آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۲

میر انیس اور مرزا دبیر خاتمہ شعرائے اُردو کا ہیں اور چونکہ اِس فن کے صاحبِ کمال کا پیدا ہونا نہایت درجہ کی آسودگی اور زمانہ کی قدردانی اور متعدد سامانوں پر منحصر ہے اور اب زمانہ کا رنگ اس کے برخلاف ہے، اس لئے ہندوستان کو اس شاعری کی ترقی اور ایسے شعراء کے پیدا ہونے سے بالکل مایوس ہو جانا چاہیے، البتہ کوئی نیا فیشن نکلے، پھر اُس میں خدا جانے کیا کیا کمال ہوں، اور کون کون اہلِ کمال ہوں۔

خاتمہ کلام میں عقل کے نجومی سے سوال ہوا کہ اس شاعری کا ستارہ جو نحوستِ زوال میں آ گیا ہے، کبھی اوجِ اقبال پر بھی طلوع کرے گا یا نہیں؟ جواب ملا کہ نہیں۔ پوچھا گیا کہ سبب؟ جواب ملا کہ حکامِ وقت کی یہ زبان نہیں، نہ اُن کے کارآمد ہے۔ اسی لئے وہ اس کے قدردان نہیں نہ وہ اسے جانتے ہیں، نہ ان کے جاننے کو کچھ فخر جانتے ہیں، وہاں سے ہمارے شعراء کو جھوٹے خوشامدی کا خطاب ملاہوا ہے۔ اچھا یا قسمت یا نصیب، جس لوگوں کے کلام ہماری زبان کے لئے سند سمجھے جانے تھے، اُن کی تو یہ عزت ہوئی، اب اس نیم جان مُردہ کے رونے والے چند بڈھے رہے جن کی درد ناک آوازیں کبھی کبھی آہِ سرد کے سُروں میں بلند ہو کر سینوں میں رہجاتی ہیں، کبھی وہ دل آسودہ ہوتے ہیں تو ایک مشاعرہ کر کے مل بیٹھتے ہیں اور آپس ہی میں ایک دوسرے کی تعریفیں کر کے جی خوش کر لیتے ہیں، شاعر غریب اپنے بزرگوں کی قبریں قائم رکھنے کو اتنی ہی تعریف پر قناعت کر لیں مگر پیٹ کو کیا کریں؟ یہ دوزخ تو بہت سی تعریف سے بھی نہیں بھرتا۔

پھر سوال ہوا کہ کوئی ایسی تدبیر ہے، جس سے اس کے دن پھریں، اور پھر ہماری
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۳

نظم کا باغ لہلہاتا نظر آئے، جواب ملا کہ ہاں۔ ہمت و تدبیر کو خدا نے بڑی برکت دی ہے۔ صورت یہی ہے کہ ایشیا میں ایسے کمالوں کی رونق حکام کی توجہ سے ہوتی ہے۔ شاعروں کو چاہیے کہ اُسے حاکموں کے کارآمد یا اُن کی پسند کے قابل بنائیں۔ ایسا کریں گے تو شعر کہنے والوں کو کچھ فائدہ ہو گا، اور جس قدر فائدہ ہو گا، اُسی قدر چرچا زیادہ ہو گا۔ اسی قدر ذہن فکر و جودت کریں گے اور دلچسپ ایجاد اور خوش نما اختراع کر نکالیں گے، اسی کو ترقی کہتے ہیں۔

یہ تو تم نے دیکھ لیا کہ اُردو میں جو سرمایہ انشاء پردازی کا ہے، فارسی کی بدولت ہے، قدمائے فارش ہر قسم کے مضامین سے لطف اُٹھاتے تھے، متاخرین فقط غزل میں منحصر ہو گئے۔ ذی استعداد قصیدے بھی کہتے رہے، اُردو والوں نے بھی آسان کام سمجھ کر اور عوام پسندی کو غرض ٹھہرا کر حُسن و عشق وغیرہ کے مضامین کو لیا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جو کچھ کیا، بہت خوب کیا، لیکن وہ مضمون اس قدر مستعمل ہو گئے کہ سُنتے سُنتے کان تھک گئے ہیں، وہی مقرری باتیں ہیں، کہیں ہم لفظوں کو پس و پیش کرتے ہیں کہیں ادل بدل کرتے ہیں اور کہے جاتے ہیں، گویا کھائے ہوئے بلکہ اوروں کے چبائے ہوئے نوالے ہیں، اُنھیں کو چباتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں، خیال کرو اس میں کیا مزہ رہا، حسن و عشق سبحان اللہ، بہت خوب، لیکن تابہ کے؟ حور ہو یا پری، گلے کا ہار ہو جائے تو اجیرن ہو جاتی ہے۔ حُسن و عشق سے کہاں تک جی نہ گھبرائے اور اب تو وہ بھی سو برس کی بڑھیا ہو گئی۔

ایک دشواری یہ بھی ہے کہ اِن خیالات کے ادا کرنے کے لئے ہمارے بزرگ الفاظ اور معانی اور استعاروں اور تشبیہوں کے ذخیرے تیار کر گئے ہیں اور وہ اس قدر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۴

رواں ہو گئے ہیں کہ ہر شخص تھوڑے فکر سے کچھ نہ کچھ کر لیتا ہے اور اگر خیال نظم کرنا چاہے تو ویسا سامان نہیں، البتہ ذی استعداد مشاق چاہیں تو کر بھی سکتے ہیں، لیکن کم بخت حسن و عشق کے مضمون، اُس کے خط و خال اور بہار و گلزار کے الفاظ اُنکی زبان و وہاں میں رچے ہوئے ہیں۔ اگر کچھ کہنا چاہیں تو اول اُسے بھلائیں پھر اُس کے مناسب مقام ویسے ہی نرالے استعارے، نئی تشبیہیں، انوکھی ترکیبیں اور لفظوں کی عمدہ تراشیں پیدا کریں، اور بڑی عرق ریزی اور جانکاہی کا کام ہے، بے ہمتی جو ہماری قوم پر حاکمِ بااختیار بنی ہوئی ہے اسے اس سے زیادہ روکنے کا موقع کہاں مل سکتا ہے۔

اس اتفاقی معاملہ نے اور تو جو کیا سو کیا، بڑی قباحت یہ پیدا کی کہ اربابِ زمانہ نے متفق اللفظ کہہ دیا کہ اُردو نظم مضامینِ عاشقانہ ہی کہہ سکتی ہے۔ اسے ہر ایک مضمون کے ادا کرنے کی طاقت اور لیاقت بالکل نہیں اور یہ ایک بڑا داغ ہے جو ہماری قومی زبان کے دامن پر لگا ہے، سوچتا ہوں کہ اُسے کون دھوئے اور کیوں کر دھوئے، ہاں یہ کام ہمارے نوجوانوں کا ہے جو کشورِ علم میں مشرقی اور مغربی دونوں دریاؤں کے کناروں پر قابض ہو گئے ہیں۔ اُن کی ہمت آبیاری کرے گی، دونوں کناروں سے پانی لائے گی اور اس داغ کو دھوئے گی، بلکہ قوم کے دامن کو موتیوں سے بھر دے گی۔

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۵

آبِ حیات کا پہلا دور

تمہید​

نظم اُردو کے عالم کا پہلا نوروز ہے، نفشِ ناطقہ کی روح یعنی شاعری عالمِ وجود میں آئی تھی مگر بچوں کی نیند پڑی سوتی تھی۔ ولی نے آ کر ایسی میٹھی آواز سے غزلخوانی شروع کی ہے کہ اس بچے نے ایک انگڑائی لے کر کروٹ لی، اور اثر اس کا درجہ حرارت برقی رو کی طرح ہر دل میں دوڑ گیا۔ گھر گھر شاعری کا چرچا ہے، جس امیر اور جس شریف کو دیکھو، شعر کی سوچ میں غرق بیٹھا ہے، ان بزرگوں کی باتیں تو ان کے شعروں سے بھی سُن سکتے ہو، مگر حیران ہوں کہ صورت کیوں کر دکھا دوں۔ اول تو حرفوں میں تصویر کھینچنی مشکل، اس پر میں زبان کا اپاہج، اس رنگ کے الفاظ کہاں سے لاؤں جو ایسے لوگوں کی جیتی جاگتی بولتی چالتی تصویر کھینچ دکھاؤں کہ ادب کی آنکھ ان کی متانت پر نظر نہیں اُٹھا سکتی، دیکھو جلسہ مشاعرہ کا امرا و شرفا سے آراستہ ہے۔ معقول معقول بڈھے اور جوان برابر لمبے لمبے جامے، موٹی موٹی پگڑیاں باندھے بیٹھے ہیں، کوئی کٹاری باندھے ہے، کوئی سیف لگائے، بعض وہ کہن سال ہیں کہ جن کے بڑھاپے کو سفید داڑھی نے نورانی کیا ہے۔ بعض ایسے ہیں کہ عالمِ جوانی میں اتفاقاً داڑھی کو رخصت کیا تھا۔ اب کیوں کر رکھیں کہ وضعداری کا قانون ٹوٹتا ہے، اس پر خوش مزاجی کا یہ عالم ہے کہ ان کے بڑھاپے کی زندہ دلی سے آج نوجوان کی جوانی پانی پانی ہوتی ہے، ان شوخیوں سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۶

اُنھیں کچھ اور مطلب نہیں، مگر یہ کہ اپنے اوپر آپ ہنسیں، اوروں کو خوش کریں۔

اِس دَور میں ولی تو مجلس کی شمع ہیں اور اہلِ مجلس دِلی اور دکن کے شریف و نجیب فصیح زبان ہیں کہ جو کچھ دیکھتے ہیں، اسی روشنی سے دیکھتے ہیں، ان کی زبان ایک ہی سمجھنی چاہیے مگر ولی نے اپنے کلام میں ایہام اور الفاظِ ذو معنی سے اتنا کام نہیں لیا، خدا جانے ان کے قریب العہد بزرگوں کو پھر اس قدر شوق اس کا کیونکر ہو گیا، شاید دوہروں کا انداز جو ہندوستان کی زبان کا سبزہ خود رَو تھا، اُس نے اپنا رنگ دیا، اگرچہ ولی کے بعد دِلی میں سینکڑوں صاحبِ طبع دیوان بنانے پر کمربستہ ہو گئے مگر میں اس مشاعرہ میں چند ایسے بزرگوں کو لاتا ہوں جن کے ناموں پر اس وقت کے معرکوں میں استادی کا چتر شاہی سایہ کئے تھا اور غالباً اس زبان کا نمونہ شعر کا انداز دکھانے کو اس قدر کافی ہے کہ ان بزرگوں کےکلام میں تکلف نہیں۔ جو کچھ سامنے آنکھوں کے دیکھتے ہیں اور اس سے دل میں جو خیالات گزرتے ہیں وہی زبان سے کہہ دیتے ہیں، ایچ پیچ کے خیال، دور دور کی تشبیہیں، نازک استعارے نہیں بولتے، اسی واسطے اشعار بھی صاف اور بے تکلف ہیں، اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ ہر ایک زبان اور اُس کی شاعری جب تک عالمِ طفولیت میں ہوتی ہے، تب تک بے تکلف، عام فہم اور اکثر حسبِ حال ہوتی ہے۔ اسی واسطے لطف انگیز ہوتی ہے، اس میں شک نہیں کہ اُن کے محاورات قدیمی اور مضمون بھی اکثر سبک اور مبتذل ہوں گے مگر کلام کی سادگی اور بے تکلفی ایسی دل کو بھلی لگتی ہے جیسے ایک حُسن خداداد ہو کہ اُس کی قدرتی خوبی ہزاروں بناؤ سنگار کا کام کر رہی ہے۔ میں خود نہیں کہتا، فلاسفہ سلف کا قول سنتا ہوں کہ ہر شے اپنی مختلف کیفیتوں میں خوبصورتی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۷

اور بدصورتی کا ایک عالم رکھتی ہے۔ پس انسان وہی ہے کہ جس پیرایہ میں خوبصورتی جوبن دکھائے، یہ اس سے کیفیت اٹھائے نہ کہ فقط حسینوں کے زلف و رخسار میں پریشان رہے، خوش نظر اُسے نہیں کہتے کہ فقط گل و گلزار ہی پر دیوانہ پھرے، نہیں ! ایک گھاس کی پتی بلکہ سڈول کانٹا خوشنما ہو تو اُس کی نوک جھوک پر بھی پھول ہی کی طرح لوٹ جائے۔

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

شمس ولی اللہ

یہ نظم اُردو کی نسل کا آدم جب ملکِ عدم سے چلا تو اس کے سر پر اولیت کا تاج رکھا گیا، جس میں وقت کے محاورہ نے اپنے جواہرات خرچ کئے اور مضامین کی رائج الوقت دستکاری سے مینا کاری کی، جب کشورِ وجود میں پہنچا تو ایوانِ مشاعرہ کے صدر میں اس کا تخت سجایا گیا، شہرتِ عام نے جو اِس کے بقائے نام کا ایوان بنایا ہے اس کی بلندی اور مضبوطی کو ذرا دیکھو، اور جو کتبے لکھے ہیں اُنھیں پڑھو، دنیا تین سو برس دور نکل آئی ہے مگر وہ آج تک سامنے نظر آتے ہیں اور صاف پڑھے جاتے ہیں، اُس زمانہ تک اُردو میں متفرق شعر ہوتے تھے، ولی اللہ کی برکت نے اُسے وہ زور بخشا کہ آج کی شاعری نظمِ فارسی سے ایک قدم پیچھے نہیں، تمام بحریں فارسی کی اُردو میں لائے، شعر کو غزل اور غزل کو قافیہ ردیف سے سجایا۔ ردیف دار دیوان بنایا، ساتھ اس کے رُباعی، قطعہ، مخمس اور مثنوی کا راستہ بھی نکالا۔ انھیں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۸

ہندوستان کی نظم میں وہی رتبہ ہے جو انگریزی کی نظم میں چاسر شاعر (چاسر 1348 ء میں پیدا ہوا اور 1402 ء میں مر گیا۔ اُس وقت یہاں تغلقیہ خاندان کا دَور ہو گا۔) کو اور فارسی میں رودکی (رودکی کی فارسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہجری کے درمیان تھا اور سلاطین سامانیہ کے دربار میں قدردانہ کے بے انتہا انعام حاصل کرتا تھا۔) کو اور عربی میں مہلل کو، وہ کسی کے شاگرد نہ تھے، اور یہ ثبوت ہے فصیح عرب کے قول کا کہ الشعرا ء قلاہ سید الرحمٰن اسی کو رانائے فرنگ کہتا ہے کہ شاعر اپنی شاعری ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے، ایسے وقت میں کہ ہماری زبان زور بیان میں ایک طفل نوری کی تھی جو انگلی کے سہارے سے بڑھی۔ اُردو زبان اس وقت سوائے ہندی دہروں اور بھاشا کے مضامین کے اور کسی قابل نہ تھی، انھوں نے اسمیں فارسی ترکیبیں اور فارسی مضامین کو بھی داخل کیا۔ (دیکھو تذکرہ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم، مگر تعجب ہے کہ میرتی نے اپنے تذکرہ میں اورنگ آباد لکھا ہے۔) ولی احمد آباد گجرات کے رہنے والے تھے اور شاہ ۔۔۔۔۔۔ الدین کے مشہور خاندان میں سے تھے، ان کی علمی تحصیل کا حال ہماری لاعلمی کے اندھیرے میں ہے، کیونکہ اس عہد کی خاندانی تعلیم اور بزرگوں کی صحبتوں میں ایک تاثیر تھی کہ تھوڑی نوشت و خواند کی لیاقت بھی استعداد کا پردہ نہ کُھلنے دیتی تھی، چنانچہ اُن کے اشعار سے معلوم ہو گا کہ وہ قواعد عروض کی طرح زبانِ عربی سے ناواقف تھے، پھر بھی کلام کہتا ہے کہ فارسیت کی استعداد درست تھی، ان کی انشا پردازی اور شاعری کی دلیل اس سے زیادہ کیا ہو گی کہ ایک زبان کا دوسری زبان سے ایسا جوڑ لگایا ہے کہ آج تک زمانے نے کئی پلٹے کھائے ہیں مگر پیوندنین جنبش
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۹

نہیں آتی۔ علم میں درجہ فضیلت نہ رکھتے تھے مگر کہتے ہیں :

ایک دل نہیں آرزو سے خالی
ہر جا ہے محال اگر سنا رہے​

یہ سیر کتاب کا شوق اور علماء کی صحبت کی برکت ہے۔ ولی کی طبیعت میں بعد پردازی بھی معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اگرچہ سودا کی طرح کسی سے دست و گریباں نہیں ہوئے مگر اپنے ہمعصروں پر چوٹیں کی ہیں، چنانچہ ناصر علی سرہندی کے معاملہ سے ظاہر ہے۔

اگرچہ ایشیا کے شاعروں کا پہلا ۔۔۔۔۔۔ مضمون عاشقانہ ہے مگر جس شوخی سے اخلاق کی شوخی ظاہر ہو اس کا ثبوت ان کے کلام سے نہیں ہوتا، بلکہ برخلاف اس کے صلاحیت اور متانت اُن کا جوہر طبعی تھا۔ اُن کے پاس سیاحی اور تجربہ کو توشہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس عہد میں تھوڑا سفر بھی بڑی سیاحی کی قیمت رکھتا تھا، اس میں یہ اپنے ۔۔۔۔۔۔ سے ابو المعانی کے ساتھ دلی میں آئے۔ یہاں شاہ سعد اللہ گلشن کے مرید ہوئے۔ شاید اُن سے شعر میں اصلاح لی ہو گی۔ دیوان (شیخ سعد اللہ گلشن اچھے شاعروں میں تھے اور مرزا بیدل کے معاصر تھے۔ دو شعر فارسی کے ان سے بھی :

بارگاہیں ۔۔۔۔۔ شہید تیغ تغافل کشید نت
جانم زدست بُرد غزالانہ دیدنت

بدقت می تواں ۔۔۔۔ معنی ہائے نازِ اُو
کو شرحِ حکمت العین است مژگانِ ۔۔۔۔​

۔۔۔۔۔۔۔ کہ خاص شعرائے دکن کے حال میں ہے اور وہیں تصنیف ہوا ہے۔) کی ترتیب فارسی کے طور پر یقینً ان کے اشارہ سے کی۔ ان کا دیوان اس عہد کے مشاعروں کی بولتی تصویر ہے کیوں کہ اگر آج دریافت کرنا چاہیں کہ اس وقت کے امراء و شرفاء کی کیا زبان تھی؟ تو اس کیفیت کو وہ دیوان ولی کے اور کوئی نہیں بتا سکتا۔ انھی کے دیوان سے ہم اسوقت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۰

اور آج کل زبان کے فرق کو بخوبی نکال سکتے ہیں۔

سوں اور سین بجائے سے
کوں بہ داد معُرف بجائے کو
ہمن کوں بجائے ہم کو
جگ منے بجائے دنیا میں
برمنے بجائے برمیں فارسی کا ترجمہ ہے۔
پیراہنے در بر تجھ لب کی صفتہ بجائے تیرے لب کی صفتہ
تمن یعنی طرح یا مثل
جگ یعنی جہاں، دُنیا
بچن یعنی کلام
نِت یعنی ہمیشہ
مُکھ یعنی منھ
تسبی یعنی تسبیح
سہی یعنی صحیح
بگانہ یعنی بیگانہ
مَرض یعنی مَروض
بھیتر بجائے اندر
مجھ کو بجائے میرا
موہن، ترنجن، پی، پیتم بجائے معشوق
ہنجھواں بجائے آنسو کی جمع
بھواں پلکاں بجائے بھویں، پلکیں
نین بجائے آنکھ
دہن بجائے دَہن
مِرا بجائے میرا
ہوہ بجائے یہہ

بعض قافیے مثلاً :

گھوڑا، موڑا، گورا
دھڑ، سر
گھوڑی، گوری
اکثر غزلیں بے ردیف ہیں۔

چونکہ نظم فارسی کی روح اسی وقت اُردو کے قالب میں آئی تھی، اسی واسطے ہندی لفظوں کے ساتھ فارسی کی ترکیبیں اور دَر اور بَر بلکہ بعض جگہ افعالِ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۱

فارسی بھی دیکھنے میں کھٹکتے ہیں، وہ خود دکنی تھے، اس لئے اُن کے کلام میں بعض بعض الفاظ دکنی بھی ہوتے ہیں۔

آج اس وقت کی زبان کو سُن کر ہمارے اکثر ہمعصر ہنستے ہیں، لیکن یہ ہنسی کا موقع نہیں، حوادث گاہ عالم میں ایسا ہی ہوا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا، آج تم اُن کی زبان پر ہنستے ہو، کل ایسے لوگ آئیں گے کہ وہ تمہاری زبان پر ہنسیں گے۔ اس رنجمن غفلت کے ممبر اگر تھوڑی دیر کے لئے عقل دُوربین کو صدرِ انجمن کر لیں تو یہ اس تدبیر کے سوچنے کا موقع ہے کہ آج ہم کیونکر اپنے کلام کو ایسا کریں جس سے ہماری زبان کچھ مدت تک زیادہ مطبوع خلائق رہے۔ اگرچہ سامنے ہمارے اندھیرا ہے لیکن پیچھے پھر کر دیکھنا چاہیے اور خیال کرنا چاہیے کہ زبان نے جو ترقی کی ہے تو کن اصول پر اور کس جانب میں قدم رکھتی گئی ہے۔ آؤ ہم بھی آج کے کاروبار اور اُس کے آیندہ حالات کو خیال کریں اور اسی انداز پر قدم ڈالیں، شاید ہمارے کلام کی عمر میں کچھ برس زیادہ ہو جائیں۔

شاعرِ قدرت کے دیوان میں ایک سے ایک مضمون نیا ہے، مگر لطیفہ یہ بھی کچھ کم نہیں کہ شاعری کا چراغ تو دکن میں روشن ہو اور ستارے اُس ک دلی کے اُفق سے طلوع ہوا کریں، اس عہد کی حالت اور بھاشا زبان کو خیال کرتا ہوں تو سوچتا رہ جاتا ہوں کہ یہ صاحبِ کمال زبانِ اُردو اور انشائے ہندی میں کیوں کر ایک نئی صنعت کا نمونہ دے گیا اور اپنے پیچھے آنے والوں کے واسطے ایک نئی سڑک کی داغ بیل ڈالتا گیا۔ کیا اُس معلوم تھا کہ اس طرح یہ سڑک ہموار ہو گی، اس پر دکانیں تعمیر ہوں گی، لالٹینوں کی روشنی ہو گی، اہلِ سلیقہ دوکاندار جواہر فروشی کریں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۲

اُردوئے معلٰی اس کا خطاب ہو گا، افسوس یہ ہے کہ ہماری زبان کے مؤرخ اور ہمارے شعراء کے تذکرہ نویسوں نے اس کے دلی اور خدا رسیدہ ثابت کرنے میں تو بڑی عرق ریزی، لیکن ایسے حال نہ لکھے جس سے اُس کے ذاتی خصائل و حالات مثلاً دنیا داری یا گوشہ گیری، اقامت یا سیاحی، راہِ علم و عمل کی نشیب و فراز منزلیں یا اُس کی صحبتوں کی مزہ مزہ کی کیفیتیں معلوم ہوں بلکہ برخلاف اس کے سنہ ولادت اور سالِ فوت تک بھی نہ بتایا۔ اتنا ثابت ہے کہ اِن کی ابتدائے عہد شاید عالمگیر کا آخر زمانہ ہو گا اور وہ مع اپنے دیوان کے زمانہ محمد شاہی میں دلی پہنچے۔

قاعدہ ہے کہ جب دولت کی بہتات اور عیش و نشاط میں کچھ نیکی پر خیالات آتے ہیں تو صوفیانہ لباس میں ظاہر ہوا کرتے ہیں، اس وقت محمد شاہی اُمراء نے در و دیوار کو دولت سے مست کر رکھا تھا، جس سے کہ تصوف کے خیالات عام ہو رہے تھے، دوسرے ولی خود فقر کے خاندان عالی سے تھے اور فقیری ہی کے دیکھنے والے بھی تھے۔ تیسرے زبانِ اُردو کے والدین یعنی بھاشا اور فارسی بھی صوفی ہیں، ان جذبوں نے اُنھیں تصوفِ شاعرانہ میں ڈالا اور دل کی اُمنگ نے پیش قدمی کا تمغہ حاصل کرنے کو اس کام پر آمادہ کیا جو سلف سے اس وقت تک کسی کو نہ سوجھا تھا وہ یہی کہ فارسی کے قدم بقدم چلیں اور پورا دیوان مرتب کریں۔ چنانچہ ان کے پیر کا اشارہ اس کی تائید کرتا ہے۔

غرض جب ان کا دیوان دلی میں پہنچا تو اشتیاق نے ادب کے ہاتھوں پر لیا۔ قدردانی نے غور کی آنکھوں سے دیکھا، لذت نے زبان سے پڑھا، گیت موقوف ہو گئے، قوال معرفت کی محفلوں میں انھیں کی غزلیں گانے بجانے لگے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۳

اربابِ نشاط یاروں کو سُنانے لگے، جو طبیعت موزوں رکھتے تھے، انھیں دیوان بنانے بنانے کا شوق ہوا۔

اگرچہ اس اعتبار سے یہ نہایت خوشی کا موقع ہے کہ عمدہ جوہرِ انسانیت پسندیدہ لباس پہن کر ہماری زبان میں آیا، مگر اس کوتاہی کا افسوس ہے کہ ملکی فائدہ اس سے نہ ہوا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی علمی یا آئینی رستہ سے نہیں آیا، بلکہ فقیرانہ شوق یا تفریح کی ہَوا سے اُڑ کر آ گیا تھا، کاش شاہنامہ کے ڈھنگ سے آتا کہ محمد شاہی عیاشی اور عیش پرستی کا خون بہاتا اور اہلِ ملک کو پھر تیموری اور بابری میدانوں میں لا ڈالتا یا تہذیب و شائستگی سے اکبری عہد کو پھر زندہ کر دیتا۔

باوجودیکہ اِس کی زبان آج کل متروک ہے مگر دیوان اب تک ہر جگہ ملتا اور بِکتا ہے، یہاں تک کہ پیرس اور لندن میں چھپ گیا ہے، اس میں علاوہ ردیف دار غزلوں کے رُباعیاں، قطے، دو تین مخمس، قصیدے، ایک مثنوی مختصر معرکہ کربلا کے حال ہیں، ایک شہر صورت کے ذکر میں ہے، داسوخت اُس وقت میں نہ تھا۔ اس ایجاد کا فخر میر صاحب کے لئے چھوڑ گئے۔ بادشاہ یا کسی امیر کی تعریف بھی نہیں، شاید خواجہ میر داد کی طرح تعریف کرنی عیب سمجھتے تھے، لیکن کبھی کبھی خواجہ حافظ کی طرح بادشاہِ وقت کے نام سے اپنے شعر کو شان و شکوہ دیتے تھے، چنانچہ دلی کی تصنیفات میں سے ایک غزل میں کہتے ہیں :

دل ولی کا لے لیا دلی نے چھین
جا کہو کوئی محمد شاہ سوں​

رسالہ نور المعروف تصوف میں بھی لکھا ہے۔ اُس میں کہتے یہں کہ میں محمد نور الدین صدیقی سہروردی کے مریدوں کا خاکِ پا ہوں اور شاہ سعد اللہ گلشن کا شاگرد، مگر یہ نہیں لکھا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۴

کہ کس امر میں ، لطیفہ، ولی نے اپنے جوش ریختہ گوئی میں ناصر علی سر ہندی کو کہ علی تخلص کرتے تھے، یہ شعر لکھا :

اُچھل کر جا پڑے جوں مصرع برق
اگر مطلع لکھوں ناصر علی کوں​

ناصر علی نے جواب میں لکھا :

باعجاز سخن گر اوڑ چلے وہ
ولی ہر گز نہ پہنچے گا علی کوں​

(دیکھو تذکرہ محائق، مگر شعر مذکور عز۔۔۔۔ دکنی کے دیوان میں درج ہے، شاید ناصر علی پر اسے یہ چوٹ بُری لگی، اسلئے جواب میں یہ شعر کہہ دیا، لوگوں میں ناصر علی کے نام سے مشہور ہو گیا۔)

اب ان کے کلام سے اس وقت کی زبان کا نمونہ دکھانا ضرور ہے، لیکن ہمارے تذکرہ نویسوں کا دستور ہے کہ جب شاعر کا حال لکھتے ہیں تو اس کے اشعار انتخاب کر کے لکھتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ فیضانِ سخن رائگاں نہیں جاتا۔ نظیر کے بعض شعر ایسے ہیں کہ میر سے پہلو مارتے ہیں۔ پس اگر نظری کا ذکر لکھ کر اُس کے چند شعر منتخب لکھدیئے تو ناواقف سوائے اس کے کہ نظری کا میر کا ہم پلہ شاعر سمجھے اور کیا تصور کر سکتا ہے۔ بڑی قباحت اس میں یہ ہے کہ شاعرِ مذکور میں اور ہم میں سالہا سال کے عرصے حائل ہیں۔ پس ان شعروں سے انکی اصلیت، قابلیت اور طبیعت کی کیفیت کھلنی مشکل ہو جاتی ہے۔ میں ان کے دیوان سے نیک نیتی کے ساتھ چند غزلیں پوری کی پوری لکھ دونگا تا کہ اصلیت حال ظاہر ہو جائے، ہاں اگر کسی کی پوری غزلیں ہاتھ نہ آئیں تو مجبوری ہے۔

تجھ لب کی صفت لعلِ بدخشاں سے کہونگا
جادو ہیں تیرے نین غزالاں سے کہونگا

دی حق نے تجھے بادشہی حُسن نگر کی
یہ کشورِ ایراں میں سلیماں سے کہونگا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۵

زخمی کیا ہے مجھ تری پلکوں کی اَنی نے
یہ زخم ترا خنجرِ بھالاں سے کہوں گا

بے صبر نہ ہو اے ولی اس درد سے ہرگاہ
جلدی سے ترے درد کی درماں سے کہوں گا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

دیکھنا ہر صُبح تجھ رُخسار کا
ہے مطالع مطلعِ انوار کا

یاد کرنا ہر گھڑی تجھ یار کا
ہے وظیفہ مجھ دلِ بیمار کا

آرزوئے چشمہ کوثر نہیں
تشنہ لب ہوں شربتِ دیدار کا

عاقبت ہوویگا کیا معلوم نئیں
دل ہوا ہے مبتلا دیدار کا

بُلبل و پروانہ کرنا دل کے رئیں
کام تھا تجھ چہرہ گلنار کا

کیا کہے تعریف دل ہے بے نظیر
حرف حرف اس مخزنِ اسرار کا

گر ہوا ہے طالبِ آزادگی
بندہ مت ہو سجہ و زنار کا

اے ولی ہونا سریجن پر نثار
مدعا ہے چشم گوہر بار کا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

بے وفائی نہ کر خدا سوں ڈر
جگ ہنسائی نہ کر خدا سوں ڈر

ہے جُدائی میں زندگی مشکل
آ جدائی نہ کر خدا سوں ڈر

اس سوں جو آشنائی ڈر کر ہے
آشنائی نہ کر خدا سوں ڈر

آرسی دیکھ کر نہ ہو مغرور
خود نمائی نہ کر خدا سوں ڈر

اے ولی غیر آستانہ یار
جبہ سائی نہ کر خدا سوں ڈر
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۶

جب صنم کو خیالِ باغ ہوا
طالبِ نشہ فراغ ہوا

فوجِ عشاق دیکھ ہر جانب
نازنیں صاحب دماغ ہوا

پان سین تجھ لباں کے سُرخ ہوا
جگرِ لالہ داغ داغ ہوا

دلِ عشاق کیوں نہ ہو روشن
جب خیالِ صنم چراغ ہوا

اے ولی گلبدن کو باغ میں دیکھ
دلِ صد برگ باغ باغ ہوا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

جس وقت اے سریجن تو بے حجاب ہو گا
ہر ذرہ تجھ جھلک سوں چوں آفتاب ہو گا

مت جا چمن سوں لالہ بُلبل پر مت ستم کر
گرمی سوں تجھ نگہ کی گلگل گلاب ہو گا

مت آئینہ کو دکھلا اپنا جمالِ روشن
تجھ مجھ کی تب دیکھے آئینہ آب ہو گا

نِکلا ہے وہ ستم گر تیغِ ادا کوں لے کر
سینے پہ عاشقاں کے اب فتحیاب ہو گا

رکھتا ہے کیوں جفا کو مجھ پر روا اے ظالم
محشر میں تجھ سیں آخر میرا حساب ہو گا

مجھ کو ہوا ہے معلوم اے مست جامِ خونیں
تجھ انکھڑیاں کے دیکھے عالم خراب ہو گا

ہاتف نے یوں دیا ہے مجھ کو ولی بشارت
اس کی گلی میں جا تو مقصد شتاب ہو گا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

تخت جس بے خانماں کا دشت ویرانی ہوا
سر اوپر اس کے مکولا تاجِ سلطانی ہوا

تجھ حسنِ عالمتاب کا جو عاشق و شیدا ہوا
ہر خوبرو کے حُسن کے جلوہ سوں بے پردا ہوا

سینہ میں اب محشر تلک کونین کو بسرائے وہ
تجھ نین کے جو جام سوں مے پی کے متوالا ہوا

پایا ہے جگ میں اے ولی وہ لیلٰی مقصود کون
جو عشق کے بازار میں مجنوں نمن رسوا ہوا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۷

لیا ہے جب سوں موہن نے طریقہ خود نمائی کا
چڑھا ہے آرسی پر تب سے رنگ حیرت فزائی کا

کیونکر کرے آلودہ زرجب منے صیدِ مراد
ہے علم اوپر معطل صورتِ شیرِ طلا

بولہوس رکھتے ہیں دائم فکر رنگِ عاشقاں
ہے مہوس کی سدا سینہ میں تدبیرِ طلا

بو کنارے مکھ پہ تیرے اے زلیخا وش نہیں
سورہ یوسف کے لکھا گرد تحریر طلا

ہوا ہے سیر ما مشتاق بیتابی سوں من میرا
چمن سوں آج ایا ہے مگر گل پیرہن میرا

خمارِ ہجر نے جس کے دیا ہے دردِ دل مجھ کو
رکھو نشہ نمن انکھیاں میں گروہ مست ناز آہوے

عجب نین گر گلاں دوڑیں پکڑ کر صورتِ قمری
ادا سوں جب چمن بھیتر وہ سردِ سرفراز آوے

تا حشر رہے بوئے گلاب اُس کے عرق سے
جس برہنے یک بار وہ گل پیرہن آوے

سایہ ہو مرا سبز برنگِ پر طوطی
گر خواب میں وہ نو خطِ شیریں بچن آوے

کھینچیں اَپن اَنکھیاں منے جوں کحل جواہر
عشاق کے گر ہاتھ وہ خاک چرن آوے

ہر گز سخنِ سخت کو لاوے نہ زبان پر
جس دہن میں یکبار وہ نازک بدن آوے

یہ تل تجھ مجھ کے کعبہ میں مجھے اسود دِستا
زنخداں میں ترے مجھ چاہِ زمزم کا اثر دِستا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

(دِستا (دکھائی دیتا ہے) یعنی نظر آتا ہے یا معلوم ہوتا ہے اور یہ ساری غزل اسی ردیف میں ہے۔)​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۸

شاہ مبارک آبرو

آبرو تخلص، مشہور شاہِ مبارک اصلی نام نجم الدین تھا، شاہ محمد غوث گوالیاری کی اولاد میں تھے، باوجودیکہ بڈھے شاعر اور پُرانے مشاق تھے مگر خانِ آرزو کو اپنا کلام دکھا لیتے تھے، دیکھو اس زمانہ کے لوگ کیسے منصف اور طالبِ کمال تھے۔ یہ اپنے زمانہ میں مسلم الثبوت شاعر زبانِ ریختہ کے اور صاحبِ ایجاد نظم اُردو کے شمار ہوتے تھے، وہ ایسا زمانہ تھا کہ اخلاص کو وسواس، اور دھڑ کو سر کا، قافیہ باندھ دیتے تھے اور عیب نہ سمجھتے تھے، ردیف کی کچھ ضرورت نہ تھی، البتہ کلام کی بنیاد ایہام اور ذو معنین لفظوں پر ہوتی تھی، اور محاورہ کو ہرگز ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ وہ ایک آنکھ سے معذور تھے، اِن کی اور مرزا جان جانان مظہر کی خوب خوب چشمکیں ہوتی تھیں، بلکہ ان میں آنکھ کا بھی اشارہ ہو جاتا تھا، چنانچہ مرزا صاحب نے کہا :

آبرو کی انکھ میں اک گانٹھ ہے
آبرو سب شاعرو ں کی ۔۔۔۔۔ ہے​

شاہ آبرو نے کہا ہے :

کیا کروں حق کے کئے کو، کور میری چشم ہے
آبرو جگ میں رہے تو جانِ جاناں پشم ہے​

شاہ کمال بخاری اس زمانہ میں ایک بزرگ شخص تھے۔ اُن کے بیٹے پیر مکھن تھے۔ اور پاکباز تخلص کرتے تھے، شاہ مبارک کو اُن سے محبت تھی، چنانچہ اکثر شعروں میں اِن کا نام یا کچھ اشارہ ضرور کرتے تھے، دیکھا کیا مزے کا سجع کہا ہے :

عالم ہمہ دوغ است و محمد مکھن​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۹

اِن کی علمی استعداد کا حال معلوم نہیں، کلام سے ایسا ۔۔۔اوش ہوتا ہے کہ صرف و نحو عربی کی جانتے تھے اور مسائل علمی سے بے خبر نہ تھے۔

اِن کے شعر جب تک پیر مکھن پاکباز کے کلام سے چپڑے نہ جائیں تب تک مزہ نہ دیں گے، اس لئے پہلے ایک شعر اِن کا ہی لکھتا ہوں، اس زمانہ کے خیالات پر خیال کرو :

مجھے رنج و الم گھیرے ہے نت میرے میاں صاحب
خبر لیتے نہیں کیسے ہو تم؟ میرے میاں صاحب

آیا ہے صبح نیند سے اُٹھ رسمسا ہوا
جامہ گلے میں رات کا پھولوں میں بسا ہوا

کم مت گنو یہ بخت سیاہوں کا رنگ زرد
سونا وہ ہے کہ ہووے کسوٹی کسا ہوا

انداز سیں زیادہ نپٹ ناز خوش نہیں
جو خال اپنے حد سے بڑھا سو مسا ہوا

قامت کا سبھ جگت منیں بالا ہوا ہے نام
قد اس قدر بلند تمھارا رسا ہوا

دل یوں ڈرے ہے زلف کا مارز بھونک سیں
رستی سیں اژدہا کا ڈرے جوں ڈسا ہوا

اے آبرو اول تو سمجھ پیچ عشق کا
پھر زلف سے نِکل نہ سکے دل پھنسا ہوا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

پلنگ کوں چھوڑ خالی گروسیں اٹھ گئے سجن میتا
چتر کاری لگے کھانے ہمن کو گھر ہوا چیتا

لگائی بینوا کی طرح سیں جب وہ چھڑی تم نے
تج اوروں کو لیا ہے ہاتھ اپنے ایک تو میتا

جُدائی کے زمانہ کی سجن کیا زیادتی کہیے
کہ اس ظالم کی جو ہم پر گھڑی گزری سو جگ بیتا

لگا دل یار سیں تب اسکو کیا کام آبرو ہم سیں
کہ زخمی عشق کا پھر مانگ کر پانی نہیں پیتا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

نین سیں نین جب ملائے گیا
دل کے اندر مرے سمائے گیا

نگہِ گرم سیں مرے دل میں
خوش نین آگ سی لگائے گیا

تیرے چلنے کی سن خبر عاشق
یہی کہتا ہوا کہ ہائے گیا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۲۰

سہو کر بولتا تھا مجھ سیتی
بوجھ کر بات کو چھپائے گیا

آبرو ہجر نہ بیچ مرتا تھا
مُکھ دکھا کر اُسے جلائے گیا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

یہ رسم ظالمی کی، دستور ہے کہاں کا
دل چھین کر ہمارا دشمن ہوا ہے جاں کا

ہر یک نگہ میں ہم سے کرنے لگے ہو نوکیں
کچھ یوں تری آنکھوں نے پکڑا ہے طور بانکا

تجھ راہ میں ہوا ہے اب تو رقیب کتا
بُو پائے کر ہمارے آ باندھتا ہے ناں کا

خندوں کے طور گویا دیوارِ ظہقہا ہے
پھر کر پھرے نہ لڑکا جو اس طرف کو جھانکا

رستم دَہَل کے دل میں ڈالے انجھو سو پانی
دیکھے اگر بھواں کی تلوار کا جھماکا

فاسق کے دل پہ ڈالی جب نفسِ بد نے بَرکی
رجواڑے کی گلی کا تب جاغبار پھانکا

سب عاشقوں میں ہم کوں مژدہ ہے آبرو کا
ہے قصد گر تمہارے دل بیچ امتحاں کا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

مت قہر سینی ہاتھ میں لے دل ہمارے کوں
جلتا ہے کیوں پکڑتا ہے ظالم انگارے کوں

ٹک باغ میں شتاب چلو اے بہارِ حُسن
گل چشم ہو رہا ہے تمہارے نظارے کوں

مرتا ہوں ٹک رہی ہے رمق آدرس دکھا
جا کر کہو ہمارے طرف سے پیارے کوں

میں آ پڑا ہوں عشق کے ظالم بھنور کے بیچ
تختہ اوپر چلا دتے ہیں جی کے آئے کوں

اپنا جمال آبرو کوں ٹک دکھاؤ آج
مدت سے آرزو ہے درس کی بچائے کوں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

رستم اس مرد کی کھاتا ہے قسم زورونکی
تاب لاوے جو عشق کے جھک جھورونکی

قدرداں حُسن کے کہتے ہیں اُسے دل مُردہ
سانورے چھوڑ کے جو چاہ کرے گوروں کی

گانٹھ کاٹی ہے مرے دل کی تری انکھیاں نے
دو پلک نئیں یہ کترنی ہے مگر چوروں کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۲۱

لبِ شیریں پہ سریجن کے نہیں خطِ سیاہ
ڈار چھوٹی ہے مٹھائی پہ شکر خوروں کی

چَلکیں سورج منیں جو خط شعاع کے شعلے
دیکھ آنکھوں منیں یہ لال جھک ڈورونکی

قادری جبکہ سجی برمیں سجن بونٹہ وار
عقل چکر میں گئی دیکھ کے چھب مورنکی

آبرو کوں نہیں کم ظرف کی صحبت کا داغ
کس کو برداشت ہے ہر وقت کے نکتورونکی
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

افسو س ہے کہ مجکوں وہ یار بھول جاوے
وہ شوق، وہ محبت، وہ پیار بھول جاوے

رستم تیرے آنکھوں کے ہوئے اگر مقابل
انکھیوں کو دیکھ تیری تلوار بھول جاوے

عارض کے آئینہ پر تمنا کے سبز خط ہے
طوطی اگر جو دیکھے گلزار بھول جاوے

کیا شیخ و کیا برہمن جب عاشقی میں آویں
تسبی کرے فراموش نہ نار بھول جاوے

یوں آبرو بنا دے دل میں ہزار باتاں
جب تیرے آگے آوے گفتار بھول جاوے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

پانی پت (۱) آج چھوڑ جو گنور تم چلے
تو راہ بیچ جائیو جاناں سنبھال کے

کنجی اُس کی زبانِ شیریں ہے
دل مرا قفں ہے بتاشے (۲) کا​

(۱) پانی پت، گنور سنبھال کر قصبوں کے نام ہیں۔ سنبھالکے کی پُرانی سرائے اب بھی قائم ہے۔ اگلے وقتوں میں یہاں قافلہ لٹتا تھا اور رہزنی اس کی مشہور تھی اور اب بھی استحکام اور وسعت میں ہمیشہ سے ضرب المثل ہے۔

(۲) چھوٹا سا دستہ طفل، مقدار میں بتاشے کے برابر اس سے کچھ بڑا ہوتا ہے۔ بتاشے کا طفل کہلاتا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top