ہی ہونگے! لہٰذا اپنا مغز چٹوانے سے کیا فائدہ!

"ہم شاید یہاں رات گزارنے کے لئے آئے ہیں!" صفدر نے تھوڑی دیر بعد کہا۔

"اٹھو یار۔۔۔۔!" عمران جھنجلا کر بولا۔" ایسا سیکرٹری نہیں چلے گا۔"

وہ اٹھا اور پھر بیٹھ گیا! کیونکہ ابھی اسے بل کی قیمت ادا کرنی تھی!

اسے اٹھتے دیکھ کر وہی ویٹر اُن کی طرف جھپٹا تھا جس نے شراب کی کشتی لگائی تھی۔

بل ادا کر کے عمران اٹھ گیا اور صفدر نے جوزف کے چہرے پر اطمینان کی لہریں دیکھیں! وہ باہر آئے۔ ڈرائیور نے ان کے لئے پچھلی نشست کا دروازہ کھولا اور دونوں اندر بیٹھ گئے! جوزف ڈرائیور کے برابر جا بیٹھا اور کار چل پڑی۔

"کیوں زین خاں!" عمران نے ڈرائیور کو مخاطب کیا۔ " کیا باہر ملٹری کا ٹرک آیا تھا۔"

"جی ہاں"

"کتنے آدمی رہے ہوں گے اس پر ۔۔۔!"

"دس بارہ جناب۔"

"سب مسلح تھے۔"

"جناب۔"

پھر سکوت طاری ہو گیا۔

کار چلتی رہی! تھوڑی دیر بعد یکایک جوزف ہوائی فائر کرنے لگا۔

"ارے۔۔۔ ارے یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔!" عمران بوکھلا کر بولا۔

"میں اپنا خوف دور کر رہا ہوں۔۔۔!" جوزف نے سادگی سے جواب دیا۔

"او ۔۔۔ ہاتھی کے پٹھے دونوں ریوالور مجھے دے دو ورنہ ہم سب گاڑی سمیت بند کر دیئے جائیں گے۔!"
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 48 – 49

سڑک سنسان تھی ورنہ سچ مچ وہ کسی پریشانی میں پڑ جاتے۔

"تیزی سے نکل چلو زین خاں۔" عمران نے کہا۔

"بہتر جناب۔"

تھوڑی دیر بعد صفدر بولا۔ " عمران صاحب ہمارا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ کوئی گاڑی پیچھے ہے۔"

"میں جانتا ہوں۔"

"پولیس۔"

"پھر کون ہو سکتا ہے۔!"

"انہیں مستقل ممبروں میں سے کوئی ہو گا۔ جنہوں نے آج سنجیدہ ترین رانا تہور علی صندوقی کو نشے میں گاتے دیکھا تھا۔"

"نگانہ نے بھی ایک بار مجھے ایسی ہی بد دیا دی تھی باس۔" جوزف نے ان کی طرف مڑ کر بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔! صفدر بڑی شدت سے بوریت محسوس کرنے لگا۔

"نگانہ کون تھی جوزف۔" عمرا نے پوچھا۔

"آہ ۔۔۔ وہ قبیلے کی چاندنی تھی باس! ۔۔۔ مجھے چاہتی تھی! لیکن مجھے پالا داروں سے فرصت نہیں ملتی تھی! آخر وہ انتظار کرتے کرتے تھک گئی تھی۔۔۔ اور جل کر اس نے مجھے یہی بد دعا دی تھی۔ جو اس وقت اس سفید چڑیل۔!

"میں بھی بہت جلد ایک پالا دار کرنے والا ہوں۔" عمران نے کہا۔

"اوہ ۔۔۔ کرو بھی باس!"

"پالا دار کیا۔۔۔!" صفدر نے پوچھا۔

"ان کی زبان میں جنگی مشاورت۔۔۔!" عمران نے جواب دیا۔

کار نیو کالونی میں مڑ رہی تھی! صفدر نے ایک بار پھر پلٹ کر دیکھا کسی گاڑی کے ہیڈ لیمپ نظر آ رہے تھے۔ اس کے علاوہ پوری سڑک سنسان پڑی تھی۔

پھر کچھ دیر بعد بیوک رانا پیلس کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوئی۔

کار سے اترتے وقت صفدر نے ایک لمبی سی گاڑی دیکھی جو پھاٹک کے پاس سے گزر رہی تھی۔

"میرا خیال ہے کہ یہی ہمارے پیچھے تھی۔" صفدر نے کہا۔

"رہی ہو گی!" عمران کے لہجہ میں لاپرواہی تھی!

یک بیک جوزف چونک کر اچھل پڑا اور بھرائی ہوئی آواز میں چیخا۔

"سانپ"

"کیوں دماغ خراب ہو رہا ہے۔۔۔ کیا میں تمہارا سارا خوف جھاڑ دوں۔" عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔

"آہ ۔۔۔ بُری روحیں میرے گرد منڈلانے لگی ہیں باس۔" اس کا لہجہ خوفزدہ اور درد ناک تھا۔

"اندر چلو۔۔۔" عمران نے اس کی گردن دبوچ کر دھکا دیا۔ پھر صفدر سے بولا! "آج ہم یہیں رات بسر کریں گے۔"
*-*-*-*-*-*
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 50 – 51

معاملہ اسی رات پر نہیں ٹل گیا تھا! صفدر کو دو راتیں رانا پیلس میں گزارنی پڑیں۔ وہاں کے ملازمین اس طرح عمران کا ادب کرتے تھے جیسے وہ سچ مچ رانا تہور علی صُندوقی ہو اور ہمیشہ یہیں رہتا ہو۔ جوزف بھی ساتھ ہی تھا۔ اُسے ڈنڈ پیلتے اور کراہتے دیکھ کر صفدر بے تحاشہ قہقہے لگاتا اور عمران کی حماقت پر سر پیٹ لینے کو دل چاہتا۔ آخر جوزف جیسے ناکارہ آدمی کو رکھنے ہی کی کیا ضرورت تھی! اس رات اگر واقعی سڑک سنسان نہ ہوتی تو فائروں کی آوازیں انہیں حوالات تک تو پہنچا ہی دیتیں!۔

عمران تین دن سے نہ خود اپنے فلیٹ میں واپس آیا تھا۔ اور نہ صفدر ہی کو آفس جانے دیا تھا! یا تو وہ دونوں مختلف تفریح گاہوں میں چکر لگاتے رہتے یا ان کا وقت رانا پیلس ہی میں گزرتا۔

پچھلی رات وہ بڑے آدمیوں کے نائٹ کلب میں بھی گئے تھے لیکن صفدر کو وہاں بہری رقاصہ نہیں نظر آئی تھی۔ اس کی جگہ ایک اسپینی عورت تھرک رہی تھی!۔ جوزف بھی ساتھ تھا! لیکن دوسری رقاصہ کو دیکھ کر اس کی آنکھوں سے خوف غائب ہو گیا تھا! وہ خوش نظر آنے لگا تھا۔ چہکنے لگا تھا اور واپسی پر اُس نے عمران سے ایک بوتل کی فرمائش کی تھی۔

وہ کلب سے واپس آ گئے تھے اور اب تک کوئی خاص بات ظہور میں نہ آئی تھی!۔۔۔ اس وقت ناشتے کی میز سے اٹھے تھے اور برآمدے میں بیٹھے اونگھ رہے تھے! صفدر کی تو یہی کیفیت تھی۔ عمران کا جو حال رہا ہو۔ پچھلی رات وہ تقریباً ڈھاتئی بجے کلب سے واپس آئے تھے۔ اور پھر صبح انہیں جلد ہی اٹھ جانا پڑا تھا۔

ٹھیک چھ بجے وہاں زور دار آواز والا گھنٹہ بجتا تھا اور اس کی آواز اس وقت تک جاری رہتی تھی جب تک ایک ایک فرد بیدار نہیں ہو جاتا تھا۔ صفدر نے اس حماقت کی وجہ پوچھی تھی اور عمران نے اسے بتایا تھا کہ رانا تہور علی صندوقی کی بیداری کا یہی وقت ہے خواہ ایک ہی گھنٹہ پہلے سویا ہو۔

صفدر ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہنے سے بور ہو رہا تھا! دفتر میں کم از کم بزنس کے کاغذات ہی سامنے ہوتے تھے اور اس کا ذہن الجھا رہتا تھا! یہاں تو بس بیکاری میں اس بہری لڑکی کا تصور اس کے ذہن پر اس بُری طرح مسلط ہو کر رہ گیا تھا کہ اسے بعض اوقات خود پر غصہ آنے لگتا تھا۔

وہ بے حد حسین تھی! بڑی دلکش تھی! اور اس کے تھرکنے کا انداز
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 52 – 53

ایسا تھا کہ تصور ہی سے دل میں گدگدیاں ہونے لگتی تھیں۔۔! صفدر اس کے خیال کو ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کرنے لگا۔

یک بیک اسے ایک شکستہ حال لڑکا نظر آیا جو پھاٹک سے گزر کر پورچ کی طرف آ رہا تھا۔۔۔ اس وقت پھاٹک پر چوکیدار نہیں تھا۔ لڑکا ابھی آدھے راستے میں تھا کہ ایک ملازم نے اسے للکارا۔

"آنے دو۔" عمران نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔

لڑکا قریب آ گیا! لیکن پھر وہ برآمدے کی سیڑھیوں ہی پر رک گیا۔

"کیا بات ہے۔ آؤ۔۔" عمران نے نرم لہجے میں کہا۔

لڑکا اوپر آ گیا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ " یہاں کوئی جوزف صاحب ہیں۔ ان کے نام میرے پاس ایک خط ہے!"

"لاؤ۔"

عمران نے ہاتھ بڑھا دیا! لڑکے نے اپنے پھٹے ہوئے کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک لفافہ نکالا۔

صفدر اُسے کنکھیوں سے دیکھ رہا تھا! لفافہ نیلے رنگ کا تھا اور اس پر سیاہ روشنائی سے مسٹر جوزف تحریر تھا۔

"کس نے دیا ہے۔" عمران نے پوچھا۔

"ایک میم صاحب تھیں!" لڑکے نے جواب دیا۔ "انہوں نے مجھے ایک اٹھنی دی تھی! جی ہاں۔"

"کہاں ملی تھی۔"

"تیرھویں سڑک پر انہوں نے آپ کا پتہ بتایا تھا۔"

عمران نے بھی جیب سے اٹھنی نکال کر اسے دی۔

پھر لڑکے کے چلے جانے پر اس نے جوزف کو طلب کیا۔

"یہ تمہارا خط ہے۔"

"میرا خط باس۔" جوزف نے حیرت سے کہا۔

"ہاں ۔۔۔ کیا تمہیں پڑھنا آتا ہے؟"

"تھوڑا بہت۔۔۔! مگر مجھے یہاں کون خط لکھے گا! میں تو کسی بھی نہیں جانتا۔"

"اسے کھول کر پڑھو!"

جوزف نے کانپتے ہاتھوں سے لفافہ چاک کر کے خط نکالا۔ لیکن تحریر پر نظر ڈالتے ہی اس کا چہرہ ادھ کچی جامنوں کا سا نکل آیا۔۔۔ یہ کیفیت انتہائی غصے کے عالم میں ہوتی تھی۔۔۔ صفدر اُسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا! دفعتاً اس نے اس کے چہرے پر پھر ہوائیاں اُڑتی دیکھیں! اس نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے خط عمران کی طرف بڑھا دیا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔

" دیکھو - باس"

عمران نے تحریر پر نظر ڈالی اور صفدر کی طرف بڑھاتا ہوا مردہ سے آواز میں بولا۔

"میں تو سمجھتا تھا کہ وہ رانا تہور علی صندوقی کو پسند کرے گی۔"

تحریر تھی۔

پیارے چمکدار کوے!

میں تمہیں کس طرح یقین دلاؤں کہ میں تمہیں بے حد چاہتی ہوں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top