اعصاب پر گھوڑا ہے سوار
علامہ اقبال نے ان شاعروں ، صورت نگاروں اور افسانہ نویسوں پر بڑا ترس کھایا ہے جن کے اعصاب پر عورت سوار ہے ۔ مگر ہمارے حبیبِ لبیب اور ممدوح بشارت فاروقی ان بدنصیبوں میں تھے جن کی بے داغ جوانی اس شاعر کے کلام کی طرح تھی جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ موصوف کا کلام غلطیوں اور لطف دونوں سے پاک ہے ! بشارت کی ٹریجیڈی شاعروں ، آرٹسوں اور افسانہ نویسوں سے کہیں زیادہ گھور گھمبیر تھی۔ اس لیئے کہ دُکھیا کے اعصاب پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی سوار رہا ۔ سوائے عورت کے ۔ اس دور میں جسے ناحق جوانی دیوانی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔، ان کے اعصاب پر بلترتیب مُلا ، ناصح بزرگ ، ماسٹر فاخر حسین ، مولوی مظفر ، داغ دہلوی ، سیگل اور خُسر بزرگوار سوار رہے ۔ خدا خدا کر کے وہ اسی ترتیب سے اُن پر سے اُترے تو گھوڑا سوار ہوگیا ، جس کا قصہ ہم ” اسکول ماسٹر کا خواب ” میں بیان کر چکے ہیں ۔ وہ سبز قدم ان کے خواب ، ذہنی سکون اور گھریلو بجٹ پر جھاڑو پھیر گیا ۔ روز روز کے چالان ، جرمانے اور رشوت سے وہ اتنے عاجز آچکے تھے کہ اکثر کہتے تھے کہ اگر مجھے چوائس دی جائے کہ تم گھوڑا بننا پسند کروگے یا اس کا مالک یا اس کا کوچوان تو میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے SPCA کا انسپکٹر بننا پسند کروں گا جو اُن تینوں کا چالان کرتا ہے ۔
سنگین غلطی کرنے کے بعد پس بینی hindsight کا مظاہرہ کرنے والوں کی طرح اس کابلی والا ( برصغیر کی تقسیم سے قبل تقربیاّ ہر بڑے شہر میں سُود پر قرضہ دینے والے افغانی بکثرت نظر آتے تھے ۔ اُن کی شرحِ سُود بالعموم سو فی صد سے بھی زیادہ ہوتی تھی ۔ اور وصولی کے طریقے اُس سے بھی زیادہ ظالمانہ ۔ قرض لینے والے عموماً غریب غُربا اور نوکری پیشہ لوگ ہوتے تھے ۔ جس نے اُن سے ایک دفعہ قرض لیا ، وہ تادمِ مرگ سُود ہی ادا کرتا رہتا تھا ۔اورتادمِ مرگ زراصِل اور خان صاحب سر پر جُوں کے تُوں کھڑے رہتے تھے ۔ بنگال اور بعض دوسرے علاقوں میں بھی ، بیاج پر روپیہ چلانے والے افغانیوں کو کابلی والا کہتے تھے ۔ ٹیگور نے اسی عنوان سے ایک خوبصورت کہانی لکھی ہے ، جس کا ہمارے قضئے نما قصّے سے کوئی تعلق نہیں ۔
اس زمانے میں چوائس کی بہت بات کرتے تھے ۔مگر چوائس ہے کہاں ؟ مہاتما بدھ نے تو دو ٹوک بات کہہ دی کہ اگر چوائس دی جاتی تو وہ پیدا ہونے سے ہی انکار کر دیتے۔ لیکن ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ گھوڑے کو اگر چوائس دی جائے تو وہ اگلے جنم میں بھی گھوڑا ہی بننا پسند کرے گا ۔ مہاتما بدھ بننا ہرگز پسند نہیں کرے گا ، کیونکہ وہ گھوڑیوں کے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھ سکتا جیسے گوتم بدھ نے یشودھرا کے ساتھ کیا ۔ یعنی انہیں غافل سوتا چھوڑ کر بیاباں کو نکل جائے یا کسی جاکی کے ساتھ بھاگ جائے ۔ گھوڑا کبھی اپنے گھوڑے پن سے شرمندہ نہیں ہوسکتا ۔ نہ کبھی اس غریب کو فلک کج رفتار سے شکوہ ہوگا ۔نہ اپنے سوارگردوں رکاب سے کوئی شکایت ۔نہ تن بہ تدبیر ، بیسار جُو ماداؤں کے ہرجائی پن کا کوئی گلہ ۔ یہ تو آدمی ہی ہے جو ہر دم اپنے آدمی پن سے نادم و نالاں رہتا ہے ۔ اوراس کی فکر میں غلطاں کہ ۔۔۔
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا تو میں کیا ہوتا
گھوڑا تانگا رکھنےاور اُسے ٹھکانے لگانے کے بعد بشارت میں بظاہر دو متضاد تبدیلیاں رُونما ہوئیں ۔پہلی تو یہ کہ گھوڑے اور اس کے دور نزدیک کے تمام متعلقات سے ہمیشہ کے لیئے نفرت ہوگئی ۔ تنہا ایک لنگڑے گھوڑے نے انہیں جتنا نقصان پہنچایا اتنا تمام ہاتھیوں نے مل کر پورس کو نہیں پہنچایا ہوگا ۔ دوسری تبدیلی یہ آئی کہ اب وہ سواری کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے ۔ آدمی کو ایک دفعہ سواری کی عادت پڑ جائے تو پھر اپنی ٹانگوں سے ان کا فطری کام لینے میں توہین کے علاوہ نقاہت بھی محسوس ہونے لگتی ہے ۔ ان کی لکڑی کی بزنس اب کافی پھیل گئی تھی جسے وہ کبھی اپنی دوڑ دھوپ کا پھل اور کبھی اپنے والدِ بزرگوار کی جوتیوں کا طفیل بتاتے تھے ، جبکہ خود والدَ بزرگوار اسے بھاگوان گھوڑے کے قدموں کی برکت پر محمول کرتے تھے۔بہر صورت ، قابلَ غور بات یہ تھی کہ ان کی ترقی کا محرک اور سبب کبھی پیروں اور جوتیوں کی سطح سے اُوپر نہیں گیا ۔کسی نے بلکہ خود انہوں نے بھی ذہانت اور فراست کو اس کا کریڈٹ نہیں دیا ۔لکڑی کی بِکری بڑھی تو دفتروں کے چکر بھی بڑھے ۔ اسی قدر سواری کی ضرورت میں اضافہ ہوا ۔ اس زمانے میں کمپنیوں میں رشوت نہیں چلتی تھی ۔ لہذاٰ کام نکالنے کہیں زیادہ ذلت و خواری ہوتی تھی ۔ہمارے ہاں ایماندار افسر کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ جب تک بے جا سختی ، خوردہ گیری اور اڑیل اور سڑیل پن سے سب کو اپنی ایمان داری سے عاجز نہ کردے ، وہ اپنی ملازمت کو پکا اور خود کو محفوظ نہیں سمجھتا ۔بے ایمان افسر سے بزنس مین بآسانی نمٹ لیتا ہے ، ایمان دار افسر سے اسے ہول آتا ہے ۔ چناچہ صورت یہ تھی کہ کمپنی سے لکڑی اور کھوکھوں کا آڈر لینے لے لیئے پانچ چکر لگائیں تو بل کی وصولی لے لیئے دس چکر لگانے پڑتے تھے ۔ جب سے کمپنی لیچڑ ہوئیں ، انہوں نے دس پہروں کا کرایہ اور محنت بھی لاگت میں شامل کر کے قیمتیں بڑھا دیں ۔ ادھر کمپنیوں نے ان کی نئی قیمتوں کو لٹس قرار دے کر دس فیصد کٹوتی شروع کر دی ۔بات وہیں کی وہیں رہی ۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ ہر دو فریق ایک دوسرے کو لالچی ، کائیاں اور چور سمجھ کر لین دین کرنے لگے ۔ اور یہ چوکس اور کامیاب بزنس مین کا بنیادی اُصول ہے ۔
علامہ اقبال نے ان شاعروں ، صورت نگاروں اور افسانہ نویسوں پر بڑا ترس کھایا ہے جن کے اعصاب پر عورت سوار ہے ۔ مگر ہمارے حبیبِ لبیب اور ممدوح بشارت فاروقی ان بدنصیبوں میں تھے جن کی بے داغ جوانی اس شاعر کے کلام کی طرح تھی جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ موصوف کا کلام غلطیوں اور لطف دونوں سے پاک ہے ! بشارت کی ٹریجیڈی شاعروں ، آرٹسوں اور افسانہ نویسوں سے کہیں زیادہ گھور گھمبیر تھی۔ اس لیئے کہ دُکھیا کے اعصاب پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی سوار رہا ۔ سوائے عورت کے ۔ اس دور میں جسے ناحق جوانی دیوانی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔، ان کے اعصاب پر بلترتیب مُلا ، ناصح بزرگ ، ماسٹر فاخر حسین ، مولوی مظفر ، داغ دہلوی ، سیگل اور خُسر بزرگوار سوار رہے ۔ خدا خدا کر کے وہ اسی ترتیب سے اُن پر سے اُترے تو گھوڑا سوار ہوگیا ، جس کا قصہ ہم ” اسکول ماسٹر کا خواب ” میں بیان کر چکے ہیں ۔ وہ سبز قدم ان کے خواب ، ذہنی سکون اور گھریلو بجٹ پر جھاڑو پھیر گیا ۔ روز روز کے چالان ، جرمانے اور رشوت سے وہ اتنے عاجز آچکے تھے کہ اکثر کہتے تھے کہ اگر مجھے چوائس دی جائے کہ تم گھوڑا بننا پسند کروگے یا اس کا مالک یا اس کا کوچوان تو میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے SPCA کا انسپکٹر بننا پسند کروں گا جو اُن تینوں کا چالان کرتا ہے ۔
سنگین غلطی کرنے کے بعد پس بینی hindsight کا مظاہرہ کرنے والوں کی طرح اس کابلی والا ( برصغیر کی تقسیم سے قبل تقربیاّ ہر بڑے شہر میں سُود پر قرضہ دینے والے افغانی بکثرت نظر آتے تھے ۔ اُن کی شرحِ سُود بالعموم سو فی صد سے بھی زیادہ ہوتی تھی ۔ اور وصولی کے طریقے اُس سے بھی زیادہ ظالمانہ ۔ قرض لینے والے عموماً غریب غُربا اور نوکری پیشہ لوگ ہوتے تھے ۔ جس نے اُن سے ایک دفعہ قرض لیا ، وہ تادمِ مرگ سُود ہی ادا کرتا رہتا تھا ۔اورتادمِ مرگ زراصِل اور خان صاحب سر پر جُوں کے تُوں کھڑے رہتے تھے ۔ بنگال اور بعض دوسرے علاقوں میں بھی ، بیاج پر روپیہ چلانے والے افغانیوں کو کابلی والا کہتے تھے ۔ ٹیگور نے اسی عنوان سے ایک خوبصورت کہانی لکھی ہے ، جس کا ہمارے قضئے نما قصّے سے کوئی تعلق نہیں ۔
اس زمانے میں چوائس کی بہت بات کرتے تھے ۔مگر چوائس ہے کہاں ؟ مہاتما بدھ نے تو دو ٹوک بات کہہ دی کہ اگر چوائس دی جاتی تو وہ پیدا ہونے سے ہی انکار کر دیتے۔ لیکن ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ گھوڑے کو اگر چوائس دی جائے تو وہ اگلے جنم میں بھی گھوڑا ہی بننا پسند کرے گا ۔ مہاتما بدھ بننا ہرگز پسند نہیں کرے گا ، کیونکہ وہ گھوڑیوں کے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھ سکتا جیسے گوتم بدھ نے یشودھرا کے ساتھ کیا ۔ یعنی انہیں غافل سوتا چھوڑ کر بیاباں کو نکل جائے یا کسی جاکی کے ساتھ بھاگ جائے ۔ گھوڑا کبھی اپنے گھوڑے پن سے شرمندہ نہیں ہوسکتا ۔ نہ کبھی اس غریب کو فلک کج رفتار سے شکوہ ہوگا ۔نہ اپنے سوارگردوں رکاب سے کوئی شکایت ۔نہ تن بہ تدبیر ، بیسار جُو ماداؤں کے ہرجائی پن کا کوئی گلہ ۔ یہ تو آدمی ہی ہے جو ہر دم اپنے آدمی پن سے نادم و نالاں رہتا ہے ۔ اوراس کی فکر میں غلطاں کہ ۔۔۔
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا تو میں کیا ہوتا
گھوڑا تانگا رکھنےاور اُسے ٹھکانے لگانے کے بعد بشارت میں بظاہر دو متضاد تبدیلیاں رُونما ہوئیں ۔پہلی تو یہ کہ گھوڑے اور اس کے دور نزدیک کے تمام متعلقات سے ہمیشہ کے لیئے نفرت ہوگئی ۔ تنہا ایک لنگڑے گھوڑے نے انہیں جتنا نقصان پہنچایا اتنا تمام ہاتھیوں نے مل کر پورس کو نہیں پہنچایا ہوگا ۔ دوسری تبدیلی یہ آئی کہ اب وہ سواری کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے ۔ آدمی کو ایک دفعہ سواری کی عادت پڑ جائے تو پھر اپنی ٹانگوں سے ان کا فطری کام لینے میں توہین کے علاوہ نقاہت بھی محسوس ہونے لگتی ہے ۔ ان کی لکڑی کی بزنس اب کافی پھیل گئی تھی جسے وہ کبھی اپنی دوڑ دھوپ کا پھل اور کبھی اپنے والدِ بزرگوار کی جوتیوں کا طفیل بتاتے تھے ، جبکہ خود والدَ بزرگوار اسے بھاگوان گھوڑے کے قدموں کی برکت پر محمول کرتے تھے۔بہر صورت ، قابلَ غور بات یہ تھی کہ ان کی ترقی کا محرک اور سبب کبھی پیروں اور جوتیوں کی سطح سے اُوپر نہیں گیا ۔کسی نے بلکہ خود انہوں نے بھی ذہانت اور فراست کو اس کا کریڈٹ نہیں دیا ۔لکڑی کی بِکری بڑھی تو دفتروں کے چکر بھی بڑھے ۔ اسی قدر سواری کی ضرورت میں اضافہ ہوا ۔ اس زمانے میں کمپنیوں میں رشوت نہیں چلتی تھی ۔ لہذاٰ کام نکالنے کہیں زیادہ ذلت و خواری ہوتی تھی ۔ہمارے ہاں ایماندار افسر کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ جب تک بے جا سختی ، خوردہ گیری اور اڑیل اور سڑیل پن سے سب کو اپنی ایمان داری سے عاجز نہ کردے ، وہ اپنی ملازمت کو پکا اور خود کو محفوظ نہیں سمجھتا ۔بے ایمان افسر سے بزنس مین بآسانی نمٹ لیتا ہے ، ایمان دار افسر سے اسے ہول آتا ہے ۔ چناچہ صورت یہ تھی کہ کمپنی سے لکڑی اور کھوکھوں کا آڈر لینے لے لیئے پانچ چکر لگائیں تو بل کی وصولی لے لیئے دس چکر لگانے پڑتے تھے ۔ جب سے کمپنی لیچڑ ہوئیں ، انہوں نے دس پہروں کا کرایہ اور محنت بھی لاگت میں شامل کر کے قیمتیں بڑھا دیں ۔ ادھر کمپنیوں نے ان کی نئی قیمتوں کو لٹس قرار دے کر دس فیصد کٹوتی شروع کر دی ۔بات وہیں کی وہیں رہی ۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ ہر دو فریق ایک دوسرے کو لالچی ، کائیاں اور چور سمجھ کر لین دین کرنے لگے ۔ اور یہ چوکس اور کامیاب بزنس مین کا بنیادی اُصول ہے ۔