آبِ گم (اسکول ماسٹر کا خواب) از مشتاق احمد یوسفی

رضوان

محفلین
سونار بنگلہ
1967ع میں ہمیں کار اور ،،فیری،، سے مشرقی پاکستان کا دورہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ چھ سات سو میل کے سفر میں کوئی فرلانگ ایسا نہ تھا جس میں اوسطاُ پانچ چھ آدمی سڑک پر پیدل چلتے نظر نہ آئے ہوں۔ اوسطاُ بیس میں سے صرف ایک کے پیر میں چپل ہوں گے۔ نہ ہمیں کسی کے پورے تن پر کپڑا نظر آیا، سوائے میت کے! راستے میں تین جنازے ایسے دیکھے جن کے کفن کی چادر دومختلف رنگ کی لنگیاں جوڑ کر بنائی گئی تھی۔ ایک ضعیف شخص ایک جنازے پر پھٹی چھتری لگائے چل رہا تھا۔ یہ مرنے والے جوان کا باپ تھا۔ اس کی سفید داڑھی اور آنکھوں سے بارش کے ریلے بہہ رہے تھے۔ ہم باریسال سے گزر رہے تھے۔ بلا کی اُمس تھی۔ پیاس سے برا حال۔ پانی یا لیمنیڈ پینے کا سوال ہی نہ تھا، اس لیے کہ ان دنوں ہر جگہ ہیضہ پھیلا ہوا تھا۔ سڑکوں پر جنازے ہی جنازے نظر آرہے تھے۔ ایک بے تکلف دوست نے ٹپ دیا تھا کہ راستے میں خودکشی کرنے کو جی چاہے تو بازار سے کوئی بھی چیز لے کر کھا لینا۔ ناریل کے بارے میں البتہ ایک بنگالی دوست نے کم و بیش وہی بات کہی جو غالب آم کے بارے میں کہہ گئے ہیں:
انگبیں کے بحکم ربّ الناس
بھر کر بھیجے ہیں سر بمہر گلاس​
اس دوست نے کہا تھا کہ ناریل میں جراثیم کا گزر نہیں۔ پانی کے بجائے یہی توڑ توڑ کر پینا۔ السر کو بھی فائدہ کرتا ہے۔ ہم نے چھ چھ پیسے کے دو ناریل خریدے ۔ ڈرائیور نے ناریل والے ہی سے مانگ کر پانی پیا اور اپنے حصے کا ناریل کار کے بوٹ میں سنگوا کر رکھ لیا۔ ہم نے ناریل وہیں توڑا۔ اندر کھوپرے کی بہت پتلی اور نرم تہ نکلی۔ایسے ادھ کچرے ناریل کی ڈابھ بہت مفرّح، ملین اور شیریں ہوتی ہے۔ ڈابھ پی کر ناریل ہم نے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ پان والے سے ،،تھری کاسل،، سگریٹ کی ڈبیا خریدی۔ سگریٹ نکالا تو بے حد پرانا اور سوکھا کھڑنک۔ کیڑے نے اس میں مہین مہین سوراخ کر دیے تھے جن کی وجہ سے کش میں جگہ جگہ سے پنکچر ہو جاتے تھے۔ ایسے سگریٹوں سے ہمارے یہاں ان گھروں میں تواضع کی جاتی ہے جہاں صاحبِ خانہ خود سگریٹ نہیں پیتا۔ اور عیدالفطر پر خریدے ہوئے سگریٹ کے پیکٹ سے دوسرے عیدالفطر تک بالاصرار اپنے ملاقاتیوں کے حلق اور اخلاق کی آزمائش کرتا رہتا ہے۔ ہم ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ وہ کون سا ظالم کیڑا ہوگا جو تمباکو سے اپنا پیٹ بھر کر زندہ رہتا ہے۔ اس کا تو ماءاللحم اور کشتہ بنا کر کینسر کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ اتنے میں ایک بوڑھی عورت کوڑے کے ڈھیر کی طرف بڑھی۔ اس نے گھورے کی گہرائیوں میں سرنگیں لگاتی ہوئی بلیوں اور آنول سے جڑی آلائش کو بھنبھوڑتے ہوئے کتے کو ڈھیلے مار مار کر بھگا دیا۔ اس کے تن پر بغیر چولی کے لیر لیر ساری کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ قدم جما جما کر گھورے پر چڑھی۔ جیسے ہی اس نے پیر سے آنول پرے ہٹایا ایک چیل جھپٹا مار کر اسے لے گئی، مگر ابھی پوری طرح اٹھی بھی نہ تھی کہ پنجے سے چھوٹ گیا۔ بڑھیا رسان سے ناریل اٹھا لائی کہ اس کا کوئی اور دعوے دار نہ تھا۔ اس کے ساتھ ایک منی سی بچی اور دوننگ دھڑنگ لڑکے تھے جن کی یہ غالباً نانی یا دادی ہوگی۔ وہ ناریل کا گودا کھرچ کھرچ کے بڑے ندیدے پن سے کھاتی رہی، یہاں تک کہ چھوٹے لڑکے نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے منہ میں رکھ لیا۔ اس نے دونوں لڑکوں کو تھوڑا سا کھوپرا دیا۔ بچی اتنی چھوٹی تھی کہ بڑھیا نے کھوپرے کو پہلے خود اپنے پوپلے منہ سے چبا چبا کر نرم کیا۔ پھر منہ سے منہ ملا کر اگال بچی کے منھ میں ڈالا۔ جب وہ ناریل اٹھانے کے لیے گھورے پر جھکی تو اسکی ننگی چھاتیاں بھلبھلائے بینگن کی مانند جھریائی ہوئی اور خالی اوجھڑی کی طرح جھول رہی تھیں۔ لگتا تھا کھمبیوں کی طرح یہ بھی اسی زمین سے اُگی ہیں۔ نہ تو دیکھنے والوں کو، نہ خود اس مائی کو اپنے ننگے ہونے کا احساس تھا، لیکن اس دن میں نے اپنے آپ کو با لکل ننگا محسوس کیا۔
دوسرا منظر ذرا آگے چل کر بازار میں دیکھا۔ بینک کے دفتر کے سامنے کوئی چار فٹ اونچے تھڑے پر ایک شخص مچھلی یچ رہا تھا۔ اس کے بنیان میں بے شمار آنکھیں بنی تھیں۔ اس پر اور لنگی پر مچھلی کے خون اور آلائش کی تہ چڑھی ہوئی تھی۔ ہاتھ بہت گندے ہو جاتے تو وہ انھیں لنگی پر رگڑ کر تازہ گندگی کو پرانی گندگی سے پونچھ لیتا تھا۔ جب تھوڑے تھوڑے وقفے سے مچھلیوں پر پانی کے چھپکے دینے سے مکھیوں کے چھتے اڑ جاتے تو نظر آتا کہ مچھلی کتنی چھوٹی اور کس ذات کی ہے۔ غلیظ پانی اور مچھلیوں کا کیچڑ ایک ٹین کی نالی سے ہوتا ہوا نیچے رکھے ہوئے کنسٹر میں جمع ہو رہا تھا۔ وہ بغدے سے کسی بڑی مچھلی کے ٹکڑے کر کے بیچتا تو اس کے کھپرے اور آلائش بھی اسی کنسٹر میں جاتی تھی۔ وہ جب بھر جاتا تو اسے ہٹا کر دوسرا کنسٹر رکھ دیا جاتا۔ بلیاں بار بار پچھلی ٹانگوں پر کھڑی ہو ہو کر منہ مارتیں اور چھیچھڑوں کو کنسٹر میں گرنے سے پہلے ہی بڑی تیزی سے اچک لیتیں۔ دیکھنے والے کو ہول آتا تھا کہ تیز چلتے ہوے بغدے سے بلی کا سر کھچ سے اب اُڑا کہ اب اُڑا۔ کوئی جوان عورت مچھلی لینے آتی تو مچھلی والا ڈھال ڈھال کر بلی کو آرزو بھری گالیاں دینے لگتا۔ کوئی ایک گھنٹے میں اس نے دو بھرے ہوئے کنسٹر ایک ایک آنے میں بیچے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ غریب غربا اس پانی میں چاول پکاتے ہیں تاکہ چاولوں میں مچھراند (مچھلی کی باس) بس جائے۔ مچھلی کی بدبو کے اس ایسنس کے ایک کنسٹر سے تین گھروں میں ہنڈیا پکتی ہے۔ غریبوں میں جو لوگ نسبتاً آسودہ حال ہیں، وہی یہ لگژری افورڈ کر پاتے ہیں!
 

رضوان

محفلین
خاندانِ مغلیہ کا زوال و نزول
بشارت نے جھگی کے باہر کھڑے ہو کر مولانا کو آواز دی، حالانکہ اس کے ،،اندر،، اور ،،باہر،، میں کچھ ایسا فرق نہیں تھا۔ بس چٹائی، ٹاٹ اور بانسوں سے اندر کے کیچڑ اور باھر کے کیچڑ کے درمیان حد بندی کر کے ایک خیالی privacy (تخلیہ) اور ملکیت کا حصار کھینچ لیا تھا۔
یہ میری لحد، وہ تیری ہے​
کوئی جواب نہ ملا تو انھوں نے حیدرآبادی انداز سے تالی بجائی، جس کے جواب میں اندر سے چھ بچّوں کا تلے اوپر پتیلیوں کا سا سیٹ نکل آیا، جن کی عمروں میں بظاہر نو نو مہینے سے بھی کم فرق نظر آ رہا تھا۔ سب سے بڑے لڑکے نے کہا، مغرب کی نماز پڑھنے گئے ہیں، تشریف رکھیے۔ بشارت کی سمجھ میں نہ آیا کہاں تشریف رکھیں۔
ان کے پیر تلے اینٹیں ڈگمگا رہیں تھیں۔ تعفن سے دماغ پھٹا جا رہا تھا۔
جہنم اگر رُوئے زمین پر کہیں ہو سکتا ہے تو
ہمیں است وہمین است وہمین است​
وہ دل ہی دل میں مولانا کو ڈانٹنے کا ریہرسل کرتے ہوئے آئے تھے۔ ،،یہ کیا اندھیر ہے مولانا؟،، کچکچا کر مولانا کہنے کے لیے انھوں نے بڑے طنز و تلخی سے وہ لہجہ کمپوز کیا تھا جو بہت سڑی گالی دیتےوقت اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن جھگی اور کیچڑ دیکھ کر انھیں اچانک خیال آیا کہ میری شکایت پر اس شخص کو بالفرض جیل ہوجائے تو اس کے تو الٹے عیش آ جائیں گے۔ مولانا پر پھینکنے کے لیے طعن و تشنیع کے جتنے پتھر وہ جمع کر کےلائے تھے، ان سب پر داڑھیاں لگا کر جا نمازیں لپیٹ دی تھیں تاکہ چوٹ بھلے ہی نہ آئے، شرم تو آئے۔ وہ سب دھرے رہ گئے۔ ان کا ہاتھ شل ہوگیا تھا۔ اس شخص کو گالی دینے کا فائدہ؟ اس کی زندگی تو خود ایک گالی ہے۔ ان کے گرد بچّوں نے شور مچانا شروع کیا تو سلسلہ ملامت ٹوٹا۔ انھوں نے ان کے نام پوچھنا شروع کیے۔ تیمور، بابر، ہمایوں، جہانگیر، شاہ جہاں، اورنگ زیب۔ یا اللہ پورا دودمانِ مغلیہ اس ٹپکتی جھگی میں تاریخی تسلسل سے ترتیب وار اترا ہے۔
ایسا لگتا تھا کہ مغل بادشاہوں کے ناموں کا اسٹاک ختم ہوگیا، مگر اولادوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ چنانچہ چھُٹ بھیّوں پر اتر آئے تھے۔ مثلاً ایک لختِ جگر کا پیار کا نام (مرزا) کوکا تھا، جو اکبر کا دودھ شریک بھائی تھا، جس کو اس نے قلعے کی فصیل پر سے نیچے پھنکوادیا تھا۔ اگر حقیقی بھائی ہوتا تو اس سے بھی سخت سزا دیتا۔ یعنی قزاقوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے لیے حج پر بھیج دیتا یا آنکھیں نکلوا دیتا۔ رحم کی اپیل کرتا تو ازراہ ترحمِ خسروانہ و شفقتِ برادرانہ جلاد سے ایک ہی وار میں سر قلم کروا کے اس کی مشکل آسان کر دیتا۔ جو شیر خوار اور گھٹنیوں چلتے بچے اندر رہ گئے تھے ان کے ناموں سے بھی شکوہِ شاہانہ ٹپکتا اور تاج و تخت سے وابستگی کا نشان ملتا تھا، حالانکہ یہ یاد نہیں آ رہا تھا کہ ان میں سے کون تخت پر متمکن ہونے کے بعد قتل ہوا اور کون پہلے۔ بات یہ ہے کہ اورنگزیب کی وفات کے بعد انتزاع سلطنت اور طوائف الملوکی کا دور شروع ہوا۔ بارہ سال میں آٹھ بادشاہ اس طرح سریر آرائے سلطنت ہوئے کہ ایک بادشاہ ٹھیک سے تخت پر بیٹھ نہیں پاتا تھا کہ اس کا تختہ الٹ دیا جاتا۔ تاج اور سر ہوا میں بازیگر کی گیندوں کی طرح اچھلنے لگے۔ ہر چند کہ اورنگزیب کو موسیقی سے نفرت تھی، لیکن س کی آنکھیں بند ہوتے ہی تخت و تاج کے دعوے داروں نے شاہی تخت کے گرد میوزیکل چیئرز کھیلنا شروع کر دیا۔ اس ادنٰی تصرف کے ساتھ کہ میوزک کے بجائے شاعر لہک لہک کر قصیدے پڑھتے اور جب پڑھتے پڑھتے اچانک رک جاتے تو ایک نیا شہزادہ جھٹ سے تخت پر بیٹھ جاتا۔ نادر شاہ کو یہ مغلئی کھیل ایسا بھایا کہ تختِ طاؤس اٹھوا کے وطن لے گیا۔ اس کے باوجود کھیل جاری رہا۔ تخت اٹھوانے کے ضمن میں ہم نے نہ رہے بانس نہ بجے بانسری کا محاورہ جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا۔ اس لیے کہ چین کی بانسری بجانے کے لیے بادشاہوں اور آمروں کو بانس کی محتاجی کبھی نہیں رہی۔ شاہوں کا نالہ پابندِ لے ہی نہیں، پابندِ نے بھی نہیں ہوتا۔
ہم عرض یہ کر رہے تھے کہ خانوادہ تیمور کے جو باقی ماندہ چشم و چراغ جھگی کے اندر تھے ان کے نام بھی تخت نشینی بلکہ تخت الٹنے کی ترتیب کے اعتبار سے درست ہی ہوں گے، اس لیے کہ مولانا کا حافظہ اور تاریخ کا مطالعہ بہت اچھا معلوم ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ لائحہ حمل بناتے وقت انھوں نے خاندانی منصوبہ شکنی کو تاریخِ مغلیہ کے تقاضوں اور تخت نشینی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے تابع رکھا ہے۔ بشارت نے پوچھا ،، تم میں سے کسی کا نام اکبر نہیں؟،، بڑے لڑکے نے جواب دیا ،،نہیں جی-- وہ تو دادا جان کا تخلص ہے۔،،
گفتگو کا سلسلہ کچھ انہوں نے کچھ بچوں نے شروع کیا۔ انھوں نے دریافت کیا ،، تم کتنے بہن بھائی ہو؟ ،، جواباً ایک بچے نے ان سے پوچھا ،،آپ کے کتنے چچا ہیں؟،، انھوں نے دریافت کیا ،، تم میں سے کوئی پڑھا ہوا بھی ہے؟،، بڑے لڑکے تیمور نے ہاتھ اٹھا کر کہا ،، جی ہاں! میں ہوں ،، معلوم ہوا یہ لڑکا جس کی عمر تیرہ چودہ سال ہوگی مسجد میں بغدادی قاعدہ پڑھ کر کبھی کا فارغ التحصیل ہو چکا تھا۔ تین سال تک پنکھے بنانے کی ایک فیکٹری میں مفت کام سیکھا۔ ایک سال ہوا دائیں ہاتھ کا انگوٹھا مشین میں آ گیا۔ کاٹنا پڑا۔ اب ایک مولوی صاحب سے عربی پڑھ رہا ہے۔ ہمایوں اپنے ہم نام کی طرح ہنوز خواری و آوارہ گردی کی منزل سے گزر رہا تھا۔ جہانگیر تک پہنچتے پہنچتے پاجامہ بھی طوائف الملوکی کی نظر ہو گیا۔ البتہ شاہ جہاں کا ستر پھوڑوں پھنسیوں پر بندھی ہوئی پٹیوں سے اچھی طرح ڈھکا ہوا تھا۔ اورنگ زیب کے تن پر صرف اپنے والد کی ترکی ٹوپی تھی۔ بشارت کو اسکی آنکھیں اور اسے بشارت نظر نہ آئے۔ سات سال کا تھا مگر بے حد باتونی۔ کہنے لگا ،، ایسی بارش تو میں نے ساری زندگی نہیں دیکھی،،۔ ہاتھ پیر ماچس کی تیلیاں لیکن اس کے غبارے کی طرح پھولے ہوئے پیٹ کو دیکھ کر ڈر لگتا تھا کہ کہیں پھٹ نہ جائے۔ کچھ دیر بعد ننھی نور جہاں آئی۔ اس کی بڑی بڑی ذہین آنکھوں میں کاجل اور کلائی پر نظر گزر کا ڈورا بندھا تھا۔ سارے منھ پر میل، کاجل، ناک اور گرد لپی ہوئی تھی، سوائے ان حصوں کے جو ابھی ابھی آنسوؤں سے دھلے تھے۔ انھوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے سنہری بالوں میں گیلی لکڑیوں کے کڑوے کڑوے دھویں کی بو بسی ہوئی تھی۔ ایک بھولی سی صورت کا لڑکا اپنا نام شاہ عالم بتا کر چل دیا۔ آدھے رستے سے واپس آکر کہنے لگا کہ میں بھول گیا تھا۔ شاہ عالم تو بڑے بھائی کا نام ہے۔ یہ سب مغل شہزادے کیچڑ میں ایسے مزے سے پھچاک پھچاک چل رہے تھے جیسے ان کا سلسلہ نصب امیر تیمور صاحبقران کے بجاے کسی راج ہنس سے ملتا ہو۔
ہر کونے کھڈرے سے بچے ابلے پڑ رہے تھے۔ ایک کمانے والا اور یہ ٹبر! دماغ چکرانے لگا۔

عالم تمام حلقہ دامِ عیال ہے​
 

رضوان

محفلین
کوئی دیوارسی گری ہے ابھی

کچھ دیر بعد مولانا آتے ہوئے نظر آئے۔ کیچڑ میں ڈگمگ ڈگمگ کرتی اینٹوں پر سنبھل سنبھل کر قدم رکھ رہے تھے۔ اس ڈانوا ڈول پگڈنڈی پر اس طرح چلنا پڑتا تھا جیسے سرکس میں کرتب دکھانے والی لڑکی تنے ہوئے تار پر چلتی ہے۔ لیکن اس کی کیا بات ہے ۔ وہ تو خود کو کھلی چھتری سے بیلینس کرتی رہتی ہے۔ ذرا ڈگمگا کر گرنے لگتی ہے تو تماشائی پلکوں پر جھیل لیتے ہیں۔ مولانا خدا جانے بشارت کو دیکھ کر بوکھلا گئے یا اتفاقاً انکی کھڑاؤں اینٹ پر پھسل گئی، وہ دائیں ہاتھ کے بل، جس میں دم کے پانی کا گلاس تھا، گرے۔ ان کا تہبند اور داڑھی کیچڑ میں لت پت ہوگئی اور ہاتھ پر کیچڑ کا موزہ سا چڑھ گیا۔ ایک بچے نے بد قلعی لوٹے سے پانی ڈال کر انکا منھ دھلایا، بغیر صابن کے۔ انھوں نے انگوچھے سے تسبیح، منھ اور ہاتھ پونچھ کر بشارت سے مصافحہ کیا اور سر جھکا کر کھڑے ہو گئے۔ بشارت ڈھے چکے تھے۔ ریہرسل کیے ہوئے طعن آمیز ابتدائیہ فقرے جو داڑھی، نماز اور گٹے سے متعلق تھے، اس کیچڑ میں غرق ہوگئے ،،قصرِ تقدّس کا چھجّا،، والی پھبتی بھی اسی بج بجاتی دلدل میں دھنستی چلی گئی۔ ان کا بے اختیار جی چاہا کہ بھاگ جائیں۔ مگر دلدل میں آدمی جتنی تیزی سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے، اتنی ہی تیزی سے دھنستا چلا جاتا ہے۔
ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ اب شکایت و فہمائش کا آغاز کہاں سے کریں۔ اسی شش و پنج میں انھوں نے اپنے دائیں ہاتھ سے، جس سے ذرا دیر پہلے بہ کراہت مصافحہ کیاتھا، ہونٹ کھجایا تو اُبکائی آنے لگی۔ اس کے بعد انھوں نے اس ہاتھ کو اپنے جسم اور کپڑوں سے ایک بالشت دور رکھا۔ مولانا غایتِ آمد بھانپ گئے۔ خود پہل کی۔ اس اعتراف کے ساتھ کے میں آپ کے کوچوان رحیم بخش سے پیسے لیتا رہا ہوں، پڑوسن کی بچی کے علاج کے لیے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ میری تعیناتی سے پہلے یہ دستور تھا کہ آدھی رقم آپ کا کوچوان رکھ لیتا تھا۔ اب جتنے پیسے آپ سے وصول کرتا ہے وہ سب مجھ تک پہنچتے ہیں۔ اس کا حصہ ختم ہوا۔ ہوا یہ کہ ایک دن وہ مجھ سے اپنی بیوی کے لیے تعویز لے گیا۔ اللہ نے اس کا مرض دور کر دیا۔ وہی شافی و کافی ہے۔ وہی جلاتا اور مارتا ہے۔ اس کے بعد وہ میرا معتقد ہو گیا۔ بہت دکھی آدمی ہے۔
مولانا نے یہ بھی بتایا پہلے آپ چالان اور رشوت سے بچنے کے لیے جب بھی اسے راستہ بدلنے کا حکم دیتے، وہ محکمے والوں کو پیشگی نوٹس دے دیتا تھا۔ وہ ہمیشہ برضا و رغبت پکڑا جاتا تھا۔ بلکہ یہاں تک ہوا کہ ایک دفعہ انسپکٹر کو نمونیہ ھو گیا اور وہ تین ہفتے تک ڈیوٹی پر نہیں آیا تو رحیم بخش ہمارے آفس میں یہ دریافت کرنے آیا کہ اتنے دن سے چالان کیوں نہیں ہوا۔ خیریت تو ہے؟
بشارت نے دو تین سوال کوچوان کے متعلق تو کیے، لیکن مولانا کو کچھ کہنے سننے کا اب ان میں یارا نہ تھا۔ ان کا بیان جاری تھا۔ وہ محجوب خاموشی سے سنتے رہے:
میرے والد کی کولھے کی ہڈی ٹوٹے دو سال ہو گئے۔ وہ سامنے پڑے ہیں۔ بیٹھ بھی نہیں سکتے چارپائی کاٹ دی ہے۔ مستقل لیٹے رہنے سے ناسور ہو گئے ہیں۔ ایک تو اتنا گہرا ہے کہ پوری انگلی اندر چلی جائے۔ ستلی برابر موٹی ایک رگ اندر نظر آتی ہے۔ پیپ رستی رہتی ہے۔ زخم صاف کرتے ہوئے مجھے کئی دفعہ قے ہوچکی ہے۔ ڈالڈا کے ڈبوں میں پانی بھر کے چاروں پایوں کے نیچے رکھ دیے ہیں تاکہ دوبارہ لال چیونٹے زخموں میں نہ لگیں۔ پڑوسی ائے دن جھگڑتا ہے کہ تمہارے بڑہؤ دن بھر تو خراٹے لیتے ہیں اور رات بھر چیختے کراھتے ہیں۔ ناسوروں کی سڑاند کے مارے ہم کھانا نہیں کھا سکتے۔ وہ بھی ٹھیک ہی کہتا ہے۔ فقط چٹائی کی دیوار ہی تو بیچ میں ہے۔ چار مہینے قبل فضلِ ایزدی سے ایک اور فرزند تولد پزیر ہوا۔ اللہ کی دین ہے بِن مانگے موتی ملیں مانگے ملے نہ بھیک۔ اللہ نبی کی امت کو بڑھاتا ہے۔ جاپے کے بعد ہی بیوی کو whit leg ہو گئی۔ ہل نہیں سکتی۔ مرضی مولا۔ رکشا میں ڈال کر جناح ہسپتال لے گیا۔ کہنے لگے، فوراً ہسپتال میں داخل کرواؤ مگر یہاں کوئی بیڈ خالی نہیں ہے۔ ایک مہینے بعد پھر لے گیا۔ اب کی دفعہ کہنے لگے، اب لائے ہو لمبی بیماری ہے۔ ہم ایسے مریض کو ایڈمٹ نہیں کرسکتے۔ صبر کیا۔ راضی ہیں ہم اسی میں جس میں رضا ہو تیری۔ فجر اورمغرب کی نماز سے پہلے دونوں مریضوں کا گُوہ مُوت کرتا ہوں۔ نماز کے بعد خود روٹی ڈالتا ہوں تو بچوں کے پیٹ میں کچھ جاتا ہے۔ ایک دفعہ نورجہاں نے ماں کے لیے بکری کا دودھ گرم کیا تو کپڑوں میں آگ لگ گئی تھی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے میرے ہاتھ پاؤں چلتے ہیں۔ ،،
بشارت اب کہیں اور پہنچ چکے تھے۔ اب نہ انھیں بد بو آرہی تھی نہ متلی ہو رہی تھی۔ سناّٹے میں آگئے تھے:

سمجھتے کیا تھے، مگر سنتے تھے فسانہ دہر
سمجھ میں آنے لگا جب، تو پھر سنا نہ گیا​
مولانا نے کہا کہ دائی کا علاج ہے۔ عرقِ مکو، رومی مصطگی، مغزِکنجشک اور افیم کا لیپ بتایا ہے۔ بڑی ہمدرد عورت ہے۔ فجر اور مغرب کی نماز کے بعد مسجد سے پانی دَم کروا کے لاتا ہوں۔ سو ڈیڑھ سو نمازیوں کے انفاسِ متبرکہ بڑے بڑے رئیسوں کو نصیب نہیں ہوتے۔ مگر شاید مولا کو شفاء منظور نہیں۔ مرضیِ مولا از ہمہ اولٰی۔
مشیتِ ایزدی اور مرضیِ مولا کے جتنے حوالے اس آدھ گھنٹے میں بشارت نے سنے اتنے پچھلے دس برسوں میں بھی نہیں سنے ہوں گے۔ مولانا کی باتوں سے انہیں لگا جیسے اس بے نوا نگری میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ خدا کی مرضی کے عین مطابق ہو رہا ہے۔
انھیں سُرنگ کے دوسری طرف بھی اندھیرا ہی اندھیرا نظر آیا۔ایسی نا امیدی، ایسی بے بسی، ایسے اندھیرے اور اندھیر کی تصویر کھینچنے کے لیے تو دانتے کا قلم چاہیے۔
 

رضوان

محفلین
پلید ہاتھ
مولانا کو جیسے کوئی بات اچانک یاد آگئی اور معزرت کر کے کچھ دیر کے لیے اندر چلے گئے۔ادھر بشارت اپنے خیا لات میں کھو گئے۔ اس ایک آر پار جھگی میں جس میں نہ کمرے ہیں نہ پردے، نہ دیواریں نہ دروازے، جس میں آواز، ٹیس اور سوچ تک ننگی ہے، جہاں لوگ شاید ایک دوسرے کا خواب بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں ایک کونے میں بوڑھا باپ پڑا دَم توڑ رہا ہے۔ دوسرے کونے میں زچگی ہو رہی ہے اور درمیان میں بیٹیاں جوان ہو رہی ہیں۔ بھائی میرے! جہاں اتنی رشوت لی تھی وہاں تھوڑی سی اور لیکر بیوی کو ہسپتال میں داخل کرادیتے تو کیا حرج تھا۔ جان پر بنی ہو تو شراب تک حرام نہیں رہتی۔ لیکن پھر ہانڈی چولھا، جھاڑو بہارو کون کرتا؟ اس ٹبر کا پیٹ کیسے بھرتا؟ مولانا نے بتایا تھا کہ زچگی کے دوسرے ہی دن بیوی نے بچوں کے لیے روٹی پکائی اور کپڑے دھوئے تھے۔ بشارت سوچنے لگے کہ ان جنگجو تاتاری عورتوں کے قصیدوں سے تو تاریخ بھری پڑی ہے جو عرب شاہ کے بیان کے مطابق تیمور کی فوج کے شانہ بشانہ نیزوں اورتلواروں سے لڑتی تھیں۔ اگر کوچ کی حالت میں کسی عورت کے دردِزہ شروع ہو جاتا تو وہ دوسرے گھڑ سواروں کے لیے راستہ چھوڑ کر ایک طرف کو کھڑی ہوجاتی۔ گھوڑے سے اتر کر بچہ جنتی۔ پھر اسے کپڑے میں لپیٹ کر اپنے گلے میں حمائل کرتی اور دوبارہ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہو کر لشکر سے جا ملتی۔ مگر جھگیوں میں چپ چاپ جان سے گزر جانے والی ان بے نام بی بیوں کا نوحہ کوں لکھے گا؟ بشارت کا دَم گھُٹنے لگا۔ اب تلک مولانانے کل ملا کر یہی سو ڈیڑھ سو روپےوصول کیے ہوں گے۔ وہ نا حق یہاں آئے۔ انہوں نے موضوع بدلا اور دَم کے پانی کی تاثیر کے بارے میں سوچنے لگے کہ ابھی تو یہ بے چاری ایک بیماری میں مبتلا ہے۔ سو آدمیوں کا پھونکا ہوا پانی پی کر سو نئی بیماریوں میں مبتلا ہو جائے گی۔
کچھ دیر بعد مولانا نے اندر پردہ کرایا۔ یعنی جب نورجہاں نے اپنی بیمار ماں کو سر سے پیر تک چیکٹ لحاف اڑھا کر لٹا دیا تو مولا نا نے بشارت کو جھگی میں چلنے کو کہا۔ دونوں ایک چارپائی پر پیر لٹکا کر بیٹھ گئے۔ اَدوان پر ایک نقشین سینی میں تام چینی کی نیلی چینک اور دو کپ رکھے تھے۔ کپ کے کناروں پر مکھیوں کی کلبلاتی جھالر۔ مولانا نے کپ میں تھوڑی سی چائے ڈالی اور انگلی سے اچھی طرح رگڑ کر دھویا۔ پھر اس میں چائے بن کر بشارت کو پیش کی۔ اگر وہ اس انگلی سے نہ دھوتے جو کچھ دیر پہے کیچڑ میں سنی ہوئی تھی تو شاید اتنی اُبکائی نہ آتی۔ مولانا چائے دینے کو جھکے تو انکی داڑھی میں سے گٹر کی بو آرہی تھی۔
مولانا کا بیان جاری تھا۔ بشارت میں اب اتنا حوصلہ باقی نہیں رہا تھا کہ نظر اٹھا کر ان کی صورت دیکھیں۔ ،،مجھے محکمہ انسدادِ بےرحمیِ جانوران ساٹھ روپے تنخواہ دیتا ہے۔ اک بیٹا سات سال کا ہے ذہن، ڈیل اور شکل و صورت میں سب سے اچھا۔ چار پانچ مہینے ہوئے اسے تین دن بڑا تیز بخار رہا۔ چوتھے دن بائیں ٹانگ رہ گئی۔ ڈاکٹر کو دکھایا۔ بولا، پولیو ہے۔ انجکشن لکھ دیے۔ خدا کا شکر کس زبان سے ادا کروں کہ میرا بچہ صرف ایک ٹانگ سے معزور ہوا۔ پڑوس میں، چار جھگی چھوڑ کر، ایک بچی کی دونوں ٹانگیں رہ گئیں۔ وبا پھیلی ہوئی ہے ۔ جو رَب چاھتا ہے وہی ہوتا ہے۔ بن باپ کی بچی ہے۔ ڈاکٹر کی فیس کہاں سے لائے۔ میں نے اپنے بیٹے کے تین انجکشن اس بچّی کو لگوادیے۔ کیا بتاؤں اس بیوہ بی بی نے کیا دعائیں دی ہیں۔ پانچوں وقت اس بچّی کے لیے بھی دعا کرتا ہوں۔ ہر جمعے کو جنگلی کبوتر کے خون اور لونگ اور بادام کے تیل سے بیٹے اور اس بچّی کی ٹانگوں کی مالش کرتا ہوں۔ ویسے اس ڈاکٹر کا علاج بھی جاری ہے۔ آپ کے کوچوان سے جتنی بار پیسے لیے اسی علاج معالجے کے واسطے لیے۔،،
بشارت کو ایسا محسوس ہوا جیسے دماغ سُن ہو گیا ہو۔ بیماری، بیماری! یہاں لوگ کچرگھان بچے پیدا کرنے اور بیمار پڑنے کے علاوہ کچھ اور بھی کرتے ہیں یا نہیں؟ اس آدھے گھنٹے میں ان کے منھ سے بمشکل دس بارہ جملے نکلے ہوں گے۔ مولانا ہی بولتے رہے۔ بشارت کی زبان پر ایک سوال آ آ کر رہ جاتا تھا۔ کیا سب جھگیوں میں یہی حال ہے؟ کیا ہر گھر میں لوگ اسی طرح رِنجھ رِنجھ کر جیتے ہیں؟
مولانا جاری تھے ،، اسے قرضِ حسنہ سمجھ کر معاف کر دیجیے۔ آپ کے کوچوان نے دھمکی دی تھی کہ ،ہمارا صاب کہتا ہے اس دڑھیل کو بول دینا کہ ایسا ذلیل کروں گا، ایسا ملیا میٹ کروں گا کہ یاد کرے گا۔، یہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ برستا بادل ہمارا اوڑھنا اور کیچڑ ہمارا بچھونا ہے۔ اس کے آگے اب اور کیا ہو گا؟ مولا سے دعا کی تھی کہ اکل حلال اور صدقِ مقال عطا ہو۔ عزت کی روٹی ملے۔ گنہ گار ہوں ۔ دعا قبول نہ ہوئی۔ اس پر سب روشن ہے۔ آج صبح ناشتے میں ایک روٹی کھائی تھی۔ اس کے بعد ایک کھیل کا دانہ بھی منہ میں گیا ہو تو لحم الخنزیر ہے۔ وہ جس کو چاھتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے تم اتنے بے بس اور عاجز ہو کہ تمہارے ہاتھ سے مکھی بھی ایک ریزہ اٹھا کر لے جائے تو تم اس سے چھین نہیں سکتے۔،،
مولانا نے کرتا اٹھا کر اپنا پیٹ دکھایا جس میں غار پڑا ہوا تھا۔ دھونکنی سی چل رہی تھی۔بشارت نے نظریں جھکالیں۔
،،مدت سے حضرت ذہین شاہ تاجی سے بیعت ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک پڑوسی نے جو اس بیوہ بی بی سے شادی کرنا چاہتا ہے اور مجھے اس میں حارج سمجھتا ہے، پیرو مرشد کو ایک گمنام خط بھیجا کہ میں رشوت لیتا ہوں۔ اب حضرت فرماتے ہیں کہ حضرت با با فرید الدّین گنج شکر علیہ الرحمتہ نے رزقِ حلال کو اسلام کا چھٹا رکن قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ جب تک تم رشوت کا ایک ایک پیسا واپس نہ کر دوگے، پلید ہاتھ سے بیعت نہیں لوں گا۔ خدا مجھ پر رحم فرمائے۔ میرے حق میں دعا کیجیے۔،،
مولانا ان کے سامنے دعائیہ انداز میں ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے ۔ ان کے ملیشیا کے کرتے پر جذب ہوتے ہوئے آنسوؤں کا ایک سیاہ زنجیر سا بن گیا تھا۔ بشارت نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
 

رضوان

محفلین
دو اکیلے
ایک ہفتے بعد دیکھا کہ مولانا کرامت حسین بشارت کی دکان پر منشی کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور فیتہ ہاتھ میں لیے دیودار اور ،،پین،، کی لکڑی کی پیمائش کرتے خوش خوش پھر رہے ہیں۔ ان کی تنخواہ تگنی ہو گئی۔ تین چار دن بعد بشارت نے صرف اتنی تنبیہ کی کہ مولانا ایمانداری اچھی چیز ہے، مگر آپ گاہک کے سامنے لکڑی کی گرہ کو اس طرح نہ تکا کیجیے جیسے گھوڑے کی گردن کے زخم کو دیکھ رہے ہوں۔ رحیم بخش کوچوان کو برخواست کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ مولانا کے آتے ہی وہ کہے سنے بغیر غایب ہو گیا۔
گھوڑے کے بکنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ مولانا کے لحاظ اور مروت میں ،، بے رحمی والوں،، نے ستانا چھوڑ دیا۔ بشارت نے بزرگوار سے اشارتاً کہا کہ آپ کی دعا سے چالانوں کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ اب آپ ڈرائنگ روم سے اپنے کمرے میں تشریف لے جا سکتے ہیں۔ لیکن بزرگوار گھوڑے کے اسقدر عادی ہوگئے تھے کہ کسی طرحنفل نماز اوروظیفہ چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔گھوڑا انھیں دیکھتے ہی بقول کوچوان کے بچیانے لگتا، یعنی مارے خوشی کے اپنے کان کھڑے کر کے دونوں سرے ملا دیتا۔ علی الصبح گھوڑا ڈرائنگ روم میں بالاصراروبالالتزام بلوایا جاتا۔ جیسے ہی ،، گھوڑا آرہا ہے!،، کا غلگلہ بلند ہوتا تو جس کو دین و دل یا کچھ اور بھی عزیز ہوتا راستہ چھوڑ کر تماشا دیکھنے کھڑا ہوجاتا۔ یہ منظر آرسی مصحف کی یاد دلاتا تھا۔ جب نوشہ کو زنانے میں بلوایا جاتا ہے تو بار بار اعلان کیا جاتا ہے ،، لڑکا آرہا ہے! لڑکا آرہاہے!،، یہ سن کر لڑکیاں بالیاں اور پردہ نشن بیبیاں نقاب الٹ کر طباق سے چہرے کھول کر بیٹھ جاتی ہیں۔ یہ بد گمانی بیجا نہیں معلوم نہیں ہوتی کہ بعض مرد بڑھاپے میں شادی فقط ،، لڑکا آرہا ہے،، سننے کے لالچ میں کرتے ہیں ورنہ جہاں تک نکاح یا وظیفہ زوجیت کا تعلق ہے تو
اس سے غرضِ نشاط ہے کس روسیاہ کو​
بزرگوار اس کی پیشانی پر انگِشتِ شہادت سے ،،اللہ،، لکھتے۔ کچھ عرصے سے اس کے پیر پر دَم کرکے ہاتھ بھی پھیرنے لگے تھے۔ جس دن سے وہ ایال میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے، اس سے گھر والوں کی شکائتیں نام لے لے کر کرنے لگے۔ اس دن سے رشتہ انسان اور جانور کا نہیںرہا۔ جب وہ اپنی نئی تکلیفوں کا حال سنا کر چپ ہو جاتے تو وہ بڑے پیار سے اپنا منہ ان کے مفلوج جسم کے ساتھ رگڑتا اور پھر سر جھکا لیتا۔جیسے کہہ رہا ہو بابا! آپ تو مجھ سے بھی زیادہ دکھی نکلے! وہ کہتے تھے کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میری بائیں ٹانگ میں دھیرے دھیرے پھر سے snsation (حس) آرہی ہے۔
غرض کہ بزرگوار اب اسے گھوڑا سمجھ کر بار نہیں کرتے تھے۔ ادھر گھوڑا بھی ان سے اس قدر مانوس ہوگیا اور ایسے یگانگت برتنے لگا جیسے وہ انسان نہ ہوں۔ وہ اب اسے کبھی گھوڑا نہیں کہتے تھے۔ بلبن یا بیٹا کہہ کر پکارتے۔ وہ آتا تو دونوں کی ملاقات دیدنی و شنیدنی ہوتی:
جیسے مجذوب کے گھر دوسرا مجذوب آئے​
بزرگوار ایک دن کہنے لگے کہ گھوڑا دراصل مزمن وجع المفاصل میں مبتلا ہے ( انہی کی طرح اب گھوڑے کو بھی ہر مرض عربی میں ہوتا تھا) پھر صراحتاً فرمایا کہ ٹانگ کے جوڑ جکڑ گئے ہیں۔ چنانچہ اس کے جوڑ کھولنے کے لیے ڈرائنگ روم میں ‌انگیٹھی جلوا کر اپنی نگرانی میں تین سیر کھوئے اور گھی میں‌ گھیکوار کا حلوہ بنوا کر چالیس دن تک خود کھایا، جس سے ان کی اپنی زبان اور بھوک کھل گئی۔ ادھر وہ کچھ دن سے یہ بھی کہنے لگے تھے کہ گھوڑے میں‌جن سما گیا ہے۔ اسے اتارنے کے لیے جمعرات کی جمعرات مرچوں کی دھونی دیتے اور آدھ سیر دانے دار قلاقند پر نیاز دیکر مستحقین میں تقسیم کرتے۔ مطلب یہ کہ آدھا خود کھاتے آدھا اپنے دوست چودھری کرم الٰہی کے ہاں بھجواتے۔ قلاقند کھاتے جاتے اور فرماتے جاتے بعض جنوں کی نیت کسی طرح نہیں بھرتی۔ سابق کوچوان رحیم بخش بھی کہتا تھا یہ گھوڑا نہیں، جن ہے۔ جن پلید آمیوں کو دکھلائی نہیں دیتے۔ اسی سے روایت ہے کہ ایک دن میں بلبن کو صبح ڈرائنگ روم میں نہ لے جا سکا تو شام کو مغرب کے بعد رسّی تڑّا کر خود ہی دَم کروا کے واپس آ گیا۔ میں دانہ چارا لے کر آیا تو جناب ادھر کچھ اور ہی سماں تھا۔ دیکھا کہ اس کے سُم کافور کے ہو گئے ہیں اور ان میں سے ایسی چکا چوند شعاعیں نکل رہی ہیں کہ آپ ادھر نظر بھر کر دیکھ نہیں سکتے۔ نتھنوں سے لوبان کا دھواں نکل رہا ہے۔ اس پر عبداللہ گزک والے نے رحیم بخش کے سر کی قسم کھا کر کہا کہ جس وقت کا یہ واقعہ ہے، عین اسی وقت میں نے گھوڑے کو کلفٹن میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کی درگاہ کے سامنے کھڑے دیکھا تھا۔ اس پر ایک نورانی داڑھی والے سبز پوش بزرگ سوار تھے۔
بزرگوار نے گھوڑے کی کرامات کو اپنی کرامات سمجھا۔ کرید کرید کر کئی بار سبز پوش بزرگ کا حلیہ پوچھا اور ہر بار جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا کہ بزرگ کا حلیہ ان سے نہیں ملتا تھا۔ اب وہ بلبن بیٹے کو مغرب کے بعد بھی اپنے پاس بلوانے لگے۔ دونوں عشاء تک سر جوڑے ایسی باتیں کرتے کہ
لوگ سن پائیں تو دونوں ہی کو دیوانہ کہیں​
اس واقعہ کے بعد کوچوان گھوڑے کو بلبن صاحب اور شاہ جی کہنے لگا۔ بزرگوار اکثر فرماتے کہ یہ گھوڑا بڑا بھاگوان ہے۔ بشارت کے ہاں لڑکے کی پیدائش کو وہ گھوڑے کی آمد سے منسوب کرتے تھے! محلّے کی چند بانجھ عورتیں شاہ جی کے درشن کو آئیں۔
 

رضوان

محفلین
“وقوعہ ہوگیا“
ہم یہ تو بتانا تو بھول ہی گئے کہ رحیم بخش کے جانے کے بعد انھوں نے ایک نیا کوچوان رکھا۔ نام مرزا وحید الزمان بیگ۔ مگر شرائطِ ملازمت کے مطابق بزرگوار اسے بھی الٰہ دین ہی کہہ کر پکارتے تھے۔ بات چیت اور شکل وصورت سے مسکین لگتا تھا۔ اس نے اپنا حلیہ ایسا بنا رکھا تھا کہ اس کے ساتھ خواہ مخواہ بھلائی کرنے کو جی چاھتا۔ منگول نقوش، سانولا رنگ، گٹھا ہوا بدن، چھوٹے چھوٹے کان، کشادہ پیشانی--- کاٹھی ایسی ٹانٹھی کہ عمر کچھ بھی ہوسکتی تھی۔ صدری کی اندرانی جیب میں پستول کے بجائے ایک گھسی ہوئی نعل کا شیر پنجہ رکھ چھوڑا تھا۔ بندر روڈ کے عقب میں ٹرام ڈپو کے پاس جو تھیٹریکل کمپنی تھی، اس کے کھیل “رستم و سہراب“ میں وہ ڈیڑھ مہینے تک رستم کا گھوڑا “ رخش“ بنا تھا۔ اسٹیج پر پوری طاقت سے ہنہناتا تو تھیٹر کے باہر کھڑے ہوئے تانگوں کی گھوڑیاں اندر آنے کے لیے لگام تڑانے لگتیں۔ اس کی ایکٹنگ سے خوش ہو کر ایک تماشائی نے یہ نعل اسٹیج پر پھینکی تھی۔ چھوٹے سے جثے پر بڑی پاٹ دار آواز پائی تھی۔ روزمرّہ گفتگو کے دوران اچانک تھیٹر کی یاد آجائے تو گھوڑے کو اسپ، گویے کو رامش گر اور خود کو روسیاہ کہنے لگتا۔ آغا حشر کے دھواں دھار ڈراموں کے گرجتے کڑکتے مکالمے زبانی یاد تھے، جنہیں گھوڑے کے ساتھ بولتا رہتا تھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ایسے مکالموں کے صحیح مخاطب بھی وہی ہو سکتے ہیں۔ آغا حشر کے مکالمے حجلہ عروسی میں بھی خود اور زرہ بکتر پہنے، برہنہ تلوار لہراتے داخل ہوتے ہیں، جب کہ میدانِ جنگ میں ان کا ہر قدم نقارے پر پڑتا ہے۔ الفاظ کے دھنی ہمیشہ قبضے پر گھنگرو باندھ کر تلوار چلاتے ہیں۔ اور اگر بہ تقاضائے بشریت یا پبلک کے پرزور اصرار پر، آگیا عین لڑائی میں وقتِ وصال، تو محبوبہ سے بھی اس مقفٰی شمشیر برہنہ زبان میں گفتگو فرماتے ہیں جس میں جانی دشمنوں کا قافیہ تنگ کرتے ہیں۔ ایسے نازک مقامات پر بھی جہان صبر یا شائستگی کا جامہ اترنے لگے وہ قافیے کا دامن دانتوں سے پکڑے رہتے ہیں۔ آغا حشر کے ہیرو کی جان اور آن الفاظ کے طوطوں میں بند ہوتی ہے اور طوطا جتنا چھوٹا ہو، اس سے اتنی ہی بڑی توپ چلواتے ہیں۔ جس زمانے کا یہ ذکر ہے تانگے والے، ملوں کے مزدور اور خوانچہ فروش تک آپس میں انھیں مکالموں کے ٹکڑے بولتے پھرتے تھے۔
مرزا وحید الزمان بیگ جس کے نام کے آگے یا پیچھے کوچوان لکھتے ہوئے کلیجہ خون ہوتا ہے، اپنا ہر جملہ “قصور معاف!“
سے شروع کرتاتھا۔ ملازمت کے انٹرویو کے دوران اس نے دعوٰی کیا کہ میں موٹر ڈرائیونگ بھی بہت اچھی جانتا ہوں۔ بشارت نے جل کر حقارت سے کہا ،تو پھر تم تانگہ کیوں چلانا چاہتے ہو؟ دعا کے انداز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہنے لگا، پاک پروردگار آپ کو کار دے گا تو کار بھی چلا لیں گے۔
بشارت نے اسے یہ سوچ کر ملازم رکھا تھا کہ چلو مسکین آدمی ہے۔ قابو میں رہے گا۔مرزا عبدالودود بیگ نے ٹِپ دیا تھا کہ ذہانت پر ریجھ کر کبھی کسی کو ملاشم نہیں رکھنا چاہیے۔ ملازم جتنا غبی ہو گا اتنا ہی زیادہ تابعدار اور خدمتی ہو گا۔ لیکن اس نے کچھ دن تو بڑی تابعداری دکھائی، پھر یہ حال ہو گیا کہ سکول سے کبھی ایک گھنٹا لیٹ آرہا ہے، کبھی دن میں تین تین گھنٹے غائب۔ ایک دفعہ اسے ایک ضروری انوائس لے کر پاکستان ٹوبیکو کمپنی بھیجا۔ چار گھنٹے بعد لوٹا۔ بچے اسکول کے پھاٹک پر بھوکے پیاسے کھڑے رہے۔ بشارت نے ڈانتا۔ اپنی پیٹی کی طرف جسے راچھ اوزار کی پیٹی بتاتا اور تانگے میں ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا، اشارہ کر کے کہنے لگا، قصور معاف، وقوعہ ہو گیا۔ میونسپل کارپوریشن کی بغل والی سڑک پر گھوڑا سکندری (ٹھوکر) کھا کے گر پڑا۔ ایک تنگ ٹوٹ گیا تھا۔ نعل بھی جھانجھن کی طرح بجنے لگی۔ انھیں ٹھیک کر رہا تھا۔ قصور معاف، نعل کی ایک بھی میخ ڈھیلی ہو تو ایک میل دور سے فقط ٹاپ سن کر بتا سکتا ہوں کہ کون سا سُم ہے۔ بشارت نے حیرت سے پوچھا، تم خود نعل باندھ رہے تھے؟ بولا، اور نہیں تو۔ کہاوت ہے، کھیتی، پانی، بینتی اور گھوڑے کا تنگ۔ اپنے ہاتھ سنواریے چاہے لاکھوں ہوں سنگ× گھوڑے کی چاکری تو خود ہی کرنی پڑتی ہے۔
وہ ہر دفعہ نئی داستان اور نیا عزر تراشتا تھا۔ جھوٹے لپاٹی آدمی کی مصیبت یہ ہے کہ وہ سچ بھی بولے تو لوگ جھوٹ سمجھتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوا کہ اسی کی بات سچ نکلی۔ تاہم اس کی بات پر دل نہیں ٹھکتا تھا۔ ایک دن بہت دیر سے آیا۔ بشارت نے آڑے ہاتھوں لیا تو کہنے لگا “جنابِ عالی“ میری بھی تو سنیے۔ میں ریس کلب کے اصطبل کے سامنے سے اچھا بھلا گزر رہا تھا کہ گھوڑا ایک دَم اَڑ گیا۔ چابک مارے تو بلکل الف ہو گیا۔ راہ گیر تماشا دیکھنے کھڑے ہوگئے۔ اتنے میں اندر سے ایک بڈھا سلوتری نکل کے آیا۔ گھوڑے کو پہچان کے کہنے لگا،“ ارے ارے! تُو اس شہزادے کو کائے کو مار ریا ہے۔ اس نے اچھے دن دیکھے ہیں۔ قسمت کی بدنصیبی کو صیّاد کیا کرے۔ یہ تو اصل میں دُرِشہوار (گھوڑی کا نام) کی بُو لیتا یہاں آن کے مچلا ہے۔ جس ریس میں اس کی ٹانگ میں موچ آئی ہے، دُرِشہوار بھی اس کے ساتھ دوڑی تھی۔ دو اتوار پہلے پھر اوّل نمبر پر آئی ہے۔ اخباروں میں فوٹو چھپے تھے۔ بھاگوان نے مالک کو لکھ پتی کر دیا“ پھر اس نے اس کے پرانے سائیس کو بلایا۔ ہم تینوں اسے تانگے سے کھول کے اندر لے جانے لگے۔ اسے سارے رستے معلوم تھے۔ سیدھا ہمیں اپنے تھان پہ لے گیا۔ وہاں ایک بے ڈول کالا بھجنگ گھوڑا کھڑا پشتک (دولتی) مار رہا تھا۔ ذرا دور پہ، دوسری طرف دُرِشہوار کھڑی تھی۔ وہ اسے پہچان کے بے کل ہو گئی۔ کہاں تو یہ اتنا مچل رہا تھا اور کہاں یہ حال کہ بلکل چپکا، بے ست ہو گیا۔ گردن کے زخم کی مکھیاں تک نہیں اڑائیں، صاحب جی، اس کا گھاؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ سائیس نے اسے بہت پیار کیا۔ کہنے لگا، بیٹا! اس سے تو بہتر تھا کہ تجھے اسی وقت انجکشن دے کے سلا دیتے۔ یہ دن تو نہ دیکھنے پڑتے۔ یہ تیرے مالک کو ترس آگیا -- پھر اس نے اس کے سامنے ریس کلب کا راتب رکھا۔ صاحب، ایسا چبینا تو انسان کو بھی نصیب نہیں۔ پر قسم لے لو جو اس نے چکھا ہو۔ بس سر جھکائے کھڑا رہا۔ سائیس نے کہا، اسے تو بخار ہے۔ اس نے اس کا بقیہ ساز کھول دیا اور لپٹ کے رونے لگا۔
“صاحب جی! میرا بھی جی بھر آیا۔ ہم دونوں جنے مل کر آبدیدہ ہو رہے تھے کہ اتنے میں ریس کلب کا ڈاکٹر آن ٹپکا۔ اس نے ہم تینوں کو نکال باہر کیا۔ کہنے لگا: ابے اس بھنکنی ہتّیا کو یہاں کائے کو لایا ہے؟ اور گھوڑوں کو بھی مارے گا؟“
------------------------------------------------------------------
×کھیتی، پانی،دست بستہ التجا اور گھوڑے کی زین کا تسمہ، یہ سب اپنے ہاتھ سے کرنے کے کام ہیں خواہ تمہارے ساتھ لاکھوں آدمی ہوں۔
 

رضوان

محفلین
نتھ کا سائز
ایک اور موقع پر دیر سے آیا تو قبل اس کے کہ بشارت ڈانٹ ڈپٹ کریں، خود ہی شروع ہوگیا “صاحب جی! قصور معاف۔ وقوعہ ہوگیا۔ میونسپل کارپوریشن کے پاس ایک مشکی گھوڑی بندھی ہوئی تھی، اسے دیکھتے ہی ایسا درپے ہوا کہ دونوں نے کلفٹن پہنچ کے دَم لیا۔ آگے آگے گھوڑی اس کے پیچھے گھوڑا۔ پھر کیا نام ، یہ روسیاہ۔ چوتھے نمبر پہ گھوڑی کا دَھنی۔ صاحب جی، اپنا گھوڑا اس طریوں جا ریا تھا جیسے گلے سے ملائی اتر رئی ہو۔“
یہاں اس نے چابک اپنی ٹانگوں کے بیچ دبایا اور اور دوڑ کر بتایا کس طرح گھوڑا، آپ کا غلام اور گھوڑی کا مالک، اسی ترتیب سے گھوڑے کی مطلوبہ کے تعاقب میں سر پٹ جا رہے تھے۔ “ جناب والا اس شخص نے پہلے تو مجھے کیا نام کہ نرگسی کوفتے جیسی آنکھوں سے دیکھا۔ پھر الٹا مجھی پہ غرایا۔ حالانکہ میرا گھوڑا بے قصور تھا۔ سارے رستے اسی کی گھوڑی مُڑ مُڑ کے اپن کے گھوڑے کو دیکھتی رہی کہ بربر پیچھے آرہا ہے کہ نہیں۔ میں نے اس کو بولا کہ اگر ایسا ہی ہے تو اپنی بے نتھی سنکھنی+ کو سنبھال کر کیوں نہیں رکھتے۔ مالک کی آبرو تو گھوڑی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ راہ چلتے گھوڑے کے ساتھ زلیخائی کرتی ہے۔ جناور کو پیغمبری آزمائش میں ڈالتی ہے۔ آخر کو مرد ذات ہے۔ برف کا پُتلا تو نہیں۔ صاحب جی! میں نے کیا نام اس دیوث کوبولا کہ جا جا! تیری جیسی گھوڑیاں بہت دیکھی ہیں۔ کراچی تھیٹر کومپنی میں اس جیسی ایک اُچھال چھکا چھوکری ہے۔ پر اس کی نائکہ ماں اسے اب بھی کنوار پنے کی نتھ پہنائے رہتی ہے۔ جیسے جیسے اس پٹاخہ کا چال چلن خراب ہوتا جائے ہے، نتھ کا سائز بڑا ہوتا جائے ہے۔ صاحب جی! یہ سنتے ہی اس کا غصہ رفو چکر ہو گیا۔ مجھ سے تھیٹر کومپنی کا پتہ اور چھوکری کا نام پوچھنے لگا۔ کہاں تو گالی پہ گالی بک رہا تھا، اب مجھے استاد! استاد! کہتے زبان سوکھ رئی تھی۔ بولا! استاد! غصہ تھوکو، یہ لو پان کھاؤ! قسم سے! اپن کا گھوڑا تو نظریں نیچی کیے، توبڑے میں منہ ڈالے، میونسپل کارپوریشن کے پاس کھڑا جگالی کر رہا تھا۔ جناب والا! سوچنے کی بات ہے۔ اس کی گھوڑی تو دو رکابہ ( بہت اونچی ) تھی۔ ڈھؤ کی ڈھؤ! جب کہ گھوڑا ! بہت سے بہت آپ کے قد کے برابر ہوگا“
بشارت کے آگ ہی تو لگ گئی “ ابے قد کے بچے! تیرے گھوڑے کے ساتھ ہر وقوعہ میونسپل کارپوریشن کے پاس ہی ہوتا ہے!“
ہاتھ جوڑ کے بولا“ اب کے وقوعہ گھوڑے کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“

--------------------------------------------------------------------------
+سنکھنی: شاستروں میں عورت کی ایک قسم آئی ہے۔ اس وقت ہمارے پاس جو لغت ہے ( علمی اردو لغت ) وہ کہتا ہے کہ اس کا قد دراز، جسم چھریرا، مزاج چڑ چڑا اور زلفیں اور خواہشِ نفسانی بڑھی ہوئی ہوتی ہے
 

رضوان

محفلین
بشارت ھئیر کٹنگ سیلون

میونسپل کارپوریشن والا عقدہ بھی بالآخر کھل گیا۔ ان دنوں بشارت اپنی دکان میں سڑک کے رخ کچھ تبدیلیاں اور اضافے کرنا چاہتے تھے۔ نقشہ پاس کرانے کے سلسلے میں میونسپل کارپوریشن جانے کی ضرورت پیش آئی، مگر کوچوان کا کہیں پتا نہ تھا۔ تھک ہار کر وہ تین بجے رکشا میں بیٹھ میونسپل کارپوریشن چل دیے۔ وہاں کیا دیکھتے ہیں کہ فٹ پاتھ پر مرزا وحید الزمان بیگ کوچوان پھٹی دری کا ٹکڑا بچھائے ایک شخص کی حجامت بنا رہا ہے۔ وہ اوٹ میں کھڑے ہو کر دیکھنے لگے۔ حجامت کے بعد اس نے اپنی کلائی پر لگی ہوئی صابن اور شیو کی قاشیں اُسترے سے صاف کیں اور اسے چموٹے اور اپنی کلائی پر تیز کیا۔ پھر گھٹنوں کے بَل نیم قد کھڑے ہو کر بغلیں لیں۔ انہیں اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا۔ لیکن “اوزاروں“ کی جانی پہچانی پیٹی سے پھٹکری کا ڈلا اور تبت ٹیلکم پاؤڈر نکالتے دیکھا تو اپنی بینائی پر اعتماد بحال ہوگیا۔ اب جو غور سے دیکھا تو دری کے کنارے پر گتّے کا ایک سائن بورڈ بھی نظر آیا جس پر نہایت خوش خط اور جلی حروف میں لکھا تھا:
بشارت ہئیر کٹنگ سیلون
ہیڈ آفس
ہر چند رائے روڈ​
بیچ بازار میں اسے بے آبرو کرنا مناسب نہ سمجھا۔ غصّے میں بھرے، رکشا لے کر دکان واپس آگئے۔ اس روز وہ اسکول سے بچوں کو لیکر سات بجے شام گھر لوٹا۔ بشارت نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اس کے ہاتھ سے چابک چھین کر دھمکی آمیز انداز میں لہراتے ہوئے بولے “ سچ سچ بتا۔ ورنہ ابھی چمڑی اُدھیڑ دوں گا۔ حرام خور! تم نائی ہو! پہلے کیوں نہیں بتایاِ؟ ہر بات میں جھوٹ بات بے بات جھوٹ۔ آج دیکھتا ہوں کیسے جھوٹ بولتا ہے۔ سچ سچ بتا کہاں تھا۔“ وہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا اور تھر تھر کانپتے ہوئے کہنے لگا “ قصور معاف! سرکار سچ فرماتے ہیں۔ آج سے قسم وحٰدہ لا شریک کی، ہمیشہ سچ بولوں گا۔“
چنانچہ اس کے بعد زندگی میں اس کی جتنی بھی خواری ہوئی ، وہ سب سچ بولنے کے سبب ہوئی۔ مرزا کہتے ہین کہ سچ بول کر ذلیل و خوار ہونے کی بہ نسبت جھوٹ بول کر ذلیل و خوار ہونا بہتر ہے ۔ آدمی کو کم از کم صبر تو آجاتا ہے کہ کس بات کی سزا مل رہی ہے۔
بشارت کی جرح پر پہلا سچ جو اس نے بولا وہ یہ تھا کہ میونسپل کارپوریشن کے بندھے ہوئے گاہکوں کو نمٹا کر میں ساڑھے چار بجے برنس روڈ پر ختنے کرنے گیا۔ ختنے کے براتیوں کو جمع ہونے میں خاصی دیر ہو گئی۔ پھر لونڈا کسی طرح راضی نہیں ہوتا تھا۔اکلوتا لاڈلا ہے۔آٹھ سال کا دھینگڑا۔ اس کے باوا حاجی مقصود الٰہی پنجابی سوداگران دلّی نے بہتیرا بہلایا پھسلایا کہ بیٹا! مسلمان ڈرا نہیں کرتے۔ تکلیف ذرا نہیں ہو گی۔ مگر لونڈا بضد تھا کہ پہلے آپ! آپ کے تو داڑھی بھی ہے۔
بشارت کا چہرا غصّے سے سرخ ہو گیا۔
ایک اور سچ بزورِ چابک اس سے بلوایا گیا کہ اس کا اصل نام بدھن ہے۔ اس کے میٹرک پاس بیٹے کو اس کے نام اور کام دونوں پر سخت اعتراض تھا۔ بار بار خودکشی کی دھمکی دیتا تھا۔ اس نے بہتیرا سمجھایا کہ بیٹا بزرگوں کے نام ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ نام میں کیا دھرا ہے۔ جھنجھلا کے بولا۔“ ابا جی! یہ بات تو شیخ پئیر (شیکسپئیر) نے کہی تھی۔ پر اس کے باپ کا نام بدھن تھوڑا ہی تھا۔ وہ کیا جانے۔ تم اور کچھ نہیں بدل سکتے تو کم از کم نام تو بدل لو“۔ چنانچہ جب کچھ دن اس نے ایسٹرن فیڈرل انشورنس کمپنی میں چپراسی کی ملازمت کی تو اپنا نام مرزا وحید الزمان بیگ لکھوا دیا۔ بس اسی زمانے سے چلا آرہا تھا۔ دراصل یہ اس افسر کا نام تھا جس کی وہ بیس سال پہلے حجامت بنایا کرتا تھا۔ وہ لاولد مرا۔ رشوت سے بنائی ہوئی جائداد پر بھتیجوں بھانجوں نے اور نام پر اب اس نے قبضہ کر لیا۔
اب جو کمبخت سچ بولنے پر آیا تو بولتا ہی چلا گیا۔ مرزا عبدالودود بیگ کا قول ہے کہ فی زمانہ 100فیصد سچ بول کر زندگی کرنا ایسا ہی ہے جیسے بجری ملائے بغیر، صرف سیمنٹ سے مکان بنانا۔ کہنے لگا“ قصور معاف! اب میں سارا سچ ایک ہی قسط میں بول دینا چاہتا ہوں۔ میرا خاندان غیرت دار ہے۔ اللہ کا شکر ہے، ذات کا سائیس نہیں۔ سو سال سے بزرگوں کا پیشہ حجّامی ہے۔ ماشااللہ سے دس بارہ کھانے والے ہیں۔ سرکار کے علم میں ہے کہ ایک گھوڑے پر جتنا خرچ آتا ہے، اس کی آدھی تنخواہ مجھے ملتی ہے۔ ستّر روپے سے کس کس کے ناک میں دھونی دوں۔ ہار جھک مار کر یہ پرائویٹ پریکٹس کرنی پڑتی ہے۔ برسوں اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کے بڑے لڑکے کو میٹرک پاس کروایا۔ علیم الّدین صاحب کے بال بیس برس سے کاٹ رہا ہوں۔ سر پہ تو اب کچھ رہا نہیں۔ بس بھنویں بنا دیتا ہوں۔ سرکار! اس فن کے قدردان سب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اب تو بالبر (باربر) اس طرح بال اتاریں گویا کہ بھیڑ کو مونڈ رہے ہوں۔ میری نظر موٹی ہو گئی ہے، مگر آج بھی پیر کے انگوٹھے کے ناخن نہرنی روکے بغیر ایک ہی دفعہ میں تراش لیتا ہوں۔ تو علیم الدّین صاحب کے ہاتھ پیر جوڑ کے لونڈے کو مسلم کمرشل بینک میں کلرک لگوا دیا۔ اب وہ کہتا ہے مجھے تمہارے نائی ہونے سے شرم آتی ہے۔ پیشہ بدلو۔ سرکار میرے باپ دادا نائی تھے، نواب نہیں۔ محنت مشقت سے حق حلال کی روٹی کماتا ہوں۔ پر صاب جی، میں نے دیکھا ہے کہ جن کاموں میں محنت زیادہ پڑتی ہے، لوگ انہیں نیچ اور ذلیل سمجھتے ہیں۔ بیٹا کہتا ہے کہ میرے ساتھ کے سب لڑکے اکاؤنٹینٹ ہوگئے۔ تجوری کی چابیاں بجاتے پھرتے ہیں۔ فقط ولدیت کے چکر میں میری ترقی رکی ہوئی ہے۔ اگر تم نے نائی کا دھندا نہیں چھوڑا تو تمہارے ہی استرے سے اپنا گلا کاٹ لوں گا۔ کبھی کبھی اپنی ماں کو ڈرانے کے لیے رات گئے نرخرے سے ایسی آوازیں نکالنے لگا جیسے بکرا ذبح ہو رہا ہو۔ وہ نیک بخت مجھے خدا رسول کے واسطے دینے لگی۔ مجبور ہو کر میں نے کوچوانی شروع کر دی۔ یہ پرائیویٹ پریکٹس اس سے لُک چھُپ کے کرتا ہوں۔ اس کی بے عزتی کے ڈر سے پیٹی، اوزار، کسبت وغیرہ کبھی گھر نہیں لے جاتا۔ یقین جانیے، اسی وجہ سے اپنے ہیر ڈریسنگ سیلون کے سائن بورڈ پہ حضور کا نام پتا لکھوا دیا۔ بڑی برکت ہے آپ کے نام میں۔ قصور معاف!“
 

رضوان

محفلین
الٰہ دین بے چراغ
وہ ہاتھ جوڑ کر زمین پر بیٹھ گیا اور پھر ہل ہل کے انکے گھٹنے دبانے لگا۔ جیسے ہی وہ پسیجے، اس نے ایک اور سچ بولا۔ کہنے لگا کہ سرکار کے چہرے پر روزانہ صبح کٹ دیکھ کر اسکا دل خون ہو جاتا ہے۔ دیسی بلیڈ بال کم اور کھال زیادہ اتارتا ہے۔ کھونٹیاں رہ جاتی ہیں۔ قصور معاف! قلمیں بھی اونچی نیچی۔ جیسے نو بج کر بیس منٹ ہوئے ہوں۔ اس نے درخواست کی کہ اسے گھوڑے کا کھریرا کرنے سے پہلے ان کا شیو بنانے کی اجازت دی جائے۔ مزید خدمات یہ کہ بچوں کے بال کاٹے گا۔ بہاری کباب، بمبیا بریانی، مرغ کا قورمہ اور شاہی ٹکڑے لاجواب بناتا ہے۔ اور دیگ کا حلیم اور ڈھبریوں کی فیرنی ایسی کہ انگلیاں چاٹتے رہ جائیں۔ سو ڈیڑھ سو آدمیوں کی دعوت کے لیے تین گھنٹے میں پلاؤ زردہ بنا سکتا ہے۔ بشارت چٹورے آدمی ٹھہرے۔ یوں بھی انگریزی محاورے کے مطابق، مرد کے دل تک پہنچنے کا راستہ معدے سے ہو کر گزرتا ہے۔ کارل مارکس بھی یہی کہتا ہے:
ہر رہ جو ادھر کو جاتی ہے، معدے سے گزر کر جاتی ہے​
انہیں یہ حجام اچھا لگنے لگا۔
اس نے یہ بھی کہا کہ گھوڑے کے کھریرے کے بعد وہ ان کے والد کے پیر دبائے گا۔اور رات کو ان (بشارت) کا مساج کرے گا۔ گردن کے پیچھے جہاں سے ریڑھ کی ہڈی شروع ہوتی ہے، ایک رگ ایسی ہے کہ نرم گرم انگلیوں سے ہولے ہولے دبائی جائے تو سارے جسم کی تھکن اتر جاتی ہے۔ یہ آنکھ کو نظر نہیں آتی۔ اس کے استاد مرحوم لڈّن میاں کہا کرتے تھے کہ مالشیا اپنی انگلی کی پور سے ریکھتا ہے۔ یہی اس کی دوربین ہے جو چھوتے ہی بتا دیتی ہے کہ درد کہاں ہے۔ پھر اس نے بشارت کو لالچ دیا کہ جب روغنِ بادام سے سر کی مالش کرے گا اور انگوٹھے سے ہولے ہولے کنپٹیاں دبانے کے بعد، دونوں ہاتھوں کو سر پر پرندے کے بازوؤں کی طرح پھڑپھڑائے گا تو یوں محسوس ہو گا جیسے بادلوں سے نیند کی پریاں پرے باندھے روئی کے پہل در پہل گالوں پر ہولے ہولے اتر رہی ہیں۔ ہولے ہولے، ہولے ہولے۔
بشارت دن بھر کے تھکے ہارے تھے۔ اس کی باتوں ہی سے آنکھیں آپ ہی آپ بند ہونے لگیں۔
اور آخری ناک آؤٹ وار اس ظالم نے یہ کیا کہ“ ماشے اللہ سے ننھے میاں تین مہینے کے ہونے کو آئے۔ ختنے جتی کم عمری میں ہو جائیں، وتّی ہی جلدی کھرنڈ آئے گا“
اب تو چہرے کا گلاب کھل اٹھا۔ بولے“ بھئی خلیفہ جی! تم نے پہلے کیوں نہ بتایا۔ اماں حد کر دی! بھئی تم تو چھپے رستم نکلے!“
تِس پر اس نے اپنی جیب سے وہ نعل نکال کر دکھائی جو اسے رستم کا گھوڑا بننے پر انعام میں ملی تھی۔
مرزا وحید الزّمان بیگ اس دن سے خلیفہ کہلائے جانے لگے۔ ویسے یہ الٰہ دین نہم تھا۔ کام کم، ڈینگیں بہت مارتا تھا۔ مرزا عبد الودود بیگ اسے الٰہ دین بے چراغ کہتے تھے۔ بزرگوار نے اس کو الٰہ دین کے بجائے خلیفہ کہنا اس شرط پر منظور کیا کہ آئندہ اس کی جگہ کوئی اور کوچوان یا ملازم رکھا جائے گا تو اسے بھی خلیفہ ہی کہیں گے۔
 

رضوان

محفلین
گھوڑے کے آگے بین
رفتہ رفتہ مولانا، خلیفہ، گھوڑا اور بزرگوار ------ باعتبارِ اہمیت، اسی ترتیب سے خاندان کے فرد گردانے گئے اور یہ ادغام و اختلاط اتنا مکمل تھا کہ گھوڑے کی لنگڑی تانگ بھی کنبے کا اٹوٹ انگ بن گئی۔ گھوڑے کے طفیل گھر کے معاملات میں بزرگوار کا دوبارہ عمل دخل ہو گیا۔ عمل دخل ہم نے محاورتاً کہہ دیا، ورنہ سراسر دخل ہی دخل تھا۔ ایک عمر ایسی آتی ہے جب انسان دوسروں کے معاملات میں دخل دینے ہی کو اپنا عمل شمار کرنے لگتا ہے۔ نعض لوگ تو ساری عمر اوروں کی خطائیں گننے اور ان کی حماقتوں کی اصلاح یعنی دخل در نا معقولات میں گزار دیتے ہیں۔ اپنے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی
ع
محشر میں گئے شیخ تو اعمال ندارد
جس مال کے تھے تاجر وہی مال ندارد​
سب گھر والے فرداً فرداً بلبن کو چمکارتے، تھپتھپاتے۔ دانہ چارا تو غالبا اب بھی اتنا ہی کھاتا ہوگا۔ پیار کی نظر سے اس کی ایال اور جلد ایسی چمکیلی اور چکنی ہوگئی کہ نگائیں اور مکھیاں پھسلیں۔ بچّے چھپ چھپ کر اپنے حصے کی مٹھائی کھلانے آتے اور اسی کی طرح کان ہلانے کی کوشش کرتے۔ کچھ بچے اب فٹ بال کو آگے کک کرنے کی بجائے ایڑی سے دولتی مار کر پیچھے کی طرف گول کرنے لگے تھے۔ بیت بازی کے مقابلے میں جب کسی لڑکے کا گولہ بارود ختم ہو جاتا یا کوئی غلط شعر پڑھ دیتا تو مخالف ٹیم اور سامعین مل کر ہنہناتے۔ خود بزرگوار کوئی اچھی بری خبر سنتے یا سورج کے سامنے بادل کا کوئی اودا ٹکڑا آجاتا تو فوراً گھوڑے کو ہارمونیم سنانے بیٹھ جاتے۔ اکثر فرماتے کہ جب واقعی اچھا بجاتا ہوں تو یہ بے اختیار اپنی دُم چنور کی طرح ہلانے لگتا ہے۔ ہمیں ان کے دعوے کی صداقت میں نہ جب شبہ تھا ، نہ اب ہے۔ حیرت اس پر ہے کہ کہ انھوں نے کبھی غور نہیں فرمایا کہ گھوڑا ان کے کمالِ فن کی داد کس عضو سے دے رہا ہے!
بلبن بزرگوار کا کھلونا، اولاد کا نعم البدل، مونسِ تنہائی، آنسوؤں سے بھیگا تکیہ------ سبھی کچھ تھا۔ اس کے آنے سے پہلے وہ تمام وقت اپنی زنگ خوردہ چول پر اَن گھڑ کواڑ کی طرح کراہتے رہتے، خواہ درد ہو یا نہ ہو۔ اگر ان کے سامنے کوئی دوسرا بوجھ اٹھاتا تو منھ سے ایسی آوازیں نکالتے گویا خود بھی بوجھوں مر رہے ہیں۔ کوئی پوچھتا، کہ طبیعت کیسی ہے تو جواب میں دائیں ہاتھ کو آسمان کی طرف اٹھا کر نفی میں ڈگڈگی کی طرح ہلاتے اور دو تین منٹ تک سُر بدل بدل کر کھانستے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنی بیماری کو “ انجوائے “ کرنے لگے ہیں۔ بعض کہنہ مشق مریض یہ تسلیم کرنے میں اپنے مرتبہ علالت کی توہین سمجھتے ہیں کہ اب تکلیف میں افاقہ ہے۔ بزرگوار بڑی زبردست قوتِ ارادی کے مالک تھے۔ اگر کبھی مرض دور ہو جاتا تو محض اپنی قوتِ ارادی کے زور سے دوبارہ پیدا کرلیتے۔ آپ نے انھیں نہیں دیکھا، مگر ان جیسے دائم المرض بزرگ ضرور دیکھے ہوں گے جو اپنی پالی پوسی بیماریوں کا حال اس طرح سناتے ہیں جیسے ننانوے پر آؤٹ ہونے والا بیٹس مین اپنی ادھوری سنچری اور دیہات کی عورتیں اپنی زچگیوں کے قصے سناتی ہیں۔ مطلب یہ کہ ہر دفعہ نئی کمنٹری اور نئے پچھتاوے کے ساتھ۔ بلبن کے آنے سے پہلے طبیعت بے حد چڑ چڑی رہنے لگی تھی۔ لوگ عیادت سے احتراز کرنے لگے۔ سب نے انکو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ کسی کی جرات نہیں تھی کہ ان کے لطفِ علالت میں مخل ہو۔
لیکن اب طبیعت میں اعتدال بلکہ انشراح پیدا ہوچکا تھا۔ ہر ایک کو اپنے امراض کی تازہ ترین کیفیت سے آگاہی بخشتے۔ ذات الجنب، وجع المفاصل اور احتباسِ بول کی تفصیلات بتاتے۔ پیٹ پر ہاتھ پھیر پھیر کر نفخ اور آنتوں کی قراقر کا حال، متعلقہ صوتی اثرات کے ساتھ سناتے۔ رات کو خواب میں جن جن محلہ والوں کو مُردہ حالت میں دیکھا تھا، ان کے نام گنواتے اور باز آنے اور بکرا صدقہ دینے کی تلقین کرتے۔ کبھی فرماتے کہ تین دن سے بلغم میں اس قدر لزوجت ہے کہ سر کو دس بارہ دفعہ زور زور سے جھٹکا دوں تب کہیں ٹوٹ کر اگالدان میں گرتا ہے۔ ان دنوں بہار کالونی میں جاہل سے جاہل شخص کو----- حتٰی کہ مہترانی اور پروفیسر عبدالقدوس کو بھی----- لزوجت × کے معنی مع مثال معلوم ہوگئے تھے۔ مرزا کہتے تھے کہ قبلہ کے امراض کے جراثیم عربی بولتے ہیں۔ انگریزی دواؤں کے قابو میں نہیں آنے کے۔


-----------------------------------------------------------------
×لزوجت: پروفیسر قاضی عبدالقدوس ایم اے، بی ٹی کے شعور لا شعور میں یہ لفظ ایسا بیٹھا کہ کئی سال بعد اسے اپنے تھیسس کا موضوع بنایا “ ملٹن ، جوش، ابوالکلام آزاد، علامہ مشّرقی، آغا حشر کاشمیری، عبدلعزیز خالد اور مشتاق احمد یوسفی کے یہاں لزوجت کا عنصر “ ان مشاہیر کو ہمارے ساتھ بریکٹ کرنے میں پروفیسر موصوف کا منشا ہماری توقیر بڑھانا ہر گز نہ تھا۔ غزالوں کو اس عاجز کے ساتھ three - legged race ریس میں نتھی کر کے انہیں رگیدنا اور ہمیں کھدیڑنا مقصود تھا۔ سنا ہے اس تھیسس کی آؤٹ لائن کو پروفیسروں نے اس بنا پر رد کر دیا کہ ایک پتھر سے اتی ساری چڑیاں نہیں ماری جاسکتیں! اب انہیں کون سمجھاتا کہ پروفیسر عبدلقدوس تیر ، تفنگ اور پتھر کے محتاج نہیں۔
کیوں وہ صیاد کسی صید پر توسن ڈالے
صید جب خود ہی چلے آتے ہوں گردن ڈالے​
 

رضوان

محفلین
نشہ بڑھتا ہے شرابی جو شرابی سے ملیں
ان کے ایک پرانے وضع دار دوست فدا حسین خاں تائب جمعے کے جمعے مزاج پُرسی کو آتے تھے۔ کسی زمانے میں بڑے یار باش اور رنگین مزاج ہوا کرتے تھے۔ چوری چھُپے پیتے بھی تھے، مگر مفت کی۔ گناہ سمجھ کر چوری چھپے پینے میں فائدہ یہ ہے کہ ایک پیگ میں سو بوتلوں کا نشہ چڑھ جاتا ہے۔ لیکن ایک منحوس عادت تھی۔ جب بہت زیادہ چڑھ جاتی تو سب موضوعات چھوڑ کر صرف اسلام پر گفتگو فرماتے۔ اس پر تین جار مرتبہ شرابیوں سے پٹ بھی چکے تھے۔ وہ کہتے تھے ہمارا نشہ خراب کرتے ہو۔ لیکن شیخ حمیدالدین جن کے ساتھ تائب پیتے تھے، ان کے انتخابِ موضوع پر اعتراض نہیں کرتے تھے۔ شیخ صاحب بڑے اھتمام سے پیتے اور یاروں کو پلاتے تھے۔ عمدہ وہسکی۔ چیکوسلواکیہ کے کرسٹل گلاس، تیز مرچوں کی بھُنی کلیجی اور کباب، ریاض خیرآبادی کے اشعار----- اور ایک تولیے سے مے نوشی کا آغاز ہوتا۔ تائب کو جیسے ہی چڑھتی، اپنی پہلی بیوی کویاد کر کر کے بھُوں بھُوں روتے اور تولیے سے آنسو پونچھتے جاتے۔ کبھی لمبا ناغہ ہوجاتا تو شراب پر فقط اس لیے ٹوٹ کر پڑتے کہ
اک عمر سے ہوں لزتِ گریہ سے بھی محروم​
کبھی نشہ زیادہ چڑھ جاتا اور گھر یا محلّے میں جا کر چاندنی رات میں مرحومہ کو یاد کر کے دھاڑیں مارتے تو موجودہ بیوی اور محلّے والے مل کر ان کے سر پر بھشتی سے ایک مَشک چھڑوادیتے تھے۔ ایک مرتبہ جنوری میں ٹھنڈی برف مَشک سے انھیں زکام ہو گیا جس نے بعد میں نمونیے کی شکل اختیار کرلی۔ اس واقعے کے بعد بیوی انکو تُرکی ٹوپی اُڑھا کر مَشک چھڑواتی تھی۔
 

رضوان

محفلین
فدا حسین خاں تائب
فدا حسین خاں تائب کی عمر یہی کوئی ساٹھ کے لگ بھگ ہوگی۔ لیکن تاکنے جھاکنے کا لپکا نہیں گیا تھا۔ بقول شخصے، جس نظر سے وہ پرائی بہو بیٹیوں کو دیکھتے تھے، اس نظر کے لیے ان کی اپنی بیوی ایک عمر سے ترس رہی تھی۔ تیسرے بچے کے بعد ان کی شوہرانہ توجہات میں فرق آگیا تھا کہ ہمارے ہاں گرہستی محبت کے لیے بچے اسپیڈ بریکرس (رفتار شکن ) کا کام دیتے ہیں۔ طبع آزاد نے ایک بیوی پر توکل نہ کیا۔ مدتوں زنانِ زودِ یاب میں نروان ڈھونڈا کیے۔ جب تک بد رای ہونے کی استطاعت رہی، تنگنائے نکاح سے نکل نکل کر شبِ خون مارتے رہے۔ ادھر بے زبان بیوی یہ سمجھ کر سب کچھ انگیز کرتی رہی کہ
کچھ اور وسعت چاہیے مرے میاں کے لیے​
لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ موصوف نے کیا سمجھ کے تائب تخلص اختیار کیا۔ کون سا عیب ہے جو اُن میں نہیں۔ آخر کس چیز سے تائب ہوئے ہیں؟ پھر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے کہ شاید اشارہ نیکیوں کی طرف ہو۔
تائب کسی زمانے میں ایک کوآپریٹو بینک میں ملازمت اور شاعری کرتے تھے۔ اعداد و شمار کے ساتھ بھی شاعری کرنے کی کوشش کی اور غبن کے الزام میں نکالے گئے۔ شاعری اب بھی کرتے تھے، مگر سال میں صرف ایک بار۔ پچاسویں سالگرہ کے بعد یہ وتیرہ بنا لیا کہ ہر سال یکم جنوری کو اپنا قطعہ تاریخِ وفات کہہ کر رکھ لیتے جو بارہ تیرہ سال سے شرمندہ تعبیر ہونے سے محروم تھا۔ کلام میں صفائیِ بیان، سلاست، بندش کی چستی، خیال آفرینی اور نحوست کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ دورانِ سال کسی دوست یا واقف کار کا انتقال ہو جاتا تو اس کا نام کسی مصعے میں ٹھونس کر اپنا قطعہ اسے بخش دیتے۔
×"Thy need is yet greater then mine"
کلام میں آمد تھی نہ آورد--- بس مرحومین کی آمدو رفت تھی۔ بزرگوار ان کے کلام کی داد ایک عجیب انداز سے دیتے جس کی نقل اتاری جاسکتی ہے، بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں مارے باندھے کی رسمی داد، مجلسی شائستگی، دانستہ طنز اور بے ساختہ ہنسی کی بحصہ غیر مساوی آمیزش ہوتی تھی۔ ہنسی ایسی کہ دور سے کوئی سنے تو طے نہ کرسکے کہ ہنس رہے ہیں یا رو رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ زارو قطار ہنستے تھے۔
نام کی تبدیلی کے سبب بہت سے قطعات میں سکتہ پڑنےلگتا جسے وہ ضرورتِ شعری اور تقاضائے موت کے تحت روا سمجھتے تھے۔ بعض لبِ گور دوست محض ان کے قطعے کے خوف سے مرنے سے گریز کر رہے تھے۔ بزرگوار کو تائب صاحب کا آنا بھی ناگوار گزرنے لگا۔ ایک دن کہنے لگے، یہ منحوس کیوں منڈلاتا رہوے ہے؟ میں تو جانو اس کی نیت مجھ پہ خراب ہو رہی ہے۔ اسسال کا قطعہ میرے سر ، گویا کہ میرے سرھانے چیپکنا چاھتا ہے۔ پھر بطور خاص وصیت فرمائی کہ اول تو میں ایسا ہونے نہیں دوں گا، لیکن بالفرضِ محال ، بالفرضِ محال فدا حسین تائب سے پہلے مرجاؤں، گو کہ میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دوں گا----- تو اس کا قطعہ میری پائینتی لگانا۔ جن قبروں کے کتبوں پر یہ قطعات مع مرحومین کے ناموں اور پھر ان کے اپنے تخلص ،تائب، کے کندہ تھے، ان سے یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ درحقیقت قبر میں دفن کون ہے۔ یا بقول پروفیسر قاضی عبدالقدوس ، انتقال اہلِ قبر کا ہوا ہے یا شاعر کا۔ بعض لوگ یہ کتبے دیکھ کر تعجب کرتے کہ ایک ہی شاعر کو بار بار کیوں درگور کیا گیا۔ لیکن جب کلام پر نگاہ کرتے تو کہتے ٹھیک ہی کیا۔ کسی شاعر ہی نے کہا ہے کہ “ اے بسا شاعر کہ بعد از مرگ زاد“ مطلب یہ کہ بہت سے شاعر ایسے ہوتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔ شاعر مر جاتا ہے، مگر کلام باقی رہ جاتا ہے۔ اردو شاعری کو یہی چیز لے ڈوبی۔

--------------------------------------------------------------------
× سر فلپ سڈنی زتفن کے میدانِ جنگ ( 1586 ) میں زخمی حالت میں اپنی موت سے ذرا دیر پہلے پانی کی چھاگل ایک دم توڑتے ہوئے سپاہی کو دیتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے جو امر ہو گئے۔
 

رضوان

محفلین
محفلِ سماع خراشی
یوں کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا کہ بزرگوار مرنے کی دھمکی نہ دیتے ہوں۔ جنرل شیر علی کی طرح قبرستان میں ایک قطعہ زمین خرید کر اپنا پختہ مزر بنوالیا تھا جو کافی عرصے سے بے آباد پڑا تھا کہ قبضہ لینے سے ہنوز کتراتے تھے۔ اکثر خود پر عالمِ یاس طاری کر کے یہ شعر پڑھتے:
دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے اُٹھ جاؤں گا
دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے​
شعر میں اپنی چٹ پٹ موت پر زبان کا کھیل دکھلایا گیا ہے۔ تذکیر و تانیث کی اُلٹ پلٹ سے، یعنی دیکھتے ہی دیکھتے اور دیکھتی کی دیکھتی سے بیک وقت نزاکتِ زبان ونزع اور لذّتِ تجنیس دکھانی مقصود ہے۔ اس سے تو بقول مرزا عبدالودود بیگ یہی پتہ چلتا ہے کہ بزرگوار کی موت زبان کے چٹخارے سے واقع ہوئی۔ گویا زبان سے اپنی قبر کھودی۔ تاہم حق مغفرت کرے عجب پابندِ محاورہ و روزمرہ مرد تھا۔

جس دن سے گھوڑا بزرگوار کی محفلِ سماع خراشی میں شریک ہونے لگا، انھوں نے اپنی پرانی کمخواب کی اچکن اُدھڑوا کر ہارمونیم کا غلاف بنوالیا۔ خلیفہ دھونکنی سنبھالتا اور وہ کانپتی لرزتی انگلیوں سے ہارمونیم بجانے لگتے۔ کبھی بہت جوش میں آتے تو منہ سے بے اختیار گانے کے بول نکل جاتے۔ یہ فیصلہ کرنا ذرا مشکل تھا کہ ان کی آواز زیادہ کپکپاتی ہے یا انگلیاں۔جیسے ہی انترا سانس جھکولے کھانے لگتا، انکے پڑوسی چودھری کرم الٰہی، ریٹائرڈ ایکسائز انسپکٹر ٹلکتے ہوئے آ نکلتے۔ عرصہ ہوا، گلا کوما ( کالا پانی )
سے ان کی دونوں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی تھی۔ انھوں نے بطورِ خاص گجرات سے ایک گھڑا منگوا کر اس کی شوخ شنگرفی زمین پر ہالہ ( سندھ ) ٹائلز کے نقوش پینٹ کر والیے تھے۔ کہتے تھے اوروں کو تو نظر آتا ہے۔ وہ جب اپنی آستین چڑھا کر چوڑی کلائی پر چنبیلی کا گجرا لپیٹے گھڑے پر سنگت کرتے تو سماں باندھ دیتے۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ جب سے آنکھیں گئی ہیں مالک نے مجھ پر سُر سنگیت اور سُگند کے ان گنت بھید کھول دیے ہیں۔ گمّت ہو چکتی اور راگ خشبو بن کے سارے میں رچ بس جات تو بزرگوار فرماتے “ واہ وا! چوئی صاحب بھئی خوب بجاتے ہو۔ “ اور چودھری صاحب اپنی بے نور آنکھیں وفورِ کیف سے بند کرتے ہوئے کہتے “ لو جی تسی وی اج بڑا کمال کیتا اے“ اور واقعی یہ کمالِ فن نہیں تو اور کیا تھا کہ دونوں معذور بزرگ جب جھوم جھوم کے اپنے اپنے ساز پر بیک وقت اپنے اپنے راگ درباری اور تین تال بے تال میں ماہیا کی دھن بجا کر ایک دوسرے کی سنگت کرتے تو یہ کہنا بہت دشوار تھا کہ کون کس کا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔
 

رضوان

محفلین
کیاکیا مچی ہیں یاروبرسات کی بہاریں!
بزرگوار اپنی مفلوج ٹانگ کی پوزیشن چودھری کرم الٰہی سے بدلواتے ہوئے اکثر کہتے کہ جوانی میں ایسا ہارمونیم بجاتا تھا کہ اچھے اچھے ہارمونیم ماسٹر کان پکڑتے تھے۔ انکا یہ شوق اس دور کی یاد گار تھا جب وہ بمبئی سے آئی ہوئی تھیٹریکل کمپنی کا ایک ہی کھیل ایک مہینے تک روزانہ دیکھتے اور بقیہ گیارہ مہینے اس کے ڈائیلاگ بولتے پھرتے۔ 1925 سے وہ ہر کھیل آرکسٹرا کے Pit میں بیٹھ کر دیکھنے لگے تھے جو اس زمانے میں شوقینی اور رئیسانہ ٹھاٹ کی انتہا سمجھی جاتی تھی۔ ہارمونیم ایک کمپنی کے ریٹائر پیٹی بجانے والے سے سیکھا تھا جو پیٹی ماسٹر کہلاتا تھا۔ فرماتے تھے کہ پوروں کے جوڑوں اور انگلیوں کے رگ پٹھوں کو نرم اور رواں دواں رکھنے کے لیے میں نے مہینوں انگلیوں پر مہین روے کی سوجی کا حلوہ باندھا۔ ان کا رنگ گورا اور جلد بہت شفاف اور نازک تھی۔ اتنی لمبی بیماری کے باوجود اب بھی جاڑوں میں رخساروں پر سرخی جھلکتی تھی۔ غلافی آنکھیں بند کر لیتے تو اور خوب صورت لگتیں۔ سفید اچکن۔ بھری بھری پنڈلیوں پر پھنسا ہوا چوڑی دار۔ جوانی میں وہ بہت وجیہ اور جامہ زیب تھے۔ اپنی جوانی کا ذکر آتے ہی تڑپ اٹھتے:
اک تیر تونے مارا جگر میں کہ ہائے ہائے!​
وہ بھی کیسے ارمان بھرے دن تھے، جب ہر دن ایک نئے کنول کی مانند کھِلتا تھا۔ “ جب سائے دھانی ہوتے تھے جب دھوپ گلابی ہوتی تھی“ ان کے تصور ہی سے سانس تیز تیز چلنے لگتی۔ بیتے ہوئے روز و مہ و سال خزاں کے پتّوں کی مانند چاروں اور اُڑنے لگتے۔ ہائے! وہ استاد فیاض خاں کی وحشی بگولے کی طرح اٹھتے ہوئی الاپ۔ وہ گوہر جان کی ٹھنکتی ٹھنکارتی آواز۔ اور مختار بیگم کیسی بھری بھری آسودہ آواز میں گاتی تھی۔ اس میں ان کی اپنی جوانی تان لیتی تھی۔ پھر خوابگینے پگھلنے لگتے۔ یادوں کا دریا بہتے بہتے خواب سَراب کے آبِ گم× میں اترتا چلا جاتا۔ موٹی موتی بوندیں پڑنے لگتیں۔ زمین سے لپٹ اٹھتی اور بدن سے ایک گرم مدھ ماتی مہکار پھوٹتی۔ بارش میں بھیگے تر بہ ستر مہین کُرتے کچھ بھی تو نہ چھپا پاتے۔ پھر بادل باہر بھیتر ایسا ٹوٹ کے برستا کہ سبھی کچھ بہا کر لے جاتا:
سینے سے گھٹا اُٹھے، آنکھوں سے جھڑی برسے
پھاگن کا نہیں بادل جو چار گھڑی برسے
برکھا ہے یہ بھادوں کی، جو برسے تو بڑی برسے​
جھماجھم مینھ برستا رہتا اور وہ ہارمونیم پر دونوں ہاتھوں سے کبھی بین، کبھی استاد جھنڈے خاں کی چہچہاتی دھوم مچاتی سلامیاں بجاتے تو کہنے والے کہتے ہیں کہ کالے ناگ بلوں سے نکل کر جھومنے لگتے۔ دریچوں میں چاند نکل آتے۔ کہیں ادھورے چھڑکاؤ سے کورے پنڈے کی طرح سنسناتی چھتوں پر لڑکیاں دھنک کو دیکھ دیکھ کر اپنے لہریوں میں اتارتیں۔ اور کہیں چندن بانہوں پر سے چٹکی اور کچی چُنری کے رنگ چھٹائے نہیں چھوٹتے۔ انترے کی لے تیز ہوتی تو فضا جھن جھنن جھن گونج اٹھتی، جیسے کسی نے مستی میں آسمان اور زمین کو اٹھا کے مجیرے کیطرح ٹکرادیا ہو اور اب رگ تاروں میں جھنک جھنکار ہے کہ کسی طور تھمنے کا نام نہیں لیتی۔


----------------------------------------------------------------------
آبِ گم: اس نام کا ایک ریلوے اسٹیشن، اور بستی بھی، بلوچستان میں ہے۔ وجہِ تسمیہ کم و بیش وہی ہے۔ قواعد کی رو سے گُم شدہ ہونا چاہیے۔ حضرت ذہین شاہ تاجی مرحوم کا شعر ہے:
وہ آئینہ کہ جس میں دیکھتے تھے عکس تم اپنا
لیے بیٹھا ہے آغوش تہی میں عکسِ گُم اپنا
 

رضوان

محفلین
اخباری ٹوپی
تین چار مہینے بڑے سکون و عافیت سے گزرے- بچوں کا اسکول گرمیوں کی تعطیلات میں بند ہو گیا۔ ایک دن بشارت نے تانگا جتوایا اور کوئی دسویں دفعہ نقشہ پاس کروانے میونسپل کارپوریشن گئے۔ چلتے چلتے مولانا سے کہہ گئے کہ آج نقشہ پاس کروا کے ہی لوٹوں گا۔ بہت ہوچکی۔ دیکھتا ہوں آج باسٹرڈ کیسے پاس نہیں کرتے۔ یہ فقط گالی بھری شیخی نہیں تھی۔ اب تک وہ نظیریں اور دلائل و براہین ساتھ لے کے جاتے تھے۔ لیکن آج وہ “ سبزوں× “ سے لیس ہو کر جارہے تھے کہ شمشیرِ زر ہر گتھی اور گرہ کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ تانگا گلیوں گلیوں بڑے لمبے راستے سے لے جانا پڑا، اس لیے کہ بہت کم سڑکیں بچی تھیں جن پر تانگا چلانے کی اجازت تھی۔ تانگا اب رکشہ سے بھی پٹھیچر چیز سمجھی جانے لگی۔ لٰہزا صرف انتہائی غریب علاقوں میں چلتا تھا جو شہر میں ہوتے ہوئے بھی شہر کا حصہ نہیں تھے۔ نیرنگیِ زمانہ کیا کہیے ۔ کانپور سے یہ خواب دیکھتے ہوئے آئے تھے کہ اللہ ایک ایسا دن بھی لائے گا جب فٹن میں ٹانگوں پر اٹالین کمبل ڈال کر نکلوں گا تو لوگ ایک دوسرے سے پوچھیں گے، کس رئیس کی سواری جا رہی ہے؟ لیکن جب خواب کی تعبیر نکلی تو دنیا اتنی بدل چکی تھی کہ نہ صرف تانگہ چھپ کر نکلتا بلکہ وہ خود بھی اس میں چھُپ کر بیٹھتے۔ ان کا بس چلتا تو اٹالین کمبل سر سے پیر تک اوڑھ لپیٹ کر نکلتے کہ کوئی پہچان نہ لے۔ دن میں جب بھی تانگے میں بیٹھتے تو “ ڈان “ اخبار کے دونوں ورق اپنے چہرے اور سینے کے سامنے پھیلا کر بیٹھتے کہ ان کی لٹکی ہوئی ٹانگیں اخبار ہی کا ضمیمہ معلوم ہوتی تھیں۔ مرزا عبدلودود بیگ نے تو ایک دن کہا بھی کہ تم اخبار کی ایک ٹوپی بنوا لو جس میں اپنا منہ چھپا سکو۔ ویسی ہی جِلادی ٹوپی جیسی مجرم کو پھانسی پر لٹکانے سے پہلے پہنائی جاتی ہے۔ بلکہ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مجرم کو اخباری ٹوپی ہی پہنا کر پھانسی دینی چاہیے تاکہ اخبار والوں کو بھی تو عبرت ہو۔
-----------------------------------------------------------------------

× سبزے: سو روپے کے نوٹ، اپنے سبز رنگ کے سبب سبزے کہلاتے تھے۔ جب نوٹ کا رنگ سرخ ہوگیا تو لوگ نوٹ کو نوٹ ہی کہنے لگے۔ سُرخا کسی نے نہیں کہا۔
 

رضوان

محفلین
اسپ کی ایک جست نے۔۔۔
میونسپل کاپوریشن کی عمارت کوئی چار پانچ سو گز دور رہ گئی ہوگی کہ اچانک گلی کے موڑ سے ایک جنازہ آتا ہوا دکھائی دیا۔ خلیفہ کو ملازم رکھتے وقت انھوں نے سختی سے ہدایت کی تھی کہ گھوڑے کو بہر صورت جنازے سے دور رکھنا۔ لیکن اس وقت اس کا دھیان کہیں اور تھا اور جنازہ تھا کہ گھوڑے پر چڑھا چلا آرہا تھا۔ بشارت اخبار پھینک کر پوری طاقت سے چیخے “جنازہ! جنازہ!! خلیفہ جنازہ!!! “ یہ سنتے ہی خلیفہ نے چابک مارنے شروع کر دیے۔ گھوڑا وہیں کھڑا ہو کر ہنہنا نے لگا۔ خلیفہ اور بد حواس ہو گیا۔ بشارت نے خود لگام پکڑ کر گھوڑے کو دوسری طرف موڑنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ اڑیل ہو کر دولتیاں مارنے لگا۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ دراصل یہی وہ جگہ تھی جہاں خلیفہ گھوڑے کو باندھ کر حجامت کرنے چلاجاتا تھا۔ وہ چیخے “ ذرا طاقت سے چابک مار۔ “ ادھر خطرہ یعنی جنازہ لمحہ بہ لمحہ قریب آرہا تھا۔ ان پر اب دھشت طاری ہو گئی۔ ان کے بوکھلائے ہوئے اندازے کے مطابق جنازہ اب اسی “ رینج “ میں آگیا تھا جہاں چند ماہ بیشتر بقول اسٹیل مل کے سیٹھ کے
اسپ کی ایک جست نے طے کردیا قصہ تمام​
وہ خود اس وقت گھوڑے سے بھی زیادہ بدکے ہوئے تھے، اس لیے کہ گھوڑے کے پیٹ پر لات مارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کی ہنہناہٹ ان کی چیخوں میں دب گئی۔ گھوڑے کے اس پار خلیفہ دیوانہ وار چابک چلا رہا تھا۔ چابک زور سے پڑتا تو گھوڑا پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو ہو جاتا۔ خلیفہ نے غصے سے بے قابو ہو کر دو مرتبہ اسے “ تیرا دھنی مرے! “ کی گالی دی تو بشارت سناٹے میں آگئے۔ لیکن سرِ دست وہ گھوڑے کو قابو میں لانا چاہ رہے تھے۔ خلیفہ کو ڈانٹنے لگے “ ابے کیا ڈھیلے ڈھیلے ہاتھوں سے مار رہا ہے، خلیفے!“
یہ سننا تھا کہ خلیفہ فاسٹ بولر کی طرح سٹارٹ لے کر دوڑتا ہوا آیا اور دانت کچکچا تے ہوئے، آنکھیں بند کر کے پوری طاقت سے چابک مارا، جس کا آخری سرا بشارت کے منہ اور آنکھ پر پڑا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے تیزاب سے لکیر کھینچ دی ہے۔ فرماتے تھے “ یہ کہنا تو under statment ( کسربیانی ) ہوگا کہ آنکھوں تلے اندھیرا چھاگیا۔ مجھے تو ایسا لگا جیسے دونوں آنکھوں کا فیوز اڑ گیا ہو۔“ خلیفہ سے خلیفے، خلیفے سے ابے اور ابے سے الّو کے پٹّھے تک کی تمام منزلیں ایک ہی چابک میں طے ہوگئیں۔ عالِم وحشت میں وہ خلیفہ تک کیسے پہنچے، گھوڑے کو پھلانگ کر گئے یا ٹانگوں کے نیچے سے، یاد نہیں۔ خلیفہ کے ہاتھ سے چابک چھین کر دو تین اسی کو رسید کیے۔ اس نے اپنی چیخوں سے گھوڑے کو سر پر اٹھا لیا۔
ایک آنکھ میں اتنی سوزش تھی کہ اس کے اثر سے دوسری بھی بند ہوگئی۔ اور وہ بند آنکھوں سے گھوڑے پر چابک چلاتے رہے۔ کچھ دیر بعد دفعتاً احساس ہوا کہ چابک کو روکنے کے لیے سامنے کچھ نہیں ہے۔ زخمی آنکھ پر ہاتھ رکھ کر بائیں کھولی تو نقشہ ہی کچھ اور تھا۔ جنازہ بیچ سڑک پر اریب ( diagonal ) رکھا تھا۔ تانگا بگٹٹ جارہا تھا۔ کندھا دینے والے غائب۔ خلیفہ لاپتا۔ البتہ ایک سوگوار بزرگ جو زرد املتاس کے پیڑ سے لٹکے ہوئے تھے گھوڑے کے شجرہ نسب میں پدری حیثیت سے داخل ہونے اور اپنا وظیفہ زوجیت حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کر رہے تھے۔
چند منٹ بعد لوگوں نے اپنی اپنی گھُڑ پناہ سے نکل کر انہیں نرغے میں لے لیا۔ جسے دیکھو اپنی ہی دھائیں دھائیں کر رہا ہے، ان کی سننے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ طرح طرح کی آوازیں اور آوازے سنائی دیے:
“اس پر سالے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں!“
“گھوڑے کو شوٹ کر دینا چاہیے“
“گھوڑے کو نہیں مالک کو“
“تھانے لے چلو۔“
( بشارت کی ٹائی پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے) “ ہماری میت کی بے حرمتی ہوئی ہے “ “ اسکا منھ کالا کر کے اسی گھوڑے پہ جلوس نکالو“
بشارت نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ وہ بلبن کو انجکشن سے ہلاک کروادیں گے۔
گھر آکے انھوں نے بلبن کو چابک سے اتنا مارا کہ محلّے والے جمع ہو گئے۔
اس رات وہ اور بلبن دونوں نہ سوسکے۔ اس سے پہلے انہوں نے نوٹس نہیں کیا تھا کہ خلیفہ نے چابک میں بجلی کا تار باندھ رکھا ہے۔
 

رضوان

محفلین
بلبن کو سزائے موت
صبح انھوں نے خلیفہ کو برخواست کردیا۔ وہ پیٹی بغل میں مار کے جانے لگا تو ہاتھ جوڑ کے بولا “بچوں کی قسم ! گھوڑا بالکل بے قصور تھا۔ وہ تو چپکا کھڑا تھا۔ آپ ناحق پٹوا رہے تھے- اتنی مار کھا کے تو مردہ گھوڑا بھی اُٹھ کے سرپٹ دوڑنے لگتا۔ السلام علیکم (لوٹ کر آتے ہوئے) قصور معاف! حجامت بنابے جمعے کو کس وقت آؤں؟“
ایک دوست نے رائے دی کہ گھوڑے کو “ویٹ“ سے انجکشن نہ لگواؤ۔ جانور بے انتہا اذیت اٹھا کے تڑپ تڑپ کے مرتا ہے۔ میں نے اپنے السیشن کتّے کو اسپتال میں انجکشن سے مرتے دیکھا تو دودن تک ٹھیک سے کھانا نہ کھا سکا۔ وہ میرے کڑے وقتوں کا ساتھی تھا۔ مجھے بڑی بے بسی سے دیکھ رہا تھا۔ میں اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہا۔ یہ بڑا بدنصیب، بڑا دکھی گھوڑا ہے۔ اس نے اپنی معذوری اور تکلیف کے باوجود تمھاری، تمھارے بچوں کی بڑی خدمت کی ہے۔
اسی دوست نے کسی شخص کو فون کر کے بلبن کو گولی مارنے کا انتظام کر دیا۔
بلبن کو ٹھکانے لگوانے کا کام مولانا کرامت حسین کے سپرد ہوا۔ وہ بہت الجھے۔ بڑی منطق چھانٹی۔ کہنے لگے، پالتو جانور، خدمتی جانور، جانور نہیں رہتا۔ وہ تو بیٹا بیٹی کی طرح ہوتا ہے۔ بشارت نے جواب دیا، آپ کو معلوم ہے گھوڑے کی عمر کتنی ہوتی ہے؟ اس لنگڑ دین کو آٹھ نو سال تک کھڑا کون کھلائے گا؟ میں نے تمام عمر اسے ٹھسانے، زندہ رکھنے کا ٹھیکا تو نہیں لیا۔ مولانہ اپنی ماتحتانہ حیثیت بھول کر یکایک جلال میں آگئے۔ زمین کے قضیے کا رخ آسمان کی طرف موڑتے ہوئے کہنے لگے کہ انسان کی یہ طاقت، یہ مجال کہاں کہ کسی کو روزی دے سکے۔ رازق تو وہی ہے جو پتھر کے کیڑے کو بھی رزق دیتا ہے۔ جو بندہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی کو رزق دیتا ہے، وہ درحقیقت خدائی کا دعوے دار ہے، ہر ذی روح اپنا رزق اپنے ساتھ لاتا ہے۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ وہ ہر حال میں، ہر صورت میں رزق دیتا ہے۔
“ بےشک! بےشک! رشوت کی صورت میں بھی!“ بشارت کے منھ سے نکل گیا۔ فقرہ ترازو ہو گیا۔ مولانا ہی نہیں خود بشارت بھی دھک سے رہ گئے کہ کیا کہہ دیا۔ جس کمینے، انتقامی فقرے کو آدمی برسوں سینے میں دبائے رکھتا ہے، وہ ایک نہ ایک دن اچھل کر اچانک منہ پر آ ہی جاتا ہے۔ پتّی باندھنے سے کہیں دل کی پھانس نکلا کرتی ہے۔ اور جب تک وہ نکل نہ جائے آرام نہیں آتا۔

وہ جو قرض اک تھا زبان پر، وہ حساب آج چکادیا​
مولانا صبح تڑکے بلبن کو لینے آگئے۔ گیارہ بجے اسے نارتھ ناظم آباد کی پہاڑیوں کی تلیٹی میں گولی ماری جانے والی تھی۔
بشارت ناشتے پر بیٹھے تو ایسا محسوس ہوا جیسے حلق میں پھندالگ گیا ہو۔ آج انھوں نے بلبن کی صورت نہیں دیکھی۔ “گولی تو ‌ظاہر ہے پیشانی پر مارتے ہوں گے۔“ انھوں نے سوچا بائیں آنکھ کی بھونری واقعی منحوس نکلی۔ جان لے کر رہے گی۔ مولانا کو انھوں نے رات ہی کو ہدایت کردی تھی کہ لاش کو اپنے سامنے ہی گڑھے میں دفن کرادیں۔ جنگل میں چیل کوؤں کے لیے پڑی نہ چھوڑیں۔ انھیں جھرجھری آئی اور وہ کباب پراٹھا کھائے بغیر اپنی دکان روانہ ہو گئے۔ راستے میں انھوں نے اس کا ساز اور روہڑ کا وہ خون آلود پیڈ پڑا دیکھا جو اس کی زخمی گردن پر باندھا جاتا تھا۔ ایسا لگا جیسے انھیں کچھ ہو رہا ہے۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے نکل گئے۔
بزرگوار کو اصل صورتِ احوال سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ انھیں صرف یہ بتایا گیا کہ بلبن دو ڈھائی مہینے کے لیےچَرائی پر پنجاب جارہا ہے۔ وہ کہنے لگے “گائے بھینسوں کو تو چرائی پر جاتے سنا تھا، مگر گھوڑے کو گھانس کھانے کے واسطے کرانچی سے صوبہ پنجاب جاتے آج ہی سنا! کرانچی سے تو صرف سیٹھ اور لکھ پتی سیزن کے سیزن چَرائی پر کوہ مری جاویں ہیں۔“ یہ ان سے الجھنے کا موقع نہیں تھا۔ ان کا بلڈ پریشر پہلے ہی بہت بڑھا ہوا تھا۔ انھیں کسی زمانے میں اپنی طاقت اور کسرتئ بدن پر بڑا ناز تھا۔ اب بھی بڑے فخر سے کہتے تھے کہ میرا بلڈ پریشر دو آدمیوں کے برابر ہے۔ دو آدمیون کے برابر والے دعوے کی ہم بھی تصدیق کریں گے کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ انھیں معمولی سا درد ہوتا تو دو آدمیوں کی طاقت سے چیختے تھے۔ لہٰزا بشارت اپنے دروغِ مصلحت آمیز پر ڈٹے رہے۔ اور ٹھیک ہی کیا۔ مرزا اکثر کہتے ہیں کہ اپنے چھوٹوں سے کبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے، کیوں کہ اس سے انھیں بھی تحریک ہوتی ہے۔ لیکن بزرگوں کی اور بات ہے۔ انھیں کسی خارجی تحریک کی ضرورت نہیں ہوتی۔
مولانا راس پکڑے بلبن کو بزرگوار سے ملوانے لے گئے۔ ان کا آدھے سے زیادہ سامان ان کے اپنے کمرے میں منتقل ہو چکا تھا۔ ہارمونیم رحیم بخش کے لال کھیس میں لپیٹاجارہا تھا۔ بلبن کا فوٹو ریس جیتنے کے بعد اخبار میں چھپا تھا، ابھی دیوار سے اتارنا باقی تھا۔ وہ رات سے بہت نغموم تھے۔ خلافِ معمول عشاء کے بعد دو مرتبہ حقّہ پیا۔ اب وہ صبح و شام کیسے کاٹیں گے؟ اس وقت جب بلبن ان کے پاس لایا گیا تو وہ سرجھکائے دیر تک اپنے ایال میں کنگھی کراتا رہا۔ آج انھوں نے اس کے پاؤں پر دَم نہیں کیا۔ جب وہ اسکی پیشانی پر اللہ لکھنے لگے تو ان کی انگلی چابک کے اُپڑے ہوئے لمبے نشان پر پڑی اور وہ چونک پڑے۔ جہاں تک یہ درد کی لکیر جاتی تھی ہاں تک خود کو زخماتے رہے۔ پھر دکھ بھرے لہجے میں کہنے لگے “ کس نے مارا ہے ہمارے بیٹے کو؟“ مولانا اسے لے جانے لگے تو اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے “ اچھا - بلبن بیٹے! ہمارا تو چل چلاؤ ہے۔ خدا جانے واپسی پر ہمیں پاؤ گے بھی یا نہیں۔ جاؤ، اللہ کی امان میں دیا۔“
بلبن کی جدائی کے خیال سے بزرگوار ڈھے گئے۔ اب وہ اپنے دل کی بات کس سے کہیں گے؟ کس کی شفا کے لیے دعا کو بے اختیار ہاتھ اٹھیں گے؟ انھوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ قدرت کو اتنا سا آسرا، ایک جانور کی دُسراتھ تک منظور نہ ہوگی۔ جو خود کبھی تنہائی کے جان کو گھلادینے والے کرب سے نہ گزرا ہو وہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اکیلا آدمی کیسی کیسی دسراتھ کا سہارا لیتا ہے۔ بے مثل انشائیوں کے مصنف چارلس لیمب نے ایک عمر کرب وتنہائی میں گزاری۔ پیر 12 مئی 1800 کو وہ کولرج کو اپنے خط میں لکھتا ہے “ گزشتہ جمعے کو ہیٹی ( ضعیف ملازمہ ) آٹھ دن کی علالت کے بعد چل بسی۔ اس کی میّت اس وقت کمرے میں میرے سامنے رکھی ہے۔ میری (چارلس لیمب کی بہن جسے دیوانگی کے دَورے پڑتے تھے ) اس صدمے کی تاب نہ لا سکی اور اس پر شدید دَورہ پڑا۔ لہٰزا اسے دوسری جگہ منتقل کرنا پڑا۔ اب اس گھر میں، میں تنہا ہوں اور دسراہٹ کے لیے ہیٹی کی نعش کے سوا اور کوئی نہیں۔ کل میں اسے بھی دفن کر دوں گا تو بالکل ہی تنہا رہ جاؤں گا۔ پھر اس بلی کے اور کوئی نہ ہوگا جو مجھے یاد دلائے کہ ان آنکھوں نے کبھی اس گھر کو بھرا پُرا دیکھا تھا۔ کبھی اس میں بھی مجھ جیسے ذی روح رہتے تھے۔“
مولانا دن بھر غیر حاضر رہے۔ دوسرے دن وہ بند بند اور کھنچے کھنچے سے نظر آئے۔ کئی سوال ہونٹوں پر لرز لرز کر رہ گئے۔ کسی کو ان سے پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ بلبن کے گولی کہاں لگی۔ کہتے ہیں جانوروں کو موت کا premonition (پیش آگاہی ) ہوجاتا ہے۔ تو کیا جب وہ ویران پہاڑیوں میں لے جایا جارہا تھا تو اس نے بھاگنے کی کوشش کی؟ اور کبھی آکری لمحے میں معجزہ بھی تو ہو جایا کرتا ہے۔ وہ بہت جفا کش، سخت جان اور حوصلے والا تھا۔ دل نہیں مانتا کہ اس نے آسانی سے موت سے ہار مانی ہوگی:

Do not go gentle into that good night.
Rage, rage against the dying of the light​

 

رضوان

محفلین
آہا آہا! برکھا آئی!
کوئی دو ہفتے بعد بشارت کی طاہر علی موسٰی بھائی سے اسپنسر آئی ہاسپٹل کے سامنے مڈبھیڑ ہو گئی۔ موسٰی بھائی بوہری تھا اور اس کی لکڑی کی دکان ان سے اتنے فاصلے پر تھی کہ پتھر پھینکتے تو ٹھیک اس کی سنہری پگڑی پر پڑتا۔ یہ حوالہ اس لیے بھی دینا پڑا کہ کئی مرتبہ بشارت کا دل اس پر پتھر پھینکنے کو چاہا۔ وہ کبھی سیدھے منھ بات نہیں کرتا تھا۔ ان کے لگے ہوئے گاہک توڑتا اور طرح طرح کی افواہیں پھیلاتا رہتا۔ دراصل وہ ان کی بزنس خراب کر کے ان کی دکان خریدنا چاہتا تھا۔ اس کی چھدری داڑھی طوطے کی چونچ کی طرح مڑی رہتی تھی۔
وہ کہنے لگا “ بشارت سیٹھ! لاسٹ منتھ ہم کو کسی نے بولا آپ گھوڑے کو شوٹ کر وارہے ہو۔ ہم بولا، باپ رے باپ! یہ تو ایک دَم ہتھیا ہے۔ وہ گھوڑا تو عشرہ (محرم) میں جُل جنا ( ذوالجناح ) بنا تھا! ہماری آرا مشین پہ ایک مجور کام کرتا ہے، تراب علی۔ اس نے ہم کو آکے بولا کہ میری جھگّی کے سامنے سے دُلدل کی سواری نکلی تھی۔ آپ ہی کا گھوڑا تھا۔ سیم ٹو سیم۔ سولہ آنے۔ تراب علی نے اس کو اپنے ہاتھ سے دودھ جلیبی کھلائی۔ آپ کے کوچوان نے اس کا پورا بھاڑا وصول کیا۔ پچاس روپے۔ وہ بولتا تھا بشارت سیٹھ دُلدل بھاڑے ٹیکسی پہ چلانا مانگتا ہے۔ دُلدل کے آگے وہ شاہ مرداں، شیرِیزداں، وگیرہ وگیرہ گاتا جارہا تھا۔ اس کے پندرہ روپے الگ سے۔ گھوڑے کو ہمارے پاس بھی سلام کرانے لایا تھا۔ گریب بال بچے دار مانس ہے۔“
اس کے اگلے روز مولانا کام پر نہیں آئے۔ دو دن سے مسلسل بارش ہورہی تھی۔ چار دن قبل جیسے ہی ریڈیو کراچی والوں نے بارش کا پہلا قطرہ گرتے دیکھا ساون کے گیت مسلا دھار نشر کرنے شروع کردیے۔ گیتوں ہی سے اطلاع ملی کہ یہ ساون ہے ورنہ ساون کے مہینے کو کراچی میں کون پہچانتا ہے۔ لیکن ذرا سوچیے تو، گیت میں اگر ساون کے بجائے جون جولائی تو برکھا رُت کا سارا رومانس پُروا اڑا کر لے جائے۔ وہ مسکرا دیے۔ آج صبح گھر سے چلتے وقت کہہ آئے تھے “ بیگم! آج تو کڑھائی چڑھنی چاہیے۔ کراچی میں تو ساون کے پکوان کو ترس گئے۔ خستہ سموسے، کرارے پاپڑ اور کچوریاں۔ کراچی کے پپیتے کھا کھا کے ہم تو بالکل پلپلا گئے۔“ شام کو جب وہ دکان بند کرنے والے تھے، ایک شخص خبر لایا کہ کل شام مولانا کے والد کا انتقال ہو گیا ۔ آج ظہر و عصر کے درمیان جنازہ اٹھا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ چلو اچھا ہوا۔ اللہ نے بیچارے کی سُن لی۔برسوں کی جان کنی ختم ہوئی۔ مٹی عزیز ہوگئی۔ بلکہ یوں کہیے، کیچڑ سے اٹھا کر کر خشک مٹی میں دبا آئے۔ وہ تعزیت کے لیے سیدھے مولانا کے گھر پہنچے۔ بارش تھم چکی تھی اور چاند نکل آیا تھا۔ آسمان پر ایسا لگتا تھا جیسے چاند بڑی تیزی سے دوڑ رہا ہے اور بادل اپنی جگہ ساکت ہیں۔ اینٹوں، پتھروں اور ڈالڈا کے ڈبوں کی پگڈنڈیاں جابجا پانی میں ڈوب چکی تھیں۔ ننگ دھڑنگ لڑکوں کی ایک ٹولی پانی میں ڈبک ڈبک کرتے ایک گھڑے میں باری باری منہ ڈال کر فلمی گانے گا رہی تھی۔ ایک ڈھئی ہوئی جھگی کے سامنے ایک کریہہ الصّوت شخص بارش کو روکنے کے لیے اذان دیے چلا جا رہا تھا۔ ہر جزو کے آخری لفظ کو اتنا کھینچتا گویا اذان کے بہانے پکا راگ الاپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کانوں میں انگلی کی پور زور سے ٹھونس رکھی تھی تاکہ اپنی آواز کے عزاب سے محفوظ رہے۔ ایک ہفتے پہلے اسی جھگی کے سامنے اسی شخص نے بارش لانے کے لیے ازانیں دی تھیں۔ اسوقت بچوں کی ٹولیاں گھروں کے سامنے مولا میگھ دے! مولا پانی دے! تال، کنویں، مٹکے سب خالی۔ مولا! پانی! پانی! پانی!“ گاتی اور ڈانٹ کھاتی پھر رہی تھیں۔
عجیب کسمپرسی کا عالم تھا۔ کہیں چٹائی، ٹاٹ، سرکی اور اخبار کی ردی سے بنی ہوئی چھتوں کے پیالے پانی کے لبالب بوجھ سے لٹکے پڑ رہے تھے اور کہیں گھر کے مرد پھٹی ہوئی چٹائیوں میں دوسری پھٹی ہوئی چٹائیوں کے پیوند لگارہے تھے۔ ایک شخص ٹاٹ پر پگھلا ہوا تارکول پھیلا کر چھت کے اس حصے کے لیے تر پال بنا رہا تھا جس کے نیچے اس کی بیمار ماں کی چارپائی تھی۔ دوسرے کی جھگی بالکل ڈھیر ہو گئی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا مرمت کہاں سے شروع کرے۔ چنانچہ وہ ایک بچے کی پٹائی کرنے لگا۔ جگہ جگہ لوگ نالیاں بنا رہے تھے جن کا مقصد بظاہر اپنی غلاظت کو پڑوسی کی غلاظت سے علیحدہ رکھنا تھا۔ ایک صاحب آٹے کی بھیگی بوری میں بغل تک ہاتھ ڈال ڈال کر دیکھ رہے تھے کہ اندر کچھ بچا بھی ہے کہ سارا پیڑے بنانے کے لائق ہوگیا۔ ایک جھگی کے باہر بکری کی اوجھڑی پر برساتی مکھیاں چپکو اور لدّھڑ ہو گئیں تھیں، خارشی کتّے کے اُڑائے سے نہیں ‌اُڑ رہی تھیں۔ یہ اس دودھ دینے والی مگر بیمار بکری کی اوجھڑی تھی جسے تھوڑی دیر پہلے اس کے دو مہینے کے بچے سے ایک گز دور تین پڑوسیوں نے مل کر تُرت پُھرت ذبح کیا تھا تاکہ چھری پھرنے سے پہلے ہی ختم نہ ہوجائے۔ اس کا خون معاون نالوں اور نالیوں کے ذریعے دور دور تک پھیل گیا تھا۔ وہ تینوں ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے ایک بھائی کی حق حلال کی کمائی کو ضائع ہونے سے بال بال بچالیا۔ موت کے منہ سے کیسا نکالا تھا انھوں نے بکری کو! چند جھگیوں میں مہینوں بعد گوشت پکنے والا تھا۔ سب سے زیادہ حیرت انھیں اس وقت ہوئی جب وہ اس جھگی کے سامنے سے گزرے جس میں لڑکیاں شادی کے گیت گارہی تھیں۔ باہر لگی ہوئی کاغز کی رنگ برنگی جھنڈیاں تو اب نظر نہیں آرہی تھیں، لیکن ان کے کچے رنگوں کے باؤلے ریلوں سے ٹاٹ کی دیوار پر psychedelic patterns بن گئے تھے۔ ایک لڑکی آٹا گوندھنے کے تسلے پر سنگت کر رہی تھی کہ بارش سے اس کی ڈھولک کا گلا بیٹھ گیا تھا:
اماں! میرے بابا کو بھیجو ری کہ ساون آیا!
امّاں! میرے بھیا کو بھیجو ری کہ ساون آیا!
کہ ساون آیا​
ہر بول کے بعد لڑکیاں بے وجہ ہنستیں۔ گاتے ہوئے ہنستیں اور ہنستے ہوئے گاتیں تو راگ اپنی سُر سیما پار کر کے جوانی دوانی کی لے میں لے ملاتا کہیں اور نکل جاتا۔ سچ پوچھیے تو کنوار پنے کی کلکارتی گھنگھرالی ہنسی کی مُرکی ہی گیت کا سب سے البیلا ہریالا انگ تھا۔
( اگلے پیغام میں جاری )
 

رضوان

محفلین

۔۔۔۔۔۔۔۔ایک جھگّی کے سامنے میاں بیوی لحاف کو رسّی کی طرح بل دے کر نچوڑ رہے تھے۔ بیوی کا بھیگا ہوا گھونگھٹ ہاتھی کی سونڈ کی طرح لٹک رہا تھا۔ بیس ہزار کی اس بستی میں دو دن سے بارش کے سبب چُولہے نہیں جلے تھے۔ نشیبی علاقے کی کچھ جھگیوں میں گھٹنوں گھٹوں پانی کھڑا تھا۔ جھگیّوں کی پہلی قطار کے سامنے ایک نیک نیت، خدا ترس، باریش بزرگ قورمہ اور تنوری روٹیاں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے تھے جو وہ رکشا میں رکھ کر لائے تھے۔ تین لحاف بھی مستحقین میں بانٹنے کے لیے ساتھ لائے تھے۔ وہ گھر سے چلے تو انھیں اندازہ نہیں تھا کہ بیس ہزار کی بستی میں تین لحاف لے جانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی انجکشن کی سرنج سے آگ بجھانے کی کوشش کرے۔ پھر یہ بھی تھا کہ کسی جھگّی میں دو گز زمین کا ایسا خشک جزیرہ نہ تھا جہاں کوئی یہ لحاف اوڑھ کر سو سکے۔ اس بزرگ کے چاروں طرف کوئی ڈیڑھ دو سو ننگ دھڑنگ بچوں کا ہجوم جسے وہ کیو بنانے کے فوائد سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن ان اَن پڑھ ٹھوٹ بچوں کی حِس حساب ان سے کہیں بہترتھی، کیوں کہ ان کے اندر والا بھوکا حساب داں بخوبی جانتا تھا کہ اگر تیس روٹیوں کو دو سو ننگے بھوکوں اور تین لحافوں کو بیس ہزار مستحقین میں تقسیم کیا جائے تو حاصل تقسیم میں مخیر بزرگ کے تن پر ایک دھجّی بھی باقی نہ رہے گی۔ اور اس وقت یہی صورت پیدا ہو چلی تھی۔ بشارت آگے بڑھے تو دیکھا کوئی جھگّی ایسی نہیں جہاں سے بچوں کے رونے کی آواز نہ آرہی ہو۔ پہلی مرتبہ ان پر یہ انکشاف ہوا کہ بچے رونے کی ابتدا ہی انترے سے کرتے ہیں۔ جھگّیوں میں آدھے بچّے تو اس لیے پٹ رہے تھے کہ رورہے تھے۔ اور بقیہ آدھے اسلیے رو رہے تھے کہ پٹ رہے تھے۔
وہ سوچنے لگے، تم ایک شخص کو پُرسا دینے چلے تھے، یہ کس دکھ ساگر میں آنکلے۔ طرح طرح کے خیالوں نے گھیر لیا۔ بڑے میاں کو تو کفن بھی بھیگا ہوا نصیب ہوا ہوگا۔ یہ کیسی بستی ہے جہاں بچے نہ گھر میں کھیل سکتے ہیں، نہ باہر۔ جہاں بیٹیاں دو گز زمین پہ ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے درختوں کی طرح بڑی ہو جاتی ہیں۔ جب یہ دلہن بیاہ کر پردیس جائے گی تو اس کے ذہن میں بچپن اور میکے کی کیا تصویر ہوگی؟ پھر خیال آیا کیسا پردیس، کہاں کا پردیس، یہ تو بس لال کپڑے پہن کر یہیں کہیں ایک جھگّی سے دوسری جھگّی میں پیر پیدل چلی جائے گی۔ یہی سکھیاں سہیلیاں “کاہے کو بیاہی بدیس رے! لکھی بابل مورے!“ گاتی ہوئے اسے دوگز پرائی زمین کے ٹکڑے تک میں چھوڑ آئیں گی۔ پھر ایک دن مینہ برستے میں ایسا ہی سماں ہوگا، وہاں سے آخری دو گز زمین کی جانب ڈولی اٹھے گی۔ اور زمین کا بوجھ زمین کی چھاتی مین سما جائے گا۔ مگر سنو! بندہ خدا! تم کاہے کو یوں جی بھاری کرتے ہو؟ کہیں اس طرح آنکھوں میں پانی بھر کے دنیا کو دیکھا کرتے ہیں؟ درختوں کو کیچڑ گارے سے گھن تھوڑا ہی آتی ہے۔ کبھی پھول کو بھی کھاد کی بدبو آئی ہے؟
انھوں نے ایک پھریری لی اور ان کے ہونٹوں کے دائیں کونے پر ایک کڑوی سی، ترچھی سی مسکراہٹ کا بھنّور پڑ گیا۔ جو رونے کا یارا نہیں رکھتے وہ اسی طرح مسکرا دیتے ہیں۔
انھوں نے پہلے پہل اس اگھور بستی کو دیکھا تھا تو کیسی ابکائی آئی تھی۔ آج خوف آرہا تھا۔ بھیگی بھیگی چاندنی میں یہ ایک شہرِ آسیب لگتا تھا جو کسی طور کراچی کا حصہ نہیں معلوم ہوتا تھا۔ حدِ نگاہ تک اونچے نیچے بانس ہی بانس۔ اور ٹپکتی چٹائیوں کی گھپائیں۔ بستی نہیں بستی کا پنجر لگتا تھا جسے ایٹمی دھماکے کے بعد بچ جانے والوں نے کھڑا کیا ہو۔ ہر گڑھے میں چاند نکلا ہوا تھا اور مہیب دلدلوں پر آسیبی کرنیں اپنا چھلاوا ناچ ناچ رہی تھیں۔ جھینگر ہر جگہ بولتے سنائی دے رہے تھے اور کسی جگہ نظر نہیں آرہے تھے۔ بھُنگوں اور پتنگوں کے ڈر سے لوگوں نے لالٹینیں گل کردیں تھیں۔ عین بشارت کے سر کے اوپر سے چاند کو کاٹتی ایک ٹیٹری بولتی ہوئی گزری۔ اور انھیں ایسا لگا جیسے اس کے شہ پَر کی ہَوا سے ان کے سر کے بال اُڑے ہوں۔ نہیں۔ یہ سب کچھ ایک بھیانک خواب ہے۔ جیسے ہی وہ موڑ سے نکلے، اگربتیوں اور لوبان کی ایک سوگوار لپٹ آئی اور آنکھیں ایکا ایکی چکا چوند ہوگئیں۔ یا خدا! ہوش میں ہوں یا عالمِ خواب ہے؟
کیا دیکھتے ہیں کہ مولانا کرامت حسین کی جھگّی کے دروازے پر ایک پیٹرومیکس جل رہی ہے۔ چار پانچ پُرسا دینے والے کھڑے ہیں۔ اور باہر اینٹوں کے ایک چپوترے پر ان کا سفید براق گھوڑا بلبن کھڑا ہے! مولانا کا پولیوزدہ بیٹا اس کو پڑوسی کے گھر سے آئے ہوئے موت کے کھانے کے نان کھلا رہا تھا۔
 
Top