آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۲

کا سامان ہے، کجا زمین، کجا آسمان، نہ وہ جوہر پیدا ہوا نہ کسی نے اس کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا باوجود اس کے اُردو کی خوش اقبالی اور خوش رواجی قابلِ رشک ہے، کیونکہ اس کی اصل تو برج بھاشا ہے جو اپنی بہارِ جوانی میں فقط ایک ضلع میں لین دین کی زبان تھی، خود اُردو دلی سے نکلی۔ جس کا چراغ دلی کی بادشاہت کے ساتھ گل ہونا چاہیے تھا، پھر بھی اگر بیچوں بیچ ہندوستان میں کھڑے ہو کر آوازیں دیں کہ ان ملک کی زبان کیا ہے تو جواب یہی سنیں گے کہ اُردو اس کے ایک کنارے مثلاً پشاور سے چلو تو اول افغانی، اٹک اُترے تو پوٹھواری کچھ اور ہی کہتے ہیں، جہلم تک داہنے پر کشمیر پکار رہا ہے کہ یوروَلا، یوروَلا، یعنی اِدھر آؤ، بائیں پر، ملتان کہتا ہے کہ کتھے گھنیا، یعنی کہاں چلے، آگے بڑھے تو وہ بولی ہے کہ پنجابی خاص اسی کو کہتے ہیں، اس کے بائیں پر پہاڑی ایسی زبان ہے کہ تحریر و تقریر سب سے الگ ہے۔ ستلج اُتریں تو پنجابیت کی کمی سے لوگوں کی وضع و لباس میں بھی فرق شروع ہوتا ہے، دلّی پہنچے تو اور ہی سماں بندھا ہوا ہے، میرٹھ سے بڑھے تو علی گڑھ میں بھاشا سے مِلا جُلا پورب کا انداز شروع ہو گیا۔ کانپور، لکھنؤ سے الہ آباد تک یہی عالم ہے، جنوب کو ہٹیں تو مارواڑی ہو کر گجراتی اور دکھنی ہو جاتی ہے، پھر ادھر آئے تو آگے بنگالہ ہے اور کلکتہ پہونچکر تو عالم گونا گوں خلقِ خدا اور ملکِ خدا ہے، جس کا امتیاز حدِ انداز سے باہر ہے، میرے دوستو تم جانتے ہو کہ ہر شے کی اصلیت اور حُسن و قبح کے واسطے ایک مقام ایسا ہوتا ہے جیسے سِکہ کے لئے ٹکسال، کیا سبب ہے کہ ابتداء میں زبان کے لئے دِلی ٹکسال تھی؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ دارالخلافہ تھی، دربار ہی میں خاندانی اُمرا اور امیر زادے خود صاحب علم ہوتے تھے، اِن کی مجلسیں اہلِ علم اور اہلِ کمال کا مجمع ہوتی تھیں جن کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۳

برکت سے طبیعتیں گویا ہر شے کے سلیقے اور شائستگی اور لطافت و ظرافت کا قالب ہوتی تھیں، اسی واسطے گفتگو، لباس، ادب، آداب نشست، برخاست بلکہ بات بات ایسی سنجیدہ اور پسندیدہ ہوتی تھی کہ خواہ مخواہ سب کے دل قبول کرتے تھے۔ ہر شے کے لئے ہمیشہ نئی نئی تراش اور نئی نئی اصلاحیں اور ایجاد و اختراع وہاں سے ہوتے تھے اور چونکہ دارالخلافہ میں شہر شہر کا آدمی موجود تھا، اس لئے وہ دل پذیر ایجاد اور اصلاحیں ہر شہر میں جلد عام ہو جاتی تھیں چنانچہ بہادر شاہ سے پہلے دلی ہر بات کے لئے سند رہی، اور انہی صفتوں سے لکھنؤ نے بھی سندِ افتخار حاصل کی۔ لکھنؤ کو دیکھ کر سمجھ لو کہ دل پسند ایجادوں اور رنگین باتوں کا ایجاد ہونا کسی شہر کے اینٹ پتھر کی تاثیر نہیں ہے جہاں شائستہ اور رنگین مزاج لوگ جمع ہو گے اور دلپذیر باتوں کے سامان موجود ہوں گے، وہیں سے دو پھول کھلنے لگیں گے، چنانچہ وہی دلی کے لوگ اور اُن کی اولاد تھی کہ جب تباہی سلطنت اور آبادی لکھنؤ کے سبب سے وہاں پہنچے تو چند روز میں وہی ہی تراشیں وہاں سے نکلنے لگیں، لکھنؤ دارالسلطنت ہو گیا اور اس کے ضمن میں زبان بھی دلی کی اطاعت سے آزاد ہو گئی۔ اس آزادی کی ناسخ، آتش، ضمیر، خلیق وغیرہ اہلِ کمال نے بنیاد ڈالی اور انیس، دبیر، رند، خواجہ وزیر اور سرور نے خاتمہ کر دیا، اُنھوں نے زبان کو ترقی دی، مگر اکثر اُن میں ایسے ہوئے کہ جنگل کے صاف کرنے کو اُٹھے تھے مگر اس میں دریا کا دہانہ لا ڈالا، یعنی صفائی زبان کی جگہ لغات کی بوچھاڑ کر دی۔ یہاں تک کہ لکھنؤ کا ورق بھی زمانہ نے اُلٹ دیا، اب آفتاب ہماری ملکہ آفاق کا نشان ہے جسے حکم نہیں کہ ان کی قلمرو کے خط سے باہر حرکت کر سکے، ڈاکوں اور ریل گاڑیوں نے پورب سے پچھم تک دوڑ کر بھانت بھانت
 

شمشاد

لائبریرین
صفح ۸۴

کا جانور ایک پنجرے میں بند کر دیا، دلی برباد، لکھنؤ ویران، دونوں کے سندی اشخاص کچھ پیوندِ زمین ہو گئے کچھ دربدر خاک بسر اب جیسے اور شہر ویسے ہی لکھنؤ جیسے چھاؤنیوں کے بازار ویسی ہی دلی بلکہ اس سے بھی بدتر کوئی شہر ایسا نہیں رہا، جس کے لئے لوگوں کی زبان عموماً سند کے قابل ہو، کیونکہ شہر میں ایسے چیدہ اور برگزیدہ اشخاص جن سے کہ وہ شہر قابل سند ہو صرف گنتی کے لوگ ہوتے ہیں، اور وہ زمانہ کی صدہا سالہ محنتوں کا نتیجہ ہوتے ہیں، اُن میں سے بہت مر گئے کوئی بڈھا جیسے خزاں کا مارا پتہ کسی درخت پر باقی ہے، اس بڈھے کی آواز کمیٹیوں کے غل اور اخبار کے نقار خانوں میں سُنائی بھی نہیں دیتی، پس اب اگر دلی کی زبان کو سندی سمجھیں تو وہاں کے ہر شخص کی زبان کیونکر سندی ہو سکتی ہے، ہوا کا رُخ اور دریا کا بہاؤ نہ کسی کے اختیار میں ہے نہ کسی کو معلوم ہے کہ کدھر پھرے گا، اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اب زبان کیا رنگ بدلے گی، ہم بھی جہاِز بے ناخدا ہیں، توکل بخدا کر بیٹھے ہیں، زمانہ کے انقلابوں کو رنگِ چمن کی تبدیلی سمجھ کر دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں، آزاد :

قسمت میں جو لکھا تھا سو دیکھا ہے اب تلک
اور آگے دیکھیے ابھی کیا کیا ہیں دیکھتے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۵

نظم اردو کی تاریخ

فلاسفہ یونان کہتے ہیں شعر خیالی باتیں ہیں، جن کو واقعیت اور اصلیت سے تعلق نہیں، قدرتی موجودات یا اس کے واقعات کو دیکھ کر جو خیالات شاعر کے دل میں پیدا ہوتے ہیں وہ اپنے مطلب کے موقع پر موزوں کر دیتا ہے، اس خیال کو سچ کی پابندی نہیں ہوتی، جب صبح کا نور و ظہور دیکھتا ہے تو کبھی کہتا ہے دیگِ مشرق سے دُود اُبلنے لگا، کبھی کہتا ہے دریائے سیماب موج مارنے لگا، کوئی مشرق سے کافور اُڑاتا آتا ہے، صبح طباشیر بکھیرتی آتی ہے، یا مثلاً سورج نکلا اور کرن ابھی اس میں نہیں پیدا ہوئے، وہ کہتا ہے، سنہری گیند ہوا میں اُچھالی ہے، صبح طلائی تھال سر پر دھرے آتی ہے، کبھی مُرغانِ سحر کا غل اور عالمِ نور کا جلوہ آفتاب کی چمک دمک اور شعاعوں کا خیال کر کے صبح کی دھوم دکھاتا ہے اور کہتا ہے بادشاہِ مشرق سبزک فلک پر سوار، تاجِ مرصع سر پر رکھے کرن کا نیزہ لئے مشرق سے نمودار ہوا، شام کو شفق کی بہار دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ مغرب کے چپرکھٹ میں آرام کیا اور شنگرفی چادر تان کر سو رہا، کبھی کتہا ہے جام فلک خون سے چھلک رہا ہے، نہیں مغرب کے ایوان میں آگ لگ گئی، تاروں بھری رات میں چاند کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے، لاجوردی چادر میں ستارے ٹنکے ہوئے ہیں۔ دریائے نیل میں نور کا جہاز چلا جاتا ہے اور روپہلی مچھلیاں تیرتی پھرتی ہیں، غرض ایسی باتیں ہیں کہ نہایت لطف دیتی ہیں، مگر اصلیت سے اُنھیں کچھ بھی غرض نہیں ہے، باوجود اس کے صنعت گاہِ عالم میں نظم ایک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۶

عجیب صنعت صنائع الٰہی سے ہے، اسے دیکھ کر عقل حیران ہوتی ہے کہ اول ایک مضمون کو ایک سطر میں لکھتے اور نثر میں پڑھتے ہیں، پھر اسی مضمون کو فقط لفظوں کے پس و پیش کے ساتھ لکھ کر دیکھتے ہیں تو کچھ اور ہی عالم ہو جاتا ہے بلکہ اس میں چید کیفیتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔

۱ – وہ وصفِ خاص ہے کہ جسے سب موزونیت کہتے ہیں۔

۲ – کلام میں زور زیادہ ہو جاتا ہے اور مضمون میں ایسی تیزی آ جاتی ہے کہ اثر کا نشتر دل پر کھٹکتا ہے۔

۳ – سیدھی سادی بات میں ایسا لطف پیدا ہو جاتا ہے کہ سب پڑھتے ہیں اور مزے لیتے ہیں۔ تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب خوشی یا غم و غصہ یا کسی کے ذوق و شوق کا خیال دل میں جوش مارتا ہے اور وہ قوتِ بیان سے ٹکر کھاتا ہے تو زبان سے خود بخود موزوں کلام نکلتا ہے جیسے پتھر اور لوہے کے ٹکرانے آگ نکلتی ہے اسی واسطے شاعر وہی ہے جس کی طبیعت میں یہ صنعتِ خداداد ہو، قدرتی شاعر اگرچہ ارادہ کر کے شعر کہنے کو خاص وقت میں بیٹھتا ہے مگر حقیقت میں اِس کا دل اور خیالات ہر وقت اپنے کام میں لگے رہتے ہیں، قدرت کے کارخانے میں جو چیز اس کے حواس میں محسوس ہوتی ہے اور اُس سے کچھ اثر اس کی طبیعت اُٹھاتی ہے وہ ہر شخص کو نصیب نہیں، خواہ لطف و شگفتگی ہو، خواہ آزردگی یا بیزاری، یہ ضرور ہے کہ جو کیفیت وہ آپ اُٹھاتا ہے اس کے لئے ڈھونڈتا رہتا ہے کہ کیسے لفظ ہوں اور کس طرح انھیں ترکیب دوں تا کہ جو کیفیت اس کے دیکھنے سے میرے دل پر طاری ہے وہی کیفیت سننے والوں کے دل پر چھا جائے اور وہ بات کہوں کہ دل پر اثر کر جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۷

شاعر کبھی ایک حجرہ میں تنہا بیٹھتا ہے، کبھی سب سے الگ اکیلا پھرتا ہے کبھی کسی درخت کے سایہ میں تنہا نظر آتا ہے اور اسی میں خوش ہوتا ہے، وہ کیسی ہی خستہ حالی میں ہو مگر مزاج کا بادشاہ اور دل کا حاتم ہوتا ہے، بادشاہ کے پاس فوج و سپاہ، دفتر و دربار اور ملک داری کے سب کارخانے اور سامان موجود ہیں، اس کے پاس کچھ نہیں، مگر الفاظ اور معانی سے وہی سامان بلکہ اس سے ہزاروں درجے زیادہ تیار کر کے دیکھا دیتا ہے، بادشاہ سالہا سال کِن کِن خطرناک معرکوں سے ملک یا خزانہ جمع کرتا ہے، یہ جسے چاہتا ہے گھر بیٹھے دے دیتا ہے اور خود پرواہ نہیں کرتا۔ بادشاہ کو ایک ولایت فتح کر کے وہ خوشی حاصل نہیں ہوتی جو اُسے ایک لفظ کے ملنے سے ہوتی ہے جو اپنی جگہ پر موزوں سجا ہوا ہو، اور حق یہ ہے کہ اُسے ملک کی پروا بھی نہیں۔

اس بات میں جو کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ یہ ہے کہ شیخ ابراہیم ذوق جس مکان میں بیٹھتے تھے تنگ و تاریک تھا، گرمی میں دل دق ہو جاتا تھا، بعض قدیمی احباب کبھی جاتے تو گھبراتے اور کہتے کہ مکان بدلو، گھڑی بھر بھی بیٹھنے کے قابل نہیں۔ تم کیونکر دن رات یہیں کاٹتے ہو؟ وہ ہوں ہاں کرتے اور چپکے ہو رہتے، کبھی مسکراتے، کبھی جو غزل کہتے ہوتے اُسے دیکھنے لگتے، کبھی اُن کا منہ دیکھتے، خدا نے مکانات، باغ، آرام و آسائش کے سب سامان دیئے تھے مگر وہ وہیں بیٹھے رہے اور ایسے بیٹھے کہ مر کر اُٹھے، اچھا ان کے قصائد اور غزلیں دیکھ لو، کسی بادشاہ کی سلطنت میں اس شان و شکوہ اوور دھوم دھام کے سامان موجود ہیں؟ گویا سلطنت کا سامان سب انھی کا مال تھے کہ جس طرح چاہتے تھے اپنے کام میں لاتے تھے۔ جب وہ اپنے کلام کو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۸

پڑھتے تھے تو بادشاہ کو جو مالکِ سلطنت ہوتا تھا کچھ اُن سے زیادہ خوشی نہ ہوتی ہو گی۔ کیونکہ اُسے ان کا فکر بھی رہتا ہے، انھیں پرواہ بھی نہیں تھی۔

جس طرح کوئی زمین اپنی قابلیت کے موافق بے کچھ نہ کچھ روئیدگی کے نہیں رہ سکتی اس طرح کوئی زبان اپنے اہل زبان کی حیثیت بموجب نظم سے خالی نہیں رہ سکتی۔ ہر روئیدگی کی رنگینی اور شادابی اپنی سر زمین کی خاصیت ظاہر کرتی ہے۔

زبانوں کے سلسلہ میں ہر ایک نظم اپنی زبان اور اہلِ زبان کی شائستگی اور تہذیب علمی کے ساتھ لطافتِ طبع کے درجے دکھاتی ہے۔

زبانِ اُردو کے ظہور پر خیال کریں اور اس کی تصنیفات پر نگاہ کریں تو اس میں نثر سے پہلے نظم نظر آئے گی اور یہ عجیب بات ہے کہ ایک بچہ پہلے شعر کہے پھر باتیں کرنی سیکھے، ہاں نظم جوشِ طبع تھا، اس لئے پہلے نکل پڑا، نثر شائستگی کے بوجھ سے گرانبار تھی، اپنی ضرورت کے وقت ظہور کیا، نثر اُردو کی تصنیف 1145 ھ سے پہلے نظر نہیں آتی، البتہ نظم کی حقیقت زبانی حکایتوں اور کتابی روایتوں کی خاک چھان کر بہہ نکلتی ہے کہ جب برج بھاشا نے اپنی وسعتِ اخلاق سے عربی فارسی الفاظ کے مہمانوں کو جگہ دی تو طبیعتوں میں اس قدر روئیدگی نے بھی زور کیا، لیکن وہ صدہا سال تک دوہروں کے رنگ میں ظہور کرتی رہی یعنی فارس کی بحریں اور فارسی کے خیالات نہ آتے تھے۔

امیر خسرو نے کہ جن کی طبیعت اختراع میں اعلٰی درجہ صنعت و ایجاد کا رکھتی تھی۔ ملکِ سخن میں برج بھاشا کی ترکیب سے ایک طلسم خانہ انشا پردازی کا کھولا۔

خالق باری جس کا اختصار آج تک بچوں کا وظیفہ ہے کئی بڑی بڑی جلدوں میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۹

تھی، اس میں فارسی کی بحروں نے اول اثر کیا اور اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کون کون سے الفاظ مستعمل تھے، جو اب متروک ہیں، اس کے علاوہ بہت سی پہلیاں عجیب و غریب لطافتوں سے ادا کی ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فارسی کے نمک نے ہندی کے ذائقہ میں کیا لطف پیدا کیا ہے۔ مکرنی، انمل، دوسخنے وغیرہ خاص ان کے آئینہ کا جوہر ہے، ہر ایک کی مثال لکھتا ہوں کیونکہ ان سے بھی اس وقت کی زبان کا کچھ نہ کچھ پتا لگتا ہے۔

نبولی کی پہیلی

تِرور سے اک تریا اُتری اس نے بہت رُجھایا
باپ کا اس کے نام پوچھا آدھا نام بتایا

آدھا نام پتا پر پیارا بوجھ پہیلی موری
امیر خسرو یوں کہیں اپنے نام نبولی

آئینہ کی پہیلی

فارسی بولی آئینہ
ترکی سوجی پائی نا

ہندی بولتے آرسی آئے
مُنھ دیکھو جو اسے بتائے

ناخن کی پہیلی

بیسیوں کا سَر کاٹ لیا
نا مارا نہ خون کیا

لال کی پہیلی

اندھا گونگا بہرا بولے گونگا آپ کہائے
دیکھ سفیدی ہوت انگارا گونگے سے بھڑ جائے

بانس کا مندر واہ کا باشا، باشے کا وہ کھا جا
سنگ ملے تو سر پر راکھیں واہ کورا اور اجا

سی سی کر کے نام بتایا، تا میں بیٹھا ایک
اُلٹا سیدھا ہر پھر دیکھو وہی ایک کا ایک

بھید پہیلی میں کہی تو سُن لے میرے لال
عربی، ہندی، فارسی تینوں کرو خیال
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۰

دلی بلکہ ہندوستان کے اکثر شہروں میں رسم ہے کہ عام عورتیں برسات کی بہار میں گھم گڑواتی ہیں، درخت ہو تو اس میں جھولا ڈلواتی ہیں، مل مل کر جھولتی ہیں اور گیت گا کر جی خوش کرتی ہیں، ان میں شاید کوئی عورت ہو جو یہ گیت نہ گاتی ہو۔

جو پیا آون کہہ گئے اجھوں نہ آئے سوامی ہو
اے ہو آون کہہ گئے، وغیرہ۔ وغیرہ۔

یہ گیت بھی انہی امیر خسرو کا ہے اور بروا راگ میں لَے بھی انہی کی رکھی ہے، واہ کیا زبانیں تھیں کہ جو کچھ ان سے نکل گیا، عالم کو بھایا، گویا زامنے کے دل پر نقش ہو گیا۔ بنانے والوں نے ہزاروں گیت بنائے اور گانے والوں نے گائے، آج ہوئے، کل بھول گئے، چھ سو برس گزرے یہ آج تک ہیں اور ہر برسات میں ویسا ہی رنگ دے جاتے ہیں۔ اس حسنِ قبول کو خداداد نہ کہیے تو کیا کہیے۔

بڑی بڑی عورتوں کے گانے کے لئے تو ویسے گیت تھے، چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کو پیا اور سوامی کی یاد میں اس طرح گانا مناسب نہ تھا، لیکن دل کی امنگ تو وہ بھی رکھتی تھیں، اُنھیں بھی فصل بہار کی منافی تھی، ان کے لئے اور گیت رکھے تھے۔ چنانچہ ایک لڑکی گویا سُسرال میں ہے، برسات کی رُت آئی وہ جھولتی ہے اور ماں کی یاد میں گاتی ہے :

اماں میرے باوا جو بھیجو جی کہ ساون آیا - یعنی مجھے آ کر لیجائے
بیٹی تیرا باوا تو بڈھا ری کہ ساون آیا - یعنی وہ کیونکر آ سکتا ہے۔

اماں میرے بھائی کو بھیجو جی کہ ساون آیا
بیٹی تیرا بھائی تو بالا ری کہ ساون آیا - یعنی بچہ اکیلا اتنی دور کیوں کر آئے

اماں میرے ماموں کو بھیجو ری کہ ساون آیا - یعنی اس کے لئے تو وہ دونوں عذر نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۱

بیٹی تیرا ماموں تو بانکا ری کہ ساون آیا - بھلا وہ کب میری سنے گا

ذرا غور کر کے دیکھو، باوجود علم و فضل اور اعلٰی درجہ خیالات شاعرانہ کے جب یہ لوگ پستی کی طرف جھکتے تھے تو ایسے تہہ کو پہنچتے تھے کہ زمین کی ریت تک نکال لاتے تھے۔ ان الفاظ و خیالات پر نظر کرو، کیسے نیچر میں ڈوبے ہوئے ہیں، عورتوں اور لڑکیوں کے فطری خیالات اور دلوں کے ارمانوں کو کیا اصلی طور سے ظاہر کرتے ہیں، مکرنیوں کا انھیں موجد کہنا چاہیے۔

مرنی – 1

سگری رین موہے سنگ جاگا
بھور بھئی تب بچھڑن لاگا

اس کے بچھڑے پھاٹت ہیا
اے سکھی ساجن نا سکھی دیا​

مکرنی – 2

سرب سلونا سب گن نیکا
وابن سب جگ لاگے پھیکا

واکے سر پر ہووے کون
اے سکھی ساجن نا سکھی لُون​

مکرنی – 3

وہ آوے تب شادی ہوئے
اس بن دوجا اور نہ کوئے

میٹھے لاگے واکے بول
اے سکھی ساجن، نا سکھی ڈھول​

ایک کنوئیں پر چار پنہاریاں پانی بھر رہی تھیں۔ امیر خسرو کو رستہ چلتے چلتے پیاس لگی، کنویں پر جا کر ایک سے پانی مانگا، اُن میں سے ایک انھیں پہچانتی تھی، اس نے اوروں سے کہا کہ دیکھو خسرو یہی ہے۔ انھوں نے پوچھا کیا تو خسرو ہے جس کے سب گیت گاتے ہیں اور پہیلیاں اور مکرنیاں انمل سنتے ہیں، انھوں نے کہا، ہاں۔ اس پر ایک ان میں سے بولی کہ مجھے کھیر کی بات کہہ دے، دوسری نے چرخہ کا نام لیا، تیسری نے ڈھول، چوتھی نے کتے کا، اُنھوں نے کہا کہ مارے پیاس کے دم نکلا جاتا ہے پہلے پانی تو پلا دو، وہ بولیں، جب تک ہماری بات نہ کہدے گا نہ پلائیں گی۔ اُنھوں نے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۲

جھٹ کہا۔

کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا
آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا
لا پانی پلا​

اِسی طرح کبھی کبھی ڈھکوسلا کہا کرتے تھے کہ وہ بھی انھیں کا ایجار ہے۔

بھادوں پکی پیپلی، چو چو پڑی کپاس
بی مہترانی دل پکاؤگی یا ننگا ہی سو رہوں​

دو سخنے

گوشت کیوں نہ کھایا، ڈوم کیوں نہ گایا
گلا نہ تھا

انار کیوں نہ چکھا، وزیر کیوں نہ رکھا
دانا نہ تھا​

دو سخنے

سود ا اگر راچہ مے باید، بوچے کو کیا چاہیے
دوکان

تشنہ راچہ مے باید، ملاپ کو کیا چاہیے
چاہ​

فارسی اُردو​

شکار بچہ مے باید کرد، قوت مغز کو کیا چاہیے
بادام​

موسیقی میں ان کی طبیعت ایک بین تھی کہ بِن بجائے پڑی بکتی تھی، اس لئے دُہرپت کی جگہ قول و قلبانہ بنا کر بہت سے راگ ایجاد کئے کہ ان میں سے اکثر گیت اُن کے آج تک ہندوستان کی زن و مرد کی زبان پر ہیں، بہار راگ اور بسنت کے میلہ نے اِنہی کی طبیعت سے رنگ پڑا ہے، بین کو مختصر کر کے ستار بھی انہی نے نکالا ہے۔

لطیفہ :- سلطان جی صاحب کے ہاں ایک سیاح فقیر مہمان آئے، رات کو دسترخوان پر بیٹھے، کھانے کے بعد باتیں شروع ہوئیں، سیاح نے ایسے دفتر کھولے کہ بہت رات گئی ختم ہی نہ ہوں، سلطان جی صاحب نے کچھ انگڑائیاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۳

کچھ جمائیاں بھی لیں، وہ سادہ لوح کسی طرح بھی نہ سمجھے، سلطان جی صاحب مہمان کی دل شکنی سمجھ کر کچھ نہ کہہ سکے۔ مجبور بیٹھے رہے، امیر خسرو بھی موجود تھے مگر بول نہ سکتے تھے کہ آدھی رات کی نوبت بجی۔ اس وقت سلطان جی نے کہا کہ خسرو یہ کیا بجا؟ عرض کی آدھی رات کی نوبت ہے، پوچھا اس میں کیا آواز آتی ہے؟ اُنھوں نے کہا، سمجھ میں تو ایسا آتا ہے :-

نان کہ خوردی خانہ برد، نان کہ خوردی خانہ برد، خہانہ برد خانہ برد، نان کہ خوردی خانہ برد، نہ کہ بدستِ تو کردم خانہ گرد، خانہ بروخانہ برد،

حرف حرف کی حرکت و سکون پر خیال کرو، ایک ایک چوٹ کو کیا پورا پورا ادا کر رہے ہیں، اور نہ بدست تو کردم خانہ گرد کو دیکھو، اس نے کیا کام کیا۔

نقل : ایک دن کسی کوچہ میں سے گزر ہوا، دُھنیا ایک دوکان میں روئی دُھنک رہا تھا، کسی نے کہا کہ جس دُھنیئے کو دیکھو ایک ہی انداز پر روئی دُھنکتا ہے۔ سب ایک ہی اُستاد کے شاگرد ہیں، کوئی بولا کہ قدرتی اُستاد نے سب کو ایک ہی انداز پر سکھایا ہے، آپ نے کہا کہ سکھایا ہے اور ایک حرکت میں بھی تال کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ کوئی بولا کہ لفظوں میں کیونکر لا سکیں۔ فرمایا :

درپئے جاناں جاں ہم رفت، جاں ہم رفت، جاں ہم رفت، رفت رفت جاں ہم رفت، ایں ہم رفت و آں ہم رفت، آنہم فرت آنہم رفت، اینہم آنہم اینہم آنہم رفت، رفتن، رفتن، رفتن، دہ ذہ، رفتن دہ، رف، رفتن دہ۔

نقل : محلہ کے سرے پر ایک بڑھیا ساقن کی دکان تھی۔ چمو (بکسر اول، واو مجہول) اس کا نام تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۴

شہر کے بیہودہ لوگ وہاں بھنگ چرس پیا کرتے تھے، جب یہ دربار سے پھر کر آتے یا تفریحاً گھر سے نکلتے تو وہ بھی سلام کرتی، کبھی کبھی حقہ بھر کر سامنے لے کھڑی ہوتی۔ یہ بھی اُسکی دلشکنی کا خیال کر کے دو گھونٹ لے لیا کرتے،، ایک دن اُسنے کہا بلائیں لوں، ہزاروں غزلیں، گیت، راگنی بناتے ہو، کتابیں لکھتے ہو، کوئی چیز لونڈی کے نام پر بھی بنا دو، انھوں نے کہا بی چمو بہت اچھا، کئی دن کے بعد اُس نے پھر کہا کہ بھٹیاری کے لڑکے لئے خالق باری لکھ دی۔ ذرا لونڈی کے نام پر بھی لکھ دو گے تو کیا ہو گا۔ آپ کے صدقے سے ہمارا نام بھی رہ جائے گا۔ اس کے بار بار کہنے سے ایک دن خیال آ گیا۔ کہا لو بھی چمو سنو (بادشاہ کے ہاں اُس زمانہ میں چوپہری نوبت بجا کرتی تھی) :

اورونکی چوپہری باجے چمو کی اٹھ پہری
باہر کا کوئی آئے ناہیں آئیں سارے شہری

صاف صفوف کر آ گئے راکھے جسمیں ناہیں تُوسل
اورونکے جہاں سینک سماوے چمو کے وہاں موسل​

یعنی یہ بادشاہوں سے بھی بڑی ہیں۔ جنگلی گنواروں کا کام نہیں۔ سفید پوش آتے ہیں۔ پیالہ بھنگ صاف مصفٰے حاضر کرتی ہے جسمیں تس تِنکا نہ ہو۔ بھنگڑ فخریہ کہا کرتے ہیں کہ وہ ایسی بھنگ پیتا ہے کہ جس میں گاڑھے پن کے سبب سے سینہ تک کھڑی رہے، آپ مبالغہ کرتے ہیں کہ وہ ایسی بھنگ بناتی ہیں کہ جس میں موسل کھڑا رہے۔ خیر ان کی بدولت چمو کا نام بھی رہ گیا۔

حق پوچھو تو جس طرح ہر جاندار کی عمر ہے اسی طرح کتاب کی بھی عمر ہے مثلاً شاہنامہ کو ۹ سو برس ہوئے۔ سکندر نامہ کو ۷ سو برس سمجھو۔ گلستاں بوستاں کو ۶ سو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۵

برس کہو۔ زلیخا کی عمر قریب ۳ سو کے ہوئی مگر اب تک سب جوان ہیں، اُردو میں باغ و بہار، بدرمنیر وغیرہ جوان ہیں، فسانہ عجائب جاں بلب ہو گیا۔ بہت کتابیں اول شہرت پاتی ہیں پھر گمنام ہو جاتی ہیں، یہ گویا بچے ہی تھے کہ مر گئے۔ بہتیری تصنیف ہوئی ہیں اور چھپتی ہیں، مگر کوئی نہیں پوچھتا یہ بچے مرے ہوئے پیدا ہوئے ہیں، بعض کتابونکی عمریں میعاد معلوم پر ٹھہری ہوئی ہیں، وہ مدارس سرکاری کی تصنیفیں ہیں کیونکہ جبتک تعلیم میں داخل ہیں تب تک چھپتی ہیں اور خواہ مخواہ بکتی ہیں۔ لوگ پڑھتے ہیں۔ جب تعلیم سے خارج ہو گئیں مر گئیں کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔

قبولِ خاطر و لطفِ سخن خداداد است
خدا یہ نعمت نصیب کرے​

غرض اس جوشِ طبع اور ہنگامہ ایجاد میں ایک تازہ ایجاد ہوا جس میں ہمارے لئے تین باتیں قابلِ لحاظ ہیں :-

۱) مضامین عاشقانہ سے وہ سلسلہ اشعار کا ہمارے ہاتھ آیا جسے غزل کہتے ہیں۔ وہی قافئے یا ردیف اور قافئے دونوں کی پابندی، اسی طرح اول مطلع یا کئی مطلع، پھر چند شعر، اخیر میں مقطع اور اس میں تخلص۔

۲) عروضِ فارسی نے پہلا قدم ہندوستان میں رکھا۔

۳) فارسی اور بھاشا کو نون مرچ کی طرح اِس انداز سے ملایا ہے کہ زبان پر چٹخارا دیتی ہے۔ اس میں یہ بات سب سے زیادہ قابلِ لحاظ ہے کہ اُنھوں نے بنیاد عشق کی عورت ہی کی طرف سے قائم کی تھی جو کہ خاصہ نظم ہندی کا ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس تعشق کاانقلاب کس وقت ہوا؟

غزل مذکور یہ ہے :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۶

زحالِ مسکیں مکن تغافل، درائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں، نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

شانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چو عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں، تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یکایک از دل دوچشم جادو بصد فریبم ببُرد تسکیں
کِسے پڑی ہے جو جا سُناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

چو شمع سوزاں چوذرہ حیراں ز مہرآں مہ بگشتم آخر
نہ نیند نیناں، نہ انگ چینا، نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں

بحق روزِ وصال دلبر کہ دادِ مارا فریب خرد
سپیت منکے درائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کے کھتیاں​

ابتدائے ایجاد میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ زمانہ مبتدیوں کا اصلاح دینے والا ہے پھر تراشیں دے کر اعلٰی درجہ خوبی و خوش اسلوبی پر پہنچا لیتا ہے مگر اس وقت اس طرف کسی اور نے ایسی توجہ نہ کی جس سے اس طرز کا رواج جاری ہو جاتا البتہ ملک محمد جائسی نے مثنوی پدماوت کے علاوہ دوہرے اور گیت بھی لکھے۔ اور وہ ایسے اعلٰی رتبہ کے ہیں کہ ڈاکٹر گلگرسٹ صاحب کی تصنیف میں نہایت مدد کرتے ہیں، تعجب یہ ہے کہ فارسی کی بحروں میں کوئی شعر اس کا نہیں۔ دکن میں ایک سعدی گذرے ہیں، اُن کا فقط اتنا حال معلوم ہے کہ اپنے تئیں ہندوستان کا سعدی شیرازی سمجھتے تھے، اور تعجب ہے کہ مرزا رفیع سودا نے اپنے تذکرہ میں اُن کے اشعار مندرجہ ذیل کو شیخ سعدی شیرازی ہی کے نام پر لکھا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۷

قشقہ چو دیدم بر رخت گفتم کہ یہ کاویت ہے
گفتا کہ در ہو باد رہے اس شہر کی یہ ریت ہے

ہمنا نمہن کو دل دیا، تم دل لیا اور دُکھ دیا
ہم یہ کیا تم وہ کیا، ایسی بھلی یہ پیت ہے

سعدی کہ کفتہ ریختہ، در ریختہ، دُر ریختہ
شیر و شکر ہم ریختہ، ہم ریختہ ہم گیت ہے​

کبیر اور تلسی داس وغیرہ کے دوہرے عالم میں زبان زد ہیں مگر وہ فقط اتنی سند کے لئے کارآمد ہیں کہ اس عہد میں فارسی الفاظ کا دخل ہندوؤں کی زبانوں پر بھی ہو گیا تھا، اُنھیں اس نظم سے علاقہ نہیں جو فارسی سے آ کر اُردو کے لباس میں ظاہر ہوئی اور ملکی مالک کو بے دخل کر کے گوشہ میں بٹھا دیا۔

حامد کوئ شخص ہوئے ہیں، اِن کا زمانہ معلوم نہیں، کہتے ہیں کہ حامد باری انھیں کی تصنیف ہے، اُن کی فقط سات شعر کی ایک غزل دیکھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کوئی پنجابی بزرگ ہیں۔ اس میں سے مطلع پر قناعت کرتا ہوں :

عزمِ سفر چوں کر دی ساجن نینوں نیند نہ آئی جی
قدرِ وصالت ندا نستم تم بن برہ ستائی جی​

اگر یہی شعر ہیں تو جب سے اب تک بے شمار شاعر پنجاب میں نکل آئیں گے۔ یہاں کی شاعری اب تک انھیں بتیوں میں جاری ہے، لیکن یہ شاعر اور ان کی شاعری وہ نہیں ہے جس سے ہم بحث کرتے ہیں۔ احمد گجراتی ہم عہد و ہم وطن دلی کے ہیں، وہ فرماتے ہیں :

گر بیضہ زاغے کسے درز یہ سیمرغے نہد
از اصل خود ناید بروں آخر گلیلا ہوئے پر

گر طفلکے بازی گرے خوانندہ و عالم شود
اصلیکہ وارد کے رود آخر زنبورا ہوئے پر

گر بچہ شیرے کسے باشیر روبہ پرورد
مروی کہ وارد کے رد و آخر بگیلا ہوئے پر​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۸

سیوا ایک مصنف دکن میں گزرا ہے، جس نے روضتہ الشہداء کا دکنی زبان میں ترجمہ کیا، مرثیے اس کے اب وہاں کے امام باڑوں میں پڑھے جاتے ہیں اور گمان غالب ہے کہ اس طرح کے شاعر اِن عہدوں میں بہت ہوں گے مگر ایسی شاعری کو علمی شاعری نہیں کہہ سکتے۔

نواز نام ایک مصنف نے فرخ سیر کے عہد میں شکنتلا کا ترجمہ بھاشا میں لکھا، اس عہد میں نظمِ اُردو کے صنف کا یہی سبب ہو گا کہ جوذی استعداد اُردو کے اہلِ زبان ہوتے تھے وہ اُردو کی شاعری کو فخر نہ سمجھتے تھے۔ کچھ کہنا ہوتا تو فارسی میں کہتے تھے۔ البتہ عوام الناس موزوں طبع دل کی ہوس پوری کرنے کو جو منھ میں آتا تھا کہتے جاتے تھے، جو اہلِ ولایت شاعر ہوتے تھے، وہ فارسی شعر کہتے۔ اُردو اُنھیں آتی نہ تھی، کہتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا گویا تمسخر کرتے ہیں، چنانچہ مرزا معز موسوی خاں فطرت کہ زبدہ شعرائے ایران اور عمدہ شعرائے عالمگیری سے تھے اور بعد اُن کے قزلباش خاں امید کے متفرق اشعار دیکھے، معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ اُس وقت کوٹی پھوٹی زبان تھی اسے پورا ادا نہ کر سکتے، چنانچہ فرماتے تھے :

از زلفِ سیاہ تو بدل دوم پری ہے
درخانہ آئینہ کتا جوم پری ہے​

قزلباش نہاں اُمید باوجودیکہ فارسی میں بڑے نامور ہیں اور اہل ہند کے ساتھ اُن کے جلسوں کی گرمجوشیاں بھی مشہور ہیں مگر اُردو میں جو اظہارِ کمال کیا ہے وہ یہ ہے :

بامن کی بیٹی آج مری انکھ مون پری
غصہ کیا و گالی دیا اور دگر لری​

اس بات میں سب کا اتفاق ہے کہ نظم موجودہ نے دکن سے ظہور کیا، چنانچہ میر تقی میر نے بھی ایک غزل میں شاعرانہ انداز سے اشارہ کیا ہے :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۹

خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا​

اور قائم ان کے ہم عصر نے صاف کہہ دیا ہے :

قائم میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ
اک بات لچر سی بزبانِ دکنی تھی​

بہرحال عالمگیر کے عہد میں دلی نے اس نظم کا چراغ روشن کیا جو محمد شاہ کے عہد میں آسمان پر ستارہ ہو کر چمکا اور شاہ عالم کے عہد میں آفتاب (آفتاب شاہ عالم بادشاہ کا تخلص تھا۔ وہ خود بڑا مشاق شاعر ہے جسے چار دیوان اُردو میں موجود ہیں) ہو کر اوج پر آیا۔

نظم اُردو کے آغاز میں یہ امر قابل اظہار ہے کہ سنسکرت میں ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنے ہیں۔ اسی واسطے نظمِ اُردو اور برج بھاشا دونوں کی بنیاد ذومعنین الفاظ اور ایہام پر ہوتی تھی، فارسی میں یہ صنعت ہے گر کم، اُردو میں پہلے پہلے شعر کی بنا اسی پر رکھی گئی اور دورِ اول کے شعراء میں برابر وہی قانون جاری رہا اوراس عہد کے چند اشعار بھی نمونہ کے طور پر لکھتا ہوں :

لام نستعلیق کا ہے اُس بُتِ خوشخط کی زُلف
ہم تو کافر ہوں اگر بندے نہ ہوں اسلام کے

کیوں نہ ہو ہم سے وہ سجن باغی
قد ہو جس کا نہال کی مانند

تو جو دریا کے پار جلتا ہے
دل مرا وار وار جاتا ہے

تم دیکھو یا نہ دیکھو ہم کو سلام کرنا
یہ تو قدیم ہی سے سر پر ہمارے "کر" ہے
(کر ہندی میں محصول کو سنسکرت میں ہاتھ کو کہتے ہیں، سَر کے بالوں کی جڑوں میں جو خشکی ہو جائے اسے بھی کہتے ہیں۔)

نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا دیوے
کہ آخر بدنما لگتا ہے دیکھو چاند کو گہنا

سج دکھا بانکی نہیں چھوڑے گا میرا نقد دل
آج وہ افغاں پسر آتا یہی ہے دلمیں ٹھان
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۰

نہ دیوے لے کے دل وہ جعدہ مشکیں
اگرباور نہیں تو مانگ دیکھ​

شاہِ حاتم نے بڑی کوشش کر کے اِن رنگ آمیزیوں سے اُردو کو پاک کیا، چنانچہ اُن کے حال میں معلوم ہو گا۔

سودا کے عہد میں بھی اس مادہ فاسد کا بقیہ چلا آتا تھا، چنانچہ اُنھوں نے بھی اک قصیدہ میں اُن بزرگوں کی شکایت کی ہے جن کے شمار میں سے ایک شعر یہ ہے :

مونہو پرورشِ شانہ تو پھر ہے موسل
رام پور کی ہو کٹاری تو کہیں سیتا پھل​

مگر لطف یہ ہے کہ خود بھی موقع پاتے تھے تو کہیں نہ کہیں کہہ جاتے تھے، چنانچہ فرمایا ہے :

حکاک کا پسر بھی مسیحا سے کم نہیں
فیروزہ ہوئے مژدہ تو دنبا ہے وہ جِلا​

اگرچہ وہ انداز پہلے کی نسبت بالکل نہیں رہے پھر بھی جس قدر ہیں وہ ایسے زبان پر چڑھے ہوئے ہیں کہ جن مضامین کے اَدا کرنے کی ہمیں آج کل ضرورت پڑتی ہے اس کے لئے خلل انداز ہوتے ہیں، یہ بات بھی بھولنی نہ چاہیے کہ جس طرح ایک نوجوان مرغ اپنے پَر جھاڑ کر نئے پر نکالتا ہے، اسی طرح ہماری زبان بھی اپنے الفاظ کو بدلتی چلی آتی ہے، چنانچہ بہت سے الفاظ ہیں، جن کا دور بدور شعراء کے کلام میں اشارہ کیا گیا ہے۔

یہ اظہار قابلِ افسوس ہے کہ ہماری شاعری چند معمولی مطالب کے پھندونمیں پھنس گئی ہے، یعنی مضامینِ عاشقانہ، مے خواری، مستانہ، بے گل و گلزار و ہمی رنگ و بُو کا پیدا کرنا، ہجر کی مصیبت کا رونا، وصلِ موہوم پر خوش ہونا، دنیا سے بیزاری، اسی میں فلک کی جفا کاری اور غضب یہ ہے کہ اگر کوئی اصلی ماجرا بیان کرنا چاہتے ہیں تو بھی خیالی استعاروں میں ادا کرتے ہیں، نتیجہ جس کا یہ کہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ میرے دوستو !
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۱

دیکھتا ہوں کہ علوم و فنون کا عجائب خانہ کھلا ہے اور ہر قوم اپنے اپنے فنِ انشاء کی دستکاریاں بھی سجائے ہوئے ہے۔ کیا نظر نہیں آتا، ہماری زبان کس درجہ پر کھڑی ہے؟ ہاں صاف نظر آتا ہے کہ پا انداز میں پڑی ہے۔

ہمارے بزرگوں میں سے دلی میں اول مرزا رفیع سودا پھر شیخ ابراہیم ذوق نے زبان کی پاکیزگی، الفاظ کی شستگی اور ترکیب کی چستی سے کلام میں خوب زور پیدا کیا، میر تقی میر اور خواجہ میر درد نے زار حالی افسردہ دلی، دنیا سے بیزاری کے مضامین کو خوب ادا کیا۔ غالب نے بعض مواقع پر ان کی عمدہ پیروی کی مگر معنے آفرینی کے عاشق تھے اور زیادہ تر توجہ اُن کی فارسی پر رہی، اس لئے اُردو میں غالباً صاف اشعار کی تعداد سو (۱۰۰) دو سو (۲۰۰) شعر سے آگے نہ نکلی۔ جرات نے عاشق و معشوق کے معاملات اور دونوں کے دلی خیالات کو نہایت خوبی اور شوخی سے بیان کیا۔ مومن خان نے باوجود مشکل پسندی کے پیروی کی۔ لکھنؤ میں شیخ امام بخش ناسخ اور خواجہ حیدر علی آتش، رند، صبا، وزیر وغیرہ نے شاعری کا حق ادا کیا مگر پھر خیال کرو کہ فقط زبانی طوطا مینا بنانے سے حاصِل کیا؟ جو شاعری ہمارا ہر قسم کا مطلب اور ہمارے دل کا ہر ایک ارمان پورا نہ نکال سکے گویا ایک ٹوٹا قلم ہے جس سے پورا حرف نہ نکل سکے۔ دارالخلافہ دہلی جو کہ انشاء اور اُردو شاعری کے لئے دارالضرب تھا، وہاں ذوق اور غالب نے رسمی شاعری پر خاتمہ کیا، لکھنؤ میں ناسخ اور آتش سے شروع ہو کر رند، وزیر، صبا تک سلسلہ جاری رہا، ایک زمانہ میں مثل مشہور تھی کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو، اور بگڑا گویا مرثیہ خوان، لیکن لکھنؤ میں ان دونوں شاخوں کے صاحبِ کمال بھی ایسے ہوئے کہ اصولوں کو رونق دے دی، اسی اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top