آب ِ گُم ( کار ، کابلی والا اور الہ دین بے چراغ )

ظفری

لائبریرین
اعصاب پر گھوڑا ہے سوار

علامہ اقبال نے ان شاعروں ، صورت نگاروں اور افسانہ نویسوں پر بڑا ترس کھایا ہے جن کے اعصاب پر عورت سوار ہے ۔ مگر ہمارے حبیبِ لبیب اور ممدوح بشارت فاروقی ان بدنصیبوں میں تھے جن کی بے داغ جوانی اس شاعر کے کلام کی طرح تھی جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ موصوف کا کلام غلطیوں اور لطف دونوں سے پاک ہے ! بشارت کی ٹریجیڈی شاعروں ، آرٹسوں اور افسانہ نویسوں سے کہیں زیادہ گھور گھمبیر تھی۔ اس لیئے کہ دُکھیا کے اعصاب پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی سوار رہا ۔ سوائے عورت کے ۔ اس دور میں جسے ناحق جوانی دیوانی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔، ان کے اعصاب پر بلترتیب مُلا ، ناصح بزرگ ، ماسٹر فاخر حسین ، مولوی مظفر ، داغ دہلوی ، سیگل اور خُسر بزرگوار سوار رہے ۔ خدا خدا کر کے وہ اسی ترتیب سے اُن پر سے اُترے تو گھوڑا سوار ہوگیا ، جس کا قصہ ہم ” اسکول ماسٹر کا خواب ” میں بیان کر چکے ہیں ۔ وہ سبز قدم ان کے خواب ، ذہنی سکون اور گھریلو بجٹ پر جھاڑو پھیر گیا ۔ روز روز کے چالان ، جرمانے اور رشوت سے وہ اتنے عاجز آچکے تھے کہ اکثر کہتے تھے کہ اگر مجھے چوائس دی جائے کہ تم گھوڑا بننا پسند کروگے یا اس کا مالک یا اس کا کوچوان تو میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے SPCA کا انسپکٹر بننا پسند کروں گا جو اُن تینوں کا چالان کرتا ہے ۔

سنگین غلطی کرنے کے بعد پس بینی hindsight کا مظاہرہ کرنے والوں کی طرح اس کابلی والا ( برصغیر کی تقسیم سے قبل تقربیاّ ہر بڑے شہر میں سُود پر قرضہ دینے والے افغانی بکثرت نظر آتے تھے ۔ اُن کی شرحِ سُود بالعموم سو فی صد سے بھی زیادہ ہوتی تھی ۔ اور وصولی کے طریقے اُس سے بھی زیادہ ظالمانہ ۔ قرض لینے والے عموماً غریب غُربا اور نوکری پیشہ لوگ ہوتے تھے ۔ جس نے اُن سے ایک دفعہ قرض لیا ، وہ تادمِ مرگ سُود ہی ادا کرتا رہتا تھا ۔اورتادمِ مرگ زراصِل اور خان صاحب سر پر جُوں کے تُوں کھڑے رہتے تھے ۔ بنگال اور بعض دوسرے علاقوں میں بھی ، بیاج پر روپیہ چلانے والے افغانیوں کو کابلی والا کہتے تھے ۔ ٹیگور نے اسی عنوان سے ایک خوبصورت کہانی لکھی ہے ، جس کا ہمارے قضئے نما قصّے سے کوئی تعلق نہیں ۔

اس زمانے میں چوائس کی بہت بات کرتے تھے ۔مگر چوائس ہے کہاں ؟ مہاتما بدھ نے تو دو ٹوک بات کہہ دی کہ اگر چوائس دی جاتی تو وہ پیدا ہونے سے ہی انکار کر دیتے۔ لیکن ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ گھوڑے کو اگر چوائس دی جائے تو وہ اگلے جنم میں بھی گھوڑا ہی بننا پسند کرے گا ۔ مہاتما بدھ بننا ہرگز پسند نہیں کرے گا ، کیونکہ وہ گھوڑیوں کے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھ سکتا جیسے گوتم بدھ نے یشودھرا کے ساتھ کیا ۔ یعنی انہیں غافل سوتا چھوڑ کر بیاباں کو نکل جائے یا کسی جاکی کے ساتھ بھاگ جائے ۔ گھوڑا کبھی اپنے گھوڑے پن سے شرمندہ نہیں ہوسکتا ۔ نہ کبھی اس غریب کو فلک کج رفتار سے شکوہ ہوگا ۔نہ اپنے سوارگردوں رکاب سے کوئی شکایت ۔نہ تن بہ تدبیر ، بیسار جُو ماداؤں کے ہرجائی پن کا کوئی گلہ ۔ یہ تو آدمی ہی ہے جو ہر دم اپنے آدمی پن سے نادم و نالاں رہتا ہے ۔ اوراس کی فکر میں غلطاں کہ ۔۔۔

ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا تو میں کیا ہوتا

گھوڑا تانگا رکھنےاور اُسے ٹھکانے لگانے کے بعد بشارت میں بظاہر دو متضاد تبدیلیاں رُونما ہوئیں ۔پہلی تو یہ کہ گھوڑے اور اس کے دور نزدیک کے تمام متعلقات سے ہمیشہ کے لیئے نفرت ہوگئی ۔ تنہا ایک لنگڑے گھوڑے نے انہیں جتنا نقصان پہنچایا اتنا تمام ہاتھیوں نے مل کر پورس کو نہیں پہنچایا ہوگا ۔ دوسری تبدیلی یہ آئی کہ اب وہ سواری کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے ۔ آدمی کو ایک دفعہ سواری کی عادت پڑ جائے تو پھر اپنی ٹانگوں سے ان کا فطری کام لینے میں توہین کے علاوہ نقاہت بھی محسوس ہونے لگتی ہے ۔ ان کی لکڑی کی بزنس اب کافی پھیل گئی تھی جسے وہ کبھی اپنی دوڑ دھوپ کا پھل اور کبھی اپنے والدِ بزرگوار کی جوتیوں کا طفیل بتاتے تھے ، جبکہ خود والدَ بزرگوار اسے بھاگوان گھوڑے کے قدموں کی برکت پر محمول کرتے تھے۔بہر صورت ، قابلَ غور بات یہ تھی کہ ان کی ترقی کا محرک اور سبب کبھی پیروں اور جوتیوں کی سطح سے اُوپر نہیں گیا ۔کسی نے بلکہ خود انہوں نے بھی ذہانت اور فراست کو اس کا کریڈٹ نہیں دیا ۔لکڑی کی بِکری بڑھی تو دفتروں کے چکر بھی بڑھے ۔ اسی قدر سواری کی ضرورت میں اضافہ ہوا ۔ اس زمانے میں کمپنیوں میں رشوت نہیں چلتی تھی ۔ لہذاٰ کام نکالنے کہیں زیادہ ذلت و خواری ہوتی تھی ۔ہمارے ہاں ایماندار افسر کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ جب تک بے جا سختی ، خوردہ گیری اور اڑیل اور سڑیل پن سے سب کو اپنی ایمان داری سے عاجز نہ کردے ، وہ اپنی ملازمت کو پکا اور خود کو محفوظ نہیں سمجھتا ۔بے ایمان افسر سے بزنس مین بآسانی نمٹ لیتا ہے ، ایمان دار افسر سے اسے ہول آتا ہے ۔ چناچہ صورت یہ تھی کہ کمپنی سے لکڑی اور کھوکھوں کا آڈر لینے لے لیئے پانچ چکر لگائیں تو بل کی وصولی لے لیئے دس چکر لگانے پڑتے تھے ۔ جب سے کمپنی لیچڑ ہوئیں ، انہوں نے دس پہروں کا کرایہ اور محنت بھی لاگت میں شامل کر کے قیمتیں بڑھا دیں ۔ ادھر کمپنیوں نے ان کی نئی قیمتوں کو لٹس قرار دے کر دس فیصد کٹوتی شروع کر دی ۔بات وہیں کی وہیں رہی ۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ ہر دو فریق ایک دوسرے کو لالچی ، کائیاں اور چور سمجھ کر لین دین کرنے لگے ۔ اور یہ چوکس اور کامیاب بزنس مین کا بنیادی اُصول ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
اب بغیر سواری کے گذر نہیں ہوسکتی تھی ۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کون سی سواری موزوں رہے گی ۔ ٹیکسی ابھی عام نہیں ہوئی تھی ۔اُس زمانے میں ٹیکسی صرف خاص خاص موقعوں پر استعمال ہوتی تھی ۔ مثلاً ہارٹ اٹیک کے مریض کو اسپتال لے جانے ، اغوا کرنے ، ڈاکہ ڈالنے اور پولیس والوں کو لفٹ دینے کے لیئے ۔ اور یہ جو ہم نے کہا کہ مریض کو ٹیکسی میں ڈال کر اسپتال لے جاتے تھے ۔ تو فقط یہ معلوم کرنے لے لیئے جاتے تھے کہ زندہ ہے کہ مر گیا کیونکہ اُس زمانے میں بھی جناح اور سول اسپتال میں اُنہی مریضوں کا داخلہ ملتا تھا جو پہلے اسی ہسپتال کی کسی ڈاکٹر کے پرائیویٹ کلینک میں Preparatory ( ابتدائی ) علاج کروا کر اپنی حالت اتنی غیر کر لیں کہ اسی ڈاکٹر کے توسط سے اسپتال میں آخری منزل آسان کرنے کے لیئے داخلہ مل سکے ۔ ہم اسپتال میں مرنے کے خلاف نہیں ۔ ویسے تو مرنے کے لیئے کوئی بھی جگہ ناموزوں نہیں ، لیکن پرائیویٹ اسپتال اور کیلنک میں مرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مرحوم کی جائیداد ، جمع جتھا اور بیکن بیلنس کے بٹوارے پر پسماندگان کے درمیان خون خرابا نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ وہ سب ڈاکٹروں کے حصے میں آجاتے ہیں ۔ افسوس ! شاہ جہاں کے عہد میں پرائیوٹ اسپتال نہ تھے ۔وہ ان میں داخلہ لے لیتا تو قلعہِ آگرہ میں اتنی مدّت تک اسیر رہنے اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جینے سےصاف بچ جاتا ۔ اور اس کے چاروں بیٹے تخت نیشنی کی جنگ میں ایک دوسرے کا سر قلم کرنے کے جتن میں سارے ہندوستان میں آنکھ مچولی کھیلتے نہ پھرتے ۔ کیونکہ فساد کی جڑ یعنی سلطنت و خزانہ تو بلوں کی ادائیگی میں نہایت پُرامن طریقے سے جائز وارثوں یعنی ڈاکٹروں کو منتقل ہو جاتا ۔ بلکہ انتقالِ اقتدار کے لیئے فرسودہ ایشیائی رسم یعنی بادشاہ کے بھی انتقال کی بھی ضرورت نہیں رہتی ۔ اس لیئے جیتے جی تو ہر حکمران انتقالِ اقتدار کو اپنا ذاتی انتقال سمجھتا ہے ۔

چلی سمتِ غرب سے ایک ہوا :

بِلوں کی وصولی کے سلسلے میں وہ کئی بار سائیکل رکشا سے بھی گئے ۔لیکن طبیعت ہر بات منغّص ہوئی ۔ پیڈل رکشا چلانے والے کو اپنے سےدُوگنی راس ڈھونی پڑتی تھی ۔جب کہ خود سواری کو اس سے بھی زیادہ بھاری بوجھ اُٹھانا پڑتا تھا کہ وہ اپنے ضمیر سے بوجھوں مرتی تھی ۔ ہمارے خیال میں آدمی کو آدمی ڈھونے کی اجازت صرف دو صورتوں میں ملنی چاہیئے ۔ اوّل اُس موقعے پر جب دونوں میں ایک وفات پا چکا ہو ۔ دوسرے، اُس صورت میں جب دونوں میں سے ایک اُردو نقّاد ہو ۔ جس پر مُردے ڈھونا فرض ہی نہیں ذریعہ معاش اور وجہ ِ شہرت بھی ہو ۔دو دفعہ بسوں کی ہڑتال کے دوران بشارت کو سائیکل پر بھی جانا پڑا ۔ ان پر انکشاف ہوا کہ کراچی میں بارہ ماسی بادہِ مخالف کے سبب سائیکل اور سیاست دس قدم بھی نہیں چل سکتی ۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوا گویا سارا شہر ایک بگولے کی آنکھ میں بسا دیا گیا ہے ۔ اب اسے مغرب سے چلنے والی سمندری ہوا کی کینہ پروری کہیئے یا کراچی والوں کی شومئ قسمت ، آپ سیاست میں ، یا سائیکل پر کسی بھی سمت نکل جائیں ، آپ کو ہوا ہمیشہ مخالف ہی ملے گی ۔ ہر دو عمل ایسے ہی ہیں جیسے کوئی آندھی میں پتنگ اُڑانے کی کوشش کرے ۔

خود کشی غریبوں کی دسترس سے باہر :

ایک آدھ دفعہ خیال آیا کہ بسوں میں دھکے کھانے اور اسٹرپ ٹیز کروانے سے تو بہتر ہے کہ آدمی موٹر سائیکل خرید لے ۔موٹر سائیکل رکشا کا خیال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ اس لیئے کہ تین پہیوں پر خودکشی کا یہ سہل اور شرطیہ طریقہ ابھی رائج نہیں ہوا تھا ۔ اس زمانے میں عام آدمی کو خودکشی کے لیئے طرح طرح کی صعوبتیں اُٹھانا اور کھکھیڑ اُٹھانی پڑتیں تھیں ۔ گھروں کا یہ نقشہ تھا کہ ایک ایک کمرے میں دس دس اس طرح ٹُھنسے ہوتے کہ ایک دوسرے کی آنتوں کی قراقر تک سُن سکتے تھے ۔ ایسے میں اتنا تخلیہ کہاں نصیب کہ آدمی پھانسی کا پھندا کڑے میں باندھ کر تنہا سکون سے لٹک جائے ۔ علاوہ ازیں ، کمرے میں ایک ہی کڑا ہوتا تھا جس میں پہلے ہی ایک پنکھا لٹکا ہوتا تھا۔ گرم کمرے کے مکین اس جگہ کسی اور کو لٹکنے کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔ رہے پستول اور بندوق ،تو اُن کے لائسنس کی شرط تھی ۔ جو صرف امیروں ، وڈیروں اور افسروں کو کو ملتے تھے ۔ چناچہ خودکشی کرنے والے ریل کی پٹری پر دن بھر بھر لیٹے رہتے کہ ٹرین بیس بیس گھنٹے لیٹ ہوتی تھی ۔آخر غریب موت سے مایوس ہوکر کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوتے ۔
 

ظفری

لائبریرین
موٹر سائیکل میں بشارت کو سب سے بڑی قباحت یہ نظر آئی کہ موٹر سائیکل والا سڑک کے کسی بھی حصے پر موٹر سائیکل چلائے ، محسوس یہی ہوگا کہ وہ غلط جارہا ہے ۔ ٹریفک کے حادثات کے اعداد و شمار پر ریسرچ کرنے کے بعد ہم بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے ہاں پیدل چلنے والے اور موٹر سائیکل چلانے والے کا نارمل مقام ٹرک اور منی بس کے نیچے ہے ۔ دوسری مصیبت یہ ہے کہ ہم نے آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو پانچ سال سے کراچی میں موٹر سائیکل چلا رہا ہو اور کسی حادثے میں ہڈی پسلی نہ تڑوا چکا ہو ۔مگر ٹہریئے ۔خوب یاد آیا ۔ایک شخص بے شک ایسا ملا جو سات سال سے کراچی میں بغیر ایکسیڈنٹ کے موٹر سائیکل چلا رہا تھا ۔ مگر وہ صرف موت کے کنویں ( Well Of Death) میں چلاتا تھا ۔ تیسری قباحت اُنہیں یہ نظر آئی کہ مین ہول بناتے وقت کراچی میونسپل کارپوریشن دو باتوں کا ضرور لحاظ رکھتی ہے ۔ اوّل یہ کہ وہ ہمیشہ کُھلے رہیں تاکہ ڈھکنا دیکھ کر چوروں اور اُچکوں کو خواہ مخواہ یہ تجّس نہ ہو کہ نہ جانے اندر کیا ہے ۔ دوم ، دہانہ اتنا چوڑا ہو کہ موٹر سائیکل چلانے والا اس میں اندر تک بغیر کسی رُکاوٹ کے چلا جائے ۔ آسانی کے ساتھ ۔ تیز رفتاری کے ساتھ ۔ پیچھے بیٹھی سواری کے ساتھ ۔

خرگزشت

ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال اُٹھے کہ جب ہر سواری کے ساتھ حسن و قبح پر باقاعدہ غور اور آپ سے مشورہ کیا گیا تو گدھے اور گدھا گاڑی کوکیوں چھوڑ دیا گیا ۔ایک وجہ تو وہی ہے جو معاً آپ کے ذہن میں آئی ۔ دوسری یہ کہ جب سے ہم نے گدھے پر چیسٹرین کی معرکہ آرا نظم پڑھی ہم نے اس جانور پر ہنسنا اور اسے حقیر سمجھنا چھوڑ دیا ۔ گیارہ برس لندن میں رہنے کے بعد ہم پر بلکل واضع ہو گیا کہ مغرب میں گدھے اور الّو کو گالی نہیں سمجھا جاتا ۔ بلخصوص الّو تو علوئے فکر اور دانائی کا سمبل ہے ۔ یہاں اوّل تو کوئی ایسا نہیں ملے گا جو صیح معنوں میں الّو کہلوانے کا مستحق ہو ۔ لیکن اگر کسی کو الّو کہہ دیا جائے وہ اپنے جامے بلکہ اپنے پروں میں پُھولا نہ سمائے گا ۔ لندن کے چڑیا گھر میں الّووں کے کچھ نہیں تو پندرہ پنجرے ضرور ہوں گے ۔ ہر بڑے مغربی ملک کا نمائندہ الّو موجود ہے ۔ ہر پنجرہ اتنا بڑا جتنا اپنے یہاں شیر کا ہوتا ہے ۔ اور ہر الّو اتنا بڑا جتنا اپنے یہاں کا گدھا ۔ اپنے یہاں کا الّو تو ان کے سامنے بلکل ہی الّو معلوم ہوتا ہے ۔ انگلینڈ میں عینک سازوں کی سب سے بڑی کمپنی Donald Aitcheson کا logo (تجاری نشان) الّو ہے جو اُن کے سائن بورڈ ۔ لیڑ ہیڈ اور بلوں پر بنا ہوتا ہے ۔ اسی طرح امریکہ کے ایک بڑے اسٹاک بروکر کا ” لوگو” الّو ہے ۔ یہ محض سُنی سُنائی بات نہیں ہم نے خود ڈانلڈ ایچسن کی عینک لگا کر اسٹاک بروکر مذکور کے مشورے اور پیش گوئی کے مطابق کمپنی شیئرز (حصص) اور بونڈ کے تین چار ” فارورڈ ” سودے کیے ، جن کے بعد ہماری صورت دونوں کے لوگو سے ملنے لگی ۔
سابق پریسیڈنٹ کارٹر کی ڈیمو کریٹک پارٹی کا نشان گدھا تھا ۔ بلکہ ہمیشہ سے رہا ہے ۔ پارٹی پرچم پر بھی یہی بنا ہوتا ہے ۔ اسی پرچم تلے پُوری امریکن قوم ایران کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی رہی ۔ ہمارا مطلب ہے بے حس و حرکت ۔ مغرب کو گدھے میں کوئی مضحکہ خیز بات نظر نہیں آتی ۔ فرانسیسی مفّکر اور انشائیہ نگار مونتین تو اس جانور کےاوصافِ حمیدہ کا اس قدر معترف اور معّرف تھا کہ ایک جگہ لکھتا ہے کہ ” روئے زمین پر گدھے سے زیادہ پُر اعتماد ، مستقل مزاج ، گھمبیر ، دنیا کو حقارت سے دیکھنے والا اور اپنے ہی دھیان اور دُھن میں مگن رہنے والا اور کوئی ذی روح نہین ملے گا ۔ ” ہم ایشیائی دراصل گدھے کو اس لیئے ذلیل سمجھتے ہیں کہ اس میں کچھ انسانی خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ اپنی سہار اور بساط سے زیادہ بوجھ اُٹھاتا ہے اور جتنا زیادہ پٹتا اور بھوکوں مرتا ہے ۔ اتنا ہی اپنے آقا کا مطیع و فرماں بردار اور شُکر گذار ہوتا ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
بےکار مباش

سواریوں کے حسن و قبح پر مدلّل بحث سے صرف یہ دکھانا مقصود تھا کہ بشارت نے ظاہر یہ کیا کہ وہ فقط استدلال اور ردّ وقبول کے عمل سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کار خریدنا ، کاروباری ضرورت سے زیادہ ایک منطقی تقاضا ہے اور خدانخواستہ نہ خریدی تو کاروبار تو ٹھپ ہو گا سو ہوگا ۔ منطق کا خون ہوجائے گا اور ارسطو کی روح جنت میں ۔ یا جہاں کہیں بھی وہ ہے ، تڑپ اُٹھے گی ۔ جب کہ حقیقت اس کے بر عکس تھی ۔ انہیں زندگی میں جس شے کی کمی شدّت سے محسوس ہونے لگی تھی ، وہ دراصل کار نہیں اسٹیٹس سمبل تھا۔ جب کوئی شخص دوسروں کو قائل کرنے کے لیئے زور شور سے فلسفہ اور منطق بگھارنے لگے تو سمجھ جایئے کہ اندر سے وہ بے چارہ خود بھی ڈھلمل ہے ، اور کسی ایسے جذباتی اور نامعقول فیصلے کا عقلی جواز اور توجیہ تلاش کر رہا ہے جو وہ بہت پہلے کر چکا ہے ۔ ہنری ہشتم نے تو محض اپنی ملکہ کو طلاق دینے اور دوسری عورت سے شادی رچانے کی خاطر پاپائے روم سے قطع تعلق کر کے ایک نئے مذہب کی داغ بیل ڈال دی ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انگلینڈ کے مذہب یعنی چرچ آف انگلینڈ کی بنیاد ایک طلاق پر رکھی گئی تھی ۔ مرزا کہتے ہیں کہ فی زمانہ نئے مذہب کی ایجاد کا اس سے زیادہ معقول جواز اور ہو بھی نہیں سکتا ۔

بیوہ میم کی مسکراہٹ کی قیمت :

بشارت کافی عرصے سے سیکنڈ ہینڈ کار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے کہ ایک دن خبر ملی کہ ایک برٹش کمپنی کے ایک انگریز افسر کی چھ سلینڈر کی بہت بڑی کار بکاؤ ہے ۔ افسر کا دو مہینے پہلے قبل اچانک انتقال ہوگیا تھا اور اب اس کی جوان بیوہ اسے اونے پونے ٹھکانے لگانا چاہتی تھی ۔بشارت نے بیوہ کو ایک نظر دیکھتے ہی فیصلہ کر لیا کہ وہ اس کار کو جسے انہوں نے ہنوز دور سے بھی دیکھا نہیں تھا ۔ خرید لیں گے ۔ وہ اس کمپنی کو تین سال سے چیز کے پیکنگ کیس اور لکڑی سپلائی کر رہے تھے ۔ کمپنی کے پارسی چیف اکاؤنٹنٹ نے کہا کہ آپ یہ کار 11۔ 10 ۔ 3483 روپے میں لے جایئے ۔ ممکن ہے پڑھنے والوں کو یہ رقم اور آخری پائی تک کی باریکی عجیب لگے ، مگر بشارت کو عجیب نہیں لگی ۔ اس لیئے وہ رقم تھی جو کمپنی ایک عرصے سے اس بہانے سے دبائے بیٹھی تھی کہ انہوں نے ناقص کھوکھے سپلائی کیے جس کی وجہ سے چنیوٹ اور سیالکوٹ میں سیلاب کے دوران کمپنی کےسارے مال کی لگدی بن گئی ، بشارت کہتے تھے کہ میں نے بارہ بارہ آنے میں چیڑ کے کھوکھے سپلائی کیے تھے ، آبدوز یا کشتیِ نوح نہیں ۔کمپنی کے کھسیانے افسر Act Of God ( آفت سماوی) کا الزام عاجز پر لگا رہے تھے ۔
خوبصورت میم نے ، جس کے بیوہ ہونے سے وہ ناخوش تھے ۔ لیکن جسے بیوہ کہتے ہوئے ان کا کلیجہ منہ کو آتا تھا ، یہ پخ اور لگا دی کہ تین مہینے بعد جب وہ Batori جہاز سے لندن جائے گی تو اس کے سامان کی پیکنگ کے لیے مفت کریٹ مع کیلوں اورترکھان کے سپلائی کرنے ہوں گے ۔ اس شرط کو انہوں نے نہ صرف منظور کیا ، بلکہ اپنی طرف سے یہ اور بھی اضافہ کیا کہ میں روزآنہ آپ کے بنگلے میں آ آ کر آپ کی اور اپنی نگرانی میں خود بنفسِ نفیس ( بنفس ِ نفسانی ؟ ) پیکنگ کراؤں گا ۔ بشارت نے چیف اکاؤنٹنٹ سے کہا کہ کار بہت پرانی ہے ۔ 2500 میں مجھے دے دو۔ اس نے جواب دیا کہ منظور ، بشرطیکہ آپ اپنے ناقص کھوکھوں کا بل گھٹا کر 2500 کردیں ۔ بشارت نے میم سے فریاد کی کہ ” قیمت بہت زیادہ ہے ۔ کہہ سن کے کچھ کم کرا دو” اس کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے اتنی حاشیہ آرائی اور کر دی کہ ” غریب آدمی ہوں ۔ تلے اوپر کے سات آٹھ بچے ہیں ۔ ان کے علاوہ تیرہ بھائی بہن مجھ سے چھوٹے ہیں ۔ ”
یہ سُنتے ہی میم کے چہرے پر حیرت ، ہمدردی اور ستائش کا ملا جلا ایکسپریشن آیا ۔ کہنے لگی ۔ ” Oh ! dear , dear I see what you mean , your parents too were poor but passionate. " ۔
اس پر انہیں بہت طیش آیا ۔ جواباً یہ کہنا چاہتے تھے کہ تم میرے باپ تک کیوں جاتی ہو ؟ لیکن اس جملے کی بامحاورہ انگریزی نہیں بنی اور جو لفظی ترجمہ معاّ ان کی زبان پر آتا آتا رہ گیا ۔ ، اس پر انہیں خود ہنسی آگئی ۔ انہوں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ اب کبھی اپنے بچوں اور بھائی بہنوں کی تعداد بتانے میں مبالغے سے کام نہیں لیں گے ، سوائے راشن کارڈ بنواتے وقت ۔ اتنے میں میم بولی کہ ” ان داموں میں یہ کار مہنگی نہیں ۔ اس سے تو زیادہ میرے شوہر کے ٹیک ( ساگوان ) کے تابوت کی لاگت آئی تھی ” ۔ اس پر سیلزمین شپ کے جوش میں بشارت کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا کہ ” میڈم ! آئندہ آپ بلکل یہ چیز ہم سے آدھے داموں میں لے لیجیے گا ” میم مُسکرا دی اور سودا پکا ہوگیا ۔ یعنی 3483 روپے ، دس آنے اور گیارہ پائی میں کار ان کی ہوگئی ۔
اس واقعے کا دل پر ایسا اثر ہوا کہ آئندہ کسی گاہک کے نام کے بل بناتے تو یہ لحاظ ضرور رکھتے کہ کم سے کم قیمت پر مال بیچیں تاکہ کم سے کم رقم ڈُوبے ۔ اور اگر مرحوم ناہند کی حسین بیوہ سے رقم کے عوض کوئی چیز لینی پڑے تو کم سے کم داموں میں ہاتھ لگے جائے ۔
 

ظفری

لائبریرین
میں خود نہیں آئی ، لائی گئی ہوں ! :

بشارت اس زعم میں مبتلا تھے کہ انہوں مے سستے داموں میں کار خریدی ہے جب کہ حقیقت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے کھوکھے گھاٹ سے بچائے تھے ۔ لیکن خوش فہمی اور مغالطے سے دل خوش ہوجائے تو کیا حرج ہے ۔ مرزا اسی بات کو اپنے بقراطی انداز میں یوں کہتے ہیں کہ ہم نے باون گز گہرے ایسے اندھے کنویں بھی دیکھے ہیں جو سمجھےتھے کہ وہ خود کو اوندھا دیں یعنی سر لے بل اُلٹے کھڑے ہوجائیں تو باون گز کے مینار بن جائیں ۔ بہرکیف ، بشارت نےBeige رنگ کی کار خرید لی ۔ وہ انتہائی منکسر مزاج ہیں ۔ چناچہ دوستوں سے یہ تو نہیں کہا کہ ہم بھی کار والے ہوگئے ۔ البتہ اب ایک ایک سے کہتے پھر رہے ہیں کہ آپ نے بیثر رنگ دیکھا ہے ؟ ہر شخص نفی میں گردن ہلا دیتا ۔ فرماتے ، ” صاحب انگریز نے عجب رنگ ایجاد کیا ہے ۔ اُردو میں بھی کوئی نام نہیں ۔نمونہ حاضرِ خدمت کروں گا ۔

کار خریدتے ہی وہ بےحد سوشل ہوگئے ۔ اور ایسے لوگوں کے گھر بھی بیثر رنگ کا نمونہ دکھانے کے لیئے لے جانے لگے جن سے وہ عید بقر عید پر بھی ملنے کے روادار نہیں تھے ۔ جو دوست احباب یہ عجوبہ ان کے گھر دیکھنے آتے ، انہیں مٹھائی کھلائے بغیر نہیں جانے دیتے تھے ۔ اسی مبارک سلامتی میں ایک مہینہ گذر گیا ۔ ایک دن ایک دوست کے ہاں کار کی رُونمائی کروانے جا رہے تھے کہ وہ آدھے راستے میں ہچکولے کھانے لگی ۔ پھر اس پر کالی کھانسی کا دورہ پڑا ۔ حبسِ دم کے سبب دھڑکن ہلکی ہلکی سنائی دیتی ۔ کبھی بلکل غائب ۔ خیال ہوا مُکر کیے پڑی ہے ۔ دفعتاّ سنبھالا لیا ۔ ہیڈ لائیٹ میں ایک لخطے کے لیے روشنی آئی ۔ ہارن نے کچھ بولنا چاہا ، مگر نقاہت مانع ہوئی ۔ چند لمحوں بعد دھکڑ دھکڑ دھک دھک دھوں کر کے جہاں کھڑی تھی وہیں انجر بنجر بکھیر کر ڈھیر ہوگی ۔ Radiator کے ایک سرے سے بھاپ اور دوسرے سے تلل تلل پانی نکلنے لگا ۔ گدھا گاڑی سے کھنچوا کر گھر لائے ۔ مستری کو بُلا کر دکھایا ۔ اس نے بونٹ کھولتے ہی تین دفعہ دائیں ہاتھ سے اپنا ماتھا پیٹا ۔ بشارت نے پوچھا ، خیر تو ہے ؟ بولا بہت دیر کردی ۔ اس میں تو کچھ نہیں رہا ۔ سب پرزے جواب دے چکے ہیں ۔ آپ کو مجھے چھ مہینے پہلے بُلانا چاہیئے تھا ۔ بشارت نے جواب دیا کہ بلاتا کہاں سے ۔ خریدے ہوئے کل ایک مہینہ ہوا ہے ۔ بولا ، تو پھر خریدتے وقت پوچھنا ہوتا ۔ آدمی صراحی بھی خریدتا ہے تو پہلے ٹن ٹن بجا کر دیکھ لیتا ہے ۔ یہ تو کار ہے ۔ آپ زیادہ خرچ نہیں کرنا چاہتے تو فی الحال کام چلاؤ۔ مرمت کیے دیتا ہوں ۔بزرگ کہہ گئے ہیں کہ آنکھوں گوڈوں میں پانی اُتر آئے تو معجون اور چمپی مالش کارگر نہیں ہوتی ۔ پھر تو لاٹھی بیساکھی چاہیئے ۔ بشارت کو یہ بت تکلفی بہت ناگوار گذری ، مگر غرض مند صرف آئینے کا منہ چڑا سکتا تھا۔

اس کے بعد کار مستقل خراب رہنے لگی ۔ کوئی پرزہ درست نہیں ہوتا تھا ۔ صرفRear View Mirror یعنی پیچھے آنے والا ٹریفک دکھانے والا آئینہ صیح کام کر رہا تھا ۔ بعض اوقات کر کی رفتار گدھا گاڑی سے بھی زیادہ سُست ہوجاتی ، جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اسی میں باندہ کر کشاں کشاں لائی جاتی تھی ۔

میں خود نہیں آئی ، لائی گئی ہوں
کار اسٹارٹ کرنے سے پہلے وہ گدھا گاڑی کا کرایہ اور باندھنے کے لیئے رسی وغیرہ ضرور رک لیتے تھے ۔ اس مشینی جنازے کو گلیوں میں کھنچنے پھرنے کا عمل جسے وہTow کرنا کہتے تھے ، اس کثرت سے دہرایا گیا کہ گھر میں کسی نیفے میں کمر بند اور چارپائی میں ادوان نہ رہی ۔ اور ثانی الذکر پر سونے والے رات بھر کروٹ کروٹ جھولا جھولنے لگے ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دن بنارس خاں چوکیدار کی بکری کی زنجیر کھول لائے ۔ مرزا کہتے ہی رہ گئے کہ جو زنجیر بالشت بھر کی بکری کو ، جو تین دفعہ ” ہری ” ( اُمید سے ) ہوچکی ہے ، قابو نہ رکھ سکی ، جو تمہاری بے کہی کار کو کیا خاک باندھ کر کے رکھے گی ۔
 

ظفری

لائبریرین
ہر فن (مست ) مولا : الہٰ دین بے چراغ *

ڈرائیور کا مسئلہ خود بخود اس طرح حل ہوگیا کہ مرزا وحید الزماں بیگ عرف خلیفہ نے جو کچھ عرصے پہلے ان کا تانگا چلا چکا تھا ، ( جس کا مفصّل حال ہم ” اسکول ماسٹر کا خواب ” میں بیان کرچکے ہیں ) خود کو اس خدمت پر مامور کرلیا ۔ تنخواہ البتہ دُگنی مانگی جس کا جواز یہ پیش کیا کہ پہلے آدھی تنخواہ پر اس لیے کام کرتا تھا کہ گھوڑے کا دانہ چارا خود بازار سے لاتا تھا ۔ پہلے پہل کار دیکھی تو بہت خوش ہوا ، اس لیے کہ اس کی لمبائی گھوڑے سے تین ہاتھ زیادہ تھی ۔ دوسرے، اس پر صبح شام کھریرا کرنے کا جھنجٹ نہیں تھا ۔ آبائی پیشہ حجامی ، لیکن وہ ہر فن مولا نہیں ، ہر فن مست مولا تھا۔ دنیا کا کوئی کام ایسا نہیں تھا جو اُس نے نہ کیا ہو اور بگاڑا نہ ہو ۔ کہتا تھا جس زمانے میں وہ برما فرنٹ پر جاپانیوں کو شکست دے رہا تھا ، تو ان کی سرکوبی سے جو وقت بچتا ، جو کہ بہت کم بچتا تھا، اس میں فوجی ڈرائیونگ کیا کرتا تھا۔ اس کی سواریوں نے کبھی اس کی ڈرائیونگ پر ناک بھوں نہیں چڑھائی ۔ بڑے سے بڑا ایکسیڈنٹ بھی ہوا تو کسی سواری کی موت واقع نہیں ہوئی ، جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ گوروں کی میّت گاڑی چلاتا تھا ۔ جو شیخی بھری کہانیاں وہ سناتا تھا ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ رجمنٹ کے مرنے والوں کو اتھلی قبر تک پنہچانے اور جو فی الحال نہیں مرے تھے ان کی حجامت کے فرائض اس نے اپنی جان پر کھیل کھیل کر انجام دیئے ۔ اس بہادری کے صلے میں اسے ایک کانسی کا میڈل ملا تھا جو 1947 ء کے ہنگاموں میں ایک سردار جی نے کرپان دکھا کر چھین لیا۔

ایسے اَنا بھرے غباروں میں سوئی چبھونا چنداں ضروری نہیں ۔ البتہ اتنی تصدیق ہم بھی کر سکتے ہیں کہ جب سے اُس نے سُنا ہے کہ بشارت کار خریدنے والے ہیں ، اس نے گل بادشاہ خان ٹرک ڈرائیور سے کار چلانی سیکھ لی ۔مگر یہ ایسا ہی تھا جیسے کوئی لوہار کی شاگردی اختیار کر کے سنار کا کام شروع کردے ۔ ڈرائیونگ ٹیسٹ اس زمانے میں ایک اینگلوانڈین سارجنٹ لیا کرتا تھا جس کے سارے کنبے کے بال وہ پانچ چھ سال سے کاٹ رہا تھا۔ خلیفہ کا اپنا بیان تھا کہ ” سارجنٹ نے جناح کورٹ کے پاس والے میدان میں میرا ٹیسٹ لیا ، ٹیسٹ کیا تھا ، فقط ضابطے کی خانہ پری کہیے ۔ بولا , Well Caliph ! کار سے انگلش کا Figure of 8 بنا کر دکھاؤ ۔ صرف اس ایریا میں ، جہاں ہم یہ لال جھنڈی لیے کھڑا ہے ۔ اس لائن کو کراس نیئں کرنا ۔ 8 ایکڈم ریورس میں بنانا مانگٹا ۔ یہ سنتے ہی میں بھچک رہ گیا ۔ ریورس کرنا میں نے سیکھا ہی نہیں تھا ۔گل خان بادشاہ سے میں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ استاد مجھے ریورس میں چلانا سیکھا دو۔ وہ کہنے لگا کہ یہ میرے اُستاد نے نہیں سکھایا ۔ نہ کبھی اس کی ضرورت پڑی ۔ میرا استاد چنار گل خان بولتا تھا کہ شیر ۔ ہوائی جہاز ، گولی ، ٹرک اور پٹھان ریورس گئیر میں چل ہی نہیں سکتے ۔

میں نے اپنے دل میں کہا کہ چقندر کی دُم ! میں انگلش کا 8 کا ہندسہ بنا سکتا تو تیرے جیسے بھالو کی حجامت کائے کو کرتا ۔ غلام محمد گورنر جنرل کی چمپی مالش کرتا ۔ کیا بتاؤں ۔ اس گُنے گارنے کیسے کیسے پاپڑ بیلے ہیں ۔ جی جی ہاوس میں مالی کا کام بھی کیا ہے ۔ ہتھیلی پر سرسوں تو نہیں اُگائی ، البتہ کرانچی میں ، کیا نام اس کا ۔ ٹیولپ اُگا کر دکھایا ہے ۔ پر بڑے آدمیوں کی کوٹھیوں میں پھولوں کو کوئی نگاہ بھر کر نہیں دیکھتا ۔ بس مالی خود ہی پھول اگاتے ہیں اور خود ہی دیکھ دیکھ کر خوش ہولیتے ہیں ۔ ہدایت اللہ بیر ! میرے کو بولتا تھا کہ جی جی صاحب کا ہر عضو مفلوج ہوگیا ہے ۔ زبان بھی ۔ اس حالیت میں ہر آئے گئے کو مادر پدر کرتا رہتا ہے ۔ پر آدمی ہے نر ۔ چھوٹوں پر گالی ضائع نہیں کرتا ۔ جیسے جیسے طاقت جواب دے رہی ہے ، گالی اور زبان اور موٹی ہوتی جا رہی ہے ۔ اس کی بات اب صرف اس کا خدمت گار بیرا اس کے منہ سے اپنا کان بھڑا کر سنتا اور سمجھتا ہے ۔ وہی اس کی پنجابی گالی کا دلّی والوں کی اردو میں تجرمہ کر کے قرۃ اللہ شہاب صاحب کو بتاتا ہے ۔ وہ فٹافٹ اس کا انگریزی تجرمہ کر کے جی جی کی امریکی سکریٹری مس روتھ مورل کو بتاتے ہیں ۔ پھر وہ پٹاخہ ، فاریز لوگوں اور وزیروں سفیروں کو کولھے مٹکا مٹکا کر بتاتی ہے کہ جی جی صاحب کہہ رہے ہیں کہ آپ سے مل کر بہت جی خوش ہوا ۔ کئی دفعہ چاہا کہ جی جی کو اپنی مالش سے ٹھیک کردوں ۔ دو منٹ میں ناف اور رگ پٹھے ایسے بٹھا دوں کہ ہرن کے موافق قلانچیں بھرتا پھرے ۔ پر یہ سوچ کے چپ ہورہا کہ کل کلاں کو وہ فوت ہوگیا ، جو کہ اسے ہونا ہے ، تو مجھے جیل ، اور تیل کی بوتل کو معائنے کے لیئے بھیج دیں گے ۔ ”

تو جنابِ عالی سارجنٹ نے اپنے بُوٹ سے زمین پر 8 بنا کر دکھایا ۔ لاحول ولا قوہ ! میں بے فضول ڈر گیا تھا ۔ اب پتا چلا کہ سائیسی میں اٹیرن کہتے ہیں اسے انگریزی میں فگر آف 8 کہتے ہیں ۔ جنگلی گھوڑے کو سدھانے اور اس کی ساری مستی نکالنے کے لیئے اسے تیزی سے دو گھری پرت چکر دینے کو اٹیرن کہتے ہیں ۔ تو گویا ڈرائیونگ ٹیسٹ کا یہ مقصد ہے ! پر میں کچھ نہیں بولا ۔ بس جل تو جلال تو کہہ کے ریورس میں 8 کے بجاے کسے ہوئے ازار بند کی گرہ بنانے لگا کہ یکایک پیچھے سے سارجنٹ کے چیخنےچلانے کی آوازیں آئیں ۔ اسٹاپ ! اسٹاپ ! یو ایڈیٹ ! وہ اپنی جان بچانے کے لیئے کار کے بمپر پہ لال جھنڈی لیے چڑھ گیا تھا ، ازار بند کی گرہ میں میں لپٹتے لپٹتے یعنی کار کے نیچے آتے آتے بچا ۔ میں نے کہا ، سر دوبارہ ٹیسٹ کے لیئے آجاؤں ؟ مگر اس نئ دوبارہ ٹیسٹ لینا مناسب نہ سمجھا ۔ دوسرے دن آپ کے غلام کو لائسنس مل گیا ۔ ”

” آپ کی جوتیوں کے طفیل ہر فن میں طاق ہوں مجھے کیا نہیں آتا ۔ جراحی بھی کی ہے ۔ ایک آپریشن بگڑ گیا تو کان پکڑے ۔ ہوا یوں کہ میرا دوست الّن اپنی ماموں زاد پر بہن دل وجان سے فریفتہ تھا ۔ پر وہ کسی طور شادی پر رضامند نہیں ہوتی تھی ۔ نہ جانے کیوں الّن کو یہ وہم ہوگیا کہ اس کی بائیں ران پر جو مسّا ہے ۔ اس کی وجہ سے شادی نہیں ہورہی ۔ میں نے وہ مسّا کاٹ دیا ۔ ناسور بن گیا ۔ وہ لنگڑا ہوگیا ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ، میں نے سرجری نہیں کی ۔ وہ لڑکی آخر کے تیئں میری زوجہ بنی ۔ میری دائیں ٹانگ پر مسّا ہے۔
--------------------------------------------------------------------------------
* الہ دین بے چراغ : بشارت کے ضعیف اور دائم المرض والد کو نام یاد نہیں رہتے تھے ۔ لہذاٰ وہ ہر نوکر کو الہٰ دین کہہ کر بلاتے تھے ۔ یہ الہٰ دین نہم تھا ، جس کا مفصًل تعارف ہم “ اسکول ماسٹر کا خواب “ میں کراچکے ہیں ۔ خود کو ہر فن میں طاق سمجھتا تھا ۔ مگر اس کا نام بگڑ جاتا تھا۔ اکثر کہتا تھا کہ میرے ہاتھ میں‌جادو ہے ۔ سونے کو چھولوں تو پیتل ہوجائے ۔ مرزا اسے طنزاً الہٰ دین بے چراغ کہتے تھے ۔
 

ظفری

لائبریرین
ماحول پر لاحول اور مارکونی کی قبر پر :

کار معتدّد اندرونی و غیر اندورنی ، خفیہ اور اعلانیہ امراض میں مبتلا تھی ۔ ایک پُرزے کی مرمت کرواتے تو دوسرا جواب دے دیتا ۔ جتنا پیڑول جلتا ، اتنا موبل آئل ۔ اوران دونوں سے دُوگنا اُن کا اپنا خون جلتا ۔ آج کلچ پلیٹ جل گئی تو کل ڈائی نمو بیٹھ گیا ۔ اور پرسوں گئیر بکس بداوا کر لائے تو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی سیٹ کے نیچے کدال چلا رہا ہے ۔ خلیفہ نے تشخیص کی کہ صاب ! اب یونیورسل اڑی کررہا ہے ۔ پھر بریک گڑبڑ کرنے لگے ۔ مستری نے کہا ، ماڈل بہت پُرانا ہے ۔ پُرزے بننا بند ہوگئے ۔ آپ کہتے ہیں تو مرمت کر دونگا ، مگر مرمت کے بعد بریک یا تو مستقل لگا رہے گا ۔ یا مستقل کُھلا رہے گا ۔ سوچ کر دونوں میں سے چوز کر لیجئے۔ دو ہفتے بعد خلیفہ نے اطلاع دی کہ کار کے Shock Observers ختم ہوگئے ہیں ۔ وہ Shock Absorbers کو Shock Observers کہتا تھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اب وہ شاک روکنے کے لائق نہیں رہے تھے ۔ جہاں دیدہ بڑے بوڑھے کی مانند ہوگئے تھے جو کسی نیم تاریک کونے یا زینے کے نیچے والی تکونی بخاری میں پڑے پڑے صرف Observe کرسکتے ہیں ۔ جو ناخلف دکھائیں سو ناچار دیکھنا ۔ یہ مقام خود شناسی اور دانائی کا ہے ۔ جب انسان بچشمِ خود لغوسے لغو حرکت اور کرتوت دیکھ کر نہ آزردہ ہو ، نہ طیش میں آئے اور نہ ماحول پر لاحول پڑھے تو اس کی دو وجہیں ہو سکتیں ہیں۔ پہلے ہم دوسری وجہ بیان کریں گے ۔ وہ یہ کہ اب وہ جہاں دیدہ بردباد اور درگذر کرنے والا ہوگیا ہے ۔ اور پہلی وجہ یہ کہ وہ حرکت اسں کی اپنی ہی ہو ۔

ایک دن گیارہ بجے دن کو ظریف جبل پوری کے مکان واقع ایلومینیم کوارٹرز سے واپسی میں گورا قبرستان کے سامنے سے گذر رہے تھے کہ اچانک ہارن کی آواز میں رعشہ پیدا ہوا ۔ گھنگرو سا بولنے لگا ۔ خود اُن کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا کہ ہیڈ لائیٹ کی روشنی جا چکی تھی ۔ خلیفہ نے کہا ” جنابِ عالی ! بیٹری جواب دے رہی ہے ” انہیں تعجب ہوا ، اس لیئے کہ وہ روزآنہ اپنی لکڑی کی دُکان پر پہنچتے ہی بیٹری کو گاڑی سے نکال کر آرا مشین سے جوڑ دیتے تھے تاکہ آٹھ گھنٹے تک چارج ہوتی رہے ۔ شام کو گھر پہنچتے ہی اسے نکال کر اپنے ریڈیو سے جوڑ دیتے ۔ جو صرف کا بیڑی سے چلتا تھا ۔ پھر رات کوبارہ ایک بجے جب ریڈیو پروگرام ختم ہوجاتے تو اُسے ریڈیو سے علیحدہ کر کے واپس کار میں لگا دیتے تاکہ صبح خلیفہ ٹر ٹر نہ کرے ۔ اس طرح بیٹری آٹھ آٹھ گھنٹے کی تین شفٹوں میں تین مختلف چیزوں سے جُڑی رہتی تھی ۔ جواب نہ دیتی تو کیا کرتی ۔ بلکل کنفیوز ہوجاتی تھی ۔ ہم نے خود دیکھا کہ ان کے ریڈیو میں چُھپے ہوئے پروگرام کے بجائے اکثر آرا مشین کی آوازیں نشر ہوتی رہتی تھیں ، جنہیں وہ پکا راگ سمجھ کر ایک عرصے تک سر دُھنا کیے ۔ اسی طرح کار کے انجن سے موسم کی خرابی کی ریڈیائی آوازیں آنے لگتیں تھیں ۔ عجیب گھپلا تھا ۔ رات کو پچھلے پہر کے سناٹے میں جب اچانک عجیب و غریب آوازیں آنے لگتیں تو گھر والے یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ وہ ریڈیو کی آوازیں ہیں ، یا آرا مشین میں کوئی قوال پھنس گیا ہے۔ اور ان بیچاروں کی معافی قابلِ معافی تھی ۔ اس لیئے کہ ان آوازوں کا مخرج دراصل وہ گلا تھا جس سے بشارت خراٹے لے رہے ہوتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی ریڈیو سے میرے گلے میں مستقل خراش پڑ گئی ہے ۔ ایک اور عذاب یہ کہ جب تک ریڈیو اسٹیشن بند نہیں ہوجاتا ، تین چار پڑوسی ان کی چھاتی پر سوار ہوکر پروگرام سُنتے رہتے ۔ اب بشارت اس مردم آزار ایجاد سے سخت متنفر ہوگئے تھے ۔ غالباً ایسے ہی حالات اور ایسے ہی بلیک موڈ میں عصرِ حاضر کے سب سے بڑے انگریزی شاعر فلپ لارکن نے کہا تھا کہ مارکونی کی قبر پر پبلک ٹائلٹ بنا دینا چاہیے ۔
------------------------------------------------------------------------
بیٹری : اس زمانے میں ٹارچ بیٹری کے بجائے کار بیٹری لگانی پڑتی تھی اور اُسے روزآنہ چارج کرنا پڑتا تھا ۔ بہار کالونی میں ، جہاں وہ رہتے تھے ، اس زمانے میں بجلی نہیں آئی تھی ۔
مارکونی : ریڈیو کا موجد
 

ظفری

لائبریرین
سَوداوی اور صوبائی مزاج کے چار پہیئے :

چند روز سے جب گرمی نے شدت پکڑی تو چاروں پہیوں کا مزاج سودادی و صوبائی ہوگیا ۔ مطلب یہ چاروں پہیّے چار مختلف سمتوں میں جانا چاہتے اور اسٹیئرنگ وہیل سے روٹھے رہتے تھے ۔ یہی نہیں ، بعض اوقات خود اسٹیئرنگ وہیل پہیّوں کی مرضی کے مطابق گھومنے لگتا تھا ۔ خلیفہ سے پُوچھا ” اب یہ کیا ہورہا ہے ۔ ؟ ” اس نے مطلع کیا ” حضور ! ببلنگ (wobbling) کہتے ہیں ” انہوں نے اطمینان کا لمبا سانس لیا ۔ مرض کا نام معلوم ہوجائے تو تکلیف دور نہیں ہوتی اُلجھن دور ہو جاتی ہے ۔ ذرا دیر بعد یہ سوچ کر مسکرا دیئے کہ کار یہ چال چلے wobbling ۔ راج ہینس چلے تو waddling ناگن چلے تو wriggling تو ناری چلے تو wiggling ۔

یہ کنارا چلا کہ ناؤ چلی
کہیے کیا بات دھیان میں آئی​

اس دفعہ وہ خود بھی ورکشاپ گئے ۔ مستری نے کہا ، زنگ سے سائلنسر بھی جھڑنے والا ہے ۔ مرزا کہتے ہیں کہ ” کراچی کی ہوا میں اتنی رطوبت اور دلوں میں اتنی رقت ہے کہ کھلے میں ہاتھ پھیلا کر اور آنکھیں موند کر کھڑے ہوجاؤ تو پانچ منٹ میں چلّو بھر پانی اور ہتیھلی بھر پیسے جمع ہوجائیں گے ۔ اور اگر چھ منٹ تک ہاتھ پھیلائے اور آنکھیں موندے رہو تو پیسے غائب ہوجائیں گے ۔یہاں بال ، سائلنسر اور لچھن قبل از وقت جھڑ جاتے ہیں ۔ لاہور میں کم از کم اتنا تو ہے کہ سائی لینسر نہیں جھڑتے ۔ ” مستری نے مشورہ دیا کہ ” اگلے مہینے جب نیا ہارن فٹ کرائیں تو سائی لینسر بھی بدلوالیں ۔ اس وقت تو یہ اچھا خاصا ہارن کا کام دے رہا ہے ۔ ” بشارت نے جھنجھلا کر پوچھا ” اس کا کوئی پُرزہ کام بھی کر رہا ہے کہ نہیں ؟ ” مستری پہلے تو سوچ میں پڑ گیا ۔ پھر جواب دیا کہ "Mileometer دُگنی رفتار سے کام کر رہا ہے ! ” دراصل اب کار کی کارکردگی بلکہ نا کاردگی Murphy's Law کے عین مطابق ہوگئی تھی ، یعنی اس کی ہر وہ چیز جو بگڑ سکتی تھی بگڑ گئی تھی ۔ اس صورت میں حکومت تو چل سکتی تھی ، کار نہیں چل سکتی ۔

شُتر ترانہ :

متواتر مرمت کے باوجود بریک ٹھیک نہیں ہوئے ۔ لیکن اب ان کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ اس لیے کہ ان کے استعمال کی نوبت ہی نہیں آتی تھی ۔ جس جگہ بریک لگانا ہو ، کار اس سے ایک میل پہلے رُک جاتی تھی ۔ اور بشارت نے تو جب سے ڈرائیونگ سیکھنی شروع کی ، وہ بجلی کے کھمبوں سے بریک کا کام لے رہے تھے ۔ کھمبوں کے استعمال پر ان کا کئی کتوں سے جھگڑا بھی ہوا ۔ مگر اب بعض کتوں نے چمکتی وہیل کیپ سے کھمبے کا کام لینا شروع کر دیا تھا ۔ وہ اس عمل کے دوران گردن موڑ موڑ کر وہیل کیپ میں دیکھتے جاتے تھے ۔ حال ہی میں بشارت نے یہ بھی نوٹس کیا کہ کار کچھ زیادہ ہی زردرنج اور حساس ہوگئی ہے ۔ سڑک کراس کرنے والے کی گالی سے بھی رُکنے لگتی ہے ۔ بشرطیکہ انگریزی میں ہو ۔ وہ بتدریج خوش خرامی سے سُبک خرامی اور مست خرامی ، پھر آہستہ خرامی اور مخرامی کی منزلوں سے گذر کر اب نری نمک حرامی پر اُتر آئی تھی ۔ اس کی چال اب ان اڑیل مٹھے اونٹوں سے ملنے لگی جس کی تصویر رڈیارڈ کپلنگ نے اونٹوں کے Marching Song میں کھنیچی ہے ، جس کی تان اس پر ٹوٹتی ہے ۔

Can't ! Don't ! Shan't ! Won't​

بلاشبہ یہ تان حقیقت ترجمان اس لائق ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک ، جو کسی طور سے آگے بڑھنا نہیں چاہتے ، اسے اپنا قومی ترانہ بنا لیں۔
--------------------------------------------------------------------------------
Murphy's Law: Any thing that can go wrong will go wrong
 

ظفری

لائبریرین
” اسٹوپڈ کاؤ ” سے مکالمہ :

دھائی تین مہینے تک بشارت کا تمام وقت ، محنت ، کمائی ، دعائیں اور گالیاں ناکارہ کار پر صرف ہوتیں رہیں ۔ ابھی اسپِ نابکار (بلبن) کا زخم پوری طرح نہیں بھرا تھا کہ یہ فوپا ہوگیا ۔
بقول اُستاد قمر جلالوی کے :
ابھی کھاکر ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے​

کار اپنی مرضی کی مالک ہوگئی تھی ۔ جہاں چلنا چاہیئے وہاں ڈھٹائی سے کھڑی ہوجاتی اور جہاں رُکنا ہو ادبدا کر چلتی ۔ مطلب یہ کہ چوراہے اور سپاہی کے اجازتی سگنل پر کھڑی ہو جاتی ، لیکن بمپر کے سامنے کوئی راہ گیر آجائے تو اسے صرفِ نظر کرتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ۔ جس سڑک پر نکل جاتی ، اس کا سارا ٹریفک اس کے خرام و قیام کا تابع ہوجاتا جو اب فیض کے مصرے سے اُلٹ ہوگیا تھا ۔

جو چلے تو کوہِ گراں تھے ہم ، جو رُکے تو جاں سے گذر گئے​

تھک ہار کی بشارت اسی میم کے پاس گئے اور منت سماجت کی خدارا ! پانچ سو کم میں ہی یہ کار واپس لے لو ۔ وہ کسی طرح نہ مانی ۔ انہوں نے اپنا فرضی مفلوک الحالی اور اس نے اپنی بیوگی کا واسطہ دیا ۔ انصاف کی توقع اُٹھ گئی تو رحم کی اپیل میں زور پیدا کرنے کے لیئے دونوں خود کو ایک دوسرے سے زیادہ مسکین اور بے آسرا ثابت کرنے لگے ۔ دونوں پریشان تھے ۔دونوں دُکھی اور مصیبت زدہ تھے ۔لیکن دونوں ایک دوسرے کے لیئے پتھر کا دل رکھتے تھے ۔ بشارت نے اپنی آواز میں مصنوعی رقت پیدا کرنے کی کوشش کی اور بار بار رومال سے ناک پونچھی ۔ جواب میں میم سچ مُچ رو پڑی ۔ اب بشارت نے جلدی جلدی پلکیں پٹ پٹا کر آنکھوں میں آنسو لانے چاہے مگر اُلٹی ہنسی آنے لگی ۔ بدرجہ مجبوری دو تین انتہائی دردناک مگر بلکل فرضی منظر ( مثلاّ اپنے مکان اور دکان کی قرقی اور نیلامی کامنظر ۔ ٹریفک کے حادثے میں اپنی بے وقت موت اور اس کی خبر ملتے ہی بیگم کا جھٹ سے موٹی ممل کا دوپٹہ اوڑھ کر چھن چھن چوڑیاں توڑنا اور رو رو کر اپنی آنکھیں سُجا لینا ) آنکھوں میں بھر کر رقت طاری کرنے کی کوشش کی ۔ مگر دل نہ پسیجا نہ آنکھ سے آنسو ٹپکا ۔ زندگی میں پہلی مرتبہ انہیں اپنے سَنی ہونے پر غصہ آیا ۔ دفتعاّ انہیں اپنے انکم ٹیکس کے نوٹس کا خیال آیا اور ان کی گھگھی بند گئی ۔ انہوں نے گڑگڑاتے ہوئے کہا کہ ” میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں ، اگر یہ کار کچھ دن اور میرے پاس رہ گئی تو میں پاگل ہوجاؤں گا یا بے موت مارا جاؤں گا ۔
یہ سُنتے ہی میم پگھل گئی ۔ آنکھوں میں دوبارہ آنسو بھر کر بولی ۔ آپ کے بچوں کا کیا بنے گا ، جن کی صیح تعداد کے بارے میں بھی آپ کو شک ہے کہ سات ہیں کہ آٹھ ۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے میاں کی ہارٹ اٹیک سے موت بھی اس منحوس کار کہ وجہ سے ہوئی اور اسی میں ۔۔۔ اسٹیئرنگ وہیل پر دم توڑا ۔
ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ اس سے تو بہتر تھا کہ میں گھوڑے کے ساتھ ہی گذرا کر لیتا ۔ اس پر وہ عفیفہ چونکی اور مشتاقانہ بے صبری سے پُوچھنے لگی ۔
" You mean a real horse"
" Yes . ofcource! Why "​

میرے پہلے شوہر کی موت گھوڑے پر سے گرنے سے واقع ہوئی تھی ۔ وہ بھلا چنگا پولو کھیل رہا تھا کہ گھوڑے کا ہارٹ فیل ہوگیا گھوڑا اس پر گرا ۔ وہ مجھے پیار سے Stupid Cow کہتا تھا ۔ اس کی اینگلو سیکسن بلو گرے آنکھوں سچ مچ آنسو تیر رہے تھے ۔
ویسے بشارت رقیق القلب واقع ہوئے تھے ۔ جوان عورت کو اس طرح آبدیدہ دیکھ کر ان کے دل میں اس کے آنسوؤں کو ریشمی رومال سے پونچھنے اور اس کی حالتِ بیوگی کو فی الفور ختم کرنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی ۔ یہ کہنا تو کسرِ بیانی ہوگی کہ ان کے نہاں خانہ ِ دل کی کسی منزل میں خوبصورت عورت کے لیئے ایک نرم گوشہ تھا ، اس لیئے یہاں تو تمام منزلیں ، سارے کا سارا خانہَ ویرانہ

انتظارِ صید میں ایک دیدہ خواب تھا​
-----------------------------------------------------------------------------------------
فوپا : ( پنجابی) میرا خیال ہے کہ اس کا اصل ماخذ faux pas ہے ، جس کا تلفظ اور معنی بعنیہ وہیں ہیں ۔
 

ظفری

لائبریرین
۔۔۔ کہ بنے ہیں دوست ناصح :

انسان کا کوئی کام بگڑ جائے تو ناکامی سے اتنی کوفت نہیں ہوتی جتنی بن مانگے مشوروں اور نصیحتوں سے ہوتی ہے ۔ جن سے ہر وہ شخص نوازتا ہے جس نے کبھی اس کام کو ہاتھ تک نہیں لگایا ۔ کسی دانا نے کیسی پتے کی بات کہی ہے کہ کامیابی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو کوئی مشورہ دینے کی جسارت نہیں کر سکتا ۔ ہم اپنے چھوٹے منہ سے بڑی بات نہیں کہہ سکتے ۔ نہ چھوٹی ۔ لہذاٰ یہ نہیں بتا سکتے کہ ہم کامیاب ہیں یا ناکام ۔ لیکن اتنا اتا پتا بتائے دیتے ہیں کہ اگر ہمارے اسکرو اور ڈھبریاں لگی ہوتیں تو ہمارے تمام دوست ، احباب اور بہی خواہ سارے کام دھندے چھوڑ چھاڑ اپنے اپنے پیچ کَش اور پانے (Spanners) لیکر ہم پر پل پڑتے ۔ ایک اپنے چوکور پانے سے ہماری گول ڈھبری کھولنے کی کوشش کرتا ۔ دوسرا تیل دینے کے سوراخ میں ہتھوڑے سے اسکرو ٹھونک دیتا ۔ تیسرا شبانہ روز کی محنت سے ہمارے تمام اسکرو ” ٹائٹ ” کرتا ۔ اور آخر میں سب مل کر ہمارے سارے اسکرو اور ڈھبریاں کھول کر پھینک دیتے ۔ محض یہ دیکھنے کے لیئے کہ ہم ان کے بغیر بھی فقط دوستوں کی قوتِ ارادی سے چل پھر اور چرچگ سکتے ہیں یا نہیں ۔ ہماری اور ان کی ساری عمر اسی کھڑ پیچ میں تمام ہو جاتی ۔ کچھ ایسا ہی حال میاں بشارت کا ہوا ۔ کار کے ہر بریک ڈاؤن کے بعد انہیں بکثرت ایسی نصیحتیں سُننی پڑتیں جن میں کار کی خرابیوں کے بجائے ان کی اپنی خامیوں کی طرف ایسے بلیغ اشارے ہوتے تھےجنہیں سمجھنے کے لیے عاقل ہونا ضروری نہیں ۔ ادھر پیدل چلنے والے بشارت کو دیکھ دیکھ کر شکر کرتے کہ ہم کتنے خوشنصیب ہیں کہ کار نہیں رکھتے ۔

نصیحت کرنے والوں میں صرف حاجی عبدالرحمٰن علی محمد بانٹوا والے نے کام کی بات کہی ۔ اس نے نصیحت کی کہ کبھی کسی بزرگ کے مزار ، انکم ٹیکس کے دفتر یا ڈاکٹر کے پرائیوٹ کلینک میں جانا ہوتو کار ایک میل دور کھڑی کر دو۔ ایک ہفتے پان کھانے کے بعد دانت صاف کرنا بند کردو۔ دہانے کے دونوں طرف ریکھوں میں پِیک کے بریکٹ لگے رہنے دو۔ اور فیکڑی کے مالک ہو تو ریڑھی والے کا سا حلیہ بنا لو ۔ نیئں تو سالا لوگ ایک دم چمڑی اُتار لیں گا اور کورے بدن پر نمک مرچی مالش کر کے ہوا بندر کو بھیج دیں گا ۔ تم اکھا ( تمام) عمر تراہ تراہ کرتا پھریں گا ۔ اے بھائی ! ہم تمہارے کو بولتا ہے ۔ کبھی انکم ٹیکس آفیسر ، پولیس ، جوان جورو اور پیر فقیر کے پاس جاؤ تو سولجر کی نافک کھالی ہاتھ ہلاتے ، ڈبل مارچ کرتے نئیں جاؤ۔ ہمیش کوئی ڈالی کچھ مال پانی ، کچھ نجر نجرانہ لے کے جاؤ۔ نیئں تو سالا لوگ کھڑے کھڑے کھال کھنچوا کے اس میں ڈان اخبار کی ردی بھروا دیں گا ۔سبجا ( سبزہ ۔ سو روپے کا نوٹ) دیکھ کے جس کی آنکھ میں ٹو ہنڈرڈ کینڈل پاور کا چمکارا نئیں آئے تو سمجھو سالا سولہ آنے کلر بلائنڈ ہے یا اولیا اللہ بنے لا ( بن گیا) ہے ، نئیں تو پھر ہوئے نہ ہوئے اسٹیٹ بنک کا گورنر ہے جو نوٹوں پر وسکھت ( دستخط) کرتا ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
مکالمہ دَر مذّمتِ نیم :

کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کار کے عیبوں پر سے پردہ اُٹھاتے اُٹھاتے خلیفہ اپنا نامہِ اعمال کھول کر بیٹھ جاتا ، اور اپنے کرتوت کو کرامات کی طرح بیان کرنے لگتا ۔ یہ تو کوئی مزاج داں ہی بتا سکتا تھا کہ حقیقت بیان کر رہا ہے یا حسرتوں کے میدان میں خیالی گھوڑے دوڑا رہا ہے ۔ ایک دن فقیر محمد خانساماں سے کہنے لگا ” آج تو سعید منزل کے سامنے ہماری گھوڑی ( کار ) بلکل باؤلی ہوگئی ۔ ہر پُرزہ اناالحق کہنے لگا ۔ پہلے تو انجن گرم ہوا ۔ پھر Radiator جس کے لِیک (Leak) کو میں نے صابن کی لگدی سے بند کر رکھا تھا ، پھٹ گیا ۔ پھر پچھلا ٹائر لِیک کرنے لگا ۔ میں نے ہوا بھرنے کے لیئے کار کا ہم عمر پمپ نکالا تو معلوم ہے کہ کیا ہوا ؟ پتا چلا کہ پمپ میں سے ہوا لِیک کر رہی ہے ! فین بیلٹ بھی گرمی سے ٹُوٹ گئی ۔ انگریز کی سواری میں رہنے سے اس کا مزاج بھی سودادی ہوگیا ہے ، حکیم فہیم الدین آگرے والے کہا کرتے تھے کہ عورت سَودادی مزاج کی ہو تو مرد آتشی مزاج کا چاہیئے ہی چاہیئے ۔ عبدالرزاق چھیلا کو ، ابے وہی چھیلا ناز سنیما کا گیٹ کیپر ، آتشک ہوگئی ہے ۔ سالا اپنے کیفرِ کرتوت کو پہنچا۔ کہتا ہے انگلش فلم دیکھنےاور گڑکی کزک کھانے اور نور جہاں کے گانوں سے خون گرمی کھا گیا ہے ۔ پُرانے زمانے میں ہمارے یہاں دستور تھا ، پتا نہیں تیری طرف تھا کہ نہیں ، کہ تماش بینی کے چکر میں کسی کو آبلہِ فرنگ یا بادِ فرنگ ۔ V.D ہوجائے تو اسے ٹخنوں سے ایک بالش اونچا تہمد بندھوا کے نیم کی ٹہنی ہاتھ میں تھما دیتے تھے ۔ جوانی میں ، میں نے اچھے اچھے اشرافوں کو محلے میں ہری جھنڈی لیئے پھرتے دیکھا ۔ مشہور تھا کہ نیم کی ٹہنی سے چُھوت کی بیماری نہیں لگتی ۔ پر میرے خیال میں تو فقط ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے یہ ڈھونگ رچائے جاتے تھے ۔ خون اور طبعیت صاف کرنے کے لیے مریض کو ایسا کڑوا چرائتہ پلایا جاتا کہ حلق سے ایک گھونٹ اترتے ہی پتلیاں اوپر چڑھ جاتیں ، اگلے وقتوں میں خود علاج کے اندر سزا پوشیدہ ہوتی تھی ۔ مولوی یعقب علی نقشبندی کہا کرتے تھے کہ اسی لیے دیسی ( یونانی ) علاج کو حکمت کہتے ہیں ۔

یار ! ان دنوں سالے نیم نے بھی جان عذاب میں کر رکھی تھی ۔ غریب غُربا کو یہ رئیسوں کا روگ لگ جائے یا معمولی پھوڑے پُھنسیاں نکل آئیں تو گاؤں قصبے کے جرّاح شروع سے اخیّر دم تلک نیم ہی سے علاج کرتے تھے ۔ ساری ادویاتیں نیم ہی سے بنتی تھیں ۔نیم مے صابن سے نہلواتے ۔ نیم کی نبولی اور بکّل کا لیپ بتاتے ۔ نیم کا مرہم لگاتے ۔ نیم کی سینکوں اور خشک پتوں کی دُھونی دیتے ۔ جوان خون زیادہ گرمی دکھائے تو نیم کے بور اور کونپلوں کا عرق پلاتے ۔ نیم کے گوند کا لعوق بنا کر چٹاتے ۔ نبولی کی گری کا سفوف مار کراتے۔ ہر کھانے سے پہلے نیم کی مسواک کرواتے تاکہ ہر کھانے میں اسی کا مزا آئے ۔ فاسّد مادوں کو نکالنے کے بہانے جونکوں کو آئے دم سیروں خون پلوادتے ، یہاں تک کہ اگلا چٹّا آم ہوجاتا اور حرمزدگی تو درکنار دو رکعت نماز بھی پڑھتا تو گھٹنے چٹ چٹ چٹخنے لگتے ۔ ناسور کو نیم کے اونٹتے پانی سے دھارتے تاکہ مرض کے جراثیم مر جائیں ۔ اور اگر مریض جراثیم سے پہلے ہی جرّّاح کو پیارا ہوجائے تو گھڑے میں نیم کے پتے اُبال ، غُسلِ میّت دے کے جنازہ نیم تلے رکھ دیتے ۔ پھر تازہ ترین قبر پر تین ڈول پانی چھڑک کے سرھانے نیم کی ٹہنی گاڑ دیتے ۔ دفنا کر گھر آتے تو مرنے والی کی بیوہ کی سونے کی لونگ اُتروا کر اسی نیم کی سینک ناک میں پہنا دی جاتی جس میں جھولا ڈال کر وہ کبھی ساون میں جُھولا کرتی تھی ۔ پھر اسے سفید ڈوپٹہ اُڑھاتے اور ایک ہاتھ میں سروتہ اور دوسرے میں کوے کو اڑانے کے لیے نیم کی قمچی تھما کر نیم کی چھاؤں تلے بیٹھا دیتے ۔

” جب میں نے واہگہ باڈر کراس کر کے ہجرت کی تو یقین جان میرے پاس تن کے دو کپڑوں اور ایک اُسترے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ جو تُو مجھے اس حالیت میں دیکھ رہا ہے تو یہ مولا کا فضل ہے اور پاکستان کی دین ہے ۔دوسرے روز میں اپنے یارِ جانی محمد حسین کی میّت (معیت) میں شالیمار باغ دیکھنے گیا تو اُس نے بتایا کہ پاکستان میں نیم نہیں ہوتا ! خدا کی قسم ! مجھے پاکستان پر بہت پیار آیا اور میں وہیں مغلیہ پھواڑے ( فوارے ) کے پاس سجدہِ شکر بجا لایا ۔ ”
----------------------------------------------------------------------------------------------
آبلہِ فرنگ ، بادِ فرنگ : یعنی ارمغانِ فرنگ ، ان معنوں میں کہ ان اصطلاحات سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آلو ، تمباکو ، ریلوے ، ریس ، یورپین پُھول ، شیکسپیئر ، جن اینڈ ٹانک ، چائے ، کرکٹ اور دوسرے بے شمار تحفوں کے ساتھ ان امراض کی سوغات بھی انگریز اپنے ساتھ لائے ۔ وللہ اعلم ۔
 

ظفری

لائبریرین
خلیفہ کی پاپ بیتی :

خلیفہ کی مصیبت یہ تھی کہ ایک دفعہ شروع ہوجائے تو رُکنے کا نام نہیں لیتا تھا ۔ بوڑھا ہو چلا تھا ، مگر ڈینگوں سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بڑھاپے نے فینٹسی اور خواہشِ نفس کو بھی حقیقتِ نفس الاّ مری بنا دیا ہے ۔ اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی ۔ ایک پُرانی مثل ہے کہ بڑھاپے میں انسان کی شہوانی قوت زبان پر آجاتی ہے ۔ اس کی مشخیت بھر داستان سچی ہو یا نہ ہو ، داستان کہنے کا انداز سچا اور کھرا تھا۔ اس کے سادہ دل سُننے والے ایسے ہپنا ٹائز ہوتے کہ یہ خیال ہی نہیں آتا ، سچ بول رہا ہے یا جھوٹ ۔ بس جی چاہتا یونہی بولے چلا جائے ۔ خلیفہ کی کہانی اسی کی زبانی جاری ہے ۔ ہم نے صرف نئی سُرخی لگا دی ہے :

” اوئے یار فقیرا ! گُلبیانٹنی تو جانو آگ بھری چھچھوندر تھی ۔ اچنتی سی بھی نظر پڑ جائے تو جھٹ ہاتھ میں نیم کی ٹہنی تھما دیتی تھی ۔ یار ! جھوٹ نہیں بولوں گا ۔ روزِ قیامت کے دن حشر کے میدان میں اللہ میاں کے علاوہ والد صاحب کو بھی منہ دکھانا ہے ۔ اب تجھ سے کیا پردہ ۔ میں کوئی پیر پیمبر تو نہیں ہوں ، گوش پوس کا انسان ہوں ۔ اور جیسا کہ مولوی حشمت اللہ کہتے ہیں ، انسان خطائے نسوان کا پُتلا ہے ۔ تو یار ! واقعہ یہ ہے کہ نیم کی ٹہنی مجھے بھی لہرانی پڑی ۔ میٹھا برس بھی نہیں لگا تھا ۔ سترھواں چل رہا تھا کہ نضیحتا ہوگیا ۔ پر یقین جانو ، تمیزن ایک نمبر اشراف عورت تھی ۔ ایسی ویسی نہیں ۔ بیاہی تیاہی تھی ۔ پڑوس میں رہتی تھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے جوانی اور پڑوسی کے گھر میں ایک ساتھ ہی قدم رکھا ۔ عمر میں مجھ سے بیس نہیں تو پندرہ برس ضرور بڑی ہوگی ۔ پر بدن جیسے کَسی کسائی ڈھولک ۔ ہوا بھی چھو جائے تو بجنے لگے ۔میں اس کی مکان کی چھت پر پتنگ اُڑانے جایا کرتا تھا ، وہ مجھے آتے جاتے کبھی گڑک ، کبھی اپنے ہاتھ کا حلوا کھلاتی ۔ جاڑے کے دن تھے ۔ اس کا میاں جو اس سے عمر میں بیس نہیں تو پندرہ برس بلضرور بڑا ہوگا ، اولاد کا تعویذ لینے فرید آباد گیا تھا ۔ کھی کھی کھی کھی ۔ میں چار پتنگیں کٹوا کر چرخی بغل میں دبائے چھت پر سے اُترا تو دیکھا وہ چھدرے بانوں کی چارپائی کی آڑ کر کے نہا رہی ہے ۔ آنکھوں میں اب تلک بان کی جالیوں کی پیچھے کا سماں بسا ہوا ہے ۔ مجھے آتے دیکھ کر ایک دَم الف کھڑی ہوگئی ۔ یار ! تجھے کیا بتاؤں ۔ میرے رگ رگ میں پھلجھڑیاں پھوٹنے لگیں ۔ گھڑی بھر میں موزے کی طرح اُلٹ کر رکھ دیا ۔ گزک کی خاصیت گرم ہوتی ہے ۔

میرے مرض کا بھانڈا پُھوٹا تو والد صاحب ، اللہ ان کی بال بال مغفرت کرے ، آپے سے باہر ہوگئے ۔ جوتا تان کھڑے ہوگئے ۔ کہنے لگے” تُو میرا نطفہ نہیں ! سامنے سے ہٹ جا ۔ نہیں تو ابھی گردن اُڑا دوں گا ” ۔ حالانکہ تلوار تو درکنار ، گھر میں بھونٹی (کُند) چھری تلک نہ تھی جس سے نکٹے کی ناک کٹ سکے ۔ پھر میں ان سے قد میں ڈیڑھ بالش بڑا تھا ! پر ان کا اتنا رُعاب تھا کہ میں اپنے رنگین تہمد میں تھر تھر کانپ رہا تھا ۔ ماں میرے اور ان کے درمیان ڈھال بن کے کھڑی ہوگئی اور ان کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ مجھے ایک ایک بات یاد ہے ۔بیچ بچاؤ کرانے میں چوڑیاں ٹُوٹنے سے ماں کی کلائی سے خون ٹپکنے لگا ۔ رات دن محنت مزدوری کرتی تھی ۔ جہاں تک میری چھٹپن کی یاداش کام کرتی ہے میں نے ان کے چہرے پر ہمیشہ جھریاں ہی دیکھیں ۔ آنسو ان کی آنکھوں سے ریکھ ریکھ بہہ رہے تھے ۔ مجھے آج بھی ایسا لگتا ہے جیسے ماں کے آنسو میرے گالوں پر بہہ رہے ہیں ۔ وہ کہنے لگی ” اللہ قسم ! میرے لال پر دشمنوں نے بہتان لگایا ہے ۔” میں نے والد صاحب سے بہترا کہا کہ ” پرانے باجرے کی کھچڑی اور پال کے آم سے گرمی چڑھ گئی ہے ۔ سُنیےتو سہی ۔ مُشکی گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر چڑھنے سے مجھے یہ موذی مرض لگا ہے ۔ تکھ نریاں سے حدّت نکل جائے گی ” ۔ پر وہ بھلا ماننے والے تھے ۔ کہنے لگے ” ابے تکھ مریاں کے بچے ! میں نے گڑییں نہیں کھیلی ہیں ۔ تُو نے نائیوں کی عزت خاک میں ملا دی ۔ بزرگوں کی ناک کٹوادی ” ماں کے سوا کسی نے میری بات پر یقین نہیں کیا ۔ چھوٹے بھائی روز مجھ سے جھگڑنے لگے ۔ اس لیئے کہ ماں نے ان کے اور والد کے آم اور گھی میں ترتراتی کھچڑی بند کرد ی تھی ۔ یار فقیر ! کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر اللہ میاں کو اپنے بندوں سے اتنی بھی محبت ہوئی جتنی میری اَن پڑھ ماں کو مجھ سے تھی تو اپنا بیڑا پار جانو۔ حشر کے دن سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور مولویوں کی کھچڑی اور آم بند
-------------------------------------------------------------------------------------------
گُلبیانٹنی : نچلے درجے کی کسبی جو نکھیائی کہلاتی تھی ۔ کیوں کہ اس کے پاس جو آتے تھے وہ ٹکے سے زیادہ کی استعاعت نہیں رکھتے تھے ۔گویا اصل وجہ تضحیک و تذلیل نہیں قلیل اُجرت ہے ۔
چھچھوندر : ایک قسم کی چھوٹی آتش بازی جو فرش پر گھوم گھوم کر بڑی بےقراری سے چلتی ہے۔
تکھ نریاں : تخمِ ریحاں ۔ گرمیوں میں فالودے میں ڈال کر پیتے ہیں‌۔
 
Top